بچپن میں جب ہم سکول جاتے تھے تو تقریبا آٹھ سے دس کلومیٹر کا فاصلہ تھا ۔
ہمارے سرکاری سکول میں دوشفٹیں لگتیں۔صبح چھٹی جماعت سے لے کر دسویں تک کی طالبات پڑھیں اور دوپہر کی شفٹ میں پہلی سے پانچویں جماعت کی بچیاں جاتی تھیں ۔ سکول کی زمین کوئی چار پانچ کنال تک ہوگی جس کے ایک حصے پر لڑکیوں کا اور دوسرے حصے پر لڑکوں کا سکول بالکل ساتھ جڑے ہوئے تھے جیسے ایک ہی بڑی سی حویلی کے دو حصے ہوں۔
اکثر لڑکوں کی گیند ہماری کلاسوں میں آجاتی اور وہ لینے کیلئے آتے جاتے رہتے تھے۔ ہم چھوٹے تھے تو دوسری شفٹ میں سکول جاتے اور جو بس کا کرایہ ملتا اسے بچانے کی خاطر کئی بار گھر سے سکول تک پیدل ہی چل پڑتے بلکہ شاذ و نادر ہی بس پہ بیٹھتے ۔اور اگر بیٹھ بھی جاتے تو ہمارے مراسم کنڈیکٹر سے ایسے اچھے تھے کہ وہ عموما کرایہ لیتا ہی نہ تھا ۔ اور کرایہ تھا بھی کتنا بس آٹھ آنے یا ایک روپیہ۔ لیکن آٹھ آنے کا ایک سموسہ آجاتا تھا اس زمانے میں۔
واہ ! کیا دن تھے ۔ کوئی فکر نہیں تھی ۔ دو چھوٹی چھوٹی بچیاں ساتھ لے کر ہم بے خطر ویرانوں ، اڈوں، خالی عمارتوں سے گزر کر سکول پہنچتے ۔ کبھی کسی نے نہ روکا ۔کسی نے گندی نگاہ نہ ڈالی ۔کوئی شیطان نہ جھپٹا تھا ۔ اس دور میں انسانی نفس ایسا گمراہ نہیں تھا جیسا آج ہے جو ننھےمعصوم بچوں کو بھی ہوس کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
تب اگر کوئی ہمیں روکتا تو صرف ڈانٹنے کیلئے کہ اتنی دیر سے ادھر کیوں پھرتی ہو گھر جاو۔ اجنبی بھی ہمیں اپنوں سا لگتا تھا۔ اکثر ہمیں لفٹ مل جاتی اور ہماری کالونی کے گیٹ پر کوئی انکل اتارتے ہوئے ہمیں ڈھیر ساری نصیحتیں کر جاتے کہ ایسے اکیلے اتنی دیر شام تک باہر نہیں رہتے ۔ اور ہم سر ہلاتے جیسے سمجھ لیا اور آئیندہ نہیں کریں گے ۔
تیسری جماعت میں تھے جب ائیرپورٹ کے پاس انکل نے ہمیں روکا ۔ان کے ساتھ دو بچیاں تھیں ایک ہماری عمر کی اور دوسری اس سے بھی چھوٹی ۔
وہ ہم سے سکول کا پوچھنے لگے ہم نے ان کو بھی ساتھ لیا اور سکول ایڈمن تک پہنچا دیا ۔ اس کے بعد ہمیں یاد نہیں کہ کب ہم نے ان سے گھر کا پتہ اور آنے جانے کا شیڈول سیٹ کیا ۔بس اتنا یاد ہے کہ اس کے بعد ان کی بچیاں بھی ہمارے اس چھوٹے سے گینگ کا حصہ بن گئیں ۔
کشمیر سے آئی ان بہنوں کو اردو بھی نہ آتی تھی ۔ ہم نے اردو سکھانے کے ساتھ انہی وہ تمام گر بھی سکھا دئے جن کی بناء پر ہم ہر جگہ دادا گیری کرتے پھرتے تھے۔ مینا اور بینا نے سیکھنے میں ایسی جلدی دکھائی کہ ہم نے باقی سست اور کاہل بچوں کو خیرباد کہہ چھوڑا اور تین یار والی کہانی شروع ہوگئی۔
ہم گھر سے نکلتے تو سوسائٹی کے باہر سڑک کے دوسری طرف ایک بہت بڑا سا پلاٹ خالی پڑا تھا جس کی چار دیواری اور ایک بہت مضبوط گیٹ لگا ہوا تھا جس پہ اندر کی طرف سے تالا لگا ہوا تھا ۔ ہم شاٹ کٹ کے چکر میں اس گیٹ پر چڑھتے اور دوسری طرف چھلانگ لگا جاتے ۔ دیوار پر خاردار تار ہونے کے باعث اس پر چڑھنا ممکن نہ تھا۔
مینا اور بینا کو شروع میں مشکل ہوئی لیکن دو چار بار گرنے کے بعد اب وہ چڑھ جاتیں اور دوسری طرف ہم انہیں اتار لیتے تھے۔ اس خالی پلاٹ میں بہت جھاڑیاں تھیں ۔ ایک طرف کچھ سکریپ کا ڈھیر لگا رہتا ۔ وہاں شاید مدتوں کوئی گیا نا تھا اسلئے ویرانی ڈیرے جمائے رہتی۔
پلاٹ کے اختتام پر کسی نیک خاتون کا مزار تھا جہاں عموما دو چار عورتیں مرد بیٹھے رہتے ۔ خوب صاف ستھرا مزار بہت پر اثر تھا ۔ بڑا سکون تھا وہاں ۔ دوپہر کی شدید گرمی میں ہمارے لئے ٹھنڈی چھاں اور اکثر کچھ نہ کچھ کھانے کو بھی مل جاتا اسطرح مڈوے ہم مزار کے گھڑوں سے پانی پی کر آگے بڑھ جاتے۔
یہاں سب سے مزیدار قصہ بنتا ہے جب ہم کمرشل جہازوں کے ہینگر سے گزرتے اور اکثر ہمیں جہاز کے دروازے کھلے ملتے تو ہم اندر کا جائزہ بھی کر آتے ۔ ایک روز ہم پکڑے گئے ۔ سٹاف ہمیں دیکھ کر سر کھجارہا تھا تو کوئی منہ میں انگلی دبائے حیران نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ آپ لوگ یہاں کیسے آگئے؟
وہاں سے ۔۔
ہم نے ایک چھوٹے سے آدھے زمین میں دھنسے دروازے کی طرف اشارہ کیا جسکی سلاخوں میں اتنا فاصلہ تھا کہ ہم جیسے بلونگڑے نکل سکتے تھے۔ وہ بچارے ہماری شکل دیکھ رہے تھے اور بار بار اس دروازے کو دیکھتے جاتے کہ اتنا گیپ نظر تو نہیں آتا تو یہ جنات نما بچے کیسے نکل آئے ۔
بحرحال ہمیں سمجھا بجھا کر بھیج دیا گیا جیسے ہم نے سمجھ لیا ۔۔۔
اگلے روز جب وہاں آئے تو دروازہ زنجیروں سے جکڑا نظر آیا اور ہمارا راستہ بند ہوگیا لیکن ہم کہاں باز آنے والے تھے ۔
سوچ لیا کہ یہ راستہ تو بہت شاٹ کٹ تھا ایسے کیسے جانے دیں ۔
اس روز تو درگزر کیا لیکن اگلے دو روز ہم نے اس علاقے کے آگے پیچھے ہر طرف خوب طواف کئے اور ایک روز باقاعدہ چھٹی ماری سکول سے ۔ بستے مزار میں ہی رکھے اور اس جہازوں کے ہینگر کا خوب جائزہ لیا۔
بینا ڈرتی رہی کہ ہم پکڑے گئے تو انکل نے کہا تھا کہ پولیس کے حوالے کرینگے لیکن ہم اسے تسلی دے کر آخر ایک راستہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے ۔
لیکن اب شام ہورہی تھی ۔ ایک دو چکر لگا کر تسلی کرلی کہ یہاں کسی کی نظر نہیں پڑے گی ۔ ایک دیوار کے ساتھ ایک کھجورکا درخت ایسے جڑا تھا کہ اس کے ذریعے اس ہینگر کی اونچی دیوار پہ چڑھا جا سکتا تھا ۔
واپسی پر ہمیں خیال آیا کہ ہم کبھی اس طرف پہلے نہیں آئے تو دیکھنا چاہیے کہ یہ راستہ کدھر جاتا ہے ۔
وہاں کچھ بڑی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں ۔ کچھ سوٹڈ بوٹڈ لوگ نظر آئے جو بہت ہی حیران نگاہوں سے ہمیں دیکھتے رہے ۔ شاید سوچتے ہوں گے کہ یہ جنات کی فوج اسوقت یہاں کیا کررہی ہے لیکن در اصل ہمیں بعد میں پتا چلا کہ وہ جگہ صرف مخصوص افسروں کی پارکنگ تھی جن کے وہاں دفاتر تھے اور یہ عام لوگ نہیں تھے ۔ ائیرپورٹ سیکیورٹی کا ایک خاص ونگ تھا جو اسطرح غیر آباد جگہ کام کرتا تھا۔
اس روز تو کسی نے کچھ نہ کہا اور ہم اپنی عادت سے مجبور اس طرف نکل آئے ۔ بینا اب بھی ڈر رہی تھی کہ یہ سنسان سا علاقہ ہے کہیں کوئی سرکٹا یا بھوت ہمارے پیچھے نہ لگ جائے ۔
کیسا زمانہ تھا جب ہمارے وہم و گمان میں یہ خوف نہیں تھا کہ کوئی ہم جیسا انسان ہی ہمیں پکڑ لے گا ۔ کوئی انسان ہمیں تکلیف دے گا یا درندگی کا نشانہ بنائے گا ۔ ایسا تو تصور بھی اس زمانے میں کہیں موجود نہ تھا ۔ زیادہ سے زیادہ اس بات کا خوف تھا کہ کوئی بچوں کو پکڑ کر گدا گری کیلئے استعمال نہ کرے ۔ یہی ڈر ہوتا کہ ہاتھ پاوں توڑ کر بدمعاش لوگ فقیروں کے حوالے کردیتے ہیں جو بھیک منگواتے ہیں ۔
دوسرا خوف سرکٹے کا ہوتا تھا جس کے قصے سنا سنا کر ہماری سہیلیاں ہمیں ڈراتی رہتی تھیں کہ انہوں نے نالے کے پاس ایک بنا سر کے آدمی کو دیکھا جو خون میں لت پت ان کے پیچھے ایسے بھاگ رہا تھا جیسے دیکھ رہا ہو ۔ کبھی سنتے کہ رکشہ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو سواری یہ دیکھ کر بے ہوش ہوگئی کہ اس کا تو سر ہی نہیں وغیرہ وغیرہ ۔
بس بھوت پریت کی باتیں۔ خالی کوٹھیوں کے قصے جن میں بد روحیں آباد تھیں اور لوگوں کا خون پی جایا کرتی تھیں ۔ ہم بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور آئے روز کسی نہ کسی بھوت بنگلے کا پوسٹ مارٹم کرنے اس میں کود جایا کرتے ۔ عموما بینا کو ہی گھسیٹ لیتے تھے ساتھ لیکن پھر وہ تھوڑی سمجھدار ہوگئی تو اس نے اپنا گینگ بنانا شروع کردیا۔ بحرحال اس روز ہم نے ایک نیا راستہ دریافت کیا جو باقی تمام راستوں سے مختصر بلکہ یوں کہیں کہ اگر وہ سڑک جو ایک دیوار کے ساتھ بند کردی گئی تھی کھول دی جاتی تو ہماری کالونی کے عین سامنے کھلتی اور ہمارا اتنا لمبا چکر بچ جاتا ۔ اب وہاں دس فٹ اونچی دیوار تھی جس پر چڑھنا ممکن نہ تھا لیکن وہاں ایک طرف کچھ ملبہ اسطرح پڑا تھا کہ ہم بچتے بچاتے نصف دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئے آگے جانے کیلئے ہمیں شوز اتار کر دوسری طرف پھینکنا پڑے ۔ پاوں جما کر ہم چڑھ گئے تو بینا اور چھوٹی مینا کو بھی گھسیٹ لیا ۔ دوسری طرف اتارنے میں بھی مدد کی اور خود نیم کے ایک درخت کی شاخ کا سہارا لیا جو کچھ فاصلے پر موجودتھا۔
تھوڑی دیر میں گھر پہنچ گئے البتہ مغرب ہوچکی تھی اور ہمارے یونیفارم پر لگی مٹی اور گرد نے ہمارا بھانڈہ پھوڑ دیا ۔ ڈھیر ساری گالیاں سنیں ۔لیکن پتا نہیں ایسا کیا تھا کہ کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا ۔
کچھ دیر بعد پھر باہر جہانگیر ، فیاض، مون، صائمہ، شازیہ، مریم، فرحان وغیرہ بلانے آئے اور ہم کھسک گئے ۔ خوب کھیلے پٹو گرم ہمارا پسندیدہ کھیل تھا ۔ خوب زور زور سے ہم گیند مارتے تھے جسے لگ جاتی وہ رات اس کروٹ سو نہیں سکتا تھا ۔ نشانہ بھی اچھا تھا اسی لئے ہمارے لئے دونوں ٹیموں کا جھگڑا رہتا کہ یہ ہماری ٹیم میں اور دوسرا کہتا نہی یہ ہماری ٹیم میں ۔ آخر فیصلہ ٹاس کی مدد سے ہی ہوتا ۔
بینا بہت جیلس ہوتی تھی۔ حیرت ہے اس لڑکی کو بولنا تک نہیں آتا تھا جب وہ ہمیں ملی ۔ دوستی کے تمام تر لوازمات سے بڑھ کر اس سے پیار کیا لیکن آج بھی سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ بینا نے ہر موڑ پر دھوکا دیا ۔
ہماری دوستوں کو اکساتی رہی ۔ ہمارے ٹیچرز کو ہمارے خلاف غلط خبریں دیتی رہی کہ یہ ہماری اماں کا پیغام ہے ان کے نام۔
بہت عرصے تک ہمیں اس کی اس منافقت کی سمجھ نہ آئی حتی کہ ایک روز ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ہماری کھیل کی ٹیچر نے کسی لڑکی کی کوئی غلط بات پکڑی شاید کوئی خط تھا جس میں کسی لڑکے سے محبت کا اظہار تھا ۔ ہمیں ایسی باتوں سے دلچسپی نہ تھی اسلئے کھیلوں کے مقابلے کے باعث ہم دیر تک سکول میں پریکٹس کرتے رہتے تو ہم بھی اپنی پریکٹس میں مصروف تھے جب ٹیچر کے گرد لڑکیاں کھڑی گرما گرم بحث میں مبتلا تھیں۔
پھر لگا جیسے ٹیچر ہمیں ہی دیکھ رہی ہیں اور ایک لڑکی ہماری جانب اشارہ کررہی ہے ۔ کچھ دیر میں جب ٹیچر نے ہمیں بلوایا اور پوچھا کہ فلاں لڑکا آپ کا کیا لگتا ہے تو ہم نے نفی میں سر ہلایا کہ نہیں جانتے کون ہے ۔ اسوقت یہی خیال تھا کہ چونکہ ہماری پچھلی کلاس کی مس ریحانہ لڑکوں کی شکایت کرنے جب ان کے سکول جاتی تھیں تو صرف ہمیں ہی ساتھ لے کر جاتی تھیں کیونکہ لڑکے ہم سے ڈرتے تھے ۔تو سوچا یہ کھیل کی ٹیچر ہیں ان کو بھی کوئی کام ہوگا ۔نارمل سا جواب دے کر ہم پلٹ گئے لیکن پھر ٹیچر نے ایک کاغذ دکھاتے ہوئے ہمیں کوسنا شروع کردیا۔ بات سمجھ میں نہ آئی تو بینا کی طرف دیکھا کہ کیا ماجرا ہے ۔
پہلی بار لگا کہ ہم نے سانپ کو پالا پاسا جب بینا نے ٹیچر کو کہا کہ میں نے تو اسے منع کیا تھا کہ اس طرح خراب لڑکیاں کرتی ہیں جو لڑکوں کو خط لکھتی ہیں ۔ ہمیں تو لگا جیسے ہم خواب دیکھ رہے ہیں ۔ ایسے حیران ہوئے کہ درجن بھر لڑکیاں ٹیچر کی آڑ لئے کھڑی ہیں اور بینا اس لڑکی کے کندھے پہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی جو ٹیچر کی چہیتی تھی اور دو روز قبل ہماری زبردست لڑائی ہوئی تھی ۔ اور لڑائی کی وجہ کھیل میں پارٹی بازی کرنا تھی ۔
ہمیں مقابلوں کیلئے دوسرے سکول جانا تھا لیکن یہ سب آپس میں لڑتی رہتی تھیں ۔ ٹیچر کی عدم موجودگی میں ہم ہی انچارج ہوا کرتے تھے کیونکہ کوئی کھیل ایسا نہ تھا جو ہمیں نہ آتا ۔
ریلے ریس میں ٹیچر کی چہتی عظمی اور ہم ایک ہی گروپ میں تھے ہم دونوں کی سپیڈ بہت تیز تھی بلکہ عظمی تھوڑا زیادہ تیز بھاگتی تھی ۔ہمیشہ چند قدم سے جیت جاتی تھی ۔لیکن ہماری ٹیم بہت اچھی بنتی تھی اب اچانک عظمی کو لیڈ کرنے کا شوق ہوگیا تھا اور عین مقابلوں سے چند دن پہلے وہ ٹیم بدلنا چاہتی تھی جو ہمیں قبول نہ تھا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتنی پریکٹس کے بعد اب رد و بدل ہماری ہار کا سبب بنے گی لیکن کیا کرتے وہ تو لاڈلی تھی جیسے نواز شریف اس سسٹم کے لاڈلے بنے ہیں اور ملک کا نفع نقصان سوچے بنا صرف ذاتی خواہش کے مطابق سب فیصلے چاہتے ہیں ویسے ہی عظمی نے بھی کیا اور ٹیم بدل دی ۔
بعد میں ہم ہار گئے اور ہم نے اس کے بعد ہر اس کھیل سے خود کو الگ کرلیا جس میں عظمی شامل ہوتی ۔
بحرحال اس واقعے اور بینا کی طوطا چشمی نے ہمیں بڑا گہرا گھاو لگایا۔ ہمارے ساتھ اسوقت کوئی ایک بھی لڑکی نہ کھڑی تھی اسلئے بہت دکھی دل سے شام اکیلے ہی گھر لوٹے۔
گیمز کے بعد ایک دن سٹاف روم میں ہمیں بلوایا گیا ساری ٹیچرز کی موجودگی میں بینا کو بھی بلوایا گیا ۔ ہماری سابقہ کلاس ٹیچرز نے سپورٹس ٹیچر کو ہمارا تعارف اپنے انداز سے کروایا اور ان کو بتایا کہ ایسی گھٹیا باتیں اور حرکتوں کا الزام چاہے کسی کو بھی دیں لیکن اسے ہرگز نہ دیں ۔
بینا کو مس ریحانہ نے خوب ڈانٹاکہ تمہیں شرم نہ آئی جس نے تمہاری پچھلے پانچ سال بھرپور مدد کی اس کی دوستی کا بدلہ ایسے چکایا۔ ہم سر جھکائے سنتے رہے ۔ نہ ہم نے کسی کی مدد مانگی نہ کسی سے گلہ کیا ۔ نہ ہمیں بینا کی بےعزتی سے دلچسپی تھی نہ اپنی اس حوصلہ افزائی کا کوئی گھمنڈ تھا۔ جو دکھ ہمارے دل نے جھیل لیا اس نے ہمیں وقت سے پہلے بہت کچھ سکھا دیا تھا ۔ہم نے تو اپنی کسی ٹیچر کو جا کر شکایت بھی نہ لگائی تھی وہ تو کھیل کی ٹیچر نے جب پرنسپل کو خط دکھایا تو پرنسپل نے انکوائری کرائی ۔ تقریبا سبھی مضامین کی ٹیچرز نے کھیل کی ٹیچر سے تعجب کا اظہار کیا کہ وہ کم از کم دوسری ٹیچرز سے ہمارے بارے میں کچھ پوچھ لیتیں۔
