Wednesday, 18 September 2019

پاپی کیڑے

آخ تھو تھو تھو
اوئے آڑو میں کیا کررہے ہو ظالم ؟
کوئی پھل تو چھوڑ دے پاپی کیڑے!
میں آڑو ہاتھ میں لئے اس ہٹے کٹے سفید رنگ کے کیڑے کو تیزی سے دوسرے رخ پہ جاتے دیکھ رہی تھی جس طرف سے میں نے چک لگایا وہ عین اسوقت وہیں کہیں مٹر گشت کر رہا تھا لیکن ۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ آدھا نہ ہوا بلکہ پورا سالم اچھلتا کودتا تیزی سے آڑو کے اندر گھس گیا۔۔۔
مجھ پہ پہلی بار یہ منکشف ہوا کہ آڑو میں بھی کیڑا ہوتا ہے اور بھی  سفید رنگ کا۔ اس سے پہلے میں آنکھیں بند کئے پھل کو دانتوں سے کاٹ کھاتی تھی۔
کوئی 17/18 سال پہلے کی بات ہے۔ جب  ابا جی کے لان میں جوائنٹ کرسیوں پر ایک طرف فروٹ رکھا ہوا کرتا اور گود میں کتاب ۔ آنکھیں کتاب پر اور دانت پھل پر ہوا کرتے ۔ کیسی بے فکری سے دونوں چیزوں کے مزے لیتی تھی ۔ درمیان میں کئی بار چھوٹی فاختہ کے بڑے سے پنجرے میں موجود کئی درجن سرمئی فاختہ یا ڈائمنڈ ڈوو(  Diamond Dove) پہ نظر ڈالتی اور ان کی اچھل کود سے محظوظ ہوتی تو کبھی باہر سے آئے آزاد پنچھیوں کی اس پنجرے کے گرد بکھری خوراک اور پانی سے شکم سیری کا جائزہ لیتی ۔
آزاد پنچھی کبھی بھی پنجرے میں بند پنچھی کی طرح اطمینان سے دانہ نہیں چگتا بلکہ وہ ہر وقت چوکنا سٹینڈ بائی پوزیشن میں رہتا ہے ۔ اس کے پر بھی مکمل ریلیکس نہیں کرتے یعنی مکمل بند نہیں ہوتے ۔وہ ایک آنکھ سے ماحول پہ نظر رکھتا ہے اور دوسری نگاہ خوراک پر ۔
جب کوئی ایسا پرندہ آکر دانہ چگتا تو میں کتاب بند کردیتی تھی ۔ منہ بند کئے حلق سے ہلکی ہلکی غٹر غوں کرتی جیسے کبوتر کرتے ہیں ۔
اپنی طرف سے کوشش کرتی کہ پنچھی کو پیغام یہ جائے کہ وہ آرام سے دانہ چگ لے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔میں پرندے بالکل نہیں کھاتی بلکہ میں تو کیڑے کھانے کے چکر میں ہوں ۔۔ چھی چھی چھی ۔۔۔
مجھے پھر یاد آگیا کہ کیسے میں نے آڑو کو چک لگایا اور وہاں سنڈی نما کیڑا سٹپٹایا کھڑا تھا جیسے ننگا ہوگیا ہو اور پھر شرم کے مارے جلدی سے آڑو میں پھر جا چھپا۔
اس حادثے کے بعد بہت عرصے تک میں نے آڑو کو ہاتھ نہ لگایا۔ اور خشک اناج کی طرف آگئی۔  سب سے آسان کام بھنے ہوئے چنے تھے جو میں ہر وقت ساتھ رکھتی تھی ۔
اب آپ سوچتے ہوں گے کہ مطالعہ کے ساتھ کھانے کی شے کیوں ضروری تھی ؟
جن کو یہ بات نہیں معلوم ان کو بتا دوں کہ مطالعہ بھوک بڑھاتا ہے اوراق گردانی کے لئے خاصی انرجی چاہیے ہوتی ہے ۔ آپ نے بڑے بڑے عالم حضرات کے قصے تو سنے ہوں گے ۔ ان کی زندگی میں ایسے ایسے واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مطالعہ اور تحقیق کی عادت کے سبب انرجی کے حصول کے لیے وہ خاص ورزش اور مراقبے کیا کرتے تھے۔
علم کا حصول ایسا آسان بھی نہیں ۔ بزرگ کہتے ہیں کہ جب اللہ کو اپنے بندوں میں سے کسی کی بھلائی مقصود ہو تو وہ اسے دولت علم سے نوازنے کےلئے چن لیتا ہے ۔ اسے علم کی منزلوں سے ایسے گزارتا ہے کہ اس کے دل میں سوائے علم کچھ نہیں رہتا ۔
علم کی موجودگی دنیا کو اس کے دل سے نکال باہر کرتی ہے ۔ وہ دنیا میں تو رہتا ہے دنیا اس کے دل میں نہیں رہتی بلکہ اس کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔
ایک عالم جس کو اللہ علم کی خاطر چن لے۔ اس کی ذات پر اس کے نفس کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور وہ اپنی برائیاں اچھائیاں دیکھنے کے قابل ہوجاتا ۔ بس پھر وہ مخلوق کی عیب جوئی سے بے نیاز ہوجاتا ہے کیونکہ ہر برائی تو اسے اپنی ذات میں نظر آنے لگتی ہے ۔
عاجزی کا سلسلہ چل نکلا تو علم دل میں پختہ ہونے لگتا ہے ۔ ایک بات یاد رکھئے کہ جس دل میں علم پختہ ہو وہاں تکبر کی جگہ نہیں۔ عاجزی کے بنا کتابیں گدھے پہ لادنے کے برابر ہے ۔ علم کی زمین ہی عجز و انکساری ہے۔
بحرحال کبھی اگر اللہ نے توفیق دی تو علم کے درجات  پر لکھوں گی کہ ابتدا میں انسان کیسے شور مچاتا ہے جب ذرا سی شراب علم چکھے ۔ خوب مستی اور شیخی بگھارتا ہے ۔ جیسے جیسے علم بڑھے گا اس کی زبان وزنی ہوجائے گی اور بولنا مشکل اور محال ۔
بہت عمدہ بحث ہے ۔
آج یونہی سوات کی سوغات آڑو کھاتے ہوئے مجھے وہ واقعہ یاد آیا تو سوچا شئیر کردوں ۔ تو ساتھیو! آڑو ضرور کھائیے لیکن دیکھ کر ۔۔ کہیں کسی ننھے منے کیڑے کو یتیم نہ کر دیجئے گا

No comments:

Post a Comment