Wednesday, 1 November 2017

تصادم حل نہیں۔

"محترمہ آپ عمران خان کے بیان کی تائید کرتی ہیں اور ہمارے محبوب لیڈر نواز شریف کی کارکردگی سے جلتی ہیں"۔ یہ الزام ن لیگ کےحامی آئے روز دہراتے نظر آتے ہیں لیکن شاید جو سرخاب کے پر ان کے لیڈر کو لگے ہیں وہ میری خاصی تیز نظر دیکھنے سے قاصر ہے۔
  کسی زمانے میں ہم بھی سیاسی کارکن تھے۔ خوب ریلیاں اور احتجاج کرتے ۔الیکشن مہم میں دور دراز علاقوں میں جاتے اورعوام الناس کو بتاتے کہ خدا کے بعد ان کا مولا یہی بندہ ہے جو ان کے تمام مسائل کا حل لے کر آسمان سے صرف ان کی خدمت کے لئے اترا ہے ۔ خوب تعریفیں کرتے اور دنیا بھر کے نیک عمل اور ترقی کے کاموں کو ان سے منسوب کرکے ووٹ صرف ہمارے لیڈر کا حق ہے ورنہ کوئی دوسرا آیا تو تمہیں پیس کر رکھ دے گا ، کا ڈراوہ دیتے تھے۔
عمران خان میرا لیڈر نہیں اور نہ میں پٹواریوں کی طرح اتنی بے حس ہوں کہ تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ کے قانون کو بدلنے کی گھناونی سازش پر ان کی طرح خاموش رہوں ۔
کہتے ہیں کہ فوج ہماری دشمن ہے اور جمہوری حکومت کو مستحکم نہی دیکھنا چاہتی۔فوج کو فراغت ہے اسلئے وہ سیاست میں مداخلت کرتی رہتی ہے جبکہ مجھے اس کے برعکس دیکھنے کو ملا۔
جس ملک میں فوج اندر باہر دشمنوں سے برسر پیکار ہو وہاں سیاستدان ڈان  لیک جیسی سازشیں عین اسوقت کریں جب عوام اور فوج ان سے مدد کی توقع رکھتی تھی۔جب ہم پوری دنیا کو یہ بتانے میں مصروف تھے کہ یہ ملک آپ کو تحفظ فراہم کرے گا آپ یہاں سرمایہ کاری کریں اور آئیے ہماری وطن عزیز کے خوبصورت علاقہ جات کی سیر کیجئے ایسے مناظر اور تفریح آپ کو دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں مل سکتی۔ ایسے میں جب ہم یہ بیانیہ دے رہے تھے کہ امن کے قیام کے لئے ہماری کوشش سنجیدہ ہے اور ہم نے دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا ۔تبھی اچانک ملک کے سربراہ کی طرف سے ہمارے دشمنوں کے بیانیہ کی تائید آگئی اور دنیا کو بتایا گیا کہ خبردار کسی دھوکے میں نہ رہیں ہماری فوج خود دہشتگردوں کا دست و بازو بنی ہوئی ہے اور خبردار آپ کوئی سرمایہ کاری اس ملک میں نہ کریں بلکہ اگر کوئی کاروبار کرنا ہے تو خاندان شریفہ سے کیجئے کیونکہ اس میں آپ کے مفاد کو اس ملک کے مفاد پر ترجیح دی جائے گی ۔
گو کہ ہمارے اعصاب مضبوط ضرور ہیں۔ہم نے جوان لاشے کندھوں پر اٹھائے اور خاموشی سے دفن کردئے ۔ہم نے اپنی دھرتی پہ گرا معصوم عوام کا لہو اپنے دامن سے صاف کیا اور آنکھوں سے بہتے آنسوؤں سے اسے دھوتے رہے۔ہماری ہمت اور حوصلے نے دنیا کو حیران کئے رکھا  مگر سچ تو یہ ہے کہ اپنوں کے گھاؤ دلوں کو چھلنی کرتے ہیں۔زخمی بدن حوصلہ بلند کرتا ہے مگر زخمی دل حوصلہ پست کرتا ہے
"ایک ہلکا زخم تمہیں زیادہ بہادر بنا سکتا ہے لیکن شدید زخم تمہارے حوصلے پست کرسکتا ہے"
مجھے یاد ہے کہ ڈان لیکس والے معاملے پر دشمن میڈیا کو خوب موقع مل گیا تھا اور وہ رات دن سوشل میڈیا پر ہماری فوجی جوانوں کے جذبات مجروح کرتے رہے اور انکی غیرت اور قربانی کو گالیاں نکالتے رہے ۔جمہوری بادشاہ کی بیٹی شرارتوں اور وزارتوں کے کھیل میں فوج کے کردار پر انگلیاں اٹھاتی رہی  اور اسے کے ساتھ مفاد پرست ٹولہ کسطرح وزارتوں کے لالچ میں قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے رہے ۔کیسے انڈین میڈیا نے تمسخر اڑایا اور نوجوان فوجی سوشل میڈیا پر اور ان کے طنز و مزاح پر کھولتے رہے ۔ کسطرح سیاستدانوں کے بیانات نے رینک اینڈ فائل میں بے چینی اور نفرت کو ابھارہ ۔ چیف اور اعلی عسکری قیادت کسطرح اپنے جوانوں کو مطمئین کرنے کی خاطر سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ فوج میں انتشار نہ پیدا ہوکے معاملے پر بھی مصروف رہی ۔۔ الغرض جہاں ریاست کو مل کر کام کرنا تھا وہاں انہوں نے ریاست کو تباہی کی طرف دھکیل دیا ۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ دنیا بھر ہم تماشا بن گئے ۔ہمارے لیڈران کی  عیاشی اور کرپشن کے قصے ہمارے وطن عزیز کے نام حصہ بن گئے اور دنیا ہمیں پنامہ کرپشن کی مثال کے طور پر استعمال کرنے لگے ۔ دنیا بھر میں لوگوں کو حیرت ہوتی کہ یہ ملک کون چلا رہا ہے جہاں سبھی اس کو کھانے میں مصروف ہیں وہاں کون سی ایسی طاقت ہے جو اب تک اس کو بچائے ہوئے ہے اور پھر مجھے یاد آیا کہ صدر ایوب کے زمانے میں غالبا 60 کی دہائی کا ذکر ہے جب ایک فارن ڈیلگیشن آیا اور اس ملک کا نظام دیکھ کر ششدر رہ گیا اور ان کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ واقعی کوئی ان دیکھی قوت موجود ہے دنیا پہ جو اس ملک کو بھی چلا رہی ہے جس کا کوئی نظام دوسرے کے ساتھ مفاہمت کرتا نظر نہیں آتا ۔آج بھی ہم وہی بات دہرائیں تو کیا حرج کہ اس ملک کو صرف اللہ کی ذات نے ہی سنبھالا ہوا ہے ورنہ جس طرح ہم پی آئی اے کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح یہ طے کر لیا گیاہے کہ قومی ائیر لائن کو ہر صورت بند کرنا ہے اسی طرح وطن عزیز کے خلاف بھی سازش بنی گئی کہ اس کے بنانے والوں کو سزا دی جائے اور ہر صورت اس کا وجود خطا ثابت کیا جائے  (ناعوذباللہ )اور ہم نے پچھلے آٹھ دس برسوں میں اس کی واضح مثال دیکھی۔
2 سال قبل سعودیہ میں ایک انڈین فیملی فرینڈ نے نوازحکومت  کی بھارت کی اجارہ داری کے قیام اور اس خطے میں اس کو چوہدری لگانے کے ایگریمنٹ کا بتایا تھا انہوں نے انڈین کانگرس کے کچھ حوالے دئے تھے تو میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کررہے ہیں ۔پھر طاہر القادری نے بارہا الزام لگایا کی نواز شریف ملک کے لئے خطرہ ہے یہ قومی اثاثوں کے ساتھ ایٹمی اثاثوں کو بھی دشمنوں کے حوالے کرنا کا معاہدہ طے کر کے آیا ہے یہ مشرف سے بدلا لینے کے چکر میں پوری قوم کو بیچ دے گا ۔ ہم سنتے رہے مگر پوری قوم یہی سوچتی رہی کہ اس دینی عالم کو کیا پتا سیاست کا مگر آج حرف حرف طاہرالقادری کی بات سچ ثابت ہورہی ہے آج پاکستان ایک فیلئر اسٹیٹ بننے کی طرف تیزی سے جارہا ہے ایسے میں صرف دو اداروں سے عوام کو کچھ امید بندھی کہ یہ سنبھال لیں گے اور عوام ان کے ساتھ جا کھڑی ہوئی ۔عدلیہ نے تاریخ میں پہلی بار تمام اندازے غلط ثابت کردے کہ انصاف نہیں ہوگا مگر وہ ہوتا نظر آنے لگا ۔۔ فوج نے پہلی بار مارشل لاء کو رد کردیا جبکہ بارہا سیاستدانوں نے ان کے گریبان پکڑے اور ان کو مجبور کیا کہ وہ مارشل لاء لگا دیں تاکہ فحش جمہوریت کی ناکامی اور ملکی معیشت کی بربادی فوج کے کندھوں پر پھینک کر یہ سرخ رو ہوجائیں کہ ہمیں ایک بار پھر فوج نے کچھ نہی کرنے دیا ۔ حیرت ہے ان کم عقل لوگوں پر جو موازنہ کرنے کی کوشش بھی نہی کرتے کہ کون سنجیدگی سے کام کررہا ہے اور کون محض اپنی ذات کے مفاد کیلئے سب برباد کررہا ہے ۔ شاہد خاقان عباسی کو اللہ نے موقع دیا کہ وہ اپنے والد کی طرح اپنی عزت میں اضافہ کرسکیں مگر افسوس کہ اس بندہ بشر نے بھی عوام کو مایوس کیا اور ڈکٹیشن لینے کے سوا کچھ نہ کیا آج عباسی صاحب کی پوزیشن بھی نواز شریف کی طرح ناپسندیدہ شخصیات میں شامل ہو چکی ہے جتنا موقع نواز شریف کو عدلیہ نے دیا کہ وہ اپنی تصادم کی پالیسی سے پیچھے ہٹ جائیں اور نرمی سے کام لیا گیا اس رویے نے خود عدلیہ کو عوام کی نگاہ میں مشکوک کردیا اور آج شرجیل میمن نے ایک اہم سوال اٹھا یا کہ جس طرح نیب نے مجھے گرفتار کیا اور مجرم کی طرح برتاو کیا ۔۔ کیا نیب کا قانون نواز شریف کے لئے بھی ویسا ہی ہے ؟ اور سچ تو سبھی کو معلوم ہے کہ یہ لاڈلے بنے رہے اور اسقدر رعایت دی گئی کہ پھر یہ بگڑے ہوئے بچے بن گئے اور انہوں گھر کا نقصان کرنا شروع کردیا اب سزا تو بنتی ہے لیکن عوام کا کلیجہ تو تب ٹھنڈا ہوگا جب جنرل مشرف سے بھی باز پرس ہو گی ان الزامات کی جو ان کے سر لگے اور زرداری اور فریال تالپور کو بھی احتساب کے دائرہ میں لایا جائے گا جب رانا ثناء کے سر عام قتل اور ڈاکٹر عاصم کو دہشتگردوں کا ڈاکٹر بننے پر گرفتار کیا جائے گا جب پی آئی اے کا جہاز بیچنے والے افراد کو بھی حساب دینا ہوگا ۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ عدلیہ اپنی آنکھوں پر انصاف کی پٹی باندھ لے اور آئین پاکستان کی روشنی میں تمام الزامات کا جائزہ لیں ۔ہم تو چاہتے ہیں کہ اداروں میں موجود کرپٹ افراد کو بھی گھسیٹ کر نکالا جائے جو معزز اداروں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ جب جرم سامنے نظر آئے تو پھر آنکھیں موندھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ ہمیں سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے جو فلحال کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ ہمیں عوام کو شعور دینا ہوگا کہ وہ کسی اسٹیبلشمنٹ کے کسی فیصلے کو قبول نہ کریں اور ہمیں عوام کو یہ بھی شعور دینا ہوگا کہ ملک کی عزت اور سلامتی کے خلاف کسی کے آلہ کار نہ بنیں اور ذاتی مفادات کی خاطر اپنا ووٹ نہ بیچیں۔ہمیں آج یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے ماضی میں جھانکتے رہنا ہے یا سر اٹھا کر آگے کو بڑھنا ہے ۔ حکومت اور فوج کو مل کر وطن عزیز کی بقا و خوشحالی کا بیڑا اٹھانا ہوگا ۔ دونوں ایک ہی آئین کے تابعدار ہیں ان کی کھینچا تانی کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں ۔ تمام تر صورتحال میں تصادم کا الزام حکومت پر عائد اسی لئے کیا جاتا ہے کہ وہ تمام اداروں کی سربراہ ہے اور اگر حکومت خود اپنا کام صحیح کرنے لگے تو دوسروں سے بلیک میل نہ ہو ۔ جب خود کمزوریاں پال لیں تو کسی کا کیا قصور ؟ بحرحال عوام اس وقت سیاستدانوں کو معاف کرنے کے حق میں نہیں جبکہ مجھے اب بھی نواز شریف کے ساتھ نرم رویہ نظر آتا ہے ۔ دیکھئے کل کی تاریخ کیا بتاتی ہے کہ آئیندہ کیا ہونے جا رہا ہے ۔

No comments:

Post a Comment