Friday 21 December 2018

داستان وطن فروشاں


وزیر اعظم عمران خان نے بیان دیا ۔۔ ڈاکوؤں سے پیسہ نکلوا کر تعلیم پہ خرچ کریں گے۔۔
ہمارے یہاں گزشتہ 70 سال سے سمجھوتے اور مصلحت کی سیاست نے پاکستانیوں کے اعتماد کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کسی کی بھی بات کا مکمل یقین کرلیں چاہے ملک کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو ۔۔
عمران خان کا کمال یہ ہے کہ وہ سیدھے سادے جملے میں بہت بڑی بات کہہ جاتے ہیں اور اس بار بھی یہ جملہ کہہ دیا جسے لوگ کوئی خاص توجہ دینا نہیں چاہتے لیکن۔۔۔
میری رائے عمومی رائے کے برعکس ہے ۔۔
فرض کر لیجئے۔۔ یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ آئیندہ چند ماہ میں ہونے والی ان کاروائیوں کی طرف اشارہ ہو جن میں اس ملک کے خزانے خالی کرنے والوں کی تجوریاں خالی کرنے کی کوئی حکمت عملی طے پا گئی ہو  ؟
فرض کیجئے اس ملک میں قانون بالادست ہوجائے اور کوئی معاہدہ کسی کرپٹ کو نہ بچا سکے ؟
فرض کیجئے کیا ہو جو ایسا نظام بن جائے کہ کوئی غیر قانونی معاہدہ آئندہ  کبھی  ہو ہی نہ سکے ؟
فرض کر لیں ۔۔۔ اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لاکر ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح پہ خرچ کردی جانے لگے ؟
فرض کر لیجئے ۔۔۔ آپ کے میرے بچے اپنے ملک میں اپنی سرحدوں میں محفوظ اور آسودہ ہوجائیں؟
فرض کر لیجئے ۔۔ ادارے کام کرنے لگیں جس کام کیلئے ان کی تشکیل ہوئی اور محنت کا بول بالا ہونے لگے ؟
فرض کر لیجئے کہ اس ملک کے باشندے وہی کمانے لگیں جس کیلئے محنت کی اور وہی کامیاب ہو جو دیانتداری سے کام کرے ؟
تو چلیں پھر آج فرض کرلیں ۔۔۔ ایک بار دل کو تسلی دے ہی ڈالیں کہ بدلاو آگیا ۔۔۔
زیر زمین بہتی تبدیلی کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ کر یکدم نظر نہیں آئے گی ۔۔۔
انقلاب اپنا راستہ دھیرے دھیرے بناتا ہے ۔۔۔
قوموں کی تقدیر صرف اسوقت بدلتی ہے جب وہ سوچ لیں کہ اب بدلاو چاہیے !
آصف علی زرداری کی کرپشن پر جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع کروادی گئی ۔۔
جیسے شریف خاندان کی کرپشن پر جے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کی تھی یہ بھی ویسی ہی ایک داستان ایمان فروشاں اور داستان وطن فروشاں ہے ۔۔
آئیندہ تین سے چار ہفتوں میں ہونے والا کیا ہے ؟
نواز شریف کی واپسی جیل کی سلاخوں کے پیچھے 
ہوگی ۔البتہ مریم کو شاید کوئی استثنی مل جائے ۔
قوم کیلئے یہاں خوشخبری اگر بنتی ہے تو وہ  اس خاندان سے بھاری رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کی ایک امید نظر آتی ہے جو آئیندہ سال مارچ کے بعد ممکن ہوسکتی ہے ۔ کیسے ؟
یوں تو میرے پاس کیسے کا جواب عموما نہی ہوتا لیکن چلیں سوچ کو لفظ دے دوں تو لکھتی ہے کہ
پچھلی بار جب نواز شریف اور مریم کو جیل میں ڈالا گیا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا ہوجائے گا ۔۔
ان کا خیال تھا کہ جب ان کا جہاز پاکستان لینڈ کرے گا تو ایک عوامی سمندر ان کو کندھوں پہ بٹھا کر جاتی عمرہ تک لے جائے گا  لیکن پھر ایسا نہ ہوا بلکہ ویسا بھی نہ ہوا جیسا ان کو بتایا گیا تھا ۔
اس ذلت کے بعد جیل میں شاہانہ زندگی اور قیدیوں والی زندگی کے فرق نے ان کے ذہن کو وہ جھٹکا دیا کہ انہیں احساس ہونے لگا جو تبدیلی کا نعرہ سنا وہ اور کہیں آئے نہ آئے لیکن ان کے کیس میں آگئی تھی ۔
پھر جیل سے باہر اپنے گھر کی آرام دہ زندگی کا مزہ لیتے ہوئے اب ان کے اعصاب جواب دے رہے ہیں ۔۔
گھر میں نرم گرم بستر چھوڑ کو پھر جیل کی بدبو دار بے رنگ اور تکلیف دہ زندگی کا تصور انہیں بے سکون کررہا ہے۔۔
بس یہی وہ وقت ہے جب لوہار نے چوٹ کرنی کے اور اپنی مرضی کے مطابق کام کروانا ہے ۔۔
تو میرا خیال ہے کہ جنوری سے مارچ تک بہت وقت ہے سو دنوں کی سو راتیں کاٹنا آسان نہیں اور وہ بھی اس شدید سردی میں ۔۔۔ توبہ توبہ
دوسری طرف وطن عزیز کو لوٹنے والوں کی ایک لمبی فہرست تیار ہوچکی ہے ۔۔۔اب کیا ان ضمیر فروشوں کے نام لکھوں ۔۔ دیکھ ہی لیں گے آپ سب عنقریب ۔۔ سبھی نے آتے جاتے رہنا ۔۔۔ طریقہ وہی ۔۔۔ سختی کے بعد نرمی اور پھر سختی ۔۔
انسانی نفسیات ایک جیسے رویے اور ماحول کی عادی ہوجائے تو پھر اس کیلئے وقت گزارنا مشکل نہیں رہتا لیکن جب ایک تسلسل توڑ دیا جائے تو پھر بار بار اس ناپسندیدہ مرحلے سے گزرنے کا خوف اسے خوفزدہ اور کمزور کردیتا ہے
اب نواز شریف اور زرداری جیسے لوگ اگر ایس ایس جی میں بھرتی ہی نہ ہوسکیں تو بھلا ان جیسی ٹریننگ کیسے برداشت کرسکتے ہیں وہ بھی اس عمر میں ؟
بحرحال میری طرف سے آپ محب وطن پاکستانیوں کو بھرپور تسلی ہے کہ امید بہار قائم رکھیں ۔۔
آپ عنقریب روشنیوں کا سفر کرنے والے ہیں ۔ دنیا آپ کو حسرت کی نگاہ سے دیکھے گی اور آپ ایک مضبوط قلعہ میں محفوظ و مسرور زندگی گزارتے ہونگے۔ ان شاء اللہ
سندھ کے باسیوں کو بھی آزادی ملنے والی ہے اور انہیں ماننا پڑے گا کہ بھٹو خاندان اب ختم ہوچکا ۔۔ کم از کم سیاست میں تو اب ان کا وجود نظر نہیں آئے گا ۔
ایک دوست  نے کہا صنم بھٹو مر جائے گی لیکن اپنے بچوں کو سیاست میں نہ لائے گی ۔۔تو باکل درست۔۔  سچ کہا۔
بلاول کو بھٹو بنانے والے بھی سمجھ لیں کہ وہ بھٹو نہیں زرداری نسل ہے اسلئے آئیندہ سیاست میں اگر کچھ باقی بچتا ہے تو وہ بلاول ہے ۔
البتہ بلاول کی طبیعت میں ابھی مجھے لیڈر والی چھایا دکھتی نہیں ۔۔ شاید وقت ابھی آیا نہیں کہ اس پہ بات ہی کی جاسکے اسلئے فلحال اس قصے کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔
شہباز شریف کو بھی پتا ہے کہ یہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سربراہ لگنا بھی کچھ کاریگر ثابت نہ ہوگا البتہ چند سرد راتیں گرم بستر میں سو کر گزر جائیں گی اور پھر وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا اور ابکہ غریبوں کے خدا نے ان کی ذلت کا سامان کررکھا ہے سو دیکھئے اب کیا ہوتا ہے خادم اعلی کے ساتھ ۔
آئیندہ آنے والے وقت میں ادارے بھرپور محنت کریں گے اور خالی خزانہ بھی بھریں گے اور ہاں ۔۔ جب بات احتساب کی ہوگی تو حوصلہ رکھیں ۔۔ اب کہ ان کا بھی احتساب ہوگا جو کسی نہ کسی مقدم و مقدس لباس میں محفوظ رہے ۔
ابکہ ہر ادارے میں جھاڑو پھرے گا ۔ کچرا نکالا جائے گا ۔ کوئی ذرا جلدی کرے گا تو کوئی دھیرے دھیرے ۔ ۔۔۔ لیکن احتساب ہوگا ۔۔ ضرور ہوگا
اب اگلے چند ہفتوں میں شور شرابے کے بعد آصف علی زرداری کی بارات جیل میں داخل ہوجائے گی ۔۔
قریب قریب 20سے 30 بندے تو یقینا ساتھ ہونے چاہیں نا اس تنہائی میں  جہاں ۔۔۔ ہماری ریشماں کی سریلی آواز گونجتی ہوگی۔۔۔
اکثر شب تنہائی میں
 کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دل چسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی

No comments:

Post a Comment