Tuesday, 9 July 2019

حضرات شادیاں کیجئے، گناہ نہ کیجئے 

"مردوں میں ساری خوبیاں ہوتی ہوں گی ماسوائے عورت سے وفاداری کے "۔روف کلاسرا کے منتخب کالموں پر مشتمل کتاب "آخر کیوں " پڑھتے ہوئے یہ جملے میری توجہ کا مرکز بن گئے۔ اپنی ایک یونانی دوست کا تذکرہ کرتے ہیں جو مردوں کی بیوفائی کا رونا روتے ہوئے کہتی ہے کہ مردوں کے لئے" ایک عورت پر اکتفا کرنا ان کی فطرت میں نہیں ہے"۔

بات تو یہ بہت حد تک درست ہے۔اگر ایسا معاملہ نہ ہوتا تو اسلام جو انسانی فطرت کے قریب ترین مذہب جانا جاتا ہے اس کی تعلیمات اور احکامات میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہوگز نہ ہوتی۔ 

ہمارا معاشرہ جس پستی کا شکار پے وہاں اس موضوع پہ تحقیق کی جائے تو دلخراش حقائق سامنے آئیں گے۔کس طرح مرد اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے نامحرم عورتوں کے پیچھے پھرتا ہے۔اسی طرح بعض عورتیں اس گھناونے کاروبار میں ملوث ہیں کہ مردوں کی خواہشات کو معاوضہ لے پورا کیا جائے۔

کسی زمانے میں محبت انسان کو مجبور کرتی تھی کہ اپنے محبوب کا قرب حاصل کرے۔اس قربت کی خواہش کے پیچھے پر خلوص پیار محبت کے جذبات کی تسکین تھی۔اسلام نے محبت کے لئے نکاح کو بہترین حل بنا کر پیش کیا۔عورت تو ساری زندگی بھی ایک مرد کے ساتھ گزار سکتی ہے لیکن بعید نہیں کہ مرد بار بار محبت میں گرفتار ہوجائے ۔ محبت نہ سہی اسے کوئی عورت پسند آئے اور پھر اس کے حواس پر چھا جائے ۔اس کے قرب کی خواہش میں وہ غیر شرعی امور کی جانب بڑھ جائے تو یہ ناصرف اس مرد کا نقصان ہے بلکہ اس کی بیوی اور بچوں کا بھی نقصان ہے۔

دوسری جانب جس نامحرم عورت کی طرف بڑھا اس کا بھی نقصان ہے کیونکہ اس عورت کا حق ہے کہ اسے باعزت طریقے سے چاہا جائے۔عورت بہت حساس مخلوق ہے اس کا دل نرم پڑ جاتا ہے جب مرد اپنی بے بسی کا رونا روئے۔ وہ اپنے محبوب کو تڑپتا نہیں دیکھ سکتی اور بعض اوقات اپنی عفت اسلئے قربان کردیتی ہے کہ اس کا محبوب مرد مضطرب ہے اور اسے مجبور کرتا ہے۔

جدید دور میں عورت کو ایکسپوژر ملا تو بہت سا روایتی پن جاتا رہا اور آج عورت کی آزادی کے نام پر بہت عجیب و غریب تقاضے سامنے آنے لگے.ایک طرف تو عورت واقعی مظلوم ہے اور اس کے ساتھ ظلم ہوتا ہے دوسری طرف عورتوں نے ظلم کی خود ساختہ تعریف گھڑ لی جس میں سب سے قبیح تقاضا مردوں کی طرح آزادی کا حصول ہے جبکہ نظام زندگی کو چلانے کے لئے مرد و زن کے جو کردار اسلام نے متعین کئے وہ بہت متوازن ہیں۔ چادر اور چار دیواری کی اہمیت ان سے پوچھئے جنہیں کسی مجبوری کے تحت گھر سے نکلنا پڑا اور وہ معاشرے میں پھیلی بدصورتی کا حصہ نہ بنیں۔ عورت کا حق ہے کہ اسے تعلیم و ہنر کے ساتھ میل جول کی بھی آزادی ہو۔ حد کا تعین اسلام نے دے دیا اسلئے جن گھرانوں میں اسلامی تعلیمات کو بنیاد بنایا جاتا ہے وہاں خود ساختہ ظلم اور حد سے تجاوز کرنے والی آزادی کے مسائل نہیں ہوتے اور اگر ہوں تو ان کی شدت کم ہوتی ہے۔

اس آزادی اور مرد سے غیر شرعی میلاپ کا نقصان خود عورت کو ہے ۔ جب مرد بنا نکاح عورت سے لذت حاصل کرنے لگے تو وہ خود غرض بن جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ جب عورت بنا نان نفقہ اور سماجی بندھن میری خواہش کی تکمیل کررہی تو بھلا کیا ضرورت شادی کے اخراجات اٹھائے۔آخرت کی فکر تو کسی کو بھی نہیں ۔بعض نے اس جبلی کمزوری کو مرد کی مجبوری قرار دے کر خود ہی فتوے صادر کردئیے کے جیسے موت کے خوف سے حرام کھانا جائز ہوجائے یونہی مرد کی اس بیقرار طبیعت کی تسکین کے لئے حرام کاری بھی جائز قرار پائی ۔ اس بات پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے کہ بعض جعلی عالموں نے بھی اپنی شہرت کو دوام بخشنے کی خاطر ایسی من گھڑت بے بنیاد تشریحات کرکے ایسے مردوں کو تھپکی دی کہ یہ مجبوری ہے اور کہتے ہیں اللہ بڑا رحیم ہے یہ گناہ بھی معاف ہوجائے گا ۔ ایسا کہنے والے شیطان کے بزنس پارٹنرز ہیں اور اس کی جہنم کا ایندھن ان مردوں کے ساتھ ان سے منسلک عورتوں کو بھی بنا رہے ہیں۔ چونکہ جہنم دیکھی نہیں اسلئے اس کا خوف ان کی خواہش کو دبانے میں ناکام رہا۔ 

طلاق کے بڑھتے رحجان کو دیکھئے۔ ضروری نہیں کہ مرد محض اسلئے بھی دوسری شادی کی خواہش رکھتا ہے کہ اسے رنگ برنگی عورتیں چاہیں بلکہ بعض اوقات پہلی بیوی سے ذہنی ہم آہنگی بھی نہیں رہتی ایسی صورت میں لڑائی جھگڑے گھرانے کو برباد کردیتے ہیں ۔ 

کبھی عورت بھی مرد سے بیزار ہوتی ہے لیکن معاشرہ اس کو اس جبر سے نکلنے نہیں دیتا ۔ ہمارے معاشرے میں کسی عورت کا ایک مرد سے طلاق لے کر دوسرے مرد سے شادی کرنے کو ایسا عظیم گناہ جانا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں زنا جیسا بڑا گناہ ہیچ نظر آتا ہے ۔ اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کریں تو اس کی مثال ایک حدیث مبارکہ ہے جب ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نان نفقہ اور سلوک کا پوچھا تھا اس عورت نے کہا کہ ایسی بھی بات نہیں ۔ بس اس مرد کی شکل پسند نہیں اسلئے اس سے علیحدگی چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کی اپنے شوہر سے علیحدگی فرما دی ۔ پتا چلا کہ جب عورت کے دل میں مرد سے بیزاری یا نفرت جنم لے تو اسے مجبور کرکے اس گھر میں رکھنا اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہے اور معاشرتی برائیوں کا موجب بھی ہے۔ عورت بھی اپنے لئے پناہ تلاش کرے گی اور جب معاشرہ اسے یہ حق نہیں دے گا کہ وہ ناپسندیدہ شوہر سے طلاق لے کر کسی مناسب مرد سے نکاح کر لے تو وہ کیا کر یگی ؟ یقینا زنا کا رستہ کھل جائے گا اور اس کا وبال ساری سوسائٹی سارے افراد کے سر ہوگا جو اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ طبیعت پر جبر کرکے اسی شوہر کے ساتھ رہے جسے وہ ناپسند کرتی ہے ۔ 

مرد اپنی جبلت کے تحت بہت دن تک خود کو روک نہیں سکتا جبکہ عورت کو اللہ نے صبر اور حیاعطا فرمائی ۔ ایک باکردار عورت جب ایک بار کسی کو اپنا مان لے تو پھر اس کے سوا کسی دوسرے مرد سے تعلق قائم نہیں کرتی چاہے مہینوں وہ اپنے مرد سے نہ مل سکے ۔ اس کے دل میں کبھی بیوفائی کا خیال نہیں آتا باوجود شدید خواہش قرب کے عورت اپنے محبوب کے سوا کسی اور کے ساتھ اپنی ضرورت پوری نہیں کرتی ۔ماسوائے ان طوائفوں کے جن کا دھندہ ہو یا جو مادی خواہشات کی تکمیل کی خاطر اپنی عفت کو بیچ دیں ۔ 

دوسری طرف مرد عموما جب اپنی عورت میں نقص پائے یا کسی سبب وہ تعلق قائم نہ کر سکے تو وہ بنا کسی معتبر جذبہ محض اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کے واسطے کسی بھی عورت سے قربت اختیار کرلیتا ہے ۔ اپنی خواہش پوری کر نے کےلئے اسے کسی اخلاقی دباو کا احساس نہیں رہتا اور یہی بیوفائی ہے ۔ اسلام نے شرعی حد دونوں کے لئے متعین کی ہے لیکن فی زمانہ مردوں کی حالت یہ ہے کہ ان کی اکثریت صرف عورت کہ رضامندی کے انتظار میں رہتی ہے۔ سوچتی ہوں کہ مرد نے خود کو اپنے مقام سے کتنا گرا لیا کہ اس کا اپنا کوئی معیار ہی نہ رہا۔

کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں عورتوں کی اکثریت بےبس ہے وہ چاہے بھی تو اپنے مرد کو خود تک محدود نہیں رکھ سکتی۔ اس کو پابند نہیں کرسکتی کہ اس کے دل میں صرف وہی قابض رہے۔ اسی لئے اس کی طبیعت کو مدنظر رکھ کر اسے ایک سے شادی شادیوں کی اجازت ہونی چاہیے جیسا کہ اسلام اسے حق دیا۔

سمجھنا چاہیے کہ شریعت کے احکام بلا وجہ نازل نہیں ہوئے بلکہ ان پر عمل کرنے کا فائدہ ہی ہوسکتا ہے ۔

عورت اپنے مرد پر یقین رکھے تو گھر چلتا ہے ۔اگر شک کی فضا بن جائے تو اس کا نقصان پورے گھرانے کو ہوتا ہے۔ مرد کی فطرت کو بدلنا عورت کے بس کی بات نہیں لیکن اپنے گھرانے کو بیشمار برائیوں سے بچانے کے لئے اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے جو اسلام نے پیش کیا ۔ مرد کو چار تک شادیوں کی اجازت دی گئی اور اس کے پیچھے اس کی اس بیقرار طبیعت کا عمل دخل بھی ہے ۔

مرد کو نصیحت کرنا مشکل بات ہے لیکن اگر سمجھیں تو ان کا فائدہ ہے۔ اللہ نے مرد کو ایک ساتھ چار عورتیں نکاح میں رکھنے کی آزادی دی ہے تو اسلامی قانون کے تحت اسے عورت سے اجازت کی ضرورت نہیں ۔ البتہ ریاستی قانون اور اخلاقی لحاظ سے پہلی بیوی کو اعتماد میں لینا بہتر ہے ۔ اگر بیوی راضی نہ ہو تو دوسری بیوی کو الگ گھر اور ناں نفقہ دے کر بنا پہلی بیوی کے علم میں لائے بھی رکھا جاسکتا ہے۔ریاست کو اس میں مرد کی معاونت کرنی چاہیے۔جو مالی طور پر مضبوط ہیں انہیں ایسا کرنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے ۔

جو مرد جابجا عورتوں سے تعلق قائم کرتے ہیں ان کو علم ہونا چاہیے کہ ایسی عورتیں ناصرف غلاظت کا ڈھیر ہوتی نہیں بلکہ سو طرح کی برائیوں کا شکار ہوتی ہیں ۔ مرد ان عورتوں سے دوسرے مردوں کے جراثیم اپنی بیویوں کو منتقل کرتے ہیں ۔ اس پہ چاہیں تو تحقیق کرلیں ۔ سائنس خود ہی آپ کا راستہ روک دے گی جب خوفناک حقائق معلوم ہونگے ۔ 

مرد کا دوسری عورت سے نکاح اور الگ گھر خود اس کی ذہنی آسودگی جسمانی صحت اور دراز عمر کے لئے بے حد مفید ہے ۔

جب اسے پتا ہو کہ میرے دو یا تین گھر ہیں جب چاہوں جہاں چاہوں آرام پاوں۔ ایک بیوی ایک انداز سے محبت کرے تو دوسری کا انداز جدا ۔ سوچئے یہ تو آپ نے جنت زمین پر ہی بنا لی ۔ ہر عورت کا انداز دوسری سے جدا ہے لیکن عورت کبھی بھی کھل کر اظہار محبت نہیں کرتی جب تک اسے یقین نہ ہو کہ وہ مرد پر مکمل بھروسہ کرسکتی ہے۔ تو اگر مرد چاہے ، اپنی زندگی کو رنگین بنا سکتا ہے اور وہ بھی بنا گناہگار ہوئے۔ 

زانی مرد کی آخرت بھی برباد اور دنیا بھی خراب ۔ اگر مرد کسی معصوم عورت کو محبت کا جھانسہ دے کر اس کی عصمت کو داغدار کرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ دیتا ہے تو اس میں اللہ کی پکڑ تو یقینا ہوگی ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسی عورت زخمی شیرنی ہوتی ہے جو موقع کی تلاش میں رہتی ہے کہ کب بھرپور وار کرکے اس بیوفا مرد اور اس کے گھرانے کو برباد کردے ۔ ایسے بیشمار واقعات ہم نے سنے اور عبرت ناک انجام دیکھے۔ مرد کو سمجھنا چاہیے کہ ایک معزز عورت ہمیشہ اپنی عزت کو مقدم رکھتی ہے۔ اس کے لئے اس کی عصمت و عفت کی حفاظت ہی اس کا ایمان ہے اور جب کوئی اس کی عصمت پر ڈاکہ ڈالے تو وہ کسی بھی بات کی پرواہ کئے بنا بدلہ لیتی ہے۔اسی طرح ایک معزز مرد کسی عورت کی زندگی داغدار نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ اپنی حاجت سے اس عورت کی عزت کو مقدم رکھتا ہے البتہ افسوس کہ فی زمانہ ایسے مرد دکھائی نہیں دیتے ۔

 عورت کی زندگی کو بڑی مصلحت کے تحت ایک مرد سے جوڑ دیا گیا ہے جبکہ مرد کی ایسی مجبوری نہیں تو پھر بھلا درست طریقے سے نکاح کرکے عورت سے تعلق قائم کرنے کی بجائے حرام رستہ کیوں اختیار کرے۔

خلاصہ کلام یہی ہے کہ عورت کو حلال کیجئے اور اس کے لئے نکاح بہترین ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتیں مرد سے اس کا شرعی حق نہیں چھین سکتیں۔اس معاملے میں مجھے مرد کا وکیل سمجھئے ۔ 

خلاصہ بحث یہ ہے کہ حضرات شادیاں کیجئے ،گناہ نہ کیجئے۔

No comments:

Post a Comment