Wednesday, 3 July 2019

مرد کے کندھوں پر

دوسال میں کتنی عیدیں گزریں؟

کوئی ایک ہی عید میرے ساتھ گزاری ہوتی؟ 

یہ ہے مطلب فیملی کا تمہاری نظر میں؟

میں نے سب چھوڑ دیا تمہاری خاطر طے کرلیا تھا جہاں تم خوش وہیں میں راضی۔

جو تمہاری خواہش وہی میری ضرورت ۔جیسے تم چاہو گے ویسی نظر آونگی ۔

کیا میں نے تمہاری چاہت میں کوئی شریک بنایا ؟ 

بتاو ۔۔ کیا میری خالص محبت نے ہر بار تمہیں تازگی اور قوت نہ بخشی؟ 

سچ بتاو ۔ جو پیار تم کو دیا کوئی دے سکےگا ؟

  بتاو نا ۔کیا یہی مطلب ہے فیملی کا تمہاری نظر میں ۔۔ کہ جب تم چاہو. بس جب تم چاہو ۔

حمیرا کی آواز نے ساتھ چھوڑ دیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ 

عاطف کو شرمندگی اور ندامت کے باعث سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح اسے تسلی دے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ عورت کی ساری ناراضگی کو مرد کی بانہیں محض ایک لمحے میں سمیٹ سکتی ہیں جب وہ اسے محبت کی گود میں بھر کر اس کو تحفظ کا احساس دیتا ہے ۔ 

وہ پریشان کھڑا اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا جب سامنے کھڑکی سے نائلہ نے اسے اشارہ کیا کہ حمیرا کو تسلی دو۔ وہ جھٹ سے حمیرا کے پاس بیٹھ گیا ۔ 

چپ ہو جاو حمیرا ۔پلیز مت رو ایسے ۔ وہ اس کے چہرے سے آنسو پونچھنے لگا۔

حمیرا اور رونے لگی تو عاطف نے اپنی بانہیں اس کے گرد لپیٹ دیں ۔حمیرا عاطف کے سینے سے لگ کر بہت روئی۔ 

حمیرا اور عاطف کی شادی کو دو سال ہوگئے تھے۔ دونوں ساتھ پڑھتے تھے جب فائنل ائیر میں عاطف نے حمیرا کے گھر جاکر اس کے والد سے براہ راست رشتہ مانگا اور یہ بات حمیرا کو بھی بعد میں معلوم ہوئی کیونکہ دونوں نے پڑھائی کے دوران کبھی ایک دوسرے سے کسی قسم کی چاہت کا اظہار تک نہ کیا تھا۔ 

حمیرا کے والد سلجھے ہوئے انسان تھے انہوں نے عاطف کو اپنے والدین کے ساتھ آنے کا کہہ کر خوش دلی سے رخصت کردیا لیکن عاطف کے گھر والوں نے عاطف کی پسند کو ناپسند کرکے خاندان سے ہی شادی کرنے پر زور دیا جسے عاطف نے مسترد کردیا۔ 

یہ سلسلہ چار ماہ ایسے ہی چلتا رہا ۔اس دوران عاطف اور حمیرا کے درمیان محبت جنم لے چکی تھی ۔اب ان دونوں کے پاس اس سرزمین سے واپسی کا راستہ نہ تھا ۔ 

بالآخر عاطف کے بڑے بھائی نے ہمت کی اور اپنی بیوی کے ساتھ جاکر بھائی کا رشتہ طے کیا اور چند ہفتوں میں شادی ہوگئی۔ عاطف حمیرا کو لے کر الگ گھر میں رہنے لگا۔

حمیرا کے والد کو عاطف نے یقین دلایا تھا کہ وہ بعد میں اپنے والدین کو منا لے گا اور حمیرا کو سسرال لے جائے گا ۔ 

کچھ عرصہ بعد دونوں کی شادی کی پہلی عید آئی تو عاطف نے جو کئی بار پہلے بھی والدین سے مل کر راضی کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا حمیرا کو بتایا کہ امی نے شرط عائد کی ہے کہ عید پر ان کے بھائی کے گھر جاکر معافی مانگو گے تو ہماری ناراضگی ختم ہوگی ۔ ماموں کی لڑکی کا رشتہ ٹھکرانے سے وہ خفا تھے۔ حمیرا نے سوچا کہ عاطف عید کی شام تک لوٹ آئے گا تو اس نے خاموشی سے اجازت دے دی ۔ عاطف نے عید کے پہلے دوروز ماں کے ساتھ گزارے اور تیسرے روز شام کے وقت حمیرا سے ملنے جو عید پر تنہائی کے سبب والدین کے گھر آگئی تھی۔ اس کے والدین کے گھر پہنچا ۔ حمیرا کے والد نے مروت میں کوئی بات نہ کی لیکن حمیرا کی امی نے عاطف سے پوچھا کہ پہلی عید پر حمیرا کو یوں تنہا گھر پہ چھوڑ کر والدین کے گھر جانے سے انہیں تکلیف پہنچی ۔ عاطف نے یہ کہہ کر انہیں ٹال دیا کہ اگلی بار حمیرا بھی ساتھ ہوگی۔ 

اس کے بعد بڑی عید پر بھی عاطف والدین کی طرف چلا گیا یہ کہہ کر کہ بڑے بھائی عید اس بار سسرال کریں گے اور وہاں گھر پہ کوئی نہیں جو قربانی کی فرائض ادا کرسکے حتی کہ عاطف کے اپنے گھر میں قربانی تھی لیکن اس نے جانور ذبح کروا کے حمیرا کے حوالے کردیا کہ وہ خود ہی گوشت بنوا کر بانٹ دے ۔ 

اس طرح پہلی دونوں عیدیں عاطف نے والدین کی طرف گزاریں۔ حمیرا نے گلہ کیا کہ آپ مجھے نہ لے کر گئے ساتھ ۔ تو عاطف نے کہا کہ اس کی ماں ابھی ناراض ہے عنقریب جب منا لوں گا تو لے جاونگا۔ اس طرح سال بھر عاطف بلا ناغہ والدین کے گھر آتا جاتا رہا لیکن حمیرا کو اس گھر کی بہو بننے کا حق نہ ملا۔ حمیرا کے دل پہ کیا گزری عاطف کو احساس نہ ہوا ۔اسے لگتا تھا کہ حمیرا ہر دن ہنستی مسکراتی نظر آتی ہے تو اس کی زندگی میں کوئی غم نہیں۔ ایک مرد جو عورت کے اتنے قریب ہو وہ کیونکر عورت کے درد کو نہیں سمجھتا ۔ شاید مرد سوچنا نہیں چاہتا ۔ مرد کی زندگی میں سوچنے سے زیادہ عمل کرنا اہم ہوتا ہے اسلئے وہ سوچنے میں بہت وقت صرف نہیں کرتا اور جو کرنا چاہتا ہے کرلیتا ہے ۔ جبکہ عورت عملی میدان میں تذبذب کا شکار رہتی ہے. حمیرا بھی چاہتی تو عاطف سے مطالبہ کرسکتی تھی کہ اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو تم بھی نہ جاو۔ لیکن وہ بڑے ظرف کی عورت تھی ۔ 

اس واقعے کے بعد عاطف نے اپنی ماں سے پھر بات کی لیکن انہوں نے پھر انکار کردیا ۔ اس دوران عاطف کی وہی کزن جس کو عاطف نے ٹھکرایا تھا ۔ عاطف کے قریب ہونے لگی۔ حمیرا کو پہلے احساس نہ ہوا لیکن جب عاطف نے بہت زیادہ اپنے والدین کے گھر رہنا شروع کردیا تو اسے تشویش ہوئی ۔ 

دوسال گزر جانے کے باوجود حمیرا کو پھل نہ لگا اور دونوں اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔

عاطف کی ماں نے اسی بے اولادی کو جواز بنا کر عاطف کو مجبور کیا کہ وہ دوسری شادی کر لے ۔ پہلے پہل عاطف نہ مانا لیکن جب اسکی کزن اس کے گرد جال بننے لگی تو وہ بھی اس لائن پر سوچنے لگا ۔ 

عاطف ۔ عاطف ۔ حمیرا عاطف کو جگارہی تھی جو رات بہت دیر سے گھر لوٹا تھا اور اب دن چڑھ گیا تھا ۔ عاطف نے خماری میں ہمم ہمم کیا اور پھر حمیرا پہ بجلی آن گری جب اس نے سنا کہ عاطف اسے نورین کہہ رہا ہے۔ اس نے عاطف کو زور سے جھنجھوڑا۔۔ 

عاطف ۔اٹھو عاطف ۔ کیا کہہ رہے ہو ؟ کون ہے یہ نورین؟ 

وہ بھڑک اٹھی تھی۔ پہلے اسے صرف شک گزرا تھا کہ عاطف میں تبدیلی آرہی ہے لیکن پھر وہ غائب رہنے لگا اور آج وہ دوسری عورت کا نام لے رہا تھا ۔

عاطف اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔

کیا ہوا ؟ کیا کہا تم نے؟ وہ بوکھلا گیا تھا۔ 

کون ہے نورین؟ حمیرا نے تیز لہجے میں پوچھا ۔

کون نورین ؟ کس نے کہا؟ کیا کہا؟ اب وہ بالکل سٹپٹاگیا تھا

ابھی تم نے نام لیا ۔نورین کا نام لیا ۔ حمیرا نے کہا۔

کیا کہا میں نے ؟ اب عاطف سنبھلنے لگا 

تم نے کہا سونے دو نورین ۔ عاطف کون ہے نورین ؟ بتاو مجھے؟ 

عاطف سے کوئی بات نہ بن پائی اور اس نے حمیرا سے جھگڑا شروع کردیا ۔ بہت دیر لڑائی ہوئی اور آخرکار عاطف نے مان لیا کہ جس کزن کو چھوڑ کر اس نے حمیرا سے شادی کی وہ اب اسی سے شادی کرے گا۔ 

حمیرا یہ سن کر سکتے میں آگئی اور محبت کے دعوے پیار کی قسمیں سبھی اس کے دل پہ کسی بھاری پتھر جیسے بن گئے۔

اس لڑائی کے بعد عاطف ماں طرف چلا گیا ۔ حمیرا نے چاہا کہ اپنے والدین سے معاملہ چھپا رکھے لیکن والدین سے اولاد کا دکھ کب چھپا ہے کبھی۔

ساری بات جب حمیرا کے والد نے سنی تو انہوں نے بیٹی کو صبر کی تلقین کی اورکہا، کچھ دن انتظار کرو ۔ عاطف آجائے گھر تو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے ۔ 

حمیرا نے عاطف کے بڑے بھائی سے رابطہ کیا تو انہوں نے شرمندگی کا اظہار کیا اور بتایا کہ چند روز بعد عاطف کی شادی ہے ۔ وہ اس سلسلے میں بے بس ہیں کیونکہ عاطف کے پاس اولاد نہ ہونے کا جواز ہے ۔

حمیرا کے والد نے بیٹی کو تاکید کی کہ طلاق مت لینا ۔ اگر اس کو اولاد کی خاطر شادی کرنی ہے تو کرنے دو ۔ تم جہاں رہتی ہو رہو ۔ انہوں نے حمیرا کو اسلام کا حوالہ بھی دیا کہ اس میں گناہ کی بات نہیں کہ وہ دوسری عورت سے نکاح کرلے ۔یہ حق شریعت نے مرد کو دے رکھا ہے ۔ حمیرا کے والد نے دل پہ جبر کرکے بیٹی کو سمجھایا۔ حمیرا نے سر تسلیم خم کیا اور اپنے گھر لوٹ گئی ۔ عاطف نے شادی سے پہلے گھر آکر اپنا ضروری سامان اٹھاکر ماں کی طرف شفٹ کردیا۔

حمیرا کو کہا کہ وہ یہاں آتا جاتا رہے گا اور اسے طلاق نہیں دے گا۔ لیکن شادی کے دس روز بعد ہی نورین نے حمیرا کو طلاق دلوا دی ۔ 

حمیرا کو نروس بریک ڈاون ہوگیا اور وہ ہسپتال منتقل ہوگئی۔ اس خبر کے سنتے ہی حمیرا کے والد کو دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حمیرا کی بیہوشی کے دوران ہی ان کا جنازہ ہوا اور تدفین بھی ہوگئی۔ 

حمیرا کو ہوش آتے اور سنبھلتے چند دن گزر گئے ۔ ڈاکٹرز نے منع کردیا کہ والد کے انتقال کا ابھی نہ بتایا جائے۔

حمیرا ہفتے بعد جب گھر آئی تو خاموشی دیکھ کر اس نے والد کا پوچھا۔ بتایا گیا کہ وہ کسی کام کے سلسلےمیں شہر سے باہر گئے ہیں۔لیکن گھر میں لوگوں کی آمد و رفت غیر معمولی دیکھ کر اسے شک ہوا اور پھر معلوم ہوا کہ اس کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ 

حمیرا ایک بار پھر بیہوش ہوگئی۔جب ہوش میں آئی تو خوب روئی۔ 

حمیرا کی طلاق کو دو ماہ گزر گئے تو اس کی کلاس فیلو نے اسے جاب کرنے کے لئے کہا ۔ حمیرا عدت کا بہانہ بنایا اور انکار کردیا۔ پھر عدت مکمل ہونے تک حمیرا بہت حد تک سنبھل چکی تھی ۔

اگلے روز اس کی سہیلیوں نے اسے ساتھ لیا ۔ شاپنگ کروائی اور ڈنر تک حمیرا کو خوب ہنساتی رہیں ۔ اسی دوران صبا جو بچپن کی دوست تھی کہا کہ حمیرا کو جاب کرنی چاہیے اور اس کے آفس میں جگہ بن سکتی ہے۔ حمیرا ابھی تک ذہنی طور پر تیار نہ تھی لیکن سہیلیوں کے سمجھانے پر رضامند ہوگئی۔ 

چند ہفتوں بعد حمیرا نے صبا کے آفس کو جوائن کیا جو ایک لیدر بزنس کا بکنگ آفس تھا اور یہاں صرف چند لوگ ہی کام کرتے تھے۔ کام کوئی ایسا مشکل نہ تھا۔ تنخواہ بھی معقول تھی ۔ حمیرا کو مالی طور پر بھی سہارا مل گیا۔ 

ادھر عاطف کی شادی کو سال ہونے کا آیا لیکن اولاد نہ ہوئی ۔ نورین نے بہت سے ٹیسٹ کروا لئے لیکن کوئی وجہ سامنے نہ آئی۔ بالآخر ڈاکٹرز نے عاطف کو ٹیسٹ کروانے کا کہا ۔ اس پہ عاطف نے کچھ ناپسندیدگی کا اظہار کیا لیکن پھر نورین کے طعنوں سے تنگ آکر ٹیسٹ پر رضامند ہوگیا۔ 

جب رزلٹ آیا تو عاطف کے طوطے اڑ گئے ۔ اولاد نہ ہونے کا نقص عاطف میں تھا نورین اور حمیرا دونوں کا قصور نہ تھا۔ عاطف کو ڈاکٹر نے علاج کا مشورہ تو دیا لیکن بہت امید نہ دلائی۔ عاطف بہت دن تک کمرے سے باہر نہ نکلا ۔ندامت اور غصہ اس پہ حاوی رہے ۔ نورین بھی ناراض ہوکر ماں کے گھر چلی گئی۔ جسے کچھ دن بعد راضی کرکے اس کی ماں آپس لے آئی۔لیکن اب وہ عاطف کو ہر وقت طعنے دینے لگی ۔ 

دوسری طرف حمیرا اب نارمل زندگی گزارنے لگی تھی۔عاطف کو بھیانک خواب سمجھ کر بھلا چکی تھی۔ اب وہ بیقرار اور بے سکون نہ تھی۔پہلے پہل اسے عاطف کی یاد دیوانہ بنائے رکھتی تھی لیکن جب اس نے طے کرلیا کہ عاطف کو زندگی سے نکالنا ہے تو یوں نکالا جیسے کبھی تھا ہی نہیں ۔ 

عورت ایسی ہی انتہا پسند ہے ۔ جب پیار کرے تو انتہا تک جاتی ہے جب دشمنی پہ اترے تو کچھ نہیں رہنے دیتی سب جلا دیتی ہے اور جب بیزار ہوجائے تو لاکھ چاہیں وہ دوبارہ اپنے دل میں جگہ نہیں بنانے دیتی۔ یہی حمیرا نے کیا ۔عاطف کو اپنی زندگی سے دل سے اور دماغ سے نکال باہر کیا اور اب ایک پرسکون اور باعزت زندگی گزار رہی تھی۔ 

حمیرا کے آفس میں گنتی کے چند لوگ تھے ۔ باس کبھی کبھار دفتر آتا تھا اور جب سے حمیرا نے جاب شروع کی تھی وہ اس طرف آیا ہی نہ تھا ۔ مینجر اچھا آدمی تھا وہ باس کو اپڈیٹ رکھتا تھا۔صبا نے حمیرا کو دوبارہ شادی کے لئے چند ایک لوگوں سے بھی ملوایا کیونکہ صبا کو حمیرا کی امی کی طرف سے بار بار حمیرا کو شادی کے لئے منانے کے اصرار کا سامنا تھا ۔ پہلے پہل صبا نے بہانے سے ملوایا پھر حمیرا کو پتا چلا تو اس نے صبا کو منع کردیا ۔ 

حمیرا نے صبا سے کہاکہ وہ ماں نہیں بن سکتی تو بھلا کوئی شخص ایک طلاق یافتہ بانجھ عورت سے شادی کیونکر کرے گا جبکہ کنواریوں سے شہر بھرا پڑا ہے۔ اس بات پر دونوں میں خوب  بحث و تکرار ہوئی ۔چند روز دونوں ناراض رہیں اور پھر صلاح ہوگئی۔

ایک روز حمیرا کو مینجر نے آفس بلوایا ۔ حمیرا جب باس کے دفتر داخل ہوئی تو دیکھا گہرے نیلے سوٹ اور سفید شرٹ پر نیلی ٹائی پہنے ایک رعب دار شخص بیٹھا ہے ۔ مینجر نے بہت احترام سے حمیرا کو بیٹھنے کے لئے کہا اور حمیرا کا باس سے تعارف کروایا کہ یہ نئی بھرتی یے۔

محسن ملک نے حمیرا سے زیادہ بات نہ کی بس یہی پوچھا کہ وہ اپنی جاب سے مطمئین ہے ؟ اسے کوئی مسئلہ تو نہیں ؟ اگر کبھی کوئی بات کرنا ہو تو مینجر صاحب سے کہہ کر رابطہ کرلے ۔ پھر مینجر نے حمیرا کو واپس جانے کا کہا اور وہ اپنے کیبن میں پلٹ آئی جہاں صبا پہلے سے موجود تھی۔ 

صبا اور حمیرا دونوں ایک ساتھ آتی جاتی تھیں ۔صبا کا گھر حمیرا کے گھر سے آگے تھا وہ اسے دروازے پہ اتار کر آگے بڑھ جاتی تھی۔اسلئے حمیرا کو کبھی آنے جانے کی مشکل پیش نہ آئی۔ 

وقت گزرتا رہا ۔کمپنی کا آڈٹ شروع ہوا اور سبھی دیر تک آفس رکنے لگے ۔ باس بھی روز دفتر آتے اور حمیرا کی اکثر ملاقات رہنے لگی ۔ چند دن میں حمیرا باس کی فیورٹ امپلائی لسٹ میں شامل ہوگئی ۔ مختلف شہروں کے آفسز کے کھاتے بھی انہیں دیکھنے پڑ رہے تھے کیونکہ کچھ لوگوں نے کمپنی کا نقصان کیا تھا ۔ 

آڈٹ رپورٹ تیار ہوگئی تو باس نے آفس آنا کم کردیا البتہ بونس الاونس کے ساتھ ساتھ ایک ڈنر کا اہتمام کروایا گیا اور تمام آفس کے افراد کو ایک پر فضا مقام پر مدعو کیا گیا۔ 

صبا اور حمیرا دونوں نے آفس روٹین سے ہٹ کر تیاری کی ۔ حمیرا نے طلاق کے بعد پہلی بار میک اپ کیا تھا۔اس نے سبز رنگ کا سوٹ اور ہلکی سے جیولری بھی پہن رکھی تھی ۔

مقررہ وقت پر سب جمع ہوگئے اور باس محسن ملک کا انتظار کرنے لگے۔ 

محسن ملک نے آنے سے پہلے مینجر کو کچھ ہدایات دے دیں تھیں اسی لئے مینجر نے کھانے کے آرڈر کے ساتھ کچھ اور بھی ہدایات ہوٹل کے مینجر کو کردی تھیں ۔

محسن ملک آچکے تھے اور کھانا شروع ہوچکا تھا ۔ آفس کے  9 مرد اور حمیرا صبا دو خواتین تھیں۔محسن ملک آج پہلی بار شلوار قمیض میں نظر آئے ۔حمیرا کو کچھ عجیب سا لگ رہا تھا کہ جیسے محسن ملک بار بار اسے دیکھ رہے ہیں ۔ 

شاید پہلی بار حمیرا کو بہتر انداز سے تیار ہوئے دیکھا تھا ۔ حمیرا بھی محسن ملک سے نگاہیں چرانے لگی ۔ کھانے کے بعد جب سویٹ ڈش کا دور شروع ہوا تو مینجر نے سب کے سامنے کاغذ کے بند لفافے رکھ دئیے اور دو لوگوں کو خوشخبری سنائی کہ اس سال ان کا نام کپمنی کی حج لسٹ میں آگیا ہے ۔ کمپنی ہر سال ہر شہر سے دو لوگ حج کے لئے بھجواتی تھی اور تمام خرچ کمپنی کے ذمہ ہوتا تھا ۔ 

مینجر نے رقم والے لفافے تقسیم کرنے کے بعد سب کا شکریہ ادا کیا ۔رسمی الوداعی لمحات کے بعد سب کو رخصت کردیا گیا.

صبا نے محسن ملک کا شکریہ ادا کیا تو حمیرا نے بھی آہستہ سے شکریہ کہا۔ محسن ملک نے کان پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ آپ نے کچھ کہا حمیرا ؟ ان کا اشارہ ایسا تھا جیسے انہیں سنائی نہ دیا۔ حمیرا نے جھجکتے ہوئے پھر کہا ۔ جی سر۔ شکریہ ۔ اس کی آواز پھر بھی دھیمی تھی اور وہ بہت گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔ 

محسن ملک نے پھر سے کہا : آپ نے شاید ڈنر ٹھیک سے نہیں کیا حمیرا۔ آپ کی تو آواز ہی نہیں نکل رہی۔ صبا ہنسنے لگی۔اس نے کبھی محسن ملک کو اس طرح کسی سے بے تکلف ہوتے نہ دیکھا تھا۔ 

حمیرا شرمانے لگی ۔اس کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ محسن ملک نے پھر کہا: ویٹرز کو بلواتے ہیں آپ کے لئے کھانا دوبارہ لگواتےہیں ۔ 

حمیرا سمجھی شاید محسن ملک سنجیدہ ہیں اس نے گھبرا کر منہ اوپر اٹھایا: نہیں نہیں ۔  

محسن ملک پر اسرار نگاہوں سے اس کا جائزہ لے رہے تھے۔ ایک لمحے کو دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں اور حمیرا کو ایک سحر نے جکڑ لیا۔ محسن ملک کی نگاہوں نے ایک حفاظتی حصار باندھ لیا ۔حمیرا کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ کسی کی پناہ میں آگئی ہے۔چند لمحوں میں صبا کو احساس ہوگیا کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ وہ دھیرے دھیرے پیچھے ہٹنے لگی.

محسن ملک عمر کی پچاس بہاریں دیکھ چکنے کے بعد اب بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی محض چھ ماہ تک چلی کیونکہ جس خاتون سے انہوں نے بچوں کی خاطر شادی کی تھی وہ محض دولت جمع کرنے کی شوقین نکلی۔ محسن ملک کے دو بچے ،اٹھارہ سال کا بیٹا اور سولہ سال کی بیٹی تھی۔ بیٹے کی تو ان کو زیادہ فکر نہ تھی لیکن بیٹی کے لئے وہ کوئی سمجھدار خاتون بچوں کی ماں کے روپ میں لانا چاہتے تھے جو ان کی بیٹی کا خیال بھی رکھ سکے اور ان کی آئیندہ زندگی کی ساتھی بھی بنے۔ حمیرا کے ساتھ چند دن مسلسل کام کے سلسلے میں جو ربط قائم ہوا اس میں محسن ملک نے حمیرا کی شخصیت میں ایک زمہ دار اور مخلص ماں کو دیکھ لیا تھا۔

صبا کے ذریعے حمیرا کی کہانی سن چکے تھے اور اس کی ماں کی فکر سے بھی آگاہ تھے۔آج جب انہوں نے حمیرا کو ایک الگ سے روپ میں دیکھا تو ان کے دل میں حمیرا کی چاہت کے جذبات بھی ابھرنے لگے اور یہیں ڈنر کی ٹیبل پر وہ اسے اپنانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔اب حمیرا کی آنکھوں میں جھانک کر یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ حمیرا ان کو انکار نہیں کرے گی جب وہ اس کا رشتہ مانگیں گے۔

صبا اور حمیرا دونوں گھر کے لئے نکل آئیں ۔راستے میں صبا نے محسن ملک کی دلچسپی کے حوالے سے بات کی تو حمیرا نے خاموشی اختیار کی ۔ صبا نے پھر اصرار کیا تو حمیرا نے دکھی دل سے عاطف کی بے وفائی کا تذکرہ چھیڑدیا۔ 

صبا: یار اس بیوفا کم ظرف آدمی کا نام بھی نہ لو۔ اسے تمہاری قدر اب آئے گی جب نورین کے تیور دیکھے گا ۔

حمیرا: صبا مجھے لگتا ہے سب مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔

صبا: نہیں یار ایسا نہ کہو ۔ محسن ملک کے ساتھ برسوں کام کیا ہے میں نے کبھی کوئی نامناسب حرکت حتی کہ کوئی غیر اخلاقی بات تک نہ سنی ان سے۔ہمیشہ عزت سے پیش آتے ہیں ۔

حمیرا: ہاں یہ تو ان چند دنوں میں کام کے دوران مجھے بھی اندازہ ہوگیا کہ وہ ایک غیر معمولی شخصیت ہیں۔ایک نفیس انسان۔

صبا نےحمیرا کو یہ بات سمجھانے میں سارا سفر طے کیا۔گھر پہنچنے تک حمیرا کا ذہن محسن ملک کو قبول کرنے کو تیار تھا۔ 

چند روز بعد محسن ملک نے حمیرا کے گھر جاکر اسکی ماں سے رشتہ مانگا اور پھر سادگی سے نکاح کرکے حمیرا کو اپنے گھر لے آئے ۔

حمیرا کی زندگی کو دوسرا رخ دوسری شادی نے دیا جب شادی کی پہلی رات اسے اپنا آپ بہت معتبر اور قیمتی لگنے لگا۔

سہاگ رات حمیرا کے لئے کسی سہانے خواب جیسی تھی ۔ محسن ملک نے تحائف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ جو محبت اسے دی وہ اس کی زندگی میں بہار جیسی تھی۔

محسن ملک نے حمیرا کے انگ انگ سے لپٹی مایوسی کو اپنے لبوں سے چن لیا تھا۔ اس شدت کی چاہت نے اس کے بدن کی ہر شاخ کو ہرا کردیا۔ وہ رات بھر موسم بہار میں برستی نرم پھوار سے اپنے تن من کو بھگوتی رہی۔ پہلی بار اسے اپنا آپ مکمل ہوتا نظر آیا۔ 

محسن ملک اس کی زندگی کی پزل کا مسنگ پیس تھا جو آج اپنی جگہ فٹ ہو کر اس خوبصورت تصویر کو مکمل کررہا تھا۔

خمار بھری صبح میں اس نے پہلو میں سوئے ہوئے محسن ملک کو دیکھا۔ اب وہ رعب دار سوٹڈ بوٹڈ شخص نہیں بلکہ ایک معصوم بچے جیسے دکھائی دیتے تھے ۔چہرے پر سکون اور آسودگی سجائے محسن ملک کی بانہیں اب بھی اسے جکڑے ہوئے تھیں۔

حمیرا نے دھیرے سے ان کے بالوں کو سہلایا اور ماتھے پر بوسہ دیا ۔ 

محسن ملک نے ہلکی سی خمار بھری آواز میں اسے پکارا۔

محسن ملک: آپ کہاں تھیں اب تک !

حمیرا کے اندر خوشی اور حیا کی ملی جلی لہر دوڑنے لگی۔ محسن ملک کا ہاتھ اس کی کمر سے سرکتا ہوا چہرے تک آیا تو انہوں نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھول دیں۔ مخمور نگاہوں میں اب بھی تشنگی کے آثار تھے ۔حمیرا کو کبھی اس کی چاہت کے واسطے کسی نگاہ میں ایسی تشنگی نظر نہ آئی تھی۔ محسن ملک کی چاہت آنکھوں سے عیاں تھی۔ وہ نگاہوں سے دیوانہ وار اس کے بوسے لئے جارہے تھے ۔

حمیرا ایک بار پھر محبت کی گود میں تھی جو اس کے انگ انگ کو سرور دے رہی تھی۔ دو بدن محبت کی آغوش میں ایک ہورہے تھے ۔ نرم بستر پر گرم جسموں کی سانسیں فضا میں کوئی کیمسٹری بنارہی تھیں، وہاں صرف پیار کی آکسیجن جنم لے رہی تھی۔

دونوں بے خبر تھے کہ ان کے سوا بھی کوئی دنیا ہے۔ہوش تب آیا جب فون کی بیل بجنے لگی۔

حمیرا نے خود کو محسن ملک کی بانہوں سے آزاد کیا اور ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا ۔ اسے پتا تھا کہ اس نے اپنی ماں کو کمرے میں لگے فون کا نمبر دیا تھا اور اس وقت وہ ناشتے کا پوچھنا چاہتی تھیں ۔

دوسری طرف حمیرا کی بہن تھی۔ جو جاننا چاہتی تھی کہ وہ محسن ملک کے ساتھ کس وقت میکےملنے آئے گی تاکہ کھانا تیار کیا جاسکے۔ حمیرا نے پہلے ہی سب کو سمجھا دیا تھا کہ وہ رسم و رواج کے چکر میں نہ پڑیں۔ جب محسن ملک نے کہا تو آجائیں گے ۔ پھر فون رکھ کر اس نے شرماتے ہوئے پوچھا۔

حمیرا: امی نے ناشتے پر بلایا تھا لیکن اب دیر ہوگئی ۔ دوپہر کا کھانا کہہ دوں ؟

محسن ملک: جو آپ کا جی چاہے کہہ دیجئے ۔ ہم تو اب تابعدار ہیں آپ کے ۔ 

حمیرا نے مسکرا کر دیکھا اور پھر کال کرکے میکے اطلاع کردی کہ لنچ کریں گے ان کے ساتھ ۔

بادل ناخواستہ محسن ملک نے بستر چھوڑا اور نہانے چلے گئے۔ 

حمیرا نے بھی اپنا کام والا جوڑا اور میچنگ جیولری نکال کر رکھی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں ناشتے کی ٹیبل پر تازہ جوس پی رہے تھے۔ ملازمین کا تعارف کروایا گیا اور پھر گھر کا وزٹ ہونے لگا۔ محسن ملک نے حمیرا کو باہر خوبصورت لان دکھایا اور ساتھ ہی ایک طرف پھل دار درختوں کا باغ اور سبزیاں دکھائیں۔ مالی نے حمیرا کو بتایا کہ محسن ملک خود سبزیاں اگاتے ہیں۔ یہ ان کا شوق ہے ۔ 

گھومتے پھرتے سارا گھر دیکھتے اور ملازموں سے ملتے کافی وقت گزر گیا۔ حمیرا نے لنچ کی یادہانی کروائی تو دونوں کمرے میں آگئے ۔ محسن ملک نے حمیرا سے پوچھا ۔

محسن ملک:آپ رات وہاں رہیں گی؟ 

حمیرا: جی 

محسن ملک: ہمارا کیا ہوگا ؟ ان کے لہجے میں شرارت تھی ۔

حمیرا مسکرا کر رہ گئی ۔ وہ پھر بولے ۔

محسن ملک: کیا یہ ضروری ہے ؟ اب وہ آگے بڑھے اور اس کی کمر کے گرد بانہیں پھیلانے لگے۔ حمیرا تو جیسے خود بھی اسی انتظار میں تھی کہ وہ آگے بڑھ کر یہ دوری ختم کردیں۔

کمرے کی فضا ایک بار پھر بدلنے لگی ۔ محسن ملک نے حمیرا کے کان میں سرگوشی کی۔

محسن ملک: ایسی تشنگی تو میری نوجوانی میں بھی نہ تھی۔کیا ہے آپ میں کہ جی نہیں بھرتا۔ 

وہ اسے چومتے رہے اور وہ اپنی قسمت پہ حیران ہونے لگی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب حقیقت ہے۔ عاطف نے حمیرا سے پسند کی شادی رچائی تھی لیکن اتنی والہانہ محبت اس نے دوسال میں بھی نہ دی تھی جو محسن ملک نے محض ایک رات میں دی تھی۔ دوسری بات جو اسے حیران کررہی تھی کہ محسن ملک کی عمر اب پچاس برس ہورہی تھی لیکن وہ ایک بھرپور مرد نظر آئے جس نے اس کی زندگی کے اس حصے کو مکمل کیا جو عاطف نہ کرسکا۔ اس کی بجھی خواہشوں اور مردہ طلب میں جان بھر دی ۔وہ اب ایک مفلوج کردینے والی کشش میں گرفتار کھڑی تھی۔ 

محسن ملک کے بوسے اور اس کی سانسوں میں گھلتی سانسیں اس وقت سب سے قیمتی شے تھی۔

قدرت کا کمال تھا کہ دونوں زندگی کی مشکلات سے تنہا تنہا لڑتے آج ایک جگہ آن ملے تو جیسے کب سے آشنا تھے۔

محسن ملک: کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ عمر کے اس حصے میں محبت ٹکرا جائے گی۔ وہ اس کے بالوں کو سنوارتے بولے۔ آپ کی کمی تھی زندگی میں لیکن پتا نہیں کہاں کہاں کیا کیا فٹ کرتا رہا ۔ آپ سے ملا ۔ ایسا لگا ۔پرفیکٹ!

 محسن ملک نے اسے بھینچتے ہوئے پھر کہا ۔پرفیکٹ۔یو آر پرفیکٹ! حمیرا نے سینے پر سر ٹکا دیا اور سینے میں دھڑک دھڑک کرتی دھڑکنوں میں اپنا نام سننے لگی۔

کچھ دیر دونوں بادل ناخواستہ کمرے سے تیار ہوکر نکلے تو محسن ملک نے ملازم کو اشارہ کیا جس کی حمیرا کو سمجھ نہ آئی ۔ ملازم نے آگے بڑھ کر گاڑی کی چابی محسن ملک کے ہاتھ میں دی اور کہا :صاحب وہ سامان ڈگی میں رکھوا دیا ہے ۔

محسن ملک نے سر ہلا دیا اور گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے خود حمیرا کے لئے دروازہ کھولا ۔ وہ شرماتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی اور آج اسے پہلی بار فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر احساس ہورہا تھا کہ قدرت نے اس کے لئے فرنٹ سیٹ کا اہتمام کیا تھا جو اسے پہلے سمجھ نہ آئی تھی۔

امی کے گھر گاڑی گیراج کے اندر جاکر رکی ۔ بہنوں اور سہیلیوں نے زبردست استقبال کیا ۔ حمیرا کی ماں نے خوب بلائیں لیں اور صدقہ دیا۔ 

دونوں ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے اور پھر حمیرا سے بہت سے سوال ہونے لگے ۔اس دوران محسن ملک نے نائلہ کو ساتھ لیا اور کچھ ہی دیر میں ڈھیر سارے تحائف کمرے میں موجود تھے۔ محسن ملک نے کہا کہ جس کو جو چاہیے خود ہی اٹھا لے ۔

کھانا کھاتے کھاتے شام ہوگئی اور پھر محسن ملک نے اجازت چاہی ۔ حمیرا انہیں دروازے تک چھوڑنے جارہی تھی لیکن اس کا دل چاہا وہ ساتھ ہی چلی جائے۔ محسن ملک بھی کچھ بے چین سے نظر آرہے تھے۔ 

محسن ملک: آپ کا یہاں رات رکنا ضروری ہے ؟ ان کے لہجے میں سوال سے زیادہ التجا تھی۔

حمیرا: جی ۔ سب بہنیں اور سہیلیاں اسی لئے آئی ہیں کہ ہم رات بھر باتیں کریں گے ۔حمیرا نے بھی بجھے بجھے لہجہ میں کہا تو محسن ملک اس کے قریب ہوگئے۔

محسن ملک: کیسی عجیب بات ہے ۔ابھی کل تک تو میں ایک بوڑھا شخص تھا جسے اپنے نوجوان بچوں اور کاروبار کی فکر کھائے جاتی تھی ۔ اور آج تو میں صرف ایک عاشق بیقرار بن گیا ہوں۔ انہوں شرارت بھرے لہجے میں کہا اور دونوں ہنسنے لگے۔ کچھ دیر دل لگی کرتے رہے اور پھر حمیرا نے انہیں رخصت کردیا۔ ابھی پلٹی بھی نہ تھی کہ ہر طرف سے قہقہے گونجنے لگے۔ حمیرا کی سہیلیوں نے عاشق بیقرار کی باتوں کا حوالہ دے کر خوب چھیڑا۔ حمیرا نے تھوڑی ناراضگی دکھائی کہ اس طرح چھپ چھپ کر انہوں نے  باتیں کیوں سنیں لیکن سب مذاق کرتی رہیں ۔

حمیرا کی ماں بہت خوش تھی۔ وہ بار بار اپنی بیٹی کو چومتیں اور محسن ملک کو دعائیں دے رہی تھیں۔ محض ایک دن میں ان کی ساری زندگی بدل گئی تھی۔ ان کی فکر اب فخر میں بدل گئی اور بے چینی اب سرور میں ڈھل گئی تھی ۔ حمیرا کی دوست صبا اسے بار بار چھیڑ رہی تھی کہ ہمیں اپنی سہاگ رات کے متعلق بھی کچھ بتاو۔

صبا: محسن ملک جس طرح نوجوانی کی باتیں کررہے ہیں نظر آتا ہے کہ خوب رنگ جما رات بھر۔ کمرے میں سب کے قہقہے گونجنے لگے ۔ حمیرا کی شرمیلی طبیعت میں اچانک شوخی آگئی ۔ 

حمیرا: وہ جیسے سنجیدہ نظر آتے ہیں ویسے ہرگز نہیں ۔ ندیم بیگ بنے رہے رات بھر ۔۔۔ حمیرا نے ہنستے ہوئے کہا تو اوہو ہائے ہائے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔

صبا : اور آپ یقینا شبنم بن گئیں ہونگی۔ سب ہنسنے لگے اور اسی طرح رات دیر تک سہیلیاں اور بہنیں باتیں کرتی کرتی سوگئیں۔ 

حمیرا تھکی ہوئی تھی لیکن اسے اپنے پہلو میں محسن ملک کی کمی کا شدت سے احساس تھا ۔ دل میں طوفان اٹھتا رہا کہ ابھی انہیں بلا لے۔ رات 2 بج رہے تھے جب سبھی سوچکے تھے صرف صبا اور حمیرا جاگ رہی تھیں ۔ حمیرا کا دل بےچین ہوا اور فون کی بیل بجی ۔ اسے پتا تھا وہ جھٹ سے اٹھی اور صبا مسکرائی ۔ 

صبا: ہاں اس وقت تو آپ کے ہیرو صاحب ہی ہوسکتے ہیں جائیے۔

حمیرا نے ریسیور دوسری بیل پہ اٹھا لیا۔ 

محسن ملک: آپ شایدانتظار میں تھیں ؟

حمیرا: جی نیند نہیں آرہی تھی۔ 

محسن ملک: آجائیں ہم ؟ آواز میں کچھ شوخی تھی۔ 

حمیرا: اب رات گزرنے کو ہے ۔ آپ صبح جلدی آجائیے گا ۔ 

محسن ملک: آپ کے بنا تو یہ رات گزرتی نظر نہیں آتی زوجہ ۔ محسن ملک نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا اور حمیرا کا دل ایک بار پھر کھل اٹھا۔

حمیرا : اتنی یاد آرہی ہوں؟ 

محسن ملک: آپ کو بھولیں گے تو یاد آئیں گی ۔ہماری تو جاں پر بنی ہے ۔ دل تو چاہتا ہے کہ ہاتھوں سے سورج کو نکال لائیں جاکر۔صبح تو ہو ۔ دروازے پہ کھڑا پائیں گی۔ 

حمیرا: جی آپ کو ناشتے کی دعوت ہے آج امی کی طرف سے۔ یاد رکھئے گا ۔ میں ناشتہ آپ کے ساتھ ہی کروں گی ۔ 

محسن ملک: جی جی بالکل یاد ہے ۔ اسی لئے تو کہا کہ بس صبح تو ہو ۔ہماری زندگی میں ایسی کٹھن رات کبھی نہ آئی بس غلطی ہوگئی ۔ ایک بار آپ کو واپس لے آئیں پھر آپ کو اجازت نہیں دیں گے کبھی اس طرح ہمیں تڑپتا چھوڑ کر جائیں۔ 

محسن ملک نے کسی عاشق بیزار کی طرح کہا تو حمیرا کا دل اور بے چین ہوگیا۔ 

کچھ دیر یونہی فون پہ دونوں جدائی کا دکھ روتے رہے پھر حمیرا سونے چلی گئی۔ صبا بھی اس دوران سوچکی تھی۔ 

حمیرا ۔ حمیرا ۔ کوئی اس کے کندھے پکڑے جھنجوڑ رہا تھا۔ اس نے بہت مشکل سے آنکھیں کھولیں ۔

فجر ہوگئی کیا؟  حمیرا نے اونگتے ہوئے کہا 

نہیں صبح کے 7 بج رہے ہیں اور محسن ملک ناشتہ کرنے آن پہنچے ہیں۔ نائلہ کی سرگوشی پر حمیرا کے کان کھڑے ہوگئے ۔ وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی ۔ 

اتنی صبح صبح؟  وہ حیرانگی سے بولی ۔ امی کہاں ہیں ؟ ناشتہ کون بنا رہا ہے ؟ ان کے پاس کون بیٹھا ہے ؟ حمیرا نے لگاتار کئی سوال جڑ دئیے۔

اوہو ۔ یہ سب چھوڑو۔ اٹھو بلا رہے ہیں ۔ نائلہ نے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔کیسا بے چین میاں ہے آپی تمہارا ! 

صبا بھی اب اٹھ بیٹھی اور صورتحال کا جائزہ لے کر ہنس رہی تھی ۔ 

صبا: موصوف صبح سویرے پہنچ گئے۔ کیا کردیا تم نے ہمارے باس کو۔ وہ سرگوشی کے انداز میں بولی تو حمیرا نے خفگی سے دیکھا ۔ 

حمیرا: پتا نہیں یار۔ اس سب کی تو مجھے بھی امید نہ تھی ۔میں تو خود خواب کی کیفیت میں ہوں اور اب دل ڈرتا ہے کہ آنکھ نہ کھل نہ جائے۔ حمیرا نے افسردگی سے کہا تو صبا نے اٹھ کر اس کا ہاتھ دبایا۔ 

صبا: اللہ نے تمہیں صبر کا پھل دیا ہے ۔ ڈرو نہیں یہی حقیقت ہے۔ تم خوش رہو گی ۔ مایوسیوں کا دور گزر گیا۔ تم نے بہت دکھ اٹھائے ہیں جانی۔ اب اور نہیں ۔

دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں ۔ نائلہ نے ایک بار پھر کمرے میں جھانک کر حمیرا کو آنکھیں نکالیں تو وہ جلدی سے اٹھ کر منہ دھونے چلی گئی۔

محسن ملک کے پاس حمیرا کی امی بیٹھی تھیں ۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں کہ ناشتہ لگادوں۔

ان کے جانے کے بعد محسن ملک اٹھے اور حمیرا کو بانہوں میں بھر لیا اور بولے۔ گڈ مارننگ ڈارلنگ۔چلیں تیار ہوں گھر چلتے ہیں ۔ 

حمیرا ہنسنے لگی۔ رک جائیں ابھی ناشتے کے بعد کچھ دوستوں نے آنا ہے۔شام کی چائے کے بعد گھر جائیں گے ۔ 

محسن ملک: کیا کہہ رہی ہیں زوجہ؟ وہ حیران سے اسے دیکھنے لگے۔ حمیرا شرارت سے مسکرا رہی تھی۔وہ سمجھ گئے۔

محسن ملک: آپ ہمارے جذبات سے کھیل رہی ہیں زوجہ۔

ناشتہ لگ گیا ہے نائلہ نے دونوں کو دعوت دی ۔ ڈائننگ پر صبا بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ سب باتیں کرنے لگے اور ساتھ ہی ناشتہ بھی شروع کردیا۔ محسن ملک حمیرا کو بار بار دیکھ رہے تھے جو اس وقت سادہ سے لباس میں بنا میک اپ گڑیا جیسی لگ رہی تھی۔ ناشتہ کر کے محسن ملک نے حمیرا کی ماں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ حمیرا بہت نیک اور محبت کرنے والی بیوی ہے۔ وہ کوشش کریں گے کہ اسے کبھی کوئی دکھ نہ پہنچے۔ حمیرا کی ماں کی آنکھیں بھر آئیں انہیں حمیرا کے والد یاد آگئے.

کچھ دیر یادوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔پھر محسن ملک نے حمیرا کو اشارہ کیا۔ وہ تیار ہوکر آگئی تو دونوں واپس اپنے گھر کو آ گئے۔ ملازم نے بھاگ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور مالی جو ہاتھ میں تازہ پھول لئے کھڑا تھا۔آگے بڑھ کر حمیرا کو پھول پیش کئے۔ یہ سب بہت عجیب تھا۔ گزشتہ برسوں کی تلخ زندگی اور دوسری شادی نہ کرنے کا خوف زائل ہوگیاتھا۔ایک خوشگوار حیرت جنم لے چکی تھی ۔حمیرا کی دوسری شادی نے ایک نئی مثال قائم کردی تھی کہ ایک بار اگر شادی ناکام ہوگئی تو ضروری نہیں کہ اگلی بار پھر ایسا ہو۔ وہ پہلے مرد سے ایسی محبت نہ پا سکی جو دوسرے شوہر نے دی۔محسن ملک سے شادی کے ہفتہ گزر جانے کے بعد محسن ملک کے بچوں نے آنا تھا۔ اب تک حمیرا ہنی مون پریڈ گزار رہی تھی۔ اب وقت آگیا تھا جہاں اس کی سمجھداری اور صبر کا امتحان تھا۔

محسن ملک نے بچوں کا غائبانہ تعارف کروادیا تھا لیکن یہ بھی بتا دیا تھا کہ ان کے بیٹے کو سابقہ بیوی نے بہت مایوس کیا اور اب اس کو ہر عورت مشکوک لگتی ہے۔ 

حمیرا کو اندازہ تھا کہ بچے کس کرب سے گزرے ہوں گے جب ماں کے بعد دوسری عورت کو ماں سمجھنا چاہا اور وہ ان کی بجائے پیسے کی ماں نکلی ۔

بچے آگئے تو حمیرا نے خود ان کو رسیو کیا ۔ یمنہ تو اچھے سے ملی لیکن علی نے بیزاری سے سلام کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ محسن ملک نے حمیرا کو تسلی دی کی سب ٹھیک ہوجائے گا وہ علی کو سمجھا لیں گے ۔ حمیرا نے بھی برا نہیں مانا وہ سمجھ سکتی تھی کہ ان بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ 

رات کھانے کی میز پر علی خاموش رہا جبکہ یمنہ اب حمیرا سے بے تکلف ہوچکی تھی۔ حمیرا نے آہستگی سے سوئٹ ڈش علی کے سامنے کی اور یمنہ سے باتیں کرنے لگی ۔ محسن ملک نے علی کو میٹھا کھانے کی دعوت دی ۔ علی نے ایک نگاہ حمیرا پر ڈالی اور اسے گفتگو میں مصروف پایا تو چپ چاپ ڈونگے سے چمچ بھرنے لگا۔

کھانے کے بعد یمنہ حمیرا کو اپنے کمرے میں لے گئی۔ اپنی چیزیں دکھانے لگی۔ حمیرا نے خوب دلچسپی دکھائی اور ساتھ ہی ساتھ اسے پیار کرتی رہی۔ پھر یمنہ کو شب بخیر کہہ کر علی لے کمرے کی طرف گئی ۔ دروازے پر دستک دینے لگی لیکن پھر کچھ سوچ کر پلٹ آئی۔

اپنے کمرے میں آئی تو محسن ملک نائٹ ڈریس میں تھے۔ وہ بھی کپڑے بدل کر بستر میں آگئی۔ محسن ملک کی تشویش سمجھتے ہوئے ان کے سینے پر سر رکھا اور ان کے ہاتھ کی انگلیوں میں انگلیاں پھنسا کر بولی۔

حمیرا: آپ فکر مند نہ ہوں۔ٹھیک ہو جائے گا سب ۔

محسن ملک نے حمیرا کے ہاتھ کو لبوں سے لگایا اور پھر بوسہ دے کر بولے۔

محسن ملک: مجھے علی کے رویے سے اندازہ ہوا کہ اس عورت نے میرے بچوں کے ساتھ کتنی زیادتی کی تھی ورنہ میرے بچے ایسے بد اخلاق نہیں زوجہ ۔

اب ان کے لہجے میں شرمندگی کے آثار تھے ۔وہ علی کے رویے پر حمیرا سے معذرت کرنا چاہتے تھے ۔ ابھی کچھ مزید بولنا چاہتے تھے کہ حمیرا نے ان کے لبوں پہ اپنے لب جما دئیے اور ایک بھرپور بوسہ لے کر آہستہ سے بولی۔ 

حمیرا: آپ کیوں ایسے سوچتے ہیں۔ آپ کے بچے اب میرے بچے ہیں۔ بچے ماوں سے خفا ہوتے رہتے ہیں تو کیا مائیں برا مانتی ہیں ؟ وہ ان کی آنکھوں میں جھانک کر بولی جہاں ان تشویش سے زیادہ محبت نظر آنے لگی تھی۔محسن ملک نے حمیرا کے چہرے پہ آئی بالوں کی لٹ کو ہٹایا اور اس کے کان کے پاس گردن میں ہاتھ ڈال کر اس کا چہرہ اپنے چہرے کے پاس کر لیا۔ بوس و کنار سے دلوں کےجذبات مچلنے لگے اور دو بیقرار روحیں ایک دوسرے سے قرار پانے لگیں۔

صبح ناشتے کی ٹیبل پر علی سب سے آخر میں آیا اور خاموشی سے ناشتہ کرکے اٹھ گیا۔

حمیرا نے خانساماں کو دوپہر میں فروٹ اور سلاد کا لنچ بنانے کو کہا اور رات کا کھانا شام میں تیار کرنے کی تاکید کی۔ ساتھ ہی بتا دیا کے کچھ اصول بدلنے ہیں ایک دو روز میں سب بیٹھ کر ٹائم ٹیبل سیٹ کریں گے۔

پھرحمیرا نے محسن ملک کا بیگ تیار کیا جو دو دن کے لئے دوسرے شہر جارہے تھے جہاں آفس کے کچھ معلامات دیکھنے تھے۔ انہیں رخصت کرکے وہ علی کے کمرے کی طرف بڑھی۔ 

دستک دی تو علی نے خود دروازہ کھولا اور پوچھنے لگا۔ 

علی: جی فرمائیے ؟

حمیرا : آپ کے کمرے میں آسکتی ہوں ؟ حمیرا نے علی کے لہجے میں تلخی کو برداشت کرتے ہوئے کہا۔

علی نے دروازہ چھوڑ دیا اور حمیرا اندر داخل ہوگئی۔ علی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کہے ۔اس کی تربیت ایسی نہ ہوئی تھی کہ کسی سے بد اخلاقی سے پیش آتا اسلئے بس ناگوار تاثر لئے خاموش کھڑا رہا ۔

حمیرا سمجھ گئی کہ ابھی علی سے براہ راست کوئی بھی بات کرنا اسے مزید بگاڑ سکتا ہے ۔ اسلئے مسکراتے ہوئے بولی۔

حمیرا: علی میری کچھ مدد کروگے؟ 

علی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔

حمیرا: یمنہ کی پڑھائی میں دشواری ہے اس کے لئے مناسب ٹیوشن سنٹر کونسا ہو سکتا ہے ؟ مجھے تو کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ سوچا آپ سے پوچھوں ۔ 

حمیرا سمجھتی تھی کہ ابھی علی کا دل جیتنے کا وقت نہیں اس وقت تو بس بات چیت کا سلسلہ بحال ہونا چاہیے ۔ اسی لئے اس نے کمال عقلمندی سے وہ بات کی جس پہ علی کوئی بدگمانی نہ پال سکے۔ 

علی: میں دوستوں سے پتا کرکے آپ کو بتا دوں گا۔ 

اس کے بعد حمیرا نے زیادہ بات نہ کی اور شام تک انتظار کیا۔

شام کو یمنہ نے حمیرا کو بتایا کہ بھائی اسے ٹیوشن سینٹر وزٹ کے لئے لے جانا چاہتا ہے تو وہ بھی چلے۔ 

حمیرا نے دیکھا کہ علی نے اپنی کار نکالی اور یمنہ کو بٹھا لیا البتہ اسے اگنور کردیا۔ وہ خاموشی سے کھڑی رہی اور وہ چلے گئے۔حمیرا کو دکھ ہوا لیکن اس نے صبر کیا۔

گھنٹہ بھر گزرا کہ دونوں واپس آگئے ۔ یمنہ نے بتایا کہ ایک اکیڈمی چند کلو میٹر فاصلے پر موجود ہے اور وہیں داخلہ لینے کا ارادہ ہے۔البتہ علی نے یمنہ سے کہا کہ وہ حمیرا کو بھی ایک بار لے جا کر دکھا دے۔ بس حمیرا کو یہ پہلا مثبت قدم نظر آیا ۔ 

اگلے روز جب یمنہ کا داخلہ کروانے جانے لگے تو حمیرا نے علی سے کہا کہ وہ ساتھ چلے ۔ علی نا چاہتے ہوئے بھی حمیرا کو ساتھ لے گیا۔ یمنہ کا داخلہ کروا کے اسے اکیڈمی چھوڑا اور حمیرا نے کچھ دیر اکیڈمی میں گھوم پھر کر اس کے ماحول کی تسلی کی۔واپسی پر حمیرا فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تو علی سے بات چیت کرنے کیلئے غیر ضروری سوالات کرتی رہی۔کبھی کسی سڑک کا پوچھتی کہ یہ کدھر نکلتی ہے کبھی مارکیٹ کونسی قریب ہے کبھی پارک کے متعلق۔ 

آخر میں حمیرا نے علی کو کہا۔

حمیرا: علی بیٹا ابھی کچھ دن مجھے راستوں کی سمجھ نہیں اگر ہوسکے تو میری مدد کرنا۔ حمیرا کی درخواست کے جواب میں علی نے صرف اتنا کہاکہ گھر میں ڈرائیور موجود ہے اسے کہا کریں۔وہ لے جائے گا۔

حمیرا مایوس نہ ہوئی ۔ گھر پہنچ کر علی اپنے کمرے میں چلا گیا۔ یمنہ کو اکیڈمی سے لینے کے لئے علی کو کہا تو اس نے کہا کہ وہ خود لے کر چھوڑ جائے گا اسے دوستوں سے ملنے جانا ہے۔ حمیرا نے برا ماننے کی بجائے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ 

اسی طرح اگلے روز بھی ماحول مناسب رہا اور جب یمنہ کو اکیڈمی چھوڑنے کا وقت آیا تو علی نے گھر کے ڈرائیور کے ذمہ پک اینڈ ڈراپ لگا دیا کہ آئیندہ کریم لالا ( ڈرائیور) یمنہ کو لے جائے گا۔ حمیرا نے علی کو تو کچھ نہ کہا لیکن یمنہ کو چھوڑنے ڈرائیور کے ساتھ خود گئی اور اسی طرح لے کر بھی خود آئی۔ یمنہ بھی اب علی سے کہنے لگی کہ چند دن میں اتنا تو پتا چل گیا کہ نئی امی بری عورت نہیں ۔اسلئے وہ بھی رویہ درست کرلے۔

محسن ملک واپس آگئے اور گھر کا ماحول قدرے بہتر دیکھ کر مطمئین رہے۔ 

رات حمیرا کے لئے پھر سہاگ رات بن گئی۔ محسن ملک کا اظہار وصل بہت شدید تھا۔حمیرا کے لئے حیران کن تھا۔ وہ اب نماز میں سجدے لمبے کرنے لگی تھی۔تنہائی میں وہ گریہ کرتی اور اپنے رب سے دعا کرتی تھی کہ اسے مزید کسی آزمائش میں نہ ڈالا جائے اور محسن ملک کی محبت کم نہ ہو۔ وہ خوش بھی تھی خوفزدہ بھی۔ ماضی کے مصائب نے اسے بے یقینی میں مبتلا کر دیا تھا۔ محسن ملک کی محبت اسے خواب لگتی تھی۔ ایسا ملن تو کبھی اس نے تصور میں بھی نہ دیکھا تھا جو اب اس کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔

محسن ملک: زوجہ! کیا خیال ہے ولیمہ کر لیا جائے اب ؟ولیمہ کی دعوت ابھی تک اسلئے نہ ہوئی کہ وہ بچوں کو نارمل کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی کچھ وقت دینا چاہتے تھے۔ اب انہیں لگ رہا تھا کہ علی کا رویہ کچھ بہتر ہے تو ولیمہ کرکے حمیرا کی ملاقات کروادی جائے سب دوستوں یاروں سے۔ حمیرا نے جب سنا تو کہنے لگی ۔ 

حمیرا : ابھی کچھ دن ٹھہر جائیے ۔ علی کے دوستوں کو ایک بار گھر دعوت پہ مدعو کرلیں پہلے ان سے میرا تعارف ہوجائے تو پھر ولیمہ کی بات کریں گے۔

محسن ملک: علی نے کہا ہے کہ وہ پارٹی دینا چاہتا ہے؟ 

حمیرا: جی نہیں ۔ یہ میرا خیال ہے کہ آپ علی سے بات کریں ۔وہ اگر دوستوں کو بلانا چاہےتو میں پارٹی پلین کردوں گی ۔

محسن ملک نے سوچتے ہوئے سر ہلایا۔ 

علی سے بات کی تو اس نے فلحال پارٹی سے منع کردیا البتہ اس نے یہ ضرور کہا کہ اسے ولیمے پہ کوئی اعتراض نہیں اگر محسن ملک کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔

اس کے بعد علی کا رویہ دن بدن بہتر ہوتا گیا اور ولیمے کی دعوت کا دن آن پہنچا۔ بہت سے دوستوں سے ملانے کے بعد محسن ملک نے بچوں کے فوٹو سیشن کروایا تو علی کچھ جھجھکا لیکن پھر وہ بھی فیملی فوٹو بنوانے کو کھڑا ہوگیا۔ 

اس رات حمیرا کی ماں خوشی سے روتی رہی اور پھر جب حمیرا بھی باپ کی یاد میں روئی تو یمنہ نے اسے بہت پیار کیا۔ علی دور کھڑا یہ سب دیکھ کر دل ہی دل میں پگھلنے لگا۔  اس کا رویہ ولیمے کے بعد بدل گیا تھا۔ گھر میں حمیرا کو ماں کی حیثیت سے قبول کرلیا گیا تھا۔ اور ایک کامیاب خوشگوار زندگی کی ابتداء ہوچکی تھی۔ 

حمیرا کی چند ماہ بعد ایک روز طبیعت خراب ہوئی تو ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ یہ حیرت کے ساتھ ساتھ حمیرا کے لئے پریشانی کی بات بھی تھی کہ محسن ملک کا رویہ نجانے کیسا ہوگا؟ لیکن یہ جان کر اسے حیرت ہوئی کہ ناصرف محسن ملک بلکہ ان کے بچے بھی خوش تھے کہ انہیں ننھا سا کھلونا ملنے والا ہے۔ 

شادی کے تین سال بعد اب حمیرا ایک بچے کی ماں اور نوجوان بچوں کی بہترین دوست تھی ۔

 دوسری شادی نے اس کی زندگی کو دوسرا رخ دیا اور پہلی شادی کے درد بھلا دئیے ۔ محسن ملک کی محبت میں کوئی فرق نہ آیا نہ ہی ان کی گرمجوشی کم ہوئی۔ علی یونیورسٹی مکمل کرکے اعلی تعلیم کے لئے بیرون ملک جانا چاہتا تھا جبکہ یمنہ کی چھوٹے بھائی سے محبت دیدنی تھی۔

دوسری طرف عاطف کو نورین چھوڑ کر دوسری جگہ شادی کرچکی تھی۔ عاطف ماں کے گھر پڑا تھا۔ نوکری کرتا تھا اور کمرے میں جاکر بند ہوجاتا تھا۔ اسے حمیرا کی یاد اور اس کے ساتھ کی گئی زیادتی کا احساس بےچین کیے رکھتا تھا۔ 

محسن ملک نے بزنس مزید بڑھا لیا تھا اور اب پہلے سی فرصت نہ تھی لیکن حمیرا کی چاہت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ حمیرا اللہ کے کرم پر ہر دم شکر گزار رہتی تھی ۔ وہ گھر کے ملازمین سے بہت اچھا بتاو کرتی تھی۔ محسن ملک کی پہلی بیوی کی قبر پہ بھی ان کے بچوں کے ہمراہ جاتی اور فاتحہ خوانی کروایا کرتی تھی۔ 

محسن ملک اسے اکثر کہتے تھے کہ حمیرا کو شاید اس کے والد دعا تھی جو اس کے ساتھ جڑنے والوں کی زندگی میں بہتری آجاتی تھی۔ 

حمیرا اور محسن ملک نے دوسری شادی کی عمدہ مثال قائم کی تھی کہ معاشرے میں مرد اور عورت کو تنہا رہنے کی بجائے مناسب پارٹنر تلاش کرلینا چاہیے ۔ اگر نیت میں خلوص ہوتو اللہ کی مدد بھی میسر آجاتی ہے اور زندگی اچھی گزر جاتی ہے ۔ 

No comments:

Post a Comment