Monday, 26 August 2019

کشمیر کا فیصلہ کشمیری خود کرے گا


ہم نے جس مشکل سے آزادی لی اسی طرح کی مشکل پھر بن گئی اور ہماری بقا و سلامتی کو ایک بار پھر شدید خطرہ لاحق ہوگیا۔البتہ ہم اللہ کو ماننے والے ہمیشہ غیب سے مدد کے طلبگار رہے اور دنیا کچھ بھی کہے اور کہیں بھی چلی جائے یعنی چاند چھوڑ بلیک ہول میں بھی جا گھسے تب بھی ہم اللہ کی ذات سے کبھی مایوس نہیں ہوتے ۔ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست شفقت کا آسرا رہتا ہے ۔
اس وقت ہماری صورتحال ہے کیا ذرا ایک نظر دیکھئے تو ایک طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو قید خانہ بنا کر بنیادی سہولیات کی فراہمی روک رکھی ہے تاکہ کشمیری کے اعصاب کمزور کردئیے جائیں تو وہ مزاہمت ترک دے یا اگر مقابلہ کرے بھی تو وہ کمزور ناتوان کشمیری اتنی بڑی ہندوستانی فوج اور اس کے خفیہ پارٹنر اسرائیل کا مقابلہ بھلا کیا کرسکے گا ۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے واسطے پاکستان سے جو ممکن بن پارہا ہے وہ کررہا ہے۔

کچھ نظر آتا ہے اور بہت کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔

 پاک فوج اب تک کئی حملے ناکام بنا چکی ہے جو بھارت کی طرف سے مختلف مقامات پر  کئے گئے ۔ یوں ایک طرف تو پاکستان کو بھارت نے انگیج کر رکھا ہے تو دوسری طرف جی 7 ممالک ایران کے خلاف اجتماع بلائے بیٹھے ہیں۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس سے تعلقات بہتر کرنے میں اس سے پہلے ہم کبھی سنجیدہ نہ تھے۔ سوچتی ہوں کہ کیا سوچتے تھے یہ حکمران اور ادارے ؟ ہم نے کیوں ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش نہ کی ؟ چلیں غلطیاں اور غلط فہمیاں دونوں طرف سے تھیں لیکن یوں پڑوسی ملک کو دشمنوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے دینا کوئی عقلمندی نہ تھی۔میرا مطالعہ ہے کہ ایران سے تعلقات میں ناہمواری کا بڑا سبب خود ہماری اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔ بحرحال اس وقت ایران کی طرف سے کشمیر کے موقف پر پاکستان کی حمایت کرکے بھارت کی ناراضگی مول لینا کوئی معمولی بات نہیں۔ ہمیں ایران کے اس اقدام پر اسے سراہنا چاہیے۔  

ایران کی طرف اسلام دشمنوں کی توپوں کا رخ ہے تو ساتھ ہی ہمارے مشترکہ مفادات اور بقا کی جنگ میں ہمارے ساتھی چین کو ہانگ کانگ میں الجھایا جارہا ہے تاکہ جب بھارت اپنے گھناؤنے منصوبے پر عمل کرتا ہوا آزاد کشمیر پر شب خون مارے تو ہمارے دوست اپنی مصیبتوں میں الجھنے کے سبب ہماری مدد کو نہ آن پہنچے۔( یہ ان کا منصوبہ ہے جو مجھے خام نظر آتا ہے)ان ممالک کا ایران پر چڑھائی کا پلین بھی نظر آجائے گا یا کسی بہانے سے ایران کے اڈوں پر اتر کر براجمان ہونے کی کوشش کی جاسکتی ہے کیونکہ اصل ہدف پاکستان ہے اور اس پر حملے کے لئے اس کے قریب ترین ممالک میں اڈوں پر قبضہ ضروری ہے ۔

   افغانستان میں موجود امریکی افواج بھی مسلح ہیں۔ ہمیں اس بارڈر سے بھی محتاط رہنا ہے اور خبر ہے کہ سمندر کی طرف سے امریکہ اسرائیل اور انڈین نیوی ہم پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

گزشتہ دنوں کابل میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے۔ امریکی افواج کی واپسی کے ٹائم فریم کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کی بحفاظت واپسی اور سامان قتل وغارت کا انخلا ممکن بنانے کے معاملات طے پاگئے۔ اب اس کے بعد طالبان اور موجودہ افغان حکومت کے مابین مذاکرات ہونے ہے آئیندہ افغانستان میں اقتدار و انتصرام سے متعلق معاملات طے کریں گے ۔ اس افغان امن معاہدہ کی شرائط طے ہوگئیں ہیں البتہ میری اطلاع کے مطابق اس پر دستخط ہونا ابھی باقی ہے مطلب ابھی مذاکرات کا عمل جاری ہے۔اس معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج پندرہ سے چوبیس ماہ کے دوران چلی جائے گی، اب دیکھنا ہے کہ ایسا واقعی ممکن ہے کہ نہیں ۔
دراصل میرا تجزیہ کہتا ہے کہ جس طرح صدر ٹرمپ کی نیت میں فتور رہتا ہے کہ وہ دو طرف کھیلنا چاہتے ہیں اسی طرح طالبان بھی اتنی آسانی سے امریکہ کو نکلنے نہیں دیں گے خصوصا سازو سامان سمیت ! 
ان مذاکرات میں پاکستان اور چین نے اہم کردار ادا کیا ہے، پاکستان اس کا گارینٹئر ہے جبکہ چین بھی اس میں اہم رول پلے کررہا ہے ۔ اس خطے کے امن سے سبھی کے مفادات وابسطہ ہیں اس لئے امن کا قیام ضروری ہے۔

دوسری جانب قطر میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بدلے طالبان کی جانب سے سیکیورٹی ضمانت دینے کا معاملہ زیر غور آئے گا۔ جی یہ بات کسی ذاتی خواہش کے طور پر نہیں لکھی بلکہ بین الاقوامی میڈیا پر چلنے والی خبروں سے پتا چلا کہ جو امریکہ افغانیوں کی جان کے درپے تھا وہ آج اپنی جان کی ضمانت انہیں افغان طالبان سے مانگ رہا ہے۔ وہ گھمنڈ اور تکبر جس نے اس خطے کے ہر ذرے کو پامال کیا آج اسی سرزمین کی خاک میں ملنے کو بیقرار بیٹھاہے۔ اس وقت صدر ٹرمپ کے بہت سے بیانات ان کی اس بے چینی اور بیقراری کو ظاہر کررہے ہیں کہ جتنی جلدی ہوسکے ہم اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لیں کیونکہ جہاں اور بہت ساری باتیں ہیں وہیں امریکی معیشت بھی اس جنگ میں ڈوبتی نظر آتی ہے ۔ صدر ٹرمپ کے حوالے سے میں سمجھتی ہوں کہ یہ شخص اپنے ملک کی معیشت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے جبکہ گزشتہ صدور جنگ جاری رکھنے کے لئے سب کچھ جھونکنے پہ عمل پیرا تھے۔ ٹرمپ ایک سرمایہ دار ذہن رکھنے کے سبب یہ بات سمجھتا ہے کہ اگر ملک کے حالات بہتر بنانے ہیں تو ضروری ہے کہ ساری قوت معیشت کی بحالی پہ مرکوز کردی جائے اور اسی لئے ہم نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ نے بہت سخت فیصلے لئے اور ان کا رویہ بھی سخت رہا۔
بحرحال دنیا میں حکمران سمجھدار ہوں یا نہ ہوں ان کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ملکی مفاد کے لئے بھرپور لائحہ عمل مرتب کرتی ہے اور منتخب حکمران ہمیشہ ان اسٹیبلشمنٹوں کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔ ہماری بدنصیبی دیکھئے کہ ہمارے حکمران اپنے ملک کی بجائے دیگر ممالک کی معیشت مضبوط کرتے رہے اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کی بجائے دوسروں کے اشاروں پہ ناچتے رہے ۔ اپنے معمولی سے فائدے کی خاطر پورے ملک کی سلامتی و بقا داو پر لگاتے رہے ۔ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی ماضی میں اپنے ملک سے وفادار نہیں رہی۔ بحیثیت ادارہ ملکی مفاد کے بارے میں سوچنے اور فیصلہ کرنے کی بجائے بحیثیت طاقتور سربراہ ذاتی حیثیت میں فیصلے لئے اور ملک کی لٹیا ڈبوئی۔

بحرحال اس وقت افغانستان میں ہزاروں امریکی فوجی موجود ہیں، جن کی بحفاظت واپسی ہی امریکی صدر ٹرمپ کا مشن ہے۔
دوسری طرف مسئلہ کشمیر پر دنیا بھر کا میڈیا شور مچایا ہے لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے غیر ضروری سست روی ان کی غیر جانبداری پرسوالیہ نشان ہے ۔ اگر موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ مسئلہ کشمیر بنا جنگ کے حل نہیں ہونا۔ جب یہ معاملہ مذاکرات سے حل کرنے میں بھارت سنجیدہ نہیں اور عالمی ادارے کشمیریوں پر مظالم کو روکنے میں سستی دکھائیں گے تو پھر ہمارے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ کہیں ہم تیار رہیں۔ آج نہیں تو کل جنگ ہونی ہی ہے یہ اور بات ہے کہ مجھے ہمیشہ جنگ دو دہائیوں کے فاصلے پر نظر آئی کیونکہ ابھی کچھ ایسی شرائط ہیں جن کا پورا ہونا ضروری ہے اس آخری جنگ سے قبل۔ اسلئے ابھی بھی امید ہے کہ یہ معاملہ بنا جنگ کسی حل کی طرف جاسکتا ہے ۔ 
کشمیر بلا شبہ ہماری شہ رگ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ شہ رگ کٹ جانے سے بدن چند منٹوں بعد تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔ اس لئے واضح کردوں ۔ بلکہ خبر دیتی چلوں کہ یہ جو کہتے ہیں کہ کشمیر پہ سودا ہوچکا اور اب محض ڈرامہ ہورہا ہے تو سن لیں ۔ آپ کے منہ میں خاک!
نہ کشمیر کا سودا کسی نے کیا اور نہ کسی مائی کے لال کی ایسی جرات ۔ تو ہوگا کیا؟
اس کا جواب وہی ہے جو طے ہوا تھا ۔ جو میرے حساب سے اٹل ہے ۔ جو سب سے بہتر ہے ۔اور وہ یہ کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری خود کرے گا !
کشمیری ہی فیصلہ کرے گا کہ اسے خودمختاری چاہیے یا پاکستان کے ساتھ الحاق !

72 سال کی قربانی اور تین نسلوں پر مشتمل جنگ آزادی اب اس مرحلے پر کسی غیر کی جھولی میں نہیں ڈالی جا سکتی ۔ یہ جنگ اپنے لڑنے والے کے حق میں فیصلہ دے گی۔ یہی میرا یقین ہے۔ یہی قدرت کا قانوں ہے کہ وہ حق کے ساتھ کھڑی رہتی ہے تو پاکستانیوں دل مضبوط رکھو اور سمجھ لو کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری خود کرے گا۔

No comments:

Post a Comment