خیر ہمارا تو کیا جانا تھا جنہوں نے گڑھا کھودا وہ منہ کے بل جا گرے التبہ ایک اچھا کام یہ ہوا کہ ہماری عربی کی استانی جو انتہائی سخت مزاج تھیں وہ ہمارے لئے نرم پڑنے لگیں۔ اس روز وہ ہمارا جائزہ لیتی رہیں۔ہم چھٹی جماعت سے ساتویں میں آئے تو سکول میں مشہور ہوگیا کہ ہماری مس فاروقی سے بہت دوستی ہے ۔
یہ ایک ایسا اعزاز تھا کہ آج بھی فخر سے دل پھولنے لگتا ہے کہ وہ انتہائی قابل اور سخت گیر تھیں۔ بہت مہذب اور انتہائی خاموش طبیعت۔ بعد میں وہ کئی بار گھر آئیں امی سے ملیں ۔ اور انہی ہماری ذہانت کے قصے سنائے جن کی تفصیل ہمیں کبھی یاد نہ رہی ۔
ہاں یاد ہے تو مس نیر سے رجسٹر کھانا یاد ہے جب جیوگرافی میں دنیا کا نقشہ بنایا اور پاکستان کچھ بکری جیسا بن گیا تو انہوں نے وہی رجسٹر اٹھا کر سر پہ دے مارا ۔ اور وہ تاریخی لیکچر دیا کہ آج بھی اپنے بچوں کی اسی نظریے کی بنیاد پر کلاس لے لیتے ہیں ۔
مس نیر نے کہا کہ وطن کی محبت تقاضا کرتی ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو وطن سے منسوب ہر شے اہم ہے ۔ اسے خاص توجہ اور محنت سے تیار کرنا ہے۔ اس کے نام سے لے کر نقشہ تک ہر شے کو پرفیکٹ ہونا چاہیے۔
مس نیر کہتی تھیں مجھے غرض نہی اگر آپ چین بھارت اور روس کے نقشے خوبصورت انداز سے نہ بنا سکیں لیکن میری دلچسپی پاکستان کے نقشہ کا ہر لحاظ سے درست اور دلکش ہونا ہے۔
چاہے آپ کو ستر بار مٹانا پڑے مٹائیں پھر بنائیں حتی کہ آپ کو اس کے ہر ہر کونے کا علم ہو۔ ہر طرح سے مکمل نقشہ تیار ہونا چاہیے ۔
وہ ایک رجسڑ آج تک نہیں بولتا نہ وہ سبق ۔ آج حالات بدل گئے ۔ ذہن بدل گئے لیکن آج بھی ہم اپنے بچوں اور حلقہ احباب میں یہ بات ضرور دہراتے ہیں کہ وطن سے محبت کا اظہار اپنے ہر ہر عمل سے کریں ۔
ہم برائی میں حد سے بڑھ گئے لیکن توبہ کے راستے بند نہیں ہوئے ۔۔ ہمیں توجہ اور غور وفکر سے معاملات درست کرنے ییں۔آپ کو جب کچھ سمجھ آجائے کہ کیسے بہتری لائیں تو پھر دیر نہ کریں ۔
نیکی جہاں ملے پکڑ لیں۔جو ہوسکتا ہے کریں۔ وطن عزیز کو مزدوروں کی ضرورت ہے ۔ کچھ عرصہ کیلئے مزدور بن جائیں۔ آئیں مل کر کام کریں ۔
امر بالمعروف والنهي عن المنكر کا حکم سب کے لئے ہے اور بہترین ہے۔ برائی کو روکیں پوری طاقت کے ساتھ ۔۔ بنا جھجھکے ۔۔۔ بنا رکے ۔ آپ کے پیچھے فرشتوں کی طاقت یے ۔۔ ہر مخلص دل کے ساتھ کائنات کھڑی ہے ۔۔ ہر پاکیزہ روح کے پاس مقناطیسی قوت موجود ہوتی ہے جو عوامل کو ساتھ ملا لیتی ہے۔ آپ آزما کر دیکھئے ۔۔ حیران رہ جائینگے۔
Monday, 26 February 2018
ماضی اور حال
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment