Saturday, 11 November 2017

قصہ ایک اور ادارے کا

شادی کے بعد گریجویشن کا رزلٹ آیا تو سوچا کہ اگر میاں صاحب کو اعتراض نہ ہو تو تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنا چاہیے۔ میاں صاحب خود بھی پڑھنے پڑھانے کا مزاج رکھتے تھے تو خوشی خوشی داخلہ کروا دیا ۔اس وقت میس کمیونیکیشن صرف چند یونیورسٹیوں میں کروایا جارہا تھا جن میں فاطمہ جناح ویمن یونورسٹی سب سے بہتر تھی لیکن ہماری رہائش اسلام آباد میں سیرینہ کے پاس تھی جبکہ یونیورسٹی پنڈی کے سرے پر واقع تھی ہمارے لئے ایک گھنٹہ سے زیادہ کا سفر محض ایک طرف کا اور گھنٹہ ڈیڑھ واپسی کا سفر کرنا خاصا مشکل تھا اور پھر جب ابھی شادی کو محض چند ماہ ہوئے تو میاں کی رعایت کا ناجائز فائدہ بھی نہیں اٹھانا چاہئے ۔ دوسری یونورسٹی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تھی جو ناصرف قریب تھی بلکہ آن لائن ایجوکیشن کا تجربہ بھی ہمارے لئے دلچسپی کا باعث تھا ۔ تو صاحبو ہم نے ماسٹرز فار میس کمیونیکیشن کے فارم جمع کروا دیےفیس بھی بھر دی اور ہمیں کورس بھی آگیا البتہ چونکہ یہ پہلا تجربہ تھا اسلئے کچھ خاص سمجھ میں نہ آئی کہ اس میں جو گائیڈ لائن دی گئ یے وہ کچھ اور ہے جبکہ کورس کچھ اور بتا رہا ہے ۔ بحرحال میاں صاحب نے ڈیپارٹمنٹ ہیڈ سے ملاقات کی اور سارا ماجرا بیان کیا۔ہمیں ذرا نئی نویلی دلہن کا پروٹوکول مل رہا تھا اور میاں صاحب خود ہی بھاگ دوڑ فرما رہے تھے۔ پھر پتا چلا کہ ڈیپارٹمنٹ ہیڈ بمع فیملی ڈنر پر آرہے ہیں ہم نے ان کے اعزاز میں پرتکلف اعزازیہ دیا اور ویٹرز کو سٹینڈ بائی کئے رکھا کہ کوئی کسر نہ رہ جائے ۔ دعوت کے بعد میں نے میاں صاحب سے پوچھا کہ سراج صاحب نے ایسے کیوں کہا کہ ڈگری کی فکر نہ کریں وہ تو پکی ہے جبکہ ہم تو صحافت پڑھنا چاہتے ہیں سیکھنا چاہتے ہیں یہی ہمارا را موضوع ہے شوق ہے اور آگے کیریئر بھی اگر بنایا تو جنرلزم ہی اوڑھنا بچھونا ہوگا ۔ میاں صاحب نے اس وقت تو کچھ خاص جواب نہ دیا کیونکہ خود ان کو بھی یہ بات کچھ پلے نہیں پڑی تھی۔ بحرحال ہم اس ادھورے سے کورس اور نامکمل گائیڈ کے ساتھ جو سمجھ سکے پڑھنے لگے اور ایک دن پھر پتا چلا کہ سراج صاحب پھر آرہے ہیں ۔ ہم نے پھر دعوت کا اہتمام کیا اور عزت سے رخصت کیا ۔ پھر ان کی گول مول باتیں سمجھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ ہمارا اصل مسئلہ وہیں کھڑا تھا کہ جناب یہ سلسلہ کیسے چلے گا جب ہمارا کسی سے رابطہ نہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ کچھ کمی ہے اس نصاب اور لوازمات میں؟ خود انہوں نے یہ ضرور مانا کہ کھبی کبھی کچھ گڑبڑ ہوجاتی ہے کورس میں اور سوالنامے وغیرہ میں لیکن آپ فکر نہ کریں بس آپ اگلے سمسٹر کی فیس جمع کروادیں وہ سب سے اہم بات ہے ۔ بس جی اس بات کو ابھی چند دن گزرے تھے کہ ایک دن میاں صاحب آفس سے تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا۔آپ کی پڑھائے مجھے مہنگی پڑ رہی ہے یا آپ پڑھ لیں یا میں نوکری کر لوں ؟ ہمیں ان کی بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی جیسے میس کمیونیکیشن کی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ پوچھا ماجرا کیا ہے ؟ فرمائے لگے کہ آپ کے استاد محترم تو لسوڑے ہیں دعوتوں کا بوجھ تو ہم اٹھا لیں مگر اب وہ اپنے عزیزواقارب کی نوکریاں بھی چاہتے ہیں۔ بھلا میں کس طرح نااہل بندے کو ہائیر کر لوں اور اپنے سر میں خاک ڈال لوں ؟ بہتر ہے آپ یہ ماسٹرز والا خیال ترک کر دیں فلحال۔ کچھ وقت کے بعد کسی اور یونیورسٹی سے کر لیجئے گا ۔ بس جی ہم نے کیا کہنا تھا ہمیں تو خود بھی یہ بات چبھے جارہی تھی کہ بنا پڑھے ہمیں ڈگری کیونکر لے لینی چاہیے صرف فیس جمع کروا دینے کی شرط پر ؟ یہی سوچ سوچ کر ہم کڑہتے جاتے کہ بھیا ہمیں تو شوق ہے کہ ہم صحافت کے نئے پرانے زاویے جانیں اور بڑے بڑے نامور ادیب مصنف اور رپورٹرز کی تخلیقی صلاحیتوں اور صحافت کےلئے ان کی خدمات کو سمجھ سکیں ۔ مگر کیا کریں اس زمانے میں اتنے مواقع میسر نہ تھے کہ کوئی دوسرا ادارہ یا یونیورسٹی کوہی تبدیل کرلیتے ۔ بحرحال ہم نے دوسرے سمسٹر کی فیس نہ بھیجی اور خاموشی سے گھر بیٹھ گئے البتہ مجیب الرحمن شامی صاحب کو ضرور گلہ کردیا ایک روز جب انکل نسیم بیگ کے گھر چائے کی میز پر بیٹھے تھے کہ جناب آپ جیسے لوگ جو خود ایک صحافتی ادارے کی مانند ہیں چاہیے کہ اس میدان میں نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کا اہتمام کریں ۔ شامی صاحب کو سرتاج عزیز صاحب کی سفارکاری کے گر سیکھنے اور سرمایداروں کے قصوں میں زیادہ دلچسپی تھی سو انہوں نےخاص توجہ نہ دی تو ہم بھی مصروف ہوگئے اپنے میزبان کے ساتھ اور اللہ جنت نصیب کرے انکل نسیم بیگ کو جن کی محبت ہم بھولے نہیں بھولتے ۔
ہمارا پہلی بار پالا پڑا تھا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اور اس کا حال ہم نے لکھ ڈالا کہ یونیورسٹی نے ہمارے ارمان کچل ڈالے ۔اس کے بعد ہمارے بچے ہوگئے اور ہم نے اسی پر صبر شکر کرلیا ۔
چھ/سات سال گزر گئے تو ہمارے اندر سے پھر آواز ابھرنے لگی کہ تعلیمی سلسلہ پھر بحال کرو ۔بس اب کہ خود ہی ایک دوست سے مشورہ کیا۔چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر گھر سے روزانہ جانا ممکن نہیں تھا اسلئے پھر اوپن یونیورسٹی کا رخ کیا البتہ اب کہ ہم نے بی ایڈ کرنے کی ٹھانی کہ چلو یہ ڈیڑھ سال میں مکمل ہوجائے گا تو ہمیں بھی مصیبت نہیں لگے لگی ۔ ابکہ ہماری خوش نصیبی کہ پڑوسن کو بےایڈ کا تجربہ تھا اور انہوں نے بھرپور ساتھ دیا جہاں پرفامے نہ آتے ہم ایک سے کئی کاپیاں کروالیتے۔ اسائنمنٹ وقت سے پہلے بھیج کو ٹویٹر کو بھی لازمی فون کرتے کہ یہ بہانہ نہ رہے کہ اسائنمنٹ ملی نہیں تو نمبر کیسے اور کئی بار تو ٹویٹر کے گھر بھی جانا پڑا۔ بحرحال اللہ اللہ کرکے امتحان بھی دے دیئے اور اس دوران امتحانی مراکز کی انتہائی خراب صورت حال سے بھی پریشان رہے ۔ایسے لگتا تھا جیسے جس کی جتنی ہمت ہے وہ اسی کے مطابق امتحان دے لے اور ہماری ہمت ایک دن جواب دے گئی اور شدید گرمی میں پینے کا پانی تک نہ ملا اوربجلی کے نہ ہونے کے باعث ہم آٹھ ماہ کی پریگنینسنی سمیت زمین پر آ گرے۔ ہوش آیا تو خالی کمرے کے فرش پر پڑے تھے نہ بندہ اور نہ کوئی بندی تھی وہاں ۔کچھ دیر میں اوسان بحال ہوئے تو فوری طور پر میاں کا خیال آیا کہ اس حال میں یہ ظالم تو میری اور بچے کی جان لینے کے در پہ ہیں ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ ایک طالبہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک فارم پر دستخط کرنے کو کہا ہم نے بولنا چاہا تو کھلا کہ آواز نکالنے کیلئے جو ہمت درکار ہے وہ اسوقت میسر نہیں بچارگی سے اس بچی کی طرف دیکھا کہ وہ مدعا سمجھ لے کہ سائن کرنے کی ہمت کہاں ؟ مگر وہ غریب بھی کسی سست ٹیچر کے ہاتھوں مجبور نظر آئی جس نے خود دھوپ سے بچنے کی خاطر اس طالبہ کو دوران پرچہ ہم سے محض اسلئے سائن لینے بھیجا کہ ہماری امتحانی مرکز پر موجودگی اور کمرہ امتحان میں بیٹھنے کا ثبوت مہیا کیا جاسکے اور فیل کرکے پھر سے فیس بٹوری جاسکے ۔ ہمیں  آج تک یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ان سکول اف ایلمنٹری ٹیچرز کی خواتین اساتذہ نے بے رحمی اور بد انتظامی کا مظاہرہ کیا کہ اس حال میں ھہمیں  مرنے کے لئے چھوڑ کر خبر نہ لی اور نہ ہی کسی طبی امداد کا بندوبست کیا ۔ حتی کہ ہمارے گھر والوں کو اطلاع تک نہ دی ۔ ہمیں خود ہی جب کچھ سمجھ آئی تو ہم نے قریب پڑے پنسل پاوچ سے ایک میٹھی ٹافی نکال کر منہ میں رکھی جو ان دنوں پریگنینسی میں اکثر شوگر لیول کم ہوجانے پر کام آتی ہے پھر فون پر میاں صاحب کو اطلاع دی جب میاں صاحب پہنچے تو انہیں گیٹ پر روک دیا گیا کہ آپ خود اندر نہیں جاسکتے پرچہ کےدوران سختی کا آرڈر ہے بس پھر کیا تھا میاں صاحب بھڑکے اور سکول آف ایلیمنڑی ٹیچرز کی انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھولنے لگے کہ جس سٹوڈنٹ کو کچرہ جان کر سٹور میں پھینک آئے ہیں وہ کسی بڑے آفسر کی بیوی ہے ۔ آنا فانا دروازہ کھولا گیا البتہ گاڑی اندر لے جانے کی کوئی صورت نہ تھی میاں صاحب گھسیٹ گھساٹ کر گاڑی تک تو لے ہی گئے مگر مزاج بہت گرم تھا اور ہمیں اپنا بی ایڈ بھی ماسٹرز آف  میس کمیونیکیشن کی طرح نامکمل نظر آنے لگا۔اور پھر اس کے بعد مزید پیپرز ہمیں  نہ دینے دئے گئے البتہ ڈیلیوری کے بعد ہم نے چپکے سے پھر فارم بھیج دیئے کہ چلو سپلی ہی دے کر کم ازکم بی ایڈ تو مکمل کریں ۔اسطرح یہ ہمارا دوسری مرتبہ اوپن یونیورسٹی سے پالا پڑا جو ہماری جان پہ کھیل گئی ۔اس دوران ایسے کئی واقعات ہوئے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی نااہلی اور کرپشن ہمیں حیران کرتی گئی اور دل نے صدا لگائی کہ  ارے کوئی اس کا والی وارث بھی ہےکہ نہیں؟
طالبعلم کی زندگی عذاب بن جاتی ہے جب اس کی کوئی اسائمنٹ ٹیوٹر تک نہ پہنچے یا لیٹ ہوجائے۔ امتحانی مراکز کئی بار تو گھر سے اتنا دور ہوتے ہیں کہ طالبات کو اس مرکز کے پاس اپنے والد یا بھائی کے ساتھ ہوٹل میں رات بتانی پڑتی کہ صبح وقت پر پہنچ نہیں سکتی اتنے دور۔ کئی طالبات تو ایسی تھیں جو دوسرے شہروں سے آئی ہوئی تھیں اور رشتےداروں اور دوستوں وغیرہ کے گھروں میں محض پیپرز دینے کے لئے رہ رہی تھیں ۔ سچ پوچھیں تو ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ شرم ہی آجائے کہ یہ کیسا تعلیمی نظام ہے کہ صرف کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور سرسری خانہ پوری کی جاتی ہے امور سے متعلق ۔ نصاب تعلیم میں مقاصد تعلیم کو قطعی نظرانداز کر دیا جاتا اور ہمارے جیسے حساس لوگ خود ہی کڑھتے خود سے سوال کرتے ہیں کہ کوئی کیوں نہیں پوچھتا کہ ورک شاپ کیلئے حاضری کتنی ہے کی بجائے طالبعلم کی استاد بننے کی صلاحیت کتنی ہے کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ یا یہ کیوں نہیں دیکھا جاتا کہ کون سا استاد بچوں کی توجہ حاصل کرنے میں کتنی مہارت رکھتا ہے ؟ کون عملی طور پر نئے نئے انداز سے تعلیمی عمل کو دلچسپ اور پر اثر بنا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بی ایڈ کے اس خطرناک تجربہ کے بعد ہم نے فلوقتی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے توبہ کرلی البتہ تعلیم کے حصول کو ترک کرنا ہمارے بس میں نہیں تھا تو سوچا چلو پنجاب یونیورسٹی سے ہی ماسٹرز کر لیتے ہیں اور ہم نے یہ معرکہ بھی سر کر ہی لیا بچوں کو کبھی ماں کے حوالے کیا تو کبھی ڈے کئیر میں پھینکا۔ البتہ یونیورسٹی آف  پنجاب سے پرائیویٹ ماسٹرز کی ڈگری کے حصول میں ایسی دقت نہ پیش آئی جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں قدم قدم پر آتی رہی ۔ہاں مالی کرپشن اور بہانے بہانے سے طالبعلم کوخجل خراب کرنے کا رواج وہاں بھی نظر آیا لیکن ایسا نہیں ۔جو اندھیر نگری ہم نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں دیکھی اس کی تو مثال شاید ہمیں کہیں بھی نہ ملے ۔
ماسٹرز کے بعد ہم پہ پی ایچ ڈی کا بھوت سوار ہوگیا میاں نے کہا کہ گھر میں ایک پی ایچ ڈی موجود ہے تو گزارہ کیا جاسکتا ہے مگر ہم نے بھی مرد کے شانہ بشانہ چلنے کا نعرہ بلند کیا اور پیچھے پیچھے چلنے سے انکار کردیا ۔ میاں آپ اپنی پی ایچ ڈی اپنے پاس رکھیں ہمیں مانگے کی چیزیں نہیں چاہیں ۔ چونکہ پی ایچ ڈی سے پہلے ایم فل ضروری تھا تو صاحبو ہم نے میاں کو تو راضی کرلیا مگر اب دو عدد بچوں کے ساتھ ریگیولر ایم فل کرنا بہت مشکل نظر آرہا تھا۔ مرتے کیا نہ کرتے پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا رخ کیا اور جب ویب سائٹ کھولی تو وہاں ایرر آرہا تھا کہ سائٹ اپ ڈیٹ ہو رہی ہے ۔ پھر کچھ دنوں بعد کسی دوست نے بتایا کہ داخلے کی آخری تاریخیں ہیں کروا لیں داخلہ جاکر۔ بس پھر بھاگم بھاگ یونیورسٹی پہنچے تو واقعی بس ایک دن مزید باقی تھا سو فوری طور پر پراسپیکٹس خریدا اور ہسٹری آف اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی تلاش میں نکل پڑے اتنا بڑا علاقہ ہے یونیورسٹی کا کہ بندہ دو تین بلاک گھوم کر ہلکان ہوجائے۔ کہیں کوئی سائن بورڈ نہیں کہ کدھر جانا ہے ۔ نہ کوئی رہنمائی کرنے والا نظر آتا ہے۔ ہر طرف باریش آدمی ٹخنوں سے اونچی شلواریں اور سر پر عمامے باندھے کسی تبلیغی مرکز کا منظر پیش کرتی یہ جگہ کہیں سے بھی انٹرنیشنل یونیورسٹی نہیں دکھتی۔ اس پر اگر ہمت کرکے کسی بھائی سے پوچھ لیں کے جی یہ اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کدھر ہے تو وہ آپ کو سر سے پاوں تک انتہائی ناگوار نظر ڈالے گا اور بنا جواب دئے آپ کے پاس سے ایسے گزر جائے گا جیسے آپ کی کوئی اوقات ہی نہیں اور اگر کسی کی طبیعت میں خارجیت کا عنصر کم ہوگا تو وہ اتنا ضرور کہہ دے گا کہ جی پتا نہیں۔کسی اور سے پوچھ لیں ۔ ہمیں یونیورسٹی جانے کا کئی بار اتفاق ہوا ہے مگر شاذ و نادر ہی کلین شیو لڑ کے دیکھے یا کوئی جو پتلون شرٹ پہنا ہوا ہو اور تو اور خواتین بھی ساری سر سے پیر تک کالے برقعے والی ہی نظر آئیں گو کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہمیں اسلامی روایات نظر آرہی ہیں اور پردے کا رواج بھی بہت اچھی علامت ہے مگر اعتراض اس بات پر کہ یونیورسٹی کے ماحول کو جنرل بنانے کی بجائےایک خاص مکتبہ فکر کے زیر اثر کر دیا گیا جہاں کوئی اکیلی عورت جانے سے پہلے خود پر آیت الکرسی کے ساتھ بے شمار دعائیں پڑھ کر پھونک لے اور دل میں منت مراد بھی مان لے کہ اگر عزت سے واپس آجاوں تو یہ یہ صدقہ کرونگی ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا تاثر کس وجہ سے لیا ہم نے یا جو ہمارے حلقہ احباب سے باتیں سنیں وہ بھی ایسی ہی کیوں ہیں ۔ اب ہم اس کی ذرا سی منظر کشی کریں تو یونورسٹی کے پاس بہت بڑا ایریا ہے جہاں مختلف ڈیپارٹمنٹس ایک دوسرے سے خاصے دور دور ہیں درختوں کی بہتات ہے جو یقینا بہت اچھی بات ہے جب اسلام آباد میں درختوں کے دشمن دھڑا دھڑ درخت کاٹنے میں مصروف ہیں وہاں کسی بھی جگہ گھنے درخت نظر آجائیں ہم خوش ہوجاتے ہیں البتہ ایک ایسی جگہ جہاں آپ کو اجنبیت کے ساتھ خوف بھی ہو کہ یہاں کھلے چہرے کے ساتھ آنے والی خواتین کو انتہائی ناگوار نظروں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایسے گھنے درخت آپ کے لئے مزید وحشت ناک بن جاتے ہیں ۔ پھر جب آپ گرتے پڑتے ڈیپارٹمنٹ تک پہنچ جائیں تو وہاں بھی اوپر نیچے خود ہی بھاگ دوڑ کرکے مطلوبہ کمرہ تلاش کریں جہاں کلیرکل اسٹاف آپ کی سہولت کے لئے نہیں بلکہ تذلیل کے لئے پہلے سے موجود ہے۔ آج تک ہم نے کبھی کسی کوکام میں مصروف نہیں دیکھا سوائے آپس میں کھسر پھسر کے۔
اس روز جب ہم ایم فل اسلامک اسٹڈیز جنرل کے داخلے لئے گئے تو ہسٹری آف اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ جہاں یہ فارم جمع کروانے تھے کو ڈھونڈنے میں خاصا وقت نکل گیا۔  فکر تھی کہ گھر پہنچنے سے پہلے بچے سکول سے واپس گھر پہنچ جائیں گے اور ماں گھر پہ نہ ملی تو پریشان ہوں گے والد صاحب تو یوں بھی گھر نہیں ہوتے تو بچوں کی فکر کے باعث ہم نے تقریبا دوڑتی ہوئی سیڑھیاں چڑھیں اور پھر جلدی جلدی مطلوبہ ڈیپارٹمنٹ تلاش کیا ۔کمرے میں داخل ہوئے تو سامنے ایک باریش صاحب ٹیبل کی پیچھے کھڑے نظر آئے جبکہ الٹے ہاتھ پر ایک بھاری بھرکم خاتون انتہائی بےزاری سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں جیسے انتظار کررہی ہوں کہ کیسے آفس ٹائم ختم ہواور وہ گھر جاکر آرام فرمائیں ۔سیدھے ہاتھ پر ایک نوجوان کسی قدر غصہ میں بیٹھا تھا اور خواہمخواہ فائلوں کو پریشان کررہا تھا کبھی یہاں سے اٹھائی تو وہاں رکھ دی اور کبھی ادھر سے ادھر ۔ سامنے کھڑے صاحب اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر رہے تھے غالبا دعا فرما رہے تھے ہم نے سانس بحال کرتے ہوئے سلام کیا اور پوچھا کہ کیا یہی اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ ہے ؟ سامنے کھڑے صاحب انتہائی معتبر انداز سے کرسی پر بیٹھ گئے غالبا ہماری آواز نہیں سن سکے ۔ ہم نے پھر قدرے اونچی آواز میں پوچھا کہ جناب  اسلامک اسٹڈیز جنرل کے داخلے یہیں ہوتے ہیں ؟ سامنے والے صاحب جن کا نام بعد میں معلوم کرنے پر نعیم قاضی بتایا گیا ، انہوں نے ہماری جانب سرسری نگاہ ڈال کر پھر ٹیبل کو دیکھنا شروع کردیا۔  چند قدم آگے بڑھے کہ شاید یہ آدم بے زار خاتون ہمیں کچھ بتائے ۔ہم نے پھر پوچھا اور اس بار ہم نے تینوں کی طرف دیکھا مگر وہی بے اعتناہی اور بےزاری البتہ نعیم قاضی کی ہلکی سی آواز آئی اور ایسا لگا جیسے مفتی منیب الرحمن کا کوئی دوسرا ورژن ہے ہمارے سامنے ۔صحیح سے سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور ہم اتنا ہلکان محسوس کررہے  تھے کہ قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گئے اور پھر عرض کی ہمیں دیر ہورہی ہے  بچے سکول سے آنے والے ہیں آپ گائیڈ کردیں تو آپ کی مہربانی ہوگی ۔ اب نعیم قاضی جھٹ بولے کہ اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو پڑھائی کس لئے کررہی ہیں بچے سنبھالیں اپنے۔ بس جی پھر کیا تھا ہمارے اندر سے خاندان کیان کا گرم خون بپھر گیا۔ صاحبو ہماری خوش مزاجی کا عالم یہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں چلے جائیں ہمارے دوست اور ملنے والے بہت کثرت سے آپ کو مل جائیںگے اور ہماری عدم موجودگی میں ہی پوچھ لیں ہمارے اخلاق اور اچھے رویے کی قسمیں تک کھا لیں گے۔ لیکن یہ بھی ضرور بتائیں گے کیانی کو خواہمخواہ چھیڑنے کی جسارت نہ کریں کیونکہ پھر یہ چھوڑنے والے بھی نہیں اور سچ ہے صاحبو ہم سونے کا نوالہ کھلا کر شیر کی نگاہ سے دیکھنے کے قائل ہیں  ۔ بس یہاں بھی ہمارے ظرف کو آزمایا جارہا تھا باوجود اس انتہائی نامناسب کلمات کے ہم نے پھر درخواست کی کہ آپ فارم فل کرنے میں رہنمائی دیں تو نعیم قاضی نے پھر اپنی بیگم کا غصہ ہم پہ نکالا اور بولا آپ فارم نہیں بھر سکتیں تو ایم فل کیا کریں گی اس بار اس کی آواز میں طنز کے ساتھ حقارت بھی تھی ہم نے پھر برداشت کا مظاہرہ کیا اور اسے کہا کہ اسوقت بہت دیر ہوچکی اور پراسپیکٹس مکمل پڑھ کر فارم فل کرنے کا وقت نہیں آپ بس ضروری کورس کوڈز اور دستاویزات کا بتا دیں تو ابھی فارم بھر کے آپ کے حوالے کر دوں اس دوران ہم نے دو ایک بار ساتھ بیٹھی سٹاف خاتون کو بھی دیکھا کہ شاید وہی ہماری حالت کو سمجھ سکے اور تائید کرے مگر وہ تو جیسے کوئی مہمان تھی جسے کسی بھی بات سے کوئی سروکار نہیں تھا اور نا ہی وہ کوئی کام کرتی دکھائی دی۔ اس کے بعد کچھ دیر اور مکالمہ ہوا اور نعیم قاضی نے اسی بدتمیزی اور طنز کے رویے کو برقرار رکھا میں مایوس ہوکر کر ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کی تلاش میں نکل پڑی۔ سامنے کی طرف ایک کمرہ  تھا میں وہاں گئی اور ایک گلاس پانی مانگا جو اس وقت  اشد ضرورت بن چکا تھا  اس بندہ بشر نے عزت سے بیٹھنے کو کہا اور انتہائی اخلاق سے پیش آیا غالبا  17 گریڈ افسر تھا اس سے درخواست کی کہ مجھے یہاں پر شکایت درج کروانے کا جو طریقہ کار ہے وہ بتا دیں تو اس نے میری شکایت پوچھی میں نے روداد سنا دی تو وہ صاحب کچھ شرمندہ سے ہوگئے اور مجھے درگزر کرنے کا کہنے لگے ۔ میں نے کہا صاحب یہ بات درگزر والی نہیں کیونکہ نعیم قاضی نے ناصرف ایک خاتون کے ساتھ نامناسب رویہ رکھا
بلکہ ایک کلرک کی بنیادی ذمہ داری کو بھی پورا نہیں کیا اور کسی بھی قسم کی معلومات اور مدد دینے سے انکار کیا۔ان صاحب نے مجھے فارم بھرنے کا کہا کہ میں آپ کی مدد کرتا ہوں جلدی سے بھرے جائیں گے فارم۔ اللہ بھلا کرے اس بندہ کا مکمل کاغذات لے کو فارم لے جاکر میں نے نعیم قاضی کو دئے کہ وہ ایک نظر دیکھ لے مگر اس نے میرے سامنے فارم اٹھا کر ایک طرف فائلوں کے ڈھیر پر انتہائی حقارت سے پھینک دئے بس یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرا داخلہ نہیں ہوسکے گا۔
انسان کو اللہ نے بہت صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اور اسے بہت سے جزبوں اور حوصلوں سے نوازہ ہے۔ مسلمان کو خصوصا امید کا دامن تھامے رکھنے کا گر دکھا دیا اور یہی وجہ تھی کہ ہم نے امید قائم رکھی کہ ہمیں کال آئے گی تو جاکر انٹری ٹیسٹ دیں گے لیکن جب کال نہ آئی اور ہم نے ادھر ادھر ہاتھ پیر مارے پتاکرنے کےلئے کہ یہ ہماری ہی بدنصیبی ہے یا اور بھی شکار ہیں اس ناانصافی کا۔ کچھ خیرخواہوں نے مشورہ دیا کہ جاکر پتا کریں تو بہتر ہے ۔ چاروناچار پھر  علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا رخ کیا اور جب وہاں پہنچے تو بلاک میں تبلیغیوں کا رش دیکھ کر دل خاصا پریشان ہوا کہ اگر پھر درس نظامی والوں کو ہی سیلیکٹ کرنا ہے تو ہمارے جیسوں کے فارم کیوں جمع کئے ۔یہ ہزاروں کی تعداد میں پراسپیکٹس کیوں بیچے گئے ایک داخلہ فارم کی قیمت 500 ہے اگر محض  500 کو ضرب کریں تو جواب  250000آتا ہے ۔ اب یہ کس کی جیب میں جاتا ہے کسے خبر؟
بحرحال جب ہم وہاں پہنچے اور ہر طرف صرف مرد حضرات نظر آئے اور وہ بھی وہی مخصوص حلیہ اور رویہ کے ساتھ ۔ ہمارے جیسے بےخوف اور دبنگ انسان پہ بھی ہیبت طاری ہوگئ جو منظر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہسٹری آف اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کا دیکھا ایک لمحےکو ایک سرد لہر ہمیں اپنے بدن میں دوڑتی محسوس ہوئی کہ یہاں تو کوئی خاتون ہی نظر نہیں آتی اور جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کی تنگ نظری سے کون واقف نہیں ان کی نگاہ میں عورت کی عزت محض چاردیواری سے منسوب ہے حالانکہ یہ بھی ڈھکوسلا ہی ہے درحقیقت تو یہ عورت کو سوائے کھیتی کے دوسرا کوئی اسٹیٹ دینے کو تیار ہی نہیں جتنے بھی ماڈرن ہوں ان کے یہاں عورت کو سنجیدگئ سے نہیں سنا جاتا ۔  بحرحال ہم نے رش سے بچتے بچاتے پھر اس سپریٹنڈنٹ کے کمرے کا رخ کیا اور ان سے پوچھا کہ ہمیں کال نہیں آئی ۔ وہ صاحب ہمیں پہچان گئے اور بولے کہ میں تو سمجھا کہ آپ یہاں ٹیسٹ دینے آئی ہونگی اورصبح رٹن ٹیسٹ میں بھی آپ نظر نہیں آئیں ۔ یہ تو پتا ہی نہیں تھا کہ آپ کو اطلاع ہی نہیں دی گئ۔ پھر ہم نے درخواست کی کہ ہمیں ڈین پروفیسر ڈاکٹر محی الدین ہاشمی صاحب سے ملایا جائے تاکہ پتا چلے کہ ماجرہ کیا ہے؟ صاحبو قصہ مختصر ایک بار پھر ہمیں کلرک نعیم قاضی کئ ماتھے لگنا تھا اور جیسے ہی ہم اس کمرے میں داخل ہوئے آٹھ دس افراد کمرے میں پہلے سے موجود تھے نعیم قاضی ہمیں دیکھا تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ نے ہم پہ یہ راز کھول دیا کہ
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ہمارے فارم تو اسی ظالم کے ہاتھ میں تھے کیا خبر کیا کیا؟ پروفیسر ڈاکٹر محی الدین ہاشمی صاحب تشریف لائے۔مگر بہت عجیب منطق پیش کی کہ ہم نے تو صرف فرسٹ ڈویژن کو سیلیکٹ کیا ہے اس بارہوسکتا ہے اسلئے آپ سیلیکٹ نہ ہوئی ہوں ۔ حیرت ہے کہ درس نظامی والوں کے ساتھ ہمارا مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے وہ تین سے 7 سال تک شریعہ کی ڈگری پر لگاتے ہیں تو ہم نے روایتی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے مقابلے پر ہم بھی اتنی ہی مہارت سر امتحان دے سکتے اس نامنصفانہ رویے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور ہم نے بھی اب یہ طے کر لیا کہ یہ دوغلہ بوسیدہ نظام تو ہم مزید نہیں چلنے دیں گے جو بن پڑی کریں گے ہمیں ذلیل و خوار کردیا توکیا ہمیشہ طالبعلموں کے مستقبل سے ایسے ہی کھیلتے رہیں گے ؟ ایسا تو نہیں ہونے دیا جائے گا اندھیر نگری کا قانون بدلنا ہوگا ۔۔بحرحال ہم ایک بار پھر یونیورسٹی سے رسوا ہوئے۔ کچھ دیر انچارج کے کمرے میں بیٹھے کہ کسی سے بات کی جائے اس معاملے پر کوئی بہتر مشورہ مل جائے۔ ایک دوست سے رابطہ کیا انہوں نے کہا کہ آپ کو وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی کا نمبر دیتا ہوں ان سے بات کرلیں ۔ ہمارے خیر خواہ کاتعلق بھی صحافت سے ہے اور اللہ نے ان کو کالم نویسی اور رپورٹنگ کے فن میں کمال مہارت عطا فرمائے ہے ۔ بہت کم لوگوں کو ایسے مقام پر بھی عاجز و انکسار پایا ۔محترم نے شاہد صدیقی کی شان میں اتنے قصیدے پڑھے کہ لگا جیسے یہ ان سے نا صرف متاثر ہیں بلکہ خاصی محبت بھی رکھتے ہیں ان کے لئے۔ ہمیں کہا کہ انتہائی نفیس اور شاندار آدمی ہیں آپ کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا ضرور ازالہ کریں گے ہماری بات ہوگئی آپ بھی کال کر کے مل لیجئے ۔ صاحبو ہم بھی خوش ہوئے کہ چلو ہمارے لیے محترم نے شاہد صدیقی کو فون کیا اور شکایت کی اور ان کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ ضرور انکوائری ہوگی اور مسئلہ کا حل۔نکالا جائے گا ۔ ہم نے اپنے خیر خواہ کی تاکید کے مطابق وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شاہد صدیقی جو معروف و مقبول عرفان صدیقی کے بھائی بھی ہیں اور گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک و قوم کو جو بھاشن دیا جاتا رہا نااہل سابقہ وزیر اعظم نوازشریف کی جانب سے اس میں ان کا حصہ ایسے ہی تھا جیسے ایک بدن میں دماغ عرفان صدیقی تھے تو زبان نواز شریف ۔ البتہ ہمیں بھی ہمارے محترم دوست اور خیرخواہ کی طرح اس بات کا یقین تھاکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں یقینا شاہد صدیقی جیسے مہذب اور ہنر شناس دکھتے ہیں ویسے ہی ہوں گے۔ تو صاحبو ہم نے انہیں فون کیا مگر کسی نے نہیں سنا تو اس خیال سے کہ بڑے لوگ ہیں ہر کسی کا فون نہیں اٹھاتے ہونگے تو ہم نے ان کو ایک میسج لکھ بھیجا اور اپنے محترم دوست کا حوالہ بھی دے دیا۔پھر دوبارہ فون کیا ۔جواب پھر نہ ملا تو سوچا
مصروف آدمی ہیں کہیں کچھ کرتے ہوں گے۔اگلے روز پھر کال کی تو جواب نہ آیا تو اب ہمارے ظرف پر ضرب پڑنے لگی کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ ہم نے اتنی بار رابطہ کیا اور بقول ہمارے خیرخواہ " شاید صدیقی صاحب بہت اعلی ظرف انسان ہیں" تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے کال اور میسج دونوں ہی نہ دیکھے ہوں اور اگر اتنی ہی مصروفیات تھیں تو ہمارے محترم کو ہی منع فرما دیتے کہ ہمارے پاس ابھی فرصت نہیں تاکہ وہ بچارے بھی شرمندہ نہ ہوتے ۔ یہ بڑے مان کی بات تھی کہ جس طرح انہوں نے ہمیں شاہد صدیقی  سے رابطہ کرنے کیلئے کہا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان سے بہت محبت سے پیش آنے والے شاہد صدیقی ان کی نظر سے اوجھل ہوتے ہی روایتی بیوروکریٹ بن جاتے ہیں اور عام آدمی کو قطعا کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ وہ تو اس قدر غیر یقینی کا شکار ہوئے کہ بار بار ہم سے پوچھتے رہے کہ۔کیا واقعی آپ نے فون کیا تھا شاہد صدیقی کو؟ اور کیا آپ نے میسج میں میرا حوالہ دیا ؟ ہمیں افسوس ہوا کہ ہماری وجہ سے ہمارے محترم کے تصور کو جو انہوں نے شاہد صدیقی کے متعلق قائم کررکھا تھا کچھ ٹھیس سی لگی۔ہم نے تمام کالز کا ریکارڈ اور میسج کا سکرین شاٹ لے کر انہیں بھیج دیا۔ اب ہماری طرف سے شاہد صدیقی صاحب سے رابطہ کرنے میں کسی قسم کوتاہی کا شک تو دور ہوگیا۔ ہم نے ساتھ ہی اپنے خدشات کا اظہار بھی کردیا کہ آپ دل نہ جلائیں یہ اعلی عہدوں پر تعینات افراد عام آدمی کو اہمیت نہیں دیتے اور نا ہی ان کی نگاہ میں غیر معروف افراد کی کوئی خاص حیثیت ہے۔ ہم نے زندگی کے تجربات میں عہدوں کی طاقت اور پیسے کی ہوس کو شخصیات سے کھیلتے دیکھا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ مضبوط اعصاب کیسے انسان کو تھکا دیتے ہیں کہ وہ جبلتوں کے آگے بندھ باندھتے باندھتے خود بھی کسی نازک سی لہر کے ساتھ بہہ جاتے ہیں کیسے کیسے طوفان قطروں میں بدل جاتے ہیں اور کیا عالی شان محل نما کھنڈر میں ڈھل جاتے ہیں ۔ گزشتہ چند برسوں کی زندگی کے نشب و فراز نے ہمیں زمانے کے وہ پس منظر دکھائے کہ ہمیں آگاہی عذاب لگنے لگی لہجوں کی مٹھاس کے پیچھے چھپا بغض و عناد دکھنے لگا خلوص کے لبادہ میں مفاد محبت کے دامن میں ہوس اور خیرخواہی میں چھپی دیمک کو ہم نے جڑوں کو جاٹتے دیکھا ۔ اب ہم انہیں کیا سمجھائیں کہ صاحب آپ کا مرتبہ آپ کی شخصیت سے زیادہ اہم ہے یہاں ۔ آپ کے قلم کی جنبش کا خوف ہے جسے ادب مروت اور رواداری جانتے ہیں آپ ۔ ہم نے پروٹوکول کی حد سے تحقیر کی نگاہ تک خوب مطالعہ کیا ہے آپ کے اس ست رنگی سماج کا جہاں تیز رنگ میں رنگی شے کو نارنگی کہا جاتا ہے ۔۔
ہمیں افسوس ہے صاحب ۔۔ ہم رو میں بہہ جانے والی لہر نہیں بن سکے نا ہوا کے رخ پہ چلتی ناو۔ اللہ نے جتنی ہمت عطا کی ہے اسی کو بروئےکار لائیں گے اور ظلم چاہے جس سطح پر کیا جائے ڈٹ جائیں گے ۔ اور ہم نے طے کرلیا کہ مزید ناانصافی نہیں ہونے دیں گے جو اہل نہیں وہ نا اہلیت کی مہر لگوانے کو تیار رہیں ۔ ہم اپنے زور بازو پہ لڑیں گے یا جیتیں گے اور یا کٹ مریں گے ۔ ہم باز تو نہیں آئیں گے جستجو جاری رکھیں گے ۔ تو صاحبو ۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان میں اختیارات کا ناجائز استعمال اور وسائل کا غلط استعمال عام سی بات ہے لیکن عوام کا اس کے خلاف آواز نہ اٹھانا خطرناک بات ہے جس کے نتائج ہم نے بھگتے ہیں اور بھگت رہے ہیں البتہ گذشتہ کچھ عرصے میں کہیں کہیں آواز اٹھتی ہے تو مکمل نہ سہی کسی حد تک ازالہ بھی ہو ہی جاتا ہے ۔
ہم بھی یہ طے کر چکے کہ جو کچھ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ہورہا ہے اور جس طرح ہمیں اس سے تکالیف مشکلات اور ہزیمت کا سامنا رہا آئیندہ کسی دوسرے کو یہ سب نہ برداشت کرنا پڑے ۔

No comments:

Post a Comment