Thursday 20 December 2018

کتاب کاروبار

مجھے یاد نہیں کس عمر سے کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا بس یہی یاد ہے کہ پانچویں جماعت میں تھی جب کلیات اقبال کا تحفہ ملا تو خوشی سے ہر کسی کو دکھاتی پھرتی تھی کہ دیکھو کیا عمدہ گفٹ ہے ۔۔
یہ کوئی پہلی کتاب نہ تھی اس سے پہلے بھی سہیلیاں مجھے کتابوں اور ڈائری کے تحفے دیا کرتی تھیں کہ مجھے اس زمانے میں بھی لکھنے سے بہت دلچسپی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ تب میں زیادہ وقت پڑھنے اور تھوڑا وقت لکھنے میں صرف کرتی تھی۔
اب کتاب پڑھنے کیلئے جہاں وقت اور ذہنی آسودگی درکار ہے وہیں ایک بہت بڑا مسئلہ بک سٹور پر کتابوں کی بلند قیمت بھی ہے۔
سعید بک بنک سے کتابیں خریدتے شاید 15 سال ہوگئے لیکن مجال ہے جو کبھی اس بات کی حیا ہی کر لیں کہ ہم نے کتنا بزنس لیا ان سے جو کچھ رعایت کردیں  ؟
لاکھوں روپے اب تک خرچ کرچکے ہیں ان سے کتابوں کی خریداری پر ۔۔  وہ بھی کوئی ادب کی خدمت تو کر نہیں رہے جو قیمت کم رکھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کتاب خرید سکیں ۔ 
وہاں عام۔متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے کو اس طرح گھور کر دیکھا جاتا ہے جیسے یہ کتاب کی محبت میں نہیں بلکہ کتاب چوری کرنے آئے ہیں ۔
ایسا آج نہی ہوا بلکہ یہ پچھلے کئی برسوں سے ایسے ہی ہے ۔
یہی حال مسٹر بکس کا ہے ۔ وہاں بھی قیمت کے ساتھ رویہ انتہائی نامناسب ہوتا ہے ۔ اور اسی رویے سے دلبرداشتہ ہو کر میں نے اسلام آباد کے بک سٹور سے کتاب خریدنا چھوڑ دیا تھا ۔
کبھی لاہور جاتی تو میاں صاحب کے ساتھ انارکلی اور ہال روڈ جایا کرتی تھی ۔وہاں نادر کتب بہت مناسب قیمت پر مل جاتی تھیں ۔
حالات کے اتار چڑھاؤ میں جہاں اور بہت کچھ کھوگیا وہاں یہ شوق بھی کہیں دب گیا بلکہ یاداشت بھی اچک لی گئی کہ کیا کیا پڑھا اور کس نے کیا لکھا ۔
چند روز قبل بک سٹور پہ اچانک سیمون دی بوار  (Simone de Beauvoir) کی کتاب کا اردو ترجمہ دیکھا ۔ چونک گئی۔۔ ارے یہ تو میں نے پڑھی ہے ۔۔
بلکہ شاید اور بھی کتابیں پڑھتی رہی سیمون دی بوار کی۔۔۔ لیکن مجھے یاد نہی رہا ۔ ہاں یہ یاد ہے کہ یہ فرنچ رائٹر   نسوانیت سے متعلق وجودیت پسندی سے متعلق لکھتی ہے ۔ کیرک گرد اور ژان پال سارتر( Jean-Paul Sartre) بھی فینامنولوجی پہ لکھتے تھے اور کمال۔لکھا ۔ گو کہ دھندلا گیا سب لیکن ایک ذائقہ سا اب بھی محسوس ہوتا ہے اور اس کی لذت کا احساس آج 25 /26 سال بعد بھی باقی ہے ۔۔
بس جونہی کتاب دیکھی ۔۔۔ اٹھا لیا چند اوراق پلٹے تو یاد آنے لگا سب۔۔۔
سوچا کیوں نہ لے ہی لوں جہاں اور چند کتابیں لے آئی جو پہلے بھی پڑھ چکی ہوں کئی بار( ایک دوست نے عنایت کردیں تھیں )
اس روز یہی سوچ کر کتب اٹھا لیں لیکن کچھ ہی دیر میں اندازہ ہوا کہ یہ کتابیں  صرف بڑے بڑے ڈرائنگ رومز سے ملحق شاہانہ لائبریوں میں شو پیس کے طور پر سجانے کیلئے ہیں ۔کسی عام قاری کے بس کی بات نہیں جو ان کی قیمت ادا کرکے گھر لے جاسکے ۔
اس روز یہی سوچا کہ کتاب خرید کر پڑھنا ایک عیاشی بن گئی ہے ۔
اور عیاشی ہم جیسوں کو راس نہیں ۔۔۔
اسلام آباد میں یہی دو بڑے سٹور ہیں جن میں ورائٹی نظر آتی ہے اور مطلب کی کتاب مل جاتی ہے لیکن قیمتوں میں توازن نہیں ۔ رویہ نامناسب ہے ۔
میں بچوں کو عادی کرنا چاہتی تھی کہ کتاب سے آشنائی پیدا کریں لیکن آجکل بچوں کوکتاب دوستی کی طرف لانا اس لئے بھی مشکل ہوگیا کہ بک سٹور پہ کھلونے کتابوں سے زیادہ نظر آتے ہیں ۔ بچوں کو لاکھ کہو کہ کتاب دیکھو وہ بار بار کھلونے اٹھانے کو لپکتے ہیں ۔
کتاب کی بے حرمتی کے اسباب میں ہم اسے بھی بڑا سبب سمجھتے ہیں ۔ امید رکھتے ہیں شاید اس مسئلہ پر بھی توجہ دی جائے کہ شاید کبھی کتاب ہر آدمی کو بآسانی دستیاب ہو ۔

No comments:

Post a Comment