Thursday, 24 October 2019

خود نمائی یا خدا نمائی

ایک الف کی تلاش میں سارے حروف چھان ڈالے ۔
لوگ دنیا میں سر کے بل آتے ہیں وہ ماں کے پیٹ سے ہی اپنے قدموں پہ آئی ۔
بچپن سے جوانی تک اسے کبھی کسی سہارےکی ضرورت نہ رہی بلکہ وہ ہر جگہ رہبر و رہنما بن کر ابھری ۔ بچوں کے ساتھ کھیل میں اسے سربراہی ملتی تو سکول میں اسے اضافی زمداری بھی دے دی جاتی ۔ دوستوں میں ہر ایک کی وہ الگ الگ راز دار تھی۔ کسی کو مشورہ چاہیے یا عملی تعاون ،وہ ہر کسی کو ہر وقت میسر تھی۔ کسی جھگڑے کو نمٹاناہو یا کہیں کوئی جنگ لڑنی ہو ، وہ ہر جگہ صف اول میں کھڑی ہوتی تو کبھی لیڈر نظر آتی ۔ اس کی اس ابھرتی شخصیت نے اس کے ناقدین و حاسدین بھی بے شمار بنا دئیے تھے ۔ اسے خبر بھی نہ ہوتی اور اس کے خلاف سازشیں بن دی جاتیں۔ وہ روز ہی کسی نہ کسی معاملے میں الجھا دی جاتی ۔ تنہا لڑتی رہتی کبھی کسی کی مدد تک نہ لیتی تھی ۔ مسلسل جدوجہد اس کی زندگی کا حصہ تھی لیکن اس کی توانائی میں کمی نہ آتی ۔ بے پناہ صلاحیتوں اور حوصلے کی مالک کا آسرا، صرف اس کا مالک تھا ۔ اسے یقین کامل حاصل تھا کہ اس کا رب اس کو اپنی پناہ میں رکھتا ہے اسی لئے اسے نہ کبھی اندھیروں نے ڈرایا اور نہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے ۔ توکل کا عالم یہ تھا کہ وہ آنے والے کل کی منصوبہ بندی نہ کرتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کا اختیار صرف اس قدم پر ہے جو زمین سے پیوستہ ہے جو قدم ہوا میں وہ اس کے بس میں نہیں ۔وہ اس کے رب کے حکم سے وہیں پڑے گا جہاں اس کی رضا ہوگی۔اسلیے کبھی مستقبل کی منصوبہ بندی نہ کرتی تھی۔ کوئی پوچھتا کہ مستقبل میں کیا کروں گی تو کہتی ۔ یہ راز تو مجھے پہ بھی نہیں کھلا ابھی تو تمہیں کیا بتاوں ۔ میں تو اپنے اگلے قدم سے واقف نہیں تو مسقبل کی کیا خبر لاوں ۔
وہ جستجو میں تھی لیکن تجسس نہ تھا۔وہ تلاش میں تھی لیکن گم کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ الف کو ڈھونڈتی تھی جو آغاز سے ہی اس کے ساتھ تھا۔
 لوگ کہتے تھے وہ خود نمائی کرتی ہے جبکہ وہ ساری عمر خدا نمائی کرتی رہی !
ایک بہت عامیانہ سے گھرانے میں اک بہت شاہانہ مزاج نے جنم لیا۔ اس روز جمعہ کی نماز پہ جمع گاوں والے مہرالنساء کی پیدائش کا سن کر افسوس کرنے اس کی ماں کے پاس گئے۔ وہ چوتھی بیٹی تھی اور گاوں میں بیٹیوں کی پیدائش پر افسوس کرنے کا رواج تھا۔
مہرالنساء کی ماں سخت بیمار ہوگئی تھی کیونکہ وہاں گاوں میں دائی اور حکیم کے سوا کوئی ہسپتال تو اس زمانے میں تھا نہیں ۔ وہ ایک مشکل کیس تھا اس کی ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ اس کی زندگی مشکلات اور سختیاں اس کے جنم لینے سے قبل ہاتھ باندھے اس کی ماں کے گرد جمع تھے۔ بس جب وہ دنیا میں آئی تو عام بچوں کی طرح سر کے بل نہ آئی بلکہ پہلے اس کے پاوں دنیا میں آئے۔
دنیا میں زیادہ اموات انہیں ماوں کی ہوتی ہیں جن کے بچے الٹے پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے آپریشن نہیں ہوتے تھے اور مڈ وائف یا دائی ہی ایسے بچوں کی ڈلیوری کرواتی تھی۔
اس کی پیدائش کے بعد سبھی کو اس کی ماں کی فکر پڑ گئی اور وہ نظر انداز ہونے لگی۔ پھر لوگ چوتھی بچی کی پیدائش پر نوحہ کناں تھے اور اسے منحوس کا لقب پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی مل گیا۔اس کے باپ نے تو اس کا چہرہ بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔ اس کی ماں بیماری کے ساتھ ساتھ طعنے بھی سننے لگی کہ چوتھی بچی جنم دے ڈالی جیسے یہ اسی کا قصور تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ اس پہ نحوست کی چھاپ بدستور لگی رہی حالانکہ اس کی پیدائش کے فورا بعد اس کے باپ کو بڑے شہر میں بہت اچھی نوکری مل گئی تھی۔ اس کے قریبی رشتداروں کی زندگیوں میں بدلاو آرہا تھا ۔ رکے ہوئے کام چل پڑے تھے۔ لیکن کسی نے بھی اس کے نیک بخت ہونے کا گمان نہ کیا۔
8 سال کی ہوئی تو اپنے باپ کی پہلی بیوی کے جوان بچوں کے ہمراہ بکریاں چرانے جانے لگی۔ سارا دن دھوپ میں پھرتی وہ بکریاں ہانکتی رہتی تھی۔شام کو جب واپس گھر آتی تھی تو کوئی مسکراہٹ یا محبت کی گود اس کی منتظر نہ ہوتی۔جو روکھی سوکھی ملتی تھی وہ پیٹ بھر کے کھالیتی تھی اور پھر بے سدھ پڑ کے سوجاتی تھی۔
گاوں کے سکول میں داخلہ تو کروا دیا گیا لیکن پڑھائی برائے نام تھی ۔ استانیاں اپنے گھر کے کام کرواتی تھیں اسلئے وہ زیادہ بھائی کے ساتھ مددگار بنی رہتی بجائے یہ کہ کسی کے گھر کی نوکرانی بنتی۔ بھائی بھی سہولت دیکھتا تو خود درخت تلے پڑی چارپائی پہ پڑ کر سو جاتا اور اسے بکریوں کے پیچھے لگا دیتا۔
ایک روز شام کے وقت جب بھائی نیند سے  اٹھا تو دیکھا مہرالنساء غائب ہے ۔ بکریاں وہیں چررہی ہیں لیکن مہرالنساء کی کوئی خبر نہیں ۔
اس نے آوازیں دیں کہ مہرالنساء آجاو۔مگر مہرالنساء نہ آئی ۔شام ڈھل چکی تھی ۔ بھائی بکریاں لئے گھر کو روانہ ہوگیا اور سوچتا رہا کہ آج مہرالنساء کو سزا دوں گا کہ بکریاں کیوں چھوڑ کر گھر آگئی ۔ لیکن جب وہ گھر آیا تو مہرالنساء گھر میں نہ تھی ۔ 

No comments:

Post a Comment