Friday, 29 September 2017

جمہوری دہشتگردی

جمہوری دہشتگردی
سعدیہ کیانی

جمہوریت کے دعویدار سیاست دانوں کو آئین کا پاس نہیں نا اس کے نفاذ کو عمل میں آنے دیا جاتا ہے بلکہ اکثریت سیاستدانوں  کی تو اتنی غیر سنجیدہ اور کم تعلیم یافتہ ہے کہ وہ آئین کو سمجھتے ہی نہی اور نا ہی ان کو امور ریاست کی کوئی سمجھ بوجھ ہے ۔
وطن عزیز پاکستان میں سیاسی قیادت کے امور مملکت میں عدم دلچسپی نے جہاں بہت سے مسائل کو جنم دیا وہیں ایک سنگین مسئلہ سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا ہے ۔بلوچستان کے عوام کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا جس کی وجہ سے وہاں محرومیوں نے جنم لیا ۔انسانی جبلت میں بہت سے رویے ایسے ہوتے ہیں جن کا عموما کھل کر اظہار نہیں کیا جاسکتا خصوصا اس وقت جب انسان کمزور اور بے بس ہو۔ اسکے جذبات مسلسل دباؤ کا شکار ہوں تو پھر ان میں شدت جمع ہوجاتی ہے اور جب بھی ایسے لوگوں کو اظہار کا کوئی موقع ملتا ہےتو وہ اس کا استعمال ضرور کرتے ہیں تاکہ اندر پکتا لاوا جو انہیں اندر ہی اندر جلا رہا ہے اس کی حرارت دوسروں کو بھی پہنچائی جائے ۔۔۔ یہاں سے ایک عام آدمی دہشتگرد بن کر نکلتا ہے جو نامنصفانہ تقسیم کا بدلہ حکمرانوں سے لینے کی بجائے عام عوام سے لیتا ہے کیونکہ اس کا بس یہیں چلتا ہے ۔
ہمارے وطن عزیز میں دہشتگردوں کی کئی اقسام ہے ۔ایک تو ہم نے ذکر کیا جو اپنے ہی لوگ محرومیوں  کا شکار ہو کر انتقامی کاروائیوں میں ملوث ہونے لگتے ہیں اور ایک وہ جو دولت کی ہوس میں اپنا ضمیر بیچتے ہیں ۔اس قسم کے لوگ ضروری نہی کہ صرف غریب مفلس اور عوام میں سے ہوں اس قسم کی سب سے خطرناک مثال سیاستدان اور سرمایہ دار طبقہ ہے جو وسائل بھی رکھتا ہیں اور اثرورسوخ بھی۔ بااختیار بھی ہے اور بے ضمیر بھی۔
یہ طبقہ دولت جاہ و منصب کیلئے اپنے ہی وطن کی سالمیت کو خطرے میں ڈال کر دشمن کے دست و بازو بن جاتا ہے محض ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر یہ کسی بھی حد سے تجاوز کرسکتا ہے ۔
سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے پھیلاؤ نے ان اشرافیہ کے چہروں کو ننگا تو کردیا مگر ابھی عوام اس مخمصے کا شکار ہیں کہ کس کا اعتبار کریں؟ اگر اعتبار کر بھی لیں تو کسطرح ان غداروں پر ہاتھ ڈالیں؟ عوام فرد واحد بن کر سوچیں تو یہی سوالات ابھرتے ہیں مگر یہی عوام جب متفق ہوجائیں تو پھر دنیا کی تاریخ میں نئے نئے ملک وجود میں آجایا کرتے ہیں البتہ عوام کو رہنمائی دینے والے قائد کا کردار عام آدمی سے مختلف اور مضبوط ہونا ضروری ہے۔حالات حاضرہ پر نظر دوڑآئیں تو ہمیں ایسی کوئی قیادت نظر نہیں آتی جو ایک بہترین رہنما کے طور پر متعارف کروائی جاسکے جو ملک و قوم کو یکجا رکھتے ہوئے ترقی کے سفر پر تیزرفتاری سے آگے خو بڑھ سکے ۔ جو سیاسی کردار اس وقت منظر عام پر موجود ہیں ان میں سے اکثریت کے کردار کا جائزہ لیں تو ان پر ملک سے غداری کے مقدمات درج ہوجائیں یا بیشمار سیاستدان تو براہ راست مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ان کے کاروبار ناجائز اور قوم کیلئے تباہ کن ہیں ۔البتہ  چند کے سیاستدان ایسے ہیں جو کسی جرم کے مرتکب نہیں اور اپنے تئیں اپنا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی حیثیت کمزور آدمی جیسی ہے اور وہ اکثر مجبور نظر آتے ہیں ۔العرض ہمارے یہاں جمہوریت کی تعریف وہ نہیں جو دیگر دنیا میں متعارف ہے بلکہ یہاں جمہوریت سے مراد جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے ۔سادہ لفظوں میں بدمعاشی زور زبردستی اور لوٹ کھسوٹ کا منظم نظام ہے جہاں چند خاندانوں کا راج قائم ہے جو عوام کو ذاتی ملازم اور خود کو ان کی جان و مال کا مالک سمجھتے ہیں ۔
بحیثیت قوم ہم مخمصے کا شکار ہیں کہ کیا کریں اور کدھر جائیں ظاہر ہے جب قیادت ہی راستہ نہ دکھائے تو پیچھے آنے والے بھٹکیں نا تو کیاہو ؟ اس وقت واحد حل تو یہی ہے کہ ان تمام مفاد پرست سیاست دانوں سے جان چھڑا لی جائے اور اس کے لئے عوام کا سڑکوں پر نکل کر بھرپور احتجاج کرنا بے حد ضروری ہے جب تک عوام خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہیں تب تک کوئی باہر سے آکر ایسا نہیں کرنے والا اوراب عوام کو کسی ان دیکھی قوت کا انتظار کرنا بھی ترک کردینا چاہیے کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا کم ازکم ہماری زندگیوں میں تو کوئی انہونی ہوتی میں نہیں دیکھتی ۔ ہاں البتہ جو میرا تجزیہ اور حواس خمسہ کے ساتھ وہ چھٹی حس جو عموما ہر وقت کام نہیں کرتی کے مطابق جو مستبقل کی سمجھ آتی ہے وہ بیان کر دیتی ہوں ۔
  آئیندہ آنے والے دو سے تین سال کا عرصہ  ایسے لگتا ہے جیسے کسان زمین میں ہل چلائے اور زمین میں بیج بونے کیلئے اسے تیار کرے اور پھر اسی سال کے آخر میں وہ بیج بھی بوئے گا جسے بارش کا انتظار کرنا پڑے گا اگر 2018 مارچ تک ابر کرم برسا تو انشاءاللہ مئی جون تک کونپلیں ضرور پھوٹیں گی مگر۔۔۔ کونپلوں کی حفاظت اور بقا کے لئے بہت ہشیار رہنے کی ضرورت ہوگی پھر میرے مالک نے چاہا تو 2018 کے آخری چند ماہ میں کسان کو فصل سے پیداوار کا اندازہ ہو سکتا ہے التبہ عوام الناس کو یہ فصل 2019 تک فائدہ پہنچانے کے قابل ہو سکتی ہے ۔اب اس سارے عمل میں ایک شرط ہے اور وہ شرط شعور کو بیدار رکھنے کی ہے جیسے کسان رات رات بھر کھیت کو پانی لگانے کی خاطر جاگتا ہے اسی طرح آئیندہ 2سے 3 سال کا عرصہ قوم کو بھی کسان بن جانا چاہیے ۔پھر دیکھئے ایسی عمدہ فصل تیار ہوگی کہ اس کی سرسراہٹ سے اردگرد کے کھلیان بھی مانند پڑ جائینگے ۔۔۔ یہ کوئی دیوانے کا خواب نہیں بلکہ ہوا کے رخ کو دیکھتے ہوئے اللہ کے وعدہ کا یقین رکھتے ہوئے حالات و واقعات کی کڑیاں ملا کر میں اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ ہم عنقریب ترقی استحکام اور خوشحالی کے راست پر چلنے لگیں گے اور ان ظالم حکمرانوں سے نجات مل جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ  ہماری آئیندہ نسلوں کو ایک بہتر وطن عزیز میں رہنا نصیب ہوگا۔انشاءاللہ

3 comments: