”آپا تندور گرم ہوگیا“ میں نے خمار بھری نگاہوں سے دیکھا۔ یہ تندور اتنا بڑا کیوں ہے؟ بالکل کمرے جیسا! اگلے چند لمحوں میں حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ میں تو سوئی ہوئی تھی اور گاؤں کی گرمی نے کمرے کو تندور بنا رکھا تھا۔ بیزار ہو کر کروٹ بدلی تو کمر پہ ٹھنڈک کا احساس ہوا۔”خدایا! ساری پسینوں پسین ہوگئی یہ لڑکی۔ اٹھ میرا پتر! ابھی جاکر نہا لے ورنہ کچھ دیر میں ٹینکی کا پانی کھولنے لگے گا تو نہانا بھی ممکن نہ رہے گا“ٹائی اماں نے اپنے پلو سے میرے چہرے کا پسینہ صاف کیا جو اب آنکھوں میں پڑنے لگا تھا۔”لگا لیں ساری روٹیاں؟ ابھی تندور جل رہا کہ بجھا دیا؟“ تائی نے یکے بعد دیگرے سوال کرڈالے۔ خالہ نے چھابی سر سے اتاری اور ہاٹ پاٹ میں روٹیاں رکھنے لگیں۔ ”ماسی ابھی جل رہا ہے۔ چاچی نصیراں نے بھی لگانی تھیں روٹیاں“ ۔نصیراں نے بھی لگانی تھیں روٹیاں“ ۔تائی جھٹ سے اٹھیں اور اپنا دوپٹہ پگ والے انداز سے رول مول کرکے سر پہ رکھا اور پیر میں سلیپر پہنتے ہوئے ایک بار پھر میری طرف متوجہ ہوئیں۔ میں اب پسینے سے شرابور اٹھ کر بیٹھ گئی تھی اور بھیگی ہوئی قمیض کو بدن سے الگ کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ ”میرا پتر نہا لے تو پھر مربعے لے چلوں تجھے ادھر ٹاری (عارضی گھر) پہ کھلی جگہ ہے درختوں کے نیچے گرمی کم ہوگی۔ چل میرا پتر شابا“ اور ساتھ ہی میرے پسینے سے بھیگے بالوں کی لٹ میرے کان کے پیچھے کرتے ہوئے میرے گالوں کو بوسے دیے۔ نسوار کی بو نے میری طبیعت اور بیزار کردی۔ تائی کے باہر نکلنے سے پہلے میں تائی کو نسوار کی ناپسندیدگی کا تاثر دے چکی تھی۔ جس پر وہ اور خالہ ہنس دیے۔ تائی کے جانے کے بعد میں خالہ کی طرف متوجہ ہوئی جو اب کونے میں پڑی ایک پتھر کی بڑی سی لنگری میں مرچیں کوٹنے بیٹھ گئیں تھیں۔ باورچی خانہ بھی چونکہ ساتھ ہی جڑا ہوا تھا اس لیے انہوں نے میری خاطر چٹنی کا سامان کمرے میں ہی لارکھا کہ ساتھ باتیں کریں گے اور ساتھ ساتھ چٹنی پیستی رہیں گی۔’خالہ میرے کپڑے بھی بھیگ گئے پسینے سے۔ کیسے رہتی ہیں آپ یہاں اتنی گرمی میں؟‘ میری روہانسی آواز پہ خالہ نے شرارتی انداز سے کہا ”ہماری کھال تو اب عادی ہوگئی اس لیے ہمیں تو نہیں لگتی گرمی۔ تیری چٹی چمڑی بہت باریک ہے نا اس لیے تجھے زیادہ تپش محسوس ہوتی ہے“ ۔ میں اپنی جگہ سے اٹھی اور کمرے کے دوسرے سرے پر رکھی پیٹی کے اوپر پڑی پنکھی اٹھاکر جھلنے لگی۔ ”آہ سکون آگیا خالہ۔ گیلی قمیض ٹھنڈی لگ رہی ہے“ میں نے وہیں کھڑے آنکھیں میچے میچے کہا تو خالہ نے رازدرانہ انداز میں مجھے مخاطب کیا۔ ”تجھے پتا ہے یہ پٹھانیاں کیوں ہر وقت ایسی موٹی موٹی فراکیں پہنے رہتی ہیں اور ان کو گرمی بھی نہیں لگتی؟“ میں نے یک دم آنکھیں کھول دیں اور گرمی سے ابلتی آنکھیں اب حیرت سے بھی ابلنے لگیں۔ ’کیوں خالہ کیوں پہنتی ہیں؟ ”مجھے چونکہ ہمیشہ حیرت ہوتی تھی کہ یہ عورتیں گرمی سردی میں ایک جیسے ویلوٹ کے کپڑے پہنے رہتی ہیں تو کیا ان کو گرمی نہیں لگتی۔” پٹھانیاں کہتی ہیں کہ گرمی میں جو پسینہ آتا ہے اس سے ہمارے کپڑے بھیگ کر ٹھنڈے رہتے ہیں اور ہمیں گرمی کا احساس نہیں ہوتا اسی لئے ہم ایسی فراکیں بناتے ہیں جو پوری طرح ڈھانپ لیں۔ پردے اور بچت کے ساتھ ہمارے لئے گرمی سے بھی بچت ہوجاتی ہے“ ۔ خالہ کو پتا تھا کہ مجھے اب کیا کہنا ہے خود ہی بول پڑیں ”اور انہیں پسینے کی بو کچھ نہیں کہتی وہ ہمارے جیسے نخرے والے لوگ نہیں“ خالہ نے شرارتا آنکھ ماری۔ اس پر ابھی میں مزید بحث کرنا چاہتی تھی لیکن میری قمیض سوکھ کر اکڑ گئی تھی اور باہر سورج تیزی سے اوپر کو چڑھے جارہا تھا۔ غنیمت سمجھا کہ ابھی نہا لوں ورنہ ابلتے ہوئے پانی سے کون نہا سکتا تھا۔میں کپڑے اٹھا کر کمرے سے باہر نکلنے لگی تو خالہ نے کہا پہلے موٹر چلا کر تھوڑا تازہ پانی بھر لینا اسوقت ٹینکی کا پانی خاصا گرم ہوچکا ہوگا۔ اور سچ ہی کہا تھا خالہ نے۔ کمرے سے باہر چھوٹا سا صحن کراس کرکے مجھے غسل خانے تک جانا تھا لیکن ایسا لگتا تھا کہ دماغ پگھل کر کانوں سے لپٹ جائے گا اور پاوں کی جوتی کچھ دیر میں پگھل کر زمین سے چپک جائے گی۔ پانی کھولا تو لگا کہ اگر اس سے نہایاتو فرعون کی ممی بن جاوں گی۔ سو بہتر ہے کہ زمین سے تازہ پانی اوپر ٹینکی میں چڑھا لیا جائے۔ گاؤں میں بجلی کے چند مخصوص گھنٹے تھے اس زمانے میں زیادہ تو لوگ بیٹری اور پھر جنریٹرز پر گزارا کرتے تھے۔ اسوقت بجلی آنے کوتھی جب میں کمرے میں تھی۔ موٹر چلانے تک آچکی تھی۔ خالہ کو اس ایک گھنٹے کی بجلی میں بہت سارے کام کرنے تھے اور جب میں نہا کر واپس۔ آئی تو۔ خالہ سلور کی گڈوی (پتیلی) میں لسی بناکر ڈال چکی تھیں۔ مجھے دیکھ کر بولیں ”بجلی جانے والی ہے۔ فریزر میں تمہارے لئے ٹھنڈا پانی رکھا ہے جاؤ پہلے وہ پی لو پھر سارا دن برف والا پانی ہوگا جو تمہیں پسند نہیں“ ۔ اب یہ بھی عجیب بات ہے کہ مجھے فریج میں رکھا ٹھنڈا پانی پینے۔ میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن جب برف ڈال کر پانی ٹھنڈا کیا ہو تو میں نہیں پی سکتی اور یہ بات سبھی کو معلوم تھی اس لیے میرے لئے ہمیشہ فریج میں ایک دو بوتلیں پانی کی رکھی رہتی تھیں۔کچھ ہی دیر میں ہم کھیتوں کی سمت روانہ ہوگئے خالہ نے سر پہ لسی کی گڈوی کے اوپر چٹنی کا پیالہ اور اس پر چھابی روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ہاتھ میں اپنی لاڈلی بکری کی رسی پکڑی ہوئی تھی۔ میرے ہاتھ میں چھتری پکڑا دی گئی تھی اور تائی نے ایک چادر بگھو کر میرے سر پہ اس طرح رکھی کہ اس کا پلو میرے آدھے چہرے کو کور کررہا تھا۔ تائی اور خالہ ہنستے بھی جاتے اور مجھے ایسے لپیٹ رہے تھے جیسے کسی نو مولود کو لپیٹا جاتا ہے۔ ”اللہ اللہ کس گارے سے بنایا تجھے مالک نے۔ بندہ چھو لے تو نیل پڑجاویں اور دھوپ چھوئے تو لال ٹماٹر بن جاوے یہ لڑکی“ تائی مجھے دھوپ سے بچانے کے لئے اپنے تئیں سارے جتن کررہی تھیں اور خالہ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ میں دل میں سوچ رہی تھی کہ کیسی پاگل تھی میں جو امی ابو کے ناک میں دم کردیا کہ ابھی بھجوائیں مجھے زمینوں پہ سبھی جاتے ہیں بس مجھے نہیں بھیجتے آپ۔ امی نے بہت سمجھایا تھا کہ یہ موسم نکلنے دو وہاں گرمی ہے لیکن میں نے کہاں سننا تھا۔ جب تک خود ہاتھ نہ جلا لوں آگ کی حرارت کو کیسے سمجھ سکتی ہوں۔ بس ابو نے غصہ میں آکر چڑھا دیا جہاز پہ۔ جاؤ شوق پورا کرو اور خبردار جو چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے واپسی کی سیٹ کروائی۔ اس وقت تو لگتا تھا کہ میں نے واپس آنا ہی نہیں کبھی لیکن آج صرف دو دن ہوئے تھے اور میرا سارا شوق پسینے میں بہہ گیا تھا۔کچھ دور تک گئے تھے کہ مودی چاچا ٹانگے والا آگیا۔ میری تو آنکھیں دھوپ کے سبب بند ہی تھیں تقریبا، اس لیے منہ اٹھا کر دیکھنے کی زحمت ہی نہ کی۔ تائی نے ہی پکڑ کر ٹانگے پہ سوار کیا اور میری دوسری دیرینہ خواہش ( یعنی ٹانگے کی سواری) کی تکمیل ہوئی۔ اب ٹانگہ تو اچھلتا کودتا جارہا تھا لیکن مجھ سے آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں۔ ایسا چمکدار سورج تو ہم نے کبھی شہروں میں دیکھا بھی نہ تھا۔ گاؤں کے سادہ سے ماحول میں کالا چشمہ لگانا ذرا عجیب سا لگتا تھا۔ مجھے تو خیر کسی بات کی ایسی پروا نہ تھی لیکن امی نے سختی سے تاکید کہ تھی بلکہ ایک پوری لسٹ تھی ہدایات کی۔ عینک مت لگانا گاؤں والے کہیں گے شہر سے آئی ہے تو نخرہ کرتی ہے۔ نائٹ پاجامے ادھر ہی چھوڑ کر جاؤ گاؤں والے کہیں گے لڑکی آزاد خیال ہے۔ بالوں میں زیادہ ہاتھ مت پھیرنا کہیں گے فیشنی ہے۔ ( ان دنوں مجھے بالوں میں ہاتھ پھیرنے کی بیماری تھی اور گھٹنوں تک لمبے گھنے سلکی بال زیادہ تر کھلے رہتے کیونکہ چوٹی ایسی بھاری ہوجاتی تھی کہ میری گردن میں بل پڑنے لگتے تھے ) امی کی ساری نصیحتیں کپڑوں کے ساتھ بکس میں ڈالیں اور خوشی خوشی جہاز میں جابیٹھی۔اب یہ پتا نہیں تھا کہ زرعی پیداوار کے علاقے گرمیوں میں شدید گرم ہوتے ہیں۔ سوچتی ہوں۔ ہمارے کسان کس مشکل زندگی میں رہتے ہوئے بھی ہمارے واسطے اناج آگاتے ہیں۔ یہ پہلی بار گاؤں جاکر ہی پتا لگ گیا کہ زرعی ملک میں پسماندہ طبقہ یہی کسان ہے جو دن بھر چلچلاتی گرمی میں فصلوں کی وائی کٹائی کرتا ہے اور راتوں میں جاگ جاگ کر پانی دیتا ہے اور اکثر پہرہ بھی دینا پڑتا ہے کہ پانی چوری بھی ایک سنگین مسئلہ ہے ہمارے کسانوں کے لئے۔ اس مسئلے پر تو لڑائیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ اکثر نوبت جنازے اٹھانے تک چلی جاتی ہے۔ ہماری حکومتی جماعتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن نہیں بدلے تو ان۔ کسانوں کے حالات نہ بدلے۔ یہی وجہ۔ ہے کہ۔ اب زرعی زمینیں بھی ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں ڈھلنے لگی ہیں کیونکہ فی زمانہ۔ یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔خیر ہم مربعے ( پچیس ایکڑ اراضی کو مربع کہا جاتا ہے اور ایکڑ میں 8 کنال زمین ہوتی ہے ) پہنچے مجھے نظر تو کچھ آنہیں رہا تھا سو تائی نے ہی ہاتھ پکڑ کر ٹانگے سے اتارا۔ اس وقت خالہ نے میری آنکھوں پہ دھوپ والی عینک لگادی اور ہنستے ہوئے بولیں۔ ”توبہ ہے تم تو بالکل اندھی ہی ہوگئی دھوپ سے۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ تم گھر کے صحن میں بھی ادھر ادھر ٹکریں مار رہی تھی۔ ماسی یہ دھوپ۔ میں آنکھیں بند کیے چل رہی تھی گھر میں تو میں نے اس کی عینک اٹھالی کہ اسے تو دھوپ۔ میں نظر ہی کچھ نہیں آتا“ خالہ نے چلتے چلتے تائی سے باتیں شروع کردیں۔ تائی نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور ایک دم سے رک۔ گئیں۔ ”ہائے کہیں یہ بھوری بچی تو نہیں وہ ولیت ( ولایت) سے جو گوگا آتا ہے نا اس کے بچے ایسے ہی ککے ککے سے ہیں۔“ خالہ زور زور سے ہنسنے لگیں۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ یہ ککے بچے کون سے ہوتے ہیں لیکن خالہ کی بے اختیار ہنسی سے اتنا تو اندازہ ہوگیا کہ تائی کو میری بینائی کی فکر پڑگئی تھی۔دھوپ والی عینک لگانے کے بعد ارد گرد جائزہ لیا تو کھیتوں میں ابھی گندم ہری تھی اور دور دور تک سبز رنگ کے مکس شیڈز والی فصلیں لہرا رہی تھیں۔ کھالوں ( پانی کی نالیاں ) کے ساتھ ٹالی اور کیکر کے درختوں کی قطار ٹاری ( کچا عارضی مکان) تک جارہی تھی۔ ہم چلتے چلتے جب ٹاری کے پاس پہنچے تو خالو اور تایا جی کدال بیلچے سے کھالے کی صفائی میں مصروف تھے۔ وہ یہیں ٹاری پہ رہا کرتے تھے کیونکہ یہ دن ان کی باری تھی پانی لگانے کی۔ میری صرف اسی روز ملاقات ہوئی تھی جس روز آئی تھی اس لیے آج جب دیکھا تو میں زور زور سے ہاتھ ہلانے لگی اور خوشی میں پگڈنڈی پہ بیلنس نہ رکھ سکی اور تھڑپ سے کچے کھالے میں جاگری۔ خالو بھاگے اور مجھے مزید گارے سے لت پت ہونے سے بچانے کے لئے تقریبا اٹھا کر باہر لے آئے۔ تائی تھوڑی پہ انگلی رکھے حیران سی کھڑی تھیں اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا ”ہائے نی فریال! اے کڑی تے ککی اے“ خالہ اس وقت تک سر سے سامان اتار چکی تھیں۔ تائی کی اس بات پر وہ اور تایا ہنسنے لگے۔ خالو بچارے میرے گرد لپٹی چادر الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے جو پوری کیچڑ سے لت پت تھی البتہ میرے کپڑے بچ گئے صرف ہاتھ کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر ٹاری اور اس کے ساتھ ٹیوب ویل تھا۔ خالہ نے کہا کہ منہ ہاتھ دھو لو تو پھر درختوں کے نیچے بچھی چارپائیوں پہ آجانا تاکہ اکٹھے کھانا کھائیں۔خالہ اور خالو باتیں کرتے گھر میں چلے گئے جبکہ تایا جی ہاتھ منہ دھو کر چارپائی پہ بیٹھ گئے۔ مجھے ٹیوب ویل کا ٹھنڈا پانی دعوت دینے لگا اور دل چاہا کہ اس حوض میں چھلانگ لگا دوں۔ اور پھر کچھ دیر کی کشمکش کے بعد میں نے اس چار فٹ گہرے حوض میں چھلانگ لگا دی۔تائی چلاتی ہوئی بھاگیں۔ اندر سے خالہ اور خالو بھی بھاگتے ہوئے پہنچے کہ شاید میں پھر پانی میں گر گئی لیکن جب مجھے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی میں اچھلتا کھودتا دیکھا تو تائی نے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔ ”پتر تونے تو میری جان نکال دی سوچا فیر گر گئی“ خالو مسکراتے ہوئے پلٹ گئے اور خالہ میرے پاس آکر بولیں۔ ”اب یہ جو کپڑے گیلے کرلئے نا۔ ان کو سکھاؤ گی کیسے؟“ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ میں تو کپڑے جوتے پہنے کود گئی پانی میں۔ کوئی بات نہیں خالہ میں یہاں بیٹھ کر سکھالوں گی سب۔ خالہ کو تسلی دی لیکن پھر کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جب پانی سے باہر نکلی اور تایا جی کے سامنے جانے سے پہلے خود کو سکھانا پڑا۔ خالہ نے مجھے بھیگی بلی کی طرح حوض کی دیوار پہ بیٹھے دیکھا تو میرے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ ہم باتیں کرتے رہے ہوا۔ تیز دھوپ نے چند منٹوں میں کپڑے سکھادیے تو ہم کھانے کے لئے چارپائی پہ جابیٹھے۔پہلی بار میں نے تندور کی روٹی چٹنی اور لسی کے ساتھ کھانے کا تجربہ کیا۔ ایسا لذیذ کھانا پہلے کبھی نہ کھایا تھا۔ تایا جی نے بتایا کہ گاؤں میں گرمی کی شدت کے سبب لوگ تیل میں پکے کھانوں سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ایسے مرغن کھانوں سے بدن کو گرمی آتی ہے۔ خالو بولے کہ ایک تو ہم جیسے ہیں جو سالن روٹی کھا سکتے ہیں اور جان بوجھ کر چٹنی لسی کو اہمیت دیتے ہیں لیکن یہاں ایسے بہت سے ہیں جن کے وسائل چٹنی لسی کے بھی نہیں۔ خالو کی باتیں سن کر پھر دکھ ہونے لگا کہ آخر ہم اپنے ملک کے دشمن کیوں بنے ہیں؟ کیوں ہنر مندوں کے لئے ایسے مواقع پیدا نہیں کرتے جن سے ان کی کارکردگی بڑھے اور ملک کو بھی ترقی ملے۔خالہ نے برتن اٹھا کر دھونے شروع کردئے اور تائی جی نے اچار (گھر میں تیار کیا گیا) اور گھر کا مکھن اٹھا کر پانی پہ رکھے مٹی کے برتن میں رکھ دیا جو قدرتی طور پر فریج کا کام کرتا ہے گرمیوں کے موسم میں۔وہاں شام تک رکنے کے بعد جب ہم گھر واپس آئے تو خالہ کے بچے جو صبح شہر گئے تھے واپس آچکے تھے اور اب تائی جی سے میری داستان ککا پن سن کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔مجھے لگتا ہے کہ گاؤں میں گزارے ایک دن کو آج تک بھول نہ پائی تو جو ہمارے بزرگ شہروں میں آگئے وہ کیسے ان بند گھروں میں سانس لیتے ہوں گے؟ جو محض اس لئے اپنا ٹھکانہ چھوڑ آئے کہ ان کے بچے اب گاؤں میں رہنا نہیں چاہتے اور بچے رہیں بھی کیوں؟ ستر سال گزر گئے پاکستان میں ماسوائے بڑے شہروں کے ان چھوٹے گاؤں قصبوں کو بنیادی سہولیات کسی نے فراہم نہ کیں۔ ہسپتال نہ بنائے گئے کالج اور یونیورسٹیوں کے لئے طلبہ کو دوسرے شہروں کی طرف جانا پڑتا ہے۔ سڑکیں اس قابل نہیں کہ ایمرجنسی میں کسی کو بروقت ہسپتال لے جایا جاسکے تو کیوں نہ دیہات ویران ہوں اور لوگ شہروں کا رخ کریں۔میں سالوں بعد۔ جب پھر گاؤں گئی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ سب شہروں کو جا بسے۔ جو رہ گئے انہوں نے زمینیں ٹھیکے پر دوسروں کو دے دیں کہ بس ہمیں لم سم رقم دے دیا کرو۔ وہ لوگ خود بھی شہروں کو جاکر اناج خریدتے ہیں۔ مجھے دکھ ہے کہ گاؤں کے وہ دن لوٹ نہیں سکتے میں چاہوں بھی تو میرا گاؤں مجھے واپس نہیں مل سکتا۔کسی نے خوب کہا تھا کہیہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لےبھلے چھین لو مجھ سے میری جوانیمگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساونوہ کاغذ کشتی وہ بارش کا پانی۔بس۔ مجھے بھی وہ لسی وہ چٹنی وہ تندور کی روٹی وہیں ٹالی کے نیچے ٹیوب ویل کے پاس اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانی ہے۔xہائے تائی جی! یہ اتنی گرمی کیوں ہے یہاں، میں نے تقریبا روتے ہوئے کہا تو تائی نے پچکارنے ہوئے میری تھوڑی ہلائی۔ گرمی نہ ہو تو فصل کیسے پکے؟ اناج کو پکانے کے لئے تو آسمان آگ برساتا ہے۔ تب میرے ذہن میں گونجا ’اسی لئے مجھے اپنا آپ تندور میں ِسکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ لیکن وہ آواز کس کی تھی؟ ابھی یہ خیال ذہن میں ابھرا ہی تھا کہ خالہ سر پہ روٹیوں کی بڑی سی چھابی رکھی کمرے میں داخل ہوئیں۔
Monday, 1 July 2019
چٹنی لسی اور تندور کی روٹی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment