ہتھیلی پر نمک رکھو اور بکری کے دودھ کی کچی دھار نکالو اس پر پھر اپنے نئے نئے سلے ہوئے کان پہ لگانا ۔ باجی ناہیدہ سب بچوں کے کان چھیدتی جاتیں اور ساتھ ہی زخم جلدی مندمل ہونے کا مشورہ بھی دیتی جاتی ۔ ہم غالبا اس سارے گینگ میں سب سے چھوٹا پیس تھے ۔پتا نہی کب سوئی کان سے گزری اور کب دھاگے کی گرہ لگی بس انہوں پٹک سے ہمارے موٹے موٹے گرم گالوں پر بوسا دیا اور بولا ۔۔ شاباش ۔۔ بہت بہادر ہے ہماری مٹھی! جا جلدی سے جاکر کچا دودھ لگا۔۔ باجی کی بات ابھی مکمل بھی نہ ہوئی اور ہم بھاگم بھاگ ان کے گھر کی چھت پر چڑھے اور دوسری طرف اپنے گھر کی سیڑھیاں اتر گئے ان سیڑھیوں کے نیچے محراب شکل میں انگیٹھی بنی تھی جس میں ہمارے جیسے دو چار بچے فٹ آجایا کرتے ۔کوئلےلئے مختلف کھیل کھیلتے تو کبھی کنکروں سے کھیلا کرتے ۔ بوقت ضرورت وہیں لکڑیوں کا گڈا بھی رکھ دیا جاتا جو اس زمانے میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتاتھا۔
ہم نے باجی ناہیدہ کے حکم کے عین مطابق ہتھیلی پر نمک رکھا اور امی کی لاڈلی اکلوتی بکری کے پاس جاپہنچے اپنی باری پر ایک دھار دودھ ہتھیلی پر ڈلوایا اور نمک کو دودھ کے ساتھ انگلیوں کی مدد سے مکس کیا اور پھر کانوں پر مل لیا اور یقین جانئے آج کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہمارے کان کے چھدے ہوئے سوراخ نہ کبھی بند ہوئے اور نہ کبھی خراب ہوئے۔ پتا نہیں وہ واقعی کوئی آزمودہ نسخہ تھا یا اس زمانے کا یقین محکم؟ کوئی کچھ بھی بتا دیتا سادہ دل لوگ اس کا ایسا اعتبار کرتے کہ اس کو آزمانا ہمیشہ سود مند رہتا۔ عجیب بات ہے تعلیم عام نہ تھی مگر تہزیب کی بہتات تھی۔ڈاکٹرز نہ تھے لیکن مریض بھی نہ تھے۔ کرنسی بھی کم ہی استعمال ہوتی اور کوئی غریب بھی نہ تھا ۔ وسائل کم تھے لیکن مسائل بھی بہت زیادہ نہ تھے ۔ لفظوں میں بناوٹ نہ تھی لیکن جزبوں میں حرارت تھی ۔ عجیب زمانہ تھا ۔ اعتبار پیار اور ہمسائیگی کا بہترین دور تھا ۔ ایک دوسرے کی مدد کے لئے کسی بھی حد تک جانے کا رواج تھا کسی گھر کی خوشی سب کی خوشی اور غم سانجھا تھا ۔ کچے گھروں میں مضبوط کردار والے لوگ بستے تھے ۔ سارا گاوں ایک ایک فرد کے نام سے واقف تھا اور کوئی کسی سے کچھ چھپاتا نہ تھا۔
ہمارے دل پہ بچپن کی یادیں ایسے نقش ہیں جیسے بدن میں رگوں کا جال بچھا ہے کوئی بھی یاد غیر ضروری نہیں اور نہ ہی ہم اس سے کبھی جان چھڑا سکتے ہیں ۔ اسی لئے اپنے دل کو یقین دلا رکھا ہے کہ اللہ کا وعدہ جنت کا ہے تو ہمیں اپنی جنت میں اپنا گاوں ہی ملے گا۔ ان شاء اللہ
اینٹوں کے صحن میں ایک نیم کا درخت باکل درمیان میں لگا تھا جس کی دوسری طرف جہاں صحن ختم ہوتا تھا اور گھر کی بیرونی دیوار تھی ۔ وہاں دو عدد چھوٹے چھوٹے کمرے نما غسل خانہ اور بیت الخلاء بنے تھے جو غالبا پورے گاؤں میں صرف ہمارے گھر میں ہی بنوائے گئے تھے ورنہ تو سارا گاوں کھیتوں کا رخ کرتا تھا اور گھروں میں بیت الخلاء کا کوئی رواج نہ تھا ۔ سیوریج سسٹم تو آج 70 سال بعد بھی پاکستان کے اکثر شہروں کو میسر نہیں تو اس زمانے میں کہاں ہوتا اسی لئے امی بتاتی ہیں کہ انہوں نے لیٹرین بنوانے کیلئے ایک اچھا خاصا گہرا کنواں کھدوایا تھا پھر اس کو اوپر سے سارا بند کروا کر محض ٹوائلٹ نما سوراخ چھوڑدیا اسطرح گھر کے ایک کونے میں ایک ٹوائلٹ بنا ہواتھا ۔ اسی دیوار کے دوسرے سرے پر لکڑی کا بڑا سا دوزاہ لگا تھا جو باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے مختص تھا کیونکہ گاوں میں رہنے والے سب لوگ تو گلی والا دروازہ استعمال کرتے تھے جسے کبھی کنڈی نہیں لگائی جاتی تھی ۔ ہمارے دادا کے پانچ بیٹے تھے تو انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جاگیر میں سب کے گھر بنوا دئیے تھے۔یو شیپ میں دو گھر ایک طرف دو دوسری طرف اور عین درمیان میں ہمارا گھر،چھوٹے بیٹے یعنی ہمارے ابا جی کا گھر گلی کی ناک بنتا تھا ۔ چھتیں سب کی آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ اس وقت گھر کچے ہوا کرتے تھے اسلئے چھت بھی گھاس پھوس اور لکڑی پر لپائی کرکے بنائے جاتے تھے البتہ کچھ لوگوں نے لکڑی کے گارڈر اور بانس بھی استعمال کررکھے تھے ۔ ان پانچ گھروں میں صرف ہمارا گھر تھا جس کے کمروں اور برآمدہ کے فرش رنگ برنگی چپس کے بنے ہوئے تھے جس پر ہم ابو کی عمرہ کی ادائیگی کے بعد ہمارے لئے لائی گئی ایک پولیس کی سائرن بجاتی چابی پر چلنے والی کار چلاتے اور گاوں کے دیگر بچے گھنٹوں بیٹھ کر اس انوکھے کھلونے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے لیکن کسی کو اجازت نہ تھی کہ ہماری کار کو ہاتھ بھی لگائے جب ہماری مرضی ہوتی ہم بڑے مزے سے اپنی چم چماتی کار اٹھاتے اور بچوں کو جانے کا حکم صادر فرماتے کہ چلو بس آج کے لئے اتنا کافی ہےاور پھر کار کے ٹائر پر لگی گرد صاف کر کے اسے کمرے میں بنے شیڈ جسے گاوں میں سب چھتی کہتے تھے پہ رکھ دیا کرتے جہاں سے ہر آنے جانے والے کی نظر پڑتی رہتی۔
ہمارے گھر کے دو بڑے بڑے کمروں کی چھتوں پر لوہے کے گارڈر اور اس پر چوڑی چوڑی اینٹیں چنی ہوئی تھیں جو خاصی خوبصورت نقش و نگار سے مزین تھیں۔ برآمدہ بھی اسی طرح پختہ تیار تھا اور اس کے دونوں سروں کی طرف دو بہت خوبصورت ستوں کھڑے تھے جس کے ساتھ چار فٹ اونچی اور ڈیڑھ فٹ چوڑی آدھی دیوار بنی ہوئی تھی جس کی نیچلی دیوار اینٹوں کی بجائے سمنٹ سے خوبصورت ڈیزائن کی جالی سی بنی ہوئی تھی۔ ہم اکثر اسی دیوار پہ بیٹھے ستوں سے جھولتے رہتے اور ٹھنڈے ٹھنڈے ستوں سے گال چپکاتے رہتے جن پر سفید سنگریزے نما چپس اور سمنٹ کی لپائی بہت صفائی سے کی گئی تھی۔ اسی برآمدے کے ایک طرف ایک بہت بڑا سا اناج ذخیرہ کرنے والا مٹی کا مرتبان سا پڑا تھا اسے غالبا بڑولہ کہا جاتا تھا اور اس میں داخلے کا کوئی رستہ نہ ہوتا بس بوتل نما اس بڑولے کا ایک ڈھکن ہوتا جیسے آجکل پانی کی ٹینکیوں پر ہوتا ہے اسی کو کھول کر اناج ڈال دیا جاتا اور اس کے نیچے چھوٹا سا سوراخ رکھا جاتا جہاں سے اناج کوحسب ضرورت بآسانی نکالا جاتا۔اب بھی گاوں میں گندم وغیرہ ذخیرہ کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے البتہ اب اکثریت نے لوہے کے صندوق بنوالئے ہیں ۔
صحن سے نکل کر سیدھے ہاتھ تندوری جو تندور سے کچھ چھوٹی ہوتی ہے سائز میں اور مٹی کا چولہا بنا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا جسے چھوٹے بچے نہانے کیلئے دو تین بار گھیڑ کر بھاگتے ہوئے جلدی سےنیچے بیٹھ جاتے تھے۔کبھی کبھی آپس میں ڈیل کرلیتے کہ پہلے تم ہمارے لئے پانی نکالو پھر ہم تمہارے لئے نکالتے ہیں اسطرح گاوں کا اس زمانے کا سنک اور بیسن یہی بور والا نلکا اور اس کے نیچے سمنٹ کا پکا احاطہ جسے ہمارے ہاں کھرا کہا تھا ۔صحن کے الٹے ہاتھ چھت کو جاتی سیڑھیوں کے ساتھ ہی ایک 8×8 کا کمرہ ،کچن کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور عموما صرف سردی اور بارش میں ہی استعمال ہوتا اس کے ایک کونے میں بنی انگیٹھی جس کے اوپر دھویں کےاخراج کے لئے اینٹوں سے پکی چمنی بنائی گئی تھی یہیں پاس ہی ہم سب بہن بھائی یونیفارم پہن کر سکول جانے پہلے ناشتہ کرتے اور امی گرما گرم پراٹھے اتارتی جاتیں ہم جلدی جلدی چائے پراٹھے اور کبھی گھر کی مرغی کا انڈا فرائی کروا کے ناشتہ کرتے اور سکول کے لئے نکل جاتے جو تقریبا چار گلیاں چھوڑ کو گاوں میں داخل ہونے والے راستے سے ملحق تھا۔ بڑے بھائی کی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی بہانہ بن جائے اور چھٹی ہوجائے کیونکہ اس کا کبھی بھی پڑھنے کا جی نہی کیا البتہ فٹبال وغیرہ کے میچ اس وقت سکول گراونڈ میں ہی ہوتے تھے تو یہ مجبوری تھے جو اسے سکول جانا پڑتا ۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے سکول الگ تھے اور ایکدوسرے سے خاصے دور تھے ۔ ہمارا لڑکیوں کا ایک ہی سکول تھا جو کچی سے لے کر پانچویں جماعت تک ایک ہی استانی جی نے سنبھالا ہوا تھا۔ بہت بڑا سا احاطہ چار فٹ کی کچی چاردیواری اور درمیان میں ایک بڑا ساہال نما کمرا جس کے عین درمیان میں ایک محراب سی بنی تھی جو اسے دو کمروں میں تقسیم کررہی تھی یہیں پر استانی جی کرسی رکھ کر بیٹھتیں اور دونوں طرف ٹاٹ پر بیٹھی بچیوں پر نظر رکھتیں ۔ جب بڑی بچیوں کو سبق دینا ہوتا تو ادھر منہ کرکے سبق پڑھاتیں اور ہمیں موقع مل جاتا گھسر پھسر کا پھر جب ہمیں پڑھاتیں تو بڑی لڑکیوں کو آپس میں گپ شپ کا موقع مل جاتا البتہ استانی جی کا ڈنڈا ایسا تھا کہ ہر ممکن کوشش کی جاتی کہ آج یہ کہیں گم جائے ورنہ جسے پڑ گیا وہ باقی سب کی بھی طبیعت درست کرنے کے لیے کافی ہوتا ۔ہمارے ساتھ کچی پکی او پہلی جماعت کی بچیاں تھیں ۔اردو تختی لکھنے اور سلیٹ پر حساب کی گنتی سیکھنا ہی ہمارا کام تھا اردو قاعدہ بھی اونچی آواز سے ایک ایک کو کھڑا کر کے سنا جاتا۔ ہماری استانی جی کو غالبا ہمارا لہجہ کچھ زیادہ ہی پسند تھا بلاناغہ ہمیں با آواز بلند سبق سنانے کا حکم ملتا اور کئی بار استانی جی بڑی لڑکیوں کو بھی خاموش کروا دیتیں اور کہتیں ذرا توجہ سے سنو ایسے تلفظ سے اردو پڑھی جاتی ہے تم لوگ تو پنجابی لہجے میں ہی اردو بھی پڑھ جاتے ہو یہ دیکھو کیسےصاف صاف لفظ ادا کررہی ہے ۔ ہمیں تعریف سے کچھ خاص دلچسپی تو نا تھی لیکن پڑھنے کا شوق ضرور تھا توخوشی خوشی روز تیار ہوجاتے سبق پڑھنے کےلئے ۔ استانی جی نے ہمیں غالبا ہیڈ گرل لگا رکھا تھا کیونکہ ہر بار جب سبق پڑھانا ہو یا کسی نئی طالبہ کو کام سمجھانا ہو تو ہم ہی بلائے جاتے ہمیں انفرادی حیثیت حاصل تھی۔ استانی جی گھر پہ بھی اکثر ہمیں بلاتی رہتی تھیں اب یہ یاد نہیں کہ کس واسطے ہمیں بلایا جاتا تھا کیونکہ استانی جی کے گھر کے کاموں کے لئے تو بڑی لڑکیوں کی ڈیوٹی لگائی جاتی تھی ہمیں تو صرف باتیں اور ڈھیر ساری باتیں کرنا ہی یاد ہے بس۔
استانی جی کی چھت کو بانس کی سیڑھی لگا کر چھت پہ جاتے جہاں سے ایک کچی دیوار پہ چلتے ہوئےصوفی صاحب کے گھر عین مرغیوں کے دڑبے کے سامنے چھلانگ لگاتے 10 پیسے کی ٹھنڈی گولی ملتے تھی اور چار آنے کا پورا پیلٹ تکونی منٹ والی ٹافیوں کا مل جاتا بس اتنی سی ہماری چیز ہوتی اور پھر ان کی ہٹی کے چھوٹے سے دروازے سے باہر نکلتے تو وہ منظر کے جسے اپنے ذہن سے کھرچنا تقریبا ناممکن ہے جو ہماری یادوں کا سب سے حسین منظر ہے ۔
صوفی صاحب کی ہٹی سے نل کر سامنے گاوں کے عین وسط میں بڑا سا کنواں تھا جس کی تقریبا پانچ یا چھ سیڑھیاں کنویں کی طرح پکی اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں ۔ہمیں اس کنویں سے پانی بھرنا یاد نہیں البتہ زیادہ تر بیل جتے دیکھے جو پانی بھی نکالتے تھے اور شاید کوئی چکی کا پاٹ بھی جڑا تھا اب صحیح سے یاد نہیں کیونکہ ہماری دلچسپی کنویں کے دوسری طرف مولوی صاحب کا گھر اور مسجد ہوا کرتی تھی جہاں ہم سپارہ پڑھنے جاتے تھے اور اکثر گاوں کے لوگ کچھ نہ کچھ کھانے کی شےمولوی صاحب کو بھیجتے رہتے بس اللہ مولوی صاحب کی قبر کو ٹھنڈا رکھے جو ہمیں بھی اس کھانے میں شامل کرلیتے تھے اور ہم جو آوارہ گردی کے باعث سارا دن گاوں کی گلیوں میں خاک چھانتے پھرتے تھے اور محض بھوک لگنے کی صورت گھر کا رخ کیا کرتے تھے جب مولوی صاحب ہمیں بھی شامل کر لیتے اپنے ساتھ کھانے کے لئے تو پھر ہماری اماں جان صرف رات کو ہی ہمیں دیکھتیں اور کچھ دھلائی فرما کر وہیں نلکے کے نیچے نہلانے بٹھا دیتیں اور نہا کر کھانا کھاتے ہی ہم نیند کی وادیوں میں گم کھیتوں کی طرف جاتے ہوئے اس بیر کے درخت پہ پہنچ جاتے جو بیروں کے بوجھ کے سبب زمین کا چھو رہا ہوتا اور اس پر پتوں کی طرح لمبے لمبے بیر لٹک رہے ہوتے۔ اس کھیت کا رکھوالا چاچا بہت اکھڑ مزاج تھا ۔ کبھی کسی بچے کو بیر توڑنے نہیں دیتا تھا اور ہر وقت اونچی اونچی آواز سے ہڑڑ ہڑڑ کرتا رہتا تاکہ جو طوطے بیر کھانے درخت پہ بیٹھے ہوں اڑ جائیں ۔ ہمیں بڑی مہارت تھی بیر توڑنے کی تو سارے بچوں کو خاموشی سے نالے میں چھپ کر بیٹھنے کا کہہ کر ہم ہی جاتے اور بیر توڑ لاتے عین دوپہر کے وقت جب چاچا روٹی لسی کھا پی کر جوانی کے سپنے دیکھ رہا ہوتا ۔ صرف ایک بار ہم چاچا سے پکڑے گئے جب ایک عدد بچے نے اونچا بولا کہ اس طرف پکے بیر ہیں وہ توڑو ۔بس چاچا نے لاٹھی اٹھائی اور گالیاں دیتا ہوا ہمارے پیچھے لپکا ۔ ہم نے بھی ٹارزن کی طرح چھلانگ لگائی اور دھڑام سے چکنے نالے میں جاگرے البتہ چاچے کے پہنچنے سے پہلے ہی ہرنی کے بچے کیطرح لمبی لمبی چھلانگیں لگاتے یہ جا اور وہ جا۔ بس وہ بیر ایسے لذیذ تھے کہ خواب میں بھی جی نہی بھرتا تھا ۔
اس کنویں کے سامنے وہ پیپل کا بڑا گھنیرا سا درخت جس کے نیچے تھڑا بنا ہوا تھا جس پہ مرد حضرات بیٹھے تلاش کھیلتے اور کبھی بزرگ چاچے حقے کی کش لگاتے اور ہمارے جیسے بقول ان کے "اگ دا پولا " بچوں کو بے چین نظروں سے دیکھتے رہتے جیسے ہم نے کنویں سے پانی نہیں کوئی خزانہ چرا لینا ہو ۔ ہمیں یہ کنواں اور اس کے ارد گرد کا ماحول نہیں بھولتا ۔ یہی چوک تھا یہی سب سے بارونق جگہ ہوا کرتی تھی جس کے چاروں اطراف کچے پکے راستے چاروں سمعتوں کو بالکل سیدھے جاتے نظر آتے تھے۔
ایک راستہ ہماری کاشت والی زمین کی طرف جاتا تھا بس آج بھی تصور میں اسی راستے پہ نکل جاتے ہیں جب شہر کے ہنگاموں سے اکتا جائیں۔۔ جہاں کھیت کھلیان اور ان کے ساتھ ساتھ بہتے صاف پانی کے چھوٹے چھوٹے نالے اور کناروں پر کھڑے ٹالی ،کیکر ،نیم اور بیری کے درخت ہمیں جنت کا تصور باندھنے میں بہت مدد دیا کرتے ۔ ان کھیتوں میں لہراتے کچے اناج کی خوشبو اب بھی سانس میں محسوس کرسکتے ہیں۔ چار موسم اس سرزمین پر کسی نعمت سے کم نہیں جب ہر موسم کی اپنی فصل اگے اور کسان کا پسینہ محبت اور شوق کا رنگ بھی اس فصل کے رنگ میں نظر آتا تھا۔ پیلی سرسوں جب کھیت میں لہرائے اور ساتھ والے کھیت میں مکئی کے سبز ڈانڈے اور بڑے بڑے پتے کھڑکھڑائیں۔۔ تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اللہ نے پاکستان کو خاص محبت سے تخلیق کیا سارے رنگ اسے دے دئے سبھی موسم اس کے پاس ہیں بےشمار خزانے یہاں دفن ہیں کونسی نعمت ہے جو یہاں نہی ملتی؟ دنیا کے کسی خطے میں چلے جائیں کچھ عرصہ کے بعد دل بے زار ہوجاتا ہے وطن کی یاد لہو کو گرمانے لگتی ہے نہ ایسی دھوپ چھاوں کہیں میسر آئے نہ اس کے پھل جیسا ذائقہ دنیا کے کسی پھل میں ۔۔ چلیں کہیں اگر یہاں سے اچھا کچھ ہے بھی تو مجموعی طور پر اس سرزمین کا کوئی مقابل نہیں نظر آتا ۔۔ کچھ لوگ ہماری ایسی باتوں کو ہماری خوش گمانی کہتے ہیں لیکن جو بھی کہیں ہمیں تو سچ میں ایسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔
ہم اپنے بچپن کے چند سال جو گاوں میں گزرے وہ آج تک اثاثہ جانتے ہیں۔ ایسی خوشگوار یادیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو ایسا ماحول دیکھنے کو بھی میسر نہیں نہ انہیں اس زمانے کے بارے میں سمجھایا جاسکتا ہے جو بمشکل 25 سے 30 سال کے عرصہ میں یکسر بدل گیا ۔ اخلاص محبت اور رواداری کی جگہ کینہ تعصب اور ڈھٹائی نے لے لی تحفظ اور سکون کے ماحول کو خوف اور دہشت نے گھیر لیا ۔ آزاد فضائیں بھی آزادی کا احساس دینے سے محروم کردی گئیں ۔ بھوک ننگ افلاس اور ہوس نے رشتوں کے تقدس پامال کر دئے ۔آج ہی ایک خبر سن کر رونگٹے کھڑے ہو گئے جب کراچی کے ایک غریب گھرانے میں ڈکیتی اور اس کے دوران ایک سترہ سالہ بچی کے قتل کا واقعہ رونما ہوا ۔ بظاہر ڈکیتی نظر آنے والے معاملے میں تحقیق نے ایسا لرزاخیر انکشاف کیا کہ حیرت ہونے لگی کہ ہم نے اپنے معاشرے کو کس نہج پر لاکھڑا کیا جہاں بڑی بہن نے منگیتر سے مل کر چھوٹی بہن کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور پھر اس کو عملی جامہ بھی پہنا دیا اور پھر سفاکی کی انتہا دیکھئے جب اس نے والدین کے سامنے مگرمچھ کے آنسو بہا بہا کر اس بہیمانہ قتل کو ڈکیتی کی واردات قرار دے کر خود کو لاتعلق ثابت کرنے کی کوشش بھی کی۔
ہمارے دل میں کئی طرح کے خیال آتے رہے اس کے غریب باپ کا چہرہ نگاہوں میں گھومتا رہا جو محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کے لئے دن بھر گھر سے باہر رہتا ۔اس ماں کا خیال آتا رہا جس کے ناک کے نیچے سب کچھ ہوا اور وہ بے خبر رہی ۔۔ کیسے؟ یہ کیسا عجیب سوال ہے کہ ایک ماں کیسے بے خبر رہی کہ اس کی ایک بیٹی دوسری بیٹی کو بلیک میل کرتی رہی؟ ایک ہی باپ کی دو بیٹیاں اور دونوں باپ ہی کی عزت اچھالنے کی باتیں کرتی رہیں۔ وہ باپ جس نے انہیں اس قابل کیا کہ وہ زمانے میں جینے کا ہنر سیکھتیں۔ یہ جرآت کہاں سے آگئی کہ جو ہاتھ ابھی کاپی پنسل تھامے ہوئے تھے یکدم وہ چھریاں اٹھائے گردنیں کاٹنے لگے؟ ایسا کیا اس معاشرے میں ہونے لگا کہ تحمل اور برداشت یکسر ناپید ہو جائے؟ چھوٹی بہن بلیک میل کررہی تھی تو بڑی بہن نے ایسا کام کیا ہی کیوں؟ کیا ہوس اسقدر بڑھ گئی حرمت اور تقدس کی سبھی حدیں پھلانگ لی گئیں؟ کیا ایمان کی روح بدن میں کہیں نہیں بچی؟ اور ایسی بے خبری کہ قابل اعتراض کام کرنے کی وڈیو بھی بنا لی گئی اور ان مدہوشوں کو خبر تک نہ ہوئی؟ کیسے؟ اور وہ بچی جس کو قتل کردیا کیا اسے ذرا سی بھی غیرت نہ جاگی کہ وہ ایسے مناظر دیکھتی رہی بلکہ اس سے بھی گھٹیا کام کیا اور اس کو ریکارڈ کر لیا ۔۔ اللہ۔۔۔ یہ کس دور میں جینے لگے ہم ؟ ہماری رونگٹے کھڑے ہوئے جاتے ہیں یہ سب منظر تصور کرکے۔۔ یہ بچیاں اس حد تک پہنچی کیسے؟ اگر قصور وار ماں باپ کو ٹھہرائیں تو یہ بھی ظلم لگتا ہے کہ جس معاشرے اچھے خاصے متوسط طبقے کے مالی حالات مسائل کا شکار ہوں وہاں ان جیسے محنت کشوں کی تو مت ماری جاتی ہے ۔ باپ غریب تو روزی اروٹی کے چکر میں گھر کو وقت ہی نہ دے پاتا ہوگا اور ماں بچی کی شادی کی خاطر کمیٹیوں کے چکر میں ادھر ادھر پھرتی ہوگی اور کبھی مالی تنگی کا غم دور کرنے سہیلیوں میں جا بیٹھتی ہوگی یہ بچیاں یقینا موبائیل فون کے پیکج لگا کر گھنٹوں لڑکوں سے گپ لگاتی ہوں گی اور اس بیمار معاشرے کی نفسیات کے عین مطابق وہ بچے جن کی نئی نئی مردانہ صلاحیت انہیں نئے نئے تجربات پر اکساتی ہوگی انہیں ملنے کا کہتے ہوں گے ۔ اب یہاں دوش کسے دیں ؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کے لئے کوئی صحت مند رحجان معاشرے میں متعارف کروائے ؟ کیا ہم نے تعلیمی اداروں کو ان کی تربیت کیلئے مواقع فراہم کیے؟کیا کوئی ذہنی جسمانی ورزش کا اہتمام یا کھیل کود کی سہولیات مہیا کیں جو اس عمر کے بچوں کو سن کے اندر اٹھنے والے ہیجان کو کم کرکے ان کی انرجی کو درست سمت پر ڈال سکتے ؟ ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہے ۔ ہمارے ارباب اختیار نے معاشرے کو کوڑھی بنا دیا جس کے پھوڑے ان سترہ اٹھارہ سال کی کچی عمر کے بچوں کی شکل میں نظر آئے ۔ ایک گھرانہ کیا کئی گھرانے اس ایک واقعے نے برباد کردئے اور ایسی کئی کہانیاں زیر آستین چل رہی ہونگی جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں ۔
ہم اس پر مزید ۔۔ یوں کرنا چاہیے ایسا ہونا چاہئے ۔۔ جیسی باتیں نہیں کرنا چاہتے کہ یہ چاہ نے ہی سب کو ڈبو دیا ۔ اگر معاشرے کی اصلاح مقصود ہے تو اس کرنا چاہیے کو کر لیا میں بدلنا ہوگا ۔ جو مناسب لگے اس معاشرے کی بھلائی کی خاطر اسے کر گزرنا ہی اب حل ہے ۔ مزید سوچنے سمجھنے کا وقت نہیں اب سب کو مل کر عملی طور پر وطن عزیز اور اس معاشرے کی بہتری کے لئے کام کرنا ہے ۔ کم از کم ہماری زندگیوں میں تو کوئی آسمان سے نہ اترے گا اور نہ ہی کوئی جنگ ہونے جارہی ہے ۔ ابھی بہت وقت پڑا ہے ۔ کل کے خوابوں سے بہتر آج کی تعبیر ہے جس کو سامنے رکھ کر اپنے گھر کی از سرنو تعمیر کرنا ہے۔بس یہی حل ہے ۔
Monday, 11 December 2017
یادیں اور آج
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment