Friday, 27 September 2019

افغانستان میں صدارتی انتخابات 2019

افغانستان میں آج صدرارتی انتخابات ہوریے ہیں۔اس کے نتائج کیا نکلیں گے اور ان انتخابات کے انعقاد میں کتنی کامیابی ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے اس وقت کی مجموعی صورتحال اور انتخابی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آل پریس ایسوسی ایشن(AP)کے مطابق طالبان نے 9.6 ملین اہل ووٹرز کو خبردار کیا ہے کہ وہ بروز ہفتہ ہونے والے صدارتی الیکشن میں حصہ نہ لیں۔ یہیں سے ہونے والے انتخابی عمل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان کے جارحانہ رویے کا خوف عوام کو ووٹ ڈالنے دے گا کہ نہیں ۔
افغانستان میں گزشتہ چند ماہ جو صورتحال رہی ہے اس کے تناظر میں یہ الیکشن خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ 
جس طرح پچھلے 2014 کے الیکشن میں بھی فسادات کو نہ روکا جاسکا اور اس وقت بھی یہی تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ یہ انتخابات پہلے سے زیادہ حساس ہیں اور دھماکوں اور حملوں کا بہت امکان نظر آتا ہے ۔ 
افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ جو گزشتہ پانچ سال سے مشترکہ حکومت چلا رہے تھے اس وقت بھی بڑے امیدوار ہیں 18 امیدواروں میں۔ البتہ بیشتر امیدواروں نے انتخابی مہم کا انعقاد نہیں کیا کیونکہ بہت سوں کو انتخابات سے متعلق گمان تھا کہ شاید افغانستان کے موجودہ حالات میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو ۔
افغان امریکہ امن معاہدہ پر چلنے والے مذاکرات بنا کسی نتیجہ اچانک روک دئیے گئے جس کے سبب ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی۔ تقریبا ایک سال مختلف جگہوں اور بہت سے نمائندوں کے ساتھ چلنے والے مذاکرات کامیابی کی دہلیز عبور نہ کرسکے اور تقریبا تین ہفتے قبل صدر ٹرمپ کی جانب سے معطل کردئیے ۔ گو کہ بعد میں اسے پھر شروع کرنے کے بیانات آئے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے صرف مذاکرات ہی حل ہیں ۔ افغان تاریخ بتاتی ہے اس قوم کو بازور طاقت دبانا ممکن نہیں ۔
بحرحال انتخابات میں امیدواروں کی کامیابی 51%ووٹ  مجوعی طور پر درکار ہوں گے اور اگر کسی امیدوار کی واضح برتری نہ سامنے آئی تو جو دو امیدوار زیادہ ووٹ لیں گے ان کے درمیان ایک اور مرحلہ ووٹنگ کا مقابلہ ہوگا۔
صبح 7 بجے سے شام 4 بجے تک وقت ووٹ ڈالنے کے لئے مختص کیا گیا ہے ۔
نتائج کا اعلان 17 اکتوبر تک کیا جاسکتا ہے۔ 
اگر دوسرے مرحلے کے انتخابات کی ضرورت پیش آئی جو کسی امیدوار 51% برتری نہ حاصل کرسکنے کے سبب دو ہفتے کے اندر اندر منعقد ہوں گے۔اس کا نتیجہ کا اعلان  7 نومبر کو ہوگا۔
پولنگ کے لئے سکول ، مساجد اور کیمپس میں سیکورٹی سکینرز کے ساتھ ساتھ خواتیں اور مردوں کے الگ الگ پولز بنائے جائیں گے۔ البتہ 9% سینٹرز کو سیکیورٹی خدشات کے تحت بند رکھا جائے گا ۔
34 صوبوں کے 29 ہزار پولنگ بوتھ بروز ہفتہ ووٹ کے لئے میسر ہوں گے جبکہ 410 سینٹرز کو سیکیورٹی رسک قرار دے کر بند رکھا جائے ۔ 
انتخابات میں 3 لاکھ افغان نیشنل سیکیورٹی کے ساتھ ڈیفینس فورسز حصہ لیں گے۔
افغانستان میں حکومت سے زیادہ طاقت طالبان کے پاس ہے جو تقریبا آدھے سے بھی زیادہ افغانستان پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ 
افغان امن معاہدہ کی شرائط میں ایک شرط افغان طالبان کی طرف سے یہ بھی تھی کہ امن کے لئے ضروری ہے کہ افغان حکومت میں طالبان کے نمائندگی کو بھی قبول کیا جائے گا۔ 
افغانستان کی 2001 سے جاری جنگ میں 2400 سے زائد امریکی فوجی اب تک مارے گئے اور اس وقت بھی امریکہ کے 14000 فوجی  افغانستان میں موجود ہیں اور اس امن معاہدے کی شرائط میں ان فوجیوں کی بحفاظت امریکہ واپسی بھی ایک شرط تھی ۔ ان مذاکرات کے دوران بھی طالبان کی جانب سے امریکی فوجیوں پر حملے  جاری رہے البتہ امن معاہدہ کے معطل کئے جانے کے بعد اس میں شدت آگئی ۔ اب انتخابات میں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مزید حملے ہوسکتے ہیں۔ 
ان خطرناک انتخابات پر نگاہ رکھنے کے لئے دنیا بھر سے لگھ بگھ ایک لاکھ دس ہزار مبصر اور قومی اور غیر ملکی 115 خبردار ایجنسیاں ادارے اور صحافی رجسٹرڈ ہیں۔
 دوسری طرف پاکستان نے عالمی سطح پر مسلمانوں کا مقدمہ لڑنے کی ٹھانی اور کل کشمیر کے مسئلہ پر وزیر اعظم عمران خان کی دھواں دار تقریر کے بعد دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا کہ پاکستان کی سرزمین سے پہلی بار کسی نے ایسی دبنگ آواز بلند کی اور دلائل و حقائق سے دنیا کو شرمسار کردیا ۔ کشمیری اپنے ہی گھروں میں بنا خوراک و افواج قید ہیں اور اقوام متحدہ کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی ۔
 عمران خان نے جنرل اسمبلی جہاں کشمیر کا مقدمہ لڑا وہیں افغانستان کی تاریخ اور مستقبل پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شرکت کی، 70 ہزار پاکستانی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شہید ہوئے۔
80کی دہائی میں افغانستان میں لڑنے کیلئے مجاہدین تیار کیے، امریکہ اور مغرب نے فنڈ دیئے،
‏سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ سب چھوڑ چھاڑ کر چلا گیا،نائن الیون کے بعد پاکستان نے پھر امریکہ کا ساتھ دیا،
 نائن الیون کے بعد ہمیں بتایا گیا افغانستان میں جہاد نہیں دہشتگردی ہے اس لیے امریکہ کی جنگ میں شمولیت کا مخالف تھا، امریکہ اور مغرب نے فنڈ دیئے،‏سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ سب چھوڑ چھاڑ کر چلا گیا،
نائن الیون کے بعد ہمیں بتایا گیا افغانستان میں جہاد نہیں دہشتگردی ہے اس لیے امریکہ کی جنگ میں شمولیت کا مخالف تھا۔
اس طرح عالمی برادری کو مسلمانوں کے خلاف تحریک کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ چاہے افغانستان ہو اعراق ہو فلسطین ہو یا کشمیر ، عالمی دنیا ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر فیصلے کرتی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے مسلم ممالک کو یکجا ہو کر اس اسلام مخالف تحریک کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے ۔  

No comments:

Post a Comment