ٹرمپ نے ایک دم سے کہہ دیا کہ میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں اور مودی نے بھی مجھ سے یہی درخواست کی تھی۔
امور ریاست و سفارتی معاملات میں ناتجربہ کار وزیر اعظم عمران خان کے لئے یہ سب حیرت انگیز مگر خوشگوار امر تھا کہ خود امریکی صدر,کشمیر جیسے حساس اور نازک مسئلے پر دونوں فریقین یعنی انڈیا اور پاکستان کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی آفر کررہے ہیں۔
اس بات سے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے اور دلوں میں امید جاگ گئی ۔ وزیر اعظم صاحب کی واپسی پر شادیانے بجائے گئے خوشی کا جشن منایا گیا لیکن سارا معاملہ توقعات کے برعکس ہوگیا جب مودی نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے کشمیر کی خاص ریاستی حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کردیا جس کے مطابق کشمیر میں اب صرف کشمیری نہیں بلکہ ہندوستانی عوام و خواص بھی اپنا حق استعمال کرسکیں گے۔ یوں سمجھئے کہ آپ کو گھر کرائے پہ دیا گیا اور آپ اس پر قبضے کا اعلان کردیں ۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں آگ لینے گئی تھی گھر پہ قابض ہوگئی۔ بس یہی کچھ انڈیا نے کشمیر کے ساتھ کیا ۔
اس صورتحال میں وزیراعظم صاحب کو تو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ آخر ان کے ساتھ ہوا کیا ؟ ہمارے ساتھ ہاتھ ملا کر پیٹھ میں چھرا گھونپا کس نے ؟ ٹرمپ نے ؟ مودی نے ؟ یا کوئی گھر کا بھیدی تھا لنکا ڈھانے کو؟
سارے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور کشمیریوں پہ ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ کرفیو گرفتاریاں اور خوراک و ادوایات کی رسد بند کرکے عالمی انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی کی گئی۔ بار بار احتجاج کے باوجود عالمی برادری کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور جو اجلاس بلوایا گیا تو وہ بھی چین کی مہربانی سے۔ ثالثی کی پیشکش والے ٹرمپ کی طرف کوئی خاص بیان سامنے نہ آیا نہ مذمت کے سخت الفاظ نہ کوئی عملی قدم ۔
اس ساری صورتحال میں حکومت کی نالائقی سامنے آگئی۔ ہوا یوں کہ جب انڈیا میں گزشتہ تین چار ماہ سے اس آرٹیکل کی منسوخی سے متعلق بھارتی آئین میں تبدیلی کا معاملہ پیش کیاجارہا تھا تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کیا کررہے تھے کہ انہیں خبر بھی نہ ہوئی اور اتنا اہم کام انڈین پارلیمینٹ نے کردیا کہ یک جنبش قلم کشمیر کی ریاست کا سٹیٹس بدلا جاسکے گا ۔ اس آئینی ترمیم سے ہمارے ادارے اور اسٹیبلشمنٹ دونوں بے خبر رہے ۔کیسے ؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے ۔
پھر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ مودی نے کشمیر کے مسئلہ پر مجھ سے بات کی تھی اسی تناظر میں تھا کہ مودی نے دراصل اس آرٹیکل 370 پر بھارت کی طرف سے یکطرفہ فیصلے کرنے کے سلسلے میں مدد کی درخواست کی کہ جب ہم یہ کریں تو ہماری مدد کو آئیں اور پاکستان کو آنکھیں دکھا کو خاموش کروا دیں اس طرح کشمیر کا مسئلہ بھارت اپنے مطابق حل کرلے گا۔
اب زرا دیکھئے کہ جب صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان سے یہ بات کی تو ہمارے خان صاحب تو اس آرٹیکل والے معاملے میں مکمل طور پر لاعلم تھے اسلئے خوشی خوشی ثالثی کی آفر قبول کرلی اور پھر ہم نے بھی شادیاں بجائے کہ بارات پہنچ گئی یہ اور بات ہے کہ دلہا کی شکل کسی نے نہ دیکھی اور رخصتی سے پہلے ہی پھڈا پڑ گیا۔
اب سوچئے۔ سمجھ میں آتا ہے کہ انڈیں لیڈر مودی سے مشاورت کے بعد ثالثی کی پیشکش کی گئی اور جب عمران خان کا اسے قبول کرلیا تو سارا کھیل ہی ختم ہوجاتا ہے ۔
لیکن مودی کے بھارت میں انتہا پسند دماغ غصے میں اپنے ہی مخالف مہم چلا بیٹھے۔ وہ اگر ثالثی قبول کرلیتے اور ٹرمپ ان کے اس اقدام کی حمایت کردیتا تو پاکستان پھنس جاتا کیونکہ ہم تو خود ثالثی قبول کرچکے تھے۔ چلیں اگر ہم آرٹیکل 370 اور 35اے کی مخالفت بھی کرتے تو امریکی صدر کا جھکاؤ تو پھر بھی بھارت کی طرف ہوتا جس سے ہمارے لئے ایک وقت میں بہت ساری طاقتوں کے خلاف لڑنا آسان نہ ہوتا۔ سو نظر آتا ہے کہ جس طرح ہم بھارت میں آئینی ترمیم سے بے خبر رہے اسی طرح مودی نے بھی اپنے سارے پلین کو غلط فہمی کی نظر کردیا اور یہی سمجھا کہ شاید عمران خان نے ٹرمپ کو مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنے پر کسی حد تک آمادہ کرلیا۔
کیا زبردست خطہ ہے ۔کس نے کہا کہ احمقوں کی جنت نہیں ہوتی ؟ یہ پاک بھارت ہے نا اس کی عمدہ مثال !
اس پر ایک دوسری رائے بھی ہے کہ جب خان ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی تو صدر ٹرمپ کی بات کے جواب میں عمران خان کو دباو میں لانے کے لئے مودی نے ایسی کسی بھی بات سے قطعا انکار کردیا تھا ۔مودی کے انکار کے پیچھے یقینا امریکی اعتماد پوشیدہ تھا ۔اسی بات سے ہم سازش کو محسوس کرسکتے ہیں ۔ ایسے بڑے ملکوں کو ایسی خطرناک غلط فہمیاں نہیں ہو سکتیں یہ سب طے شدہ ایجنڈا معلوم ہوتا ہے ۔
پھر جب ساتھ ہی انڈیا نے یہ بھی کہا کہ یہ دونوں فریقوں کے آپس کا مسئلہ ہے لیکن اچانک ہی یکطرفہ فیصلہ کرکے کشمیر کی خاص حیثیت کو ختم کرنے کی قرداد منظور کر کے اپنے آئین میں تبدیلی کرڈالی ۔تو ظاہر ہے ایسا راتوں تو ہوا نہیں ۔یقینا یہ پہلے سے پلین ہوچکا تھا اور اس پلین میں امریکی حکومت برابر کی شریک ہے ۔ یہ سب اتنا واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ہمیں پاکستان کے خلاف یہودی لابی کی خفیہ سرگرمیوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔جس طرح انہوں نے فلسطین میں نسل کشی کرکے قبضہ جما لیا وہی طریقہ کار کشمیر میں بھی اختیار کیا جانے کا گھناؤنا کھیل شروع کیا چکا ہے۔
یہ وہ بیانات آراء اور تجزیے ہیں جو مختلف لوگ اب تک کرچکے ہیں۔میں نے بالکل اسی طرح بیان کیا جس طرح مختلف رائے رکھنے والے اس مسئلہ سے متعلق محسوس کرتے ہیں۔ میری ذاتی رائے اس سے کچھ مختلف ہے۔ کچھ میری اطلاعات ہیں اس کا لب لباب بیان کردیتی ہوں کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء کا معاملہ امریکی گلے میں ہڈی کی طرح پھنسا ہوا ہے صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان سے اس معاملے میں مدد چاہی تو ہماری طرف سے کشمیر پر ثالثی کے بیان کی شرط رکھی گئی ۔ بس صدر ٹرمپ اپنی فوج کو افغانستان سے نکالنے کے لئے ایسا بے قرار ہیں کہ فوری بیان جاری کردیا کہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لئے تیار ہیں اور میرا خیال ہے کہ مودی سے متعلق بیان میں صداقت نہیں وہ بھی صدر ٹرمپ نے یونہی کہا کہ مودی نے بھی ثالثی کے لئے کہا ۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت میں یکدم شور مچا اور مودی کو فوری طور پر اس کی تردید کرنا پڑی۔ہماری پہلی سفارتی کامیابی کہیے یا بقا کی جنگ کہیے ۔ ہمیں ایک کامیابی ضرور ملی ہے کہ پہلی بار کشمیر کے مسئلے کو پاکستان کا مسئلہ جانا گیا۔ لیکن پھر مودی کا 370 اور 35اے کی منسوخی کا اعلان بھی درحقیقت یہود و نصاری کی اسلام دشمنی کا نتیجہ ہے ۔ صدر ٹرمپ نے سوچا کہ افغان حکومت کے ساتھ دستخط کرنے کے بعد بھارت کو کشمیر کے مسئلے پر تعاون کریں گے اسی لئے بھارت نے کشمیر میں کرفیو لگا دیا ۔ میرا خیال ہے افغانستان سے معاہدہ پر دستخط 14 اگست سے پہلے ہوجانے چاہیے تھے لیکن جو اطلاعات ہیں اس کے مطابق ابھی تک دستخط نہیں ہوئے اور اس کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورتحال ہے ۔ پاکستان نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے بھارت کو کشمیر کا سابقہ سٹیٹس بحال کرکے اپنی فوجیں وادی سے نکالنے کا کہا جائے پھر افغانستان کے معاملے پر ہیش رفت ہوگی۔ یہ میرا تجزیہ کچھ انفارمیشن کی بنیاد پر ہے ۔
میں نے اس پر ایک طویل تجزیہ لکھا تھا لیکن اب اس کو مختصر کررہی ہوں۔ جنگ سے متعلق جو خیال ہے تھوڑی اس پر بات کر لینی چاہیے۔
عام خیال ہے کہ غزوہ ہند کا وقت ہوگیا اور یہ آخری جنگ ہونے جارہی ہے۔ کچھ حضرات کی زندگی کا مقصد صرف غزوہ ہند کے لئے سب کو تیار کرتے رہنا ہے ابھی چند روز قبل بھی ایک ٹیویٹ دیکھی کہ لوگو تیارہوجاو غزوہ ہند کا وقت ہوگیا ۔ میں نے جواب میں جو لکھا وہ یہاں بھی لکھ دیتی ہوں کہ میرے حساب میں غزوہ ہند کو برپا ہونے میں دو دہائیوں سے بھی کچھ زیادہ وقت پڑا ہے۔
اس وقت ایک خوفناک جھڑپ تو یقینا تیار کھڑی ہے لیکن طویل جنگ کا امکان نہیں ۔یہ جو کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر پہ بھارت کی طرف سے حملہ ہوگا جس کے نتیجہ میں ہم علاقہ ہار دیں گے اور پھر ہماری فوج بےجگری سے لڑ کر اپنا علاقہ واپس کے لے گی وغیرہ وغیرہ ۔ میں اس خام خیال کو ریجکٹ کرتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا ۔ لیکن ہاں۔ کشمیر حل کی طرف جارہا ہے کس حل کی طرف ؟ یہ آئیندہ ماہ کے تیسرے ہفتے تک واضح ہوسکتا ہے ۔ ان شاللہ ۔ مجھے صورتحال کے خراب ہونے کی زیادہ فکر نہیں۔لیکن ہوسکتا ہے کہ خان اور چیف آمنے سامنے آجائیں اسی اشو پر ۔ اختلاف ہوسکتا ہے ۔ شدت آسکتی ہے۔ چیف کے چہرے کے تاثرات بدل سکتے ہیں اور خان پر لگا ڈمی وزیراعظم کا اثر زائل بھی ہوسکتا ہے۔ یہی ستمبر نئے رخ کا اعلان کرنے جارہا ہے۔ اس ساری افراتفری کے پیچھے صرف ایک حقیقت ہے اور وہ یہ کہ پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان کی معاشی حالت سنبھلتے نہیں دیکھنا چاہتیں اسی لئے جنگ جیسی صورتحال پیدا کی گئی کہ ہم گرتی معیشت کے ساتھ جب جنگ میں جائیں گے تو ہماری بقا و سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی ۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے؟ بس یہی میرے اندر سے آواز آتی ہے کہ پاکستان کے لئے مستقبل میں اچھی خبریں ہیں۔
No comments:
Post a Comment