Friday, 25 October 2019

خود نمائی یا خدا نمائی(قسط نمبر 2)

جب گاوں کی فضاوں میں تاریکی گہری ہو گئی اور صاف آسمان پر تارے ٹمٹمانے لگے تو پہلی بار مہرالنساء کے گھر والوں نے مہرالنساء کو اس گھرانے میں جیتی جاگتی ایک فرد کے طور پر سوچنا شروع کیا۔ اب اس کی ماں اور بہن بھائی فکر مند ہوئے ۔ سوتیلے بھائی سے طرح طرح کے سوال ہونے لگے ۔ دونوں کی مائیں ایک دوسرے کو طعنے دینے لگیں ۔ مہرالنساء کی ماں کو شک گزرا کہ اس کے شوہر کی پہلی بیوی کا بڑا لڑکا اس کی مہرالنساء کو کہیں مار کر پھینک آیا۔ وہ دہائیاں دے رہی تھی۔ گاوں سارا جمع ہوگیا۔ لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں ٹارچ اور بڑی بیٹری لائٹس (جن سے سارا کھیت روشن ہوسکتا ہے) لئے کھیتوں کی طرف نکل گئے تو کچھ لڑکے گھر گھر جاکر تلاش کرنے لگے ۔لیکن مہرالنساء نہ ملی۔
صبح نمودار ہوچکی تھی۔ مہرالنساء کی ماں سر پہ دوپٹہ باندھے اب تھکن اور غم سے کراہ رہی تھی۔ اسے یقین ہوچلا تھا کہ مہرالنساء مر چکی اور گاوں کے آوارہ کتے اور جنگلی سور اب تک اس کی اس بیٹی کو چیر پھاڑ کر کھا چکے ہوں گے جسے کبھی اس نے دوگھڑی غور سے دیکھا بھی نہ تھا۔اب جب وہ اپنی بچی کے بارے میں سوچ رہی تھی تو اسے اس کے خدوخال بھی ٹھیک طرح سے ذہن میں نہ ابھرتے تھے ۔ اسے یاد ہی نہ تھا کہ مہرالنساء نے کس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔پیر میں جوتی بھی تھی کہ نہیں ؟ اس کے بال کتنے لمبے تھے اور کس رنگ کے تھے؟
جب گاوں کی عورتیں سوال کرتیں تو وہ سوچ میں پڑ جاتی کہ مہرالنساء کی عمر کیا ہوگئی؟ اس کا قد کتنا تھا؟ آج مہرالنساء کی ماں پہلی بار سارے کام دھندے چھوڑ کر بیٹھی صرف اس کے بارے میں سوچ رہی تھی اور دعا کررہی تھی کہ ایک بار مہرالنساء مل جائے تو وہ اسے خود نہلائے گی اس کی کنگھی کرے گی اسے پیار کرے گی اسکی باتیں غور سے سنے گی اور پوچھے گی کہ اسے کیا کھانا پسند ہے۔اس کی پلیٹ میں بوٹیاں ڈالے گی اور اپنے ہاتھ سے اسے کھانا کھلائے گی ۔ آج مہرالنساء کی ماں دل میں عہد کررہی تھی کہ ایک بار اللہ اسے مہرالنساء لوٹا دے تو وہ اسے اپنے ساتھ سلائے گی جہاں روز اس کے دو (مہرالنساء سے چھوٹے)لڑکے اور ایک دودھ پیتی بچی سوتے تھے۔ اسے دکھ ہورہا تھا کہ اس نے پیدا ہونے کے بعد سے  کبھی مہرالنساء کو ساتھ نہ سلایا تھا۔ دودھ پیتی مہرالنساء کو اس نے دودھ بھی جلدی چھڑوا کر بوڑھی دادی کے حوالے کردیا تھا۔ ماں بچاری بھی کیا کرتی ۔آٹھ بچوں کی فوج اور شوہر انتہائی سخت مزاج ،اس پر گھر کی زمداری اور کھیت کھلیان بھی اس کے سر تھے۔
وہ سوچ سوچ کر نڈھال ہورہی تھی۔  مہرالنساء کے لئے ہمیشہ سے سوئی ہوئی ممتا آج جاگ گئی تھی اور تڑپ رہی تھی۔ 
گاوں کے لوگ اب گھروں کو پلٹ رہے تھے۔ سارے کھیت کھلیان چھان مارے اور گھر گھر تلاشی کے بعد اب لوگ مایوس ہوگئے تھے۔ البتہ حیران ضرور تھے کہ آخر گاوں میں کہیں کوئی نشان کیوں نہیں ملا۔ اگر کسی درندے نے مہرالنساء کو کھایا تو خون کہیں نظر نہ آیا اس کا کوئی کپڑا نہ ملا۔ کسی نے بھی کوئی مشکوک چیز نہ دیکھی ۔ اب تو لوگ جنوں بھوتوں کی باتیں کرنے لگے۔ گاوں میں خوف و ہراس پھیلنے لگا تھا کہ شاید مہرالنساء کو کوئی جن بھوت اٹھا کرلے گئے ۔ 
ماسی زرینہ نے مہرالنساء کی ماں کو تھپکی لگائی: چل اٹھ اب جاکر دو گھڑی سو جا ۔ رب کی رضا سمجھ۔ مہرالنساء اب نہیں آئے گی۔ اس چھوٹے سے گاوں میں اس کا سراغ نہ ملا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ زندہ نہیں ۔" ماسی نے بنا سوچے سمجھے وہ کہہ دیا جو سب سوچ رہے تھے۔ مہرالنساء کی ماں یہ سن کر مزید غمگین ہوگئی۔
"آپا تو فکرنہ کر صبح تڑکے ویلے ہم ایک بار پھر گاوں کے سارے کنوئیں چیک کریں گے کہ کہیں کسی خالی کنوئیں میں نہ گر گئی ہو اور ساتھ والے گاوں کی مسجد میں اعلان بھی کروا دیں گے ۔ بچی ہے شاید کہیں ادھر کسی کے ساتھ چلی گئی ہو۔" مہرالنساء کا ماموں نوکری سے چھٹی پہ آیا ہوا تھا اور اپنی غم سے نڈھال بہن کو دلاسہ دے رہا تھا۔
مہرالنساء کی ماں: ہائے نذر۔۔۔ میری بچی کیوں جائے گی کسی کے ساتھ؟ اب وہ ہاتھ ملنے لگی ۔مجھے پتا ہے کہ وہ ادھر ہی ہے کہیں بس تو ڈھونڈ اسے ۔۔ نذر ڈھونڈ میری مہرالنساء کو ۔۔ وہ آنسو بہانے لگی تو نذرپریشان ہوگیا اور سر ہلاتا ہوا باہر نکل گیا ۔ فجر کی اذان ہوچکی ۔ مہرالنساء کی ماں کراہتی ہوئی مشکل سے اٹھی اور وضو کرنے لگی ۔
 مہرالنساء کا گھرانہ خاصا دیندار گھرانہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ دوسروں کے ساتھ معاملات میں اچھے سمجھے جاتے تھے اسی لئے آج مہرالنساء کی تلاش میں سارا گاوں نکل آیا کہ کسی نہ کسی بہانے سبھی اس گھرانے کے مقروض تھے۔
مہرالنساء کی ماں نماز پڑھ کر خوب روئی اور اللہ سے معافی مانگنے لگی کہ ایک بار مہرالنساء مل جائے تو وہ کبھی اس کی حق تلافی نہ کرے گی ۔ اسے شدت سے احساس ہورہا تھا کہ اس نے مہرالنساء کے ساتھ زیادتی کی تھی کہ کبھی اس معصوم بچی کو توجہ ہی نہ دی تھی ۔ وہ گڑگڑاکر دعائیں کررہی تھی اور وہیں جائے نماز پر سجدے میں ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ 
مہرالنساء کا پر دادا بہت نیک آدمی تھا۔ حکمت بھی جانتا تھا اور گاوں والے اس کے پاس دوا کے ساتھ ساتھ دعا کے لئے بھی آیا کرتے تھے وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ جب اولاد کسی مصیبت میں ہو تو ماں باپ میں سے کوئی دو نفل استغفار بعد از نماز عشاءپڑھے تو اس کی اولاد کے سر سے مصیبت ٹل جاتی ہے۔ 
مہرالنساء کی ماں نے بھی ندامت سے رات نفل پڑھے اور اللہ سے معافی مانگی۔وہ خود کو قصور وار سمجھتی تھی کہ اس نے کبھی مہرالنساء کا خیال نہ کیا اور اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی تھی ۔ اب وہ فجر کی نماز پڑھ کر وہیں سو گئی تھی ۔ اس کے سارے بچے اس وقت سو رہے تھے ۔ مہرالنساء کی بڑی بہنیں اب جوان تھیں اور گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ 
سورج نکل آیا تو مہرالنساء کی بڑی بہن سمیرا نے آکر ماں کو جگایا۔ " "اماں اٹھ جا ، چائے پی لے" سمیرا ہاتھ میں چائے کی پیالی لئے کھڑی تھی ۔ مہرالنساء کی ماں کا بدن ٹھنڈ سے اکڑ رہا تھا وہ اٹھ بیٹھی۔ چائے کی پیالی ہاتھ میں لے کر اس نے کہا۔
"سمیرا میری مہرالنساء کا کوئی سراغ ملا؟ "
سمیرا نے ماں کو سہارا دے کر اٹھایا۔اس نے چائے دو گھونٹ میں ہی پی لی تھی۔ سمیرا نے خالی پیالی اس کے ہاتھ سے لے لی۔
"اماں مل جائےگی مہرالنساء وہ کسی سہیلی کے گھر چلی گئی ہوگی ۔ پہلے بھی تو آمنہ کے گھر رات سو جاتی تھی اب بھی کسی کے ساتھ کھیلتے کھیلتے سو گئی ہوگی ۔ " سمیرا ماں کو تسلی دے رہی تھی اور خود بھی دل ہی دل میں دعا کررہی تھی کہ اس کی بات سچ ہوجائے ۔
مہرالنساء کی ماں اٹھی اور دوسرے بچوں کو دیکھنے لگی۔ سارے کمروں میں پھرتی ہوئی جب وہ اناج کے کمرے میں گئی تو اس چھوٹے سے کمرے میں ایک طرف دیوار کے ساتھ رکھی گندم کی بوریوں پہ پڑی خالی بوریوں کا ڈھیر اسے کچھ عجیب سا لگا۔ وہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھی ۔اس کے دل میں وسوسے جنم لینے لگے ۔ اللہ سے خیر کی دعا مانگتی اس نے ہاتھ بڑھایا۔اس کے دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی گئی جونہی اس نے بوریاں ہٹائیں بے اختیار اس کے منہ سے ایک چینخ بلند ہوئی ۔ 


No comments:

Post a Comment