Thursday 31 January 2019

بانجھ دھرتی کی بانجھ آب وہوا

بانجھ دھرتی کی بانجھ آب وہوا
سعدیہ کیانی

کسی بھی معاشرے میں رہنے کیلئے اس کے اچھے برے قوائد و ضوابط کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔
بہت بار سنا کہ ہمارے پاس اپنا کوئی لیڈر نہیں ۔ ہم محمد بن قاسم کو ہیرو مانتے ہیں جبکہ وہ اس خطہ پر باہر سے حملہ آور ہوا ہم محمود غزنوی کو ہیرو مانتے جبکہ وہ بھی یہاں لوٹ مار کے غرض سے آیا ( ویسے میرا شدید اختلاف ہے اس بات سے کیونکہ مقصد دولت جمع کرنا نہیں تھا بلکہ کفر اور ظلم کے خلاف محاذ تھا)
بحرحال بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں ہیرو کا تصور صرف فوج کے شہداء سے ہے ورنہ سول سوسائٹی سے تو کبھی کسی کو ہیرو نہیں مانا گیا۔ ڈاکٹر قدیر کبھی ہیرو تھے پھر ان کو اس حال میں پہنچادیا گیا کہ عبرت حاصل ہونے لگی۔
حکیم سعید مرحوم کی زندگی کسی ہیرو سے کم نہیں تھی لیکن ان کی شہادت اور پھر طرح طرح کے فسانے گھڑ لئے گئے ۔
طاہرالقادری نے چھوٹے سے قصبہ سے اٹھ کر آدھی دنیا میں
سکول کالج اور فلاحی ادارے بنا لئے بنا کسی حکومتی سرپرستی اور مالی معاونت ۔ سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ تحریک منہاج القران میں ہیں۔
لیکن ان کی اس کاوش کے باوجود پاکستان میں کوئی ان کو لیڈر ماننے کو تیار نہیں جبکہ دنیا جھک کر سلام کرتی ہے ۔
لیڈر ہونے کا مطلب یہ نہی کہ وہ انسان ہر طرح سے پرفیکٹ ہی ہوگا بندہ بشر کو کمزوریاں اور لغزشوں سے ماورا سمجھنا حماقت ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہیرو نہیں ملتا ۔
ہم نے طے کرلیا کہ لیڈر کا آسمان سے اترنا ضروری ہوگیا ۔ ہندی فلموں میں دیوتا آسمان سے چمکتا دمکتا اترتا دیکھنے والوں نے وہی تصور قائم کرلیا ۔
غزوہ ہند کا سنتے سنتے ہم نے رخصت ہوجانا لیکن آج بھی میرے اعدادوشمار میں اس کے آثار دو سے تین دہائیوں سے قبل نظر نہیں آتے۔
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس معرکہ میں خود شامل ہوں اسے غزوہ کہا جاتا ہے تو غزوہ ہند کو "غزوہ " کیوں کہاگیا ؟ یہ سوال محقیقین کیلئے چھوڑے جارہی ہوں )
ایسا لگتا ہے کہ یہ اسلام کا قلعہ پاکستان وہ تنہا ملک نہی جو آخری معرکہ حق و باطل کی جنگ لڑے گا بلکہ اس غزوہ کیلئے اس خطہ کے دیگر ممالک جن میں ترکی افغانستان ایران بھی شامل ہوں گے ۔ ایران پہ ابھی تحفظات ہیں لیکن شاید آگے چل کر معاملات بہتر ہوجائیں ۔
میرا خیال ہے کہ لیڈر ہمارے ملک سے نہیں بلکہ ترکی یا افغانستان سے لیا جائے گا ۔ وجہ وہی ہے کہ اس دھرتی کی آب و ہوا لیڈر نہیں بناسکتی ۔
فسادی کو ہمارے ہاں لیڈر مانا جاتا ہے کیونکہ اس کا فساد پھیلتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے اور بڑھکیں واضح سنی جاسکتی ہیں جبکہ لیڈر تو خاموشی سے دھیرے دھیرے اپنا راستہ ہموار کرتا ہے ۔ مسلسل بنا رکے بنا جھکے اصولوں کی پرورش کرتا ہے ۔
ہمارا ماحول لیڈر بنانے کیلئےسازگار نہیں ۔ ہمیں دہشتگرد پسند ہیں ہمیں شریف اور نیک سیرت بندہ پسند نہی آتا ۔ جب تک کوئی دو چار قتل چھ سات ڈاکے نہ ڈال لے وہ لیڈر کہلانے کا حقدار نہیں ۔
اگر ایسا نہیں تو ذرا ہسٹری اٹھا کر دیکھئے ۔۔
  بہت سے ایسے بھی آئے جنہوں نے اصولوں پہ سمجھوتہ نہ کیا اور اپنی نوکری کی پروا کئیے بنا اصولوں پہ ڈٹے رہے ۔۔ ان کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی لیکن وہ پھر بھی نہ جھکے ۔۔۔ لیکن کیا کسی نے ان کی اس کاوش کو سراہا؟
نہیں ۔۔ ماسوائے چند کے کسی نے کبھی ذکر تک نہ کیا ۔
دوسری طرف جو حکومتی مشینری کو استعمال کرکے اعلی اعلان معصوم لوگوں کا سرعام قتل کرواتے ہیں وہ لیڈر مانے جاتے ہیں ۔
ایسی مثالیں بیشمار ہیں جن سے ایک عام آدمی کو اپنی ڈیفینیشن آف ورڈز بدلنا پڑتی ہے ۔
پولیس اسٹیشن جانا ہو تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ شریف شہری نہ ہوں ورنہ آپ کی دھلائی ہوجائے گی البتہ کریمنل بیک گراونڈ والوں کو تھانے میں خوب پذیرائی ملتی ہے ۔
کسی جگہ نوکری چاہیے تو آپ کی ڈگری کا جعلی ہونا یا آپ کا سفارشی ہونا ضروری ہے باقاعدہ تعلیم یافتہ ہونے سے آپ ان احکام بالا کی حکم عدولی کرسکتے ہیں ۔
آپ کی قابلیت آپ کی شخصیت سے نہی بلکہ آپ کی ملازمت کیلئے لکھی گئی درخواست یا c.v سے ثابت ہونا چاہیے ۔ آپ چاہے جتنے بھی ذہین ہوں لائق فائق ہوں جب تک ایک بنڈل ڈگریاں وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں نہ ہوں آپ کی کوئی حیثیت نہی اور یہ تو آپ کو بھی پتا ہے ڈگری حاصل کرنے کیلئے صرف پیسہ ہونا بھی کافی ہوتا ہے ورنہ اصل ڈگری والا تو انہی ڈگریاں کو تنور میں جلا کر روٹیاں لگارہا ہوتا ہے کہ جس نوکری پہ اس کا حق تھا وہ کسی وڈیرے لٹیرے سیاستدان یا خان کی اولاد کو مل چکی ہوتی ہے۔
خیر یہ تلخ نوائی تو چلتی ہی رہے گی ۔ بات یہاں اختتام پذیر کرتے ہیں کہ اس خطے میں جو لیڈر چل سکتا ہے وہ اسوقت بھی کسی نہ کسی ادارے پہ سربراہ مقرر ہے چاہیے ہزارہا مقدمات میں مجرم مانا چکا۔
اور بعض لیڈر اس وقت مفاہمت کی ڈیلز طے کررہے ہیں کہ اس ملک کا اصل کرتا دھرتا ادارہ ایک بار پھر بھوکا ہوگیا ہے ۔
چلیں گولی ماریں غیرت مند لیڈر کو ۔۔ آئیں ہم اپنا کام کریں  مزدوری کرتے رہیں اور ان کا پیٹ بھرتے  رہیں ۔ چھوڑیں انہی لیڈروں سے گزارا کریں یہی اس مٹی کاخمیر ہیں ۔ اس آب و ہوا  میں صرف یہی جی سکتے ہیں، سلطان ہند اور امیر شریعت  جیسوں کا دم گھٹ جائے ۔ تڑپ تڑپ کر مر ہی جائیں جیسے ہم کچھ سر پھرے آکسیجن کی کمی کا شکار ہوئے جاتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment