Monday, 9 September 2019

افغان امن معاہدہ معطل مگر ٹرمپ اب بھی بیقرار ہے

گزشتہ دو کالموں میں افغانستان امن معاہدہ اور کشمیر کی صورتحال پر لکھ چکی ہوں اس تسلسل کا قائم رکھتے ہوئے تازہ ترین صورتحال کا جائزہ پیش خدمت ہے ۔ 
صدر ٹرمپ کا بیان آیا کہ ایک طرف ہم افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء اور امن معاہدہ کی شرائط طے کررہے ہیں تو دوسری طرف طالبان ہمارے فوجیوں پر حملہ کرکے ڈنکے کی چوٹ پر اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں تو ایسا کیسے چلے گا؟ ہم فلفور اس معاہدے کو ادھر ہی روک رہے ہیں ۔ 
گزشتہ کالم میں بھی یہ بات لکھی تھی کہ معاہدے کی شرائط تو طے ہوگئیں لیکن دستخط ہونا ابھی باقی ہیں۔ پھر میرا ایک سوال تھا کہ کیا واقعی صدر ٹرمپ اپنی فوج کو بحفاظت افغانستان سے نکالنے میں کامیاب ہوسکے گا؟ اس کے گلے میں پھنسی ہڈی نکل آئے گی ؟ ظاہر ہے مجھے یہ سب آسان نظر آتا تو ایسا سوال ہی کیوں اٹھاتی ؟
جس طرح صدر ٹرمپ کی نیت میں فتور ہے ویسے ہی طالبان بھی اپنی 18/20 سالہ جدوجہد اور قربانیوں کو بنا کسی منزل تک پہنچائے ترک کرنے والے نہیں۔  چلئے اسکی بھی وضاحت کر دوں کہ آخر طالبان کی جنگ یا جدوجہد ہے کس واسطے !
یہ کوئی بیس پچیس برس پرانی بات ہے جب افغانستان میں طالبان نے شرعی نظام نافذ کیا۔مجھے یاد ہے جب ہم نے مدرسے کے طلبہ کی طرف سے ایک اسلامی نظام کے قیام کے چرچے سنے ۔ عدل و انصاف اور مہذب معاشرے کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن یہ نظام بہت وقت تک نہ چل سکا۔اور محض 5 یا 6 برس بعد ہی پھر سے لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔جہاں عدل و انصاف کا بول بالا تھا وہاں پھر اقتدار کے جھگڑے بڑھنے لگے اور طالبان مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ وہی اچھے طالبان اور برے طالبان۔ اور ملک میں گروہی فسادات کا آغاز ہوگیا ہر کوئی اپنی عدالت لگانے لگا وغیرہ وغیرہ۔

 مزید تفصیل میں جائے بنا،طالبان کے ان اختلافات پر بات کرتے ہیں جو افغان حکومت کے ساتھ انہیں ایک ٹیبل پر بیٹھنے نہیں دیتے وہ بنادی طور پر اسی شرعی نظام اور طالبان کی اقتدار میں شمولیت کی شرائط ہیں۔ میری سرسری سی تحقیق بتاتی ہے کہ افغان حکومت کے مقابلے میں طالبان 70% افغانستان پر کنٹرول رکھتے ہیں جبکہ افغان حکومت بمشکل 30% حصے پر حکومت کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے طالبان کی خواہش کے مطابق افغان حکومت کو ان مشاورتی اجلاس میں شامل نہ کیا اور جب سارے معاملات طے ہوگئے اور طالبان کی افغان حکومت کے ساتھ میٹنگ کا دور شروع ہوا تو یکسر مذکرات معطل گئے۔ کیوں ؟ کیونکہ اندرونی نظام ریاست پر اتفاق نہیں ہوسکا اور نہ ہی امریکہ کو طالبان کی ان شرائط پر اطمینان ہے۔ 
افغان طالبان کو اس امن معاہدہ کے طے پانے کی کوئی جلدی نہیں البتہ امریکہ اس وقت بے چین ہے ۔ اس کی بڑی وجہ اس کی اپنی معیشت اور آنے والے الیکشن ہیں ۔ جنگ میں سرمایہ ، انسانی جان اور وسائل سبھی کچھ خرچ ہورہا ہے اسلئے صدر ٹرمپ جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے لیکن حالیہ حملوں میں اس کے فوجیوں کا بہت نقصان ہوا اور صدر ٹرمپ کو شدید صدمہ پہنچا ساتھ ہی بہت ساری تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی لئے میرے نزدیک صدر ٹرمپ نے بہتر یہی سمجھا کہ فلحال اس سارے معاملے کو یہیں روک کر کچھ دباو بڑھایا جائے کہ اگر امن معاہدہ نہ ہوا تو افغان حکومت کو نقصان ہوگا اور دوسرا صدر ٹرمپ اپنے اداروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا چاہتا ہے کیونکہ طالبان کسی بھی طرح قابو میں آتے نظر نہیں آتے۔ 
پاکستان کو اس امن معاہدے کے معطل ہو جانے سے کیا فرق پڑا؟ اس سوال کا جواب بہت کھل کر نہیں دیا جاسکتا لیکن سمجھنے والے سمجھ جائیں گے کہ ہمیں کچھ خاص فرق نہیں پڑتا ۔ امریکی اس وقت بھی فئیر پلے نہیں کررہے وہ دو طرف کھیلنا چاہتے ہیں ایک طرف ہماری مدد لے کر افعان طالبان کو منانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف بھارت کو کشمیر والے مسئلے پر بیک اپ بھی دے رہے ہیں ۔یہ بات ہمیں بھی خوب سمجھ آتی ہے کہ اگر افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء ہوگیا تو امریکہ کو سارے وسائل اور فرصت میسر ہوگی بھارت کا ساتھ دینے کی ۔ چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کی لڑائی میں بھارت کا طرفدار ہے اسی لئے ہمیں بھی کوئی مسئلہ نہیں امریکہ طالبان کے ہاتھوں ذلیل ہوتا رہے ہماری بلا سے !
کشمیر کا مسئلہ افغانستان سے کیسے جڑ رہا ہے ؟ پاکستان کے بنا طالبان سے امن معاہدہ ہونا ممکن نہیں یہ بات واضح ہے اور اب اس میں چین بھی شامل ہوگیا ہے ۔ اسی طرح کشمیر کے معاملے میں امریکہ کو دباو میں رکھا جا سکتا ہے اور کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق فیصلہ کروانے کی ڈیمانڈ کی جاسکتی ہے اور اللہ سے کامیابی کی امید بھی رکھنی چاہیے۔

 ایران نے کشمیر کے موقف پر ہماری حمایت کی اور افغان طالبان کی شرائط پر بھی ایران ان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے ۔ روس کی طرف سے بھی طالبان کی تائید کی اطلاعات ہیں اس طرح امریکہ کی مشکلات تو قریب قریب حل ہوتی نظر نہی آتیں البتہ کشمیر کا مسئلہ آئیندہ چند دن میں ایک نئے فیز میں داخل ہونے جارہا ہے جو کم از کم بھارت کے لئے تو اچھا نہیں ۔

 پاکستانی معیشت کے حوالے سے خبر ہے کہ آہستہ آہستہ بہتری کی طرف گامزن ہے لیکن بے ایمان لوگوں سے کیا امید رکھئے کیونکہ بحیثیت قوم مجموعی طور پر ہمارے اندر بہت بری عادات ہیں ۔ ہمارے لوگ اپنے تھوڑے سے فائدہ کے لئے دوسرے کا بہت زیادہ نقصان کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے یہی وجہ ہے جو چند لوگ بہتری چاہتے ہیں انہیں جمہور  کی مخالفت اور ان کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا ہے گو کہ عنقریب یہ رکاوٹیں بھی کسی جگہ ڈمپ نظرآئیں گی لیکن فلحال کچھ وقت لگے گا۔ 

بھارت کی طرف سے ایٹمی ہتھیار کے استعمال کے بیان کے بعد سے ان کی معیشت خاصی پریشان کن حالات کا شکار ہے اور ابھی مزید تباہی ہونے جارہی ہے ۔ 

پاکستان اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے لڑائی لڑ رہا ہے اور کشمیر کے مسئلے ہر دنیا بھر کو جگا رہا ہے۔

 پہلے بھی لکھا تھا کہ ہم سے جو ممکن ہے وہ مدد کررہے ہیں کچھ نظر آتی ہے اور بہت کچھ نظر نہیں آتی ۔ تو عوام کو تسلی رکھنی چاہیے کہ گزشتہ 72 سال سے ہم مسلسل کسی نہ کسی جنگ میں مصروف رہے ہیں اسلئے ہم ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے تیار ہیں ۔ ہماری خاموشی کو کسی طوفاں سے پہلے کی خاموشی سمجھا جائے تو بھی غلط نہیں اور سو سنار کی اور ایک لوہار کی والی مثال بھی ذہن میں رکھئے۔

 آخر میں کہوں گی کہ امریکہ کو طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کی طرف آنا ہی پڑے گا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

No comments:

Post a Comment