مہرالنساء کی ماں کی فکر کچھ غلط بھی نہ تھی۔ اس کی اپنی اولاد کے ساتھ شوہر کی پہلی بیوی سے بھی ڈھیر اولاد اپنے اپنے حق کے لئے لڑ سکتی تھی۔مہرالنساء کے دادا کی جاگیر تھی جو اب تک اس کے باپ کے نام بھی منتقل نہ ہوئی تھی۔ مختلف جگہوں پر زمین اور کمرشل اراضی بھی تھی جو ابھی تک دادا کے نام چل رہی تھی۔ مہرالنساء کے دو ہی چچا تھے ان میں سے بھی ایک ذہنی معذور تھا اور اب وہ شدید علیل تھا۔ دوسرا چچا زمینداری کرتا تھا اور مہرالنساء کا باپ دوسرے شہر کسی بڑی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ پڑھا لکھا تھا تو ترقی بھی خوب ملی اور اب اس کو گھر گاڑی بھی شہر میں مل گئی۔ عنقریب وہ اپنے بیوی بچے بھی شہر منتقل کرنے کا سوچ رہا تھا۔
مہرالنساء کی ماں سمجھدار عورت تھی۔جب تک گاوں میں تھی وہ ہر کسی سے نبھاتی تھی اور زمینداری میں بھی حصہ لیتی تھی اسی لئے اس گھرانے کی تمام تر ذمہ داری اسی کے سر تھی۔ جبھی تو مصروفیات میں وہ مہرالنساء کو بھلا بیٹھی تھی حتی کہ اللہ نے اسے ایک دن جھنجوڑ دیا ۔ اللہ نے تقدیر انسان کی سمجھ سے بالاتر لکھی ہے ۔انسان کو اپنی حالت کی سمجھ اسی وقت آتی ہے جب اس پہ وہ حال طاری ہو اس سے قبل وہ چاہے بھی تو اس کیفیت کو سمجھ نہیں پاتا۔
اب وہ مہرالنساء کو توجہ دے رہی تھی اور اسی سبب فکر مند بھی رہنے لگی تھی کہ مہرالنساء عام بچوں جیسی نہ تھی۔وہ اپنی مشکلات میں کسی سے مدد نہیں مانگتی تھی۔بھوک پیاس ہو یا کوئی اور حاجت اس کی ماں نے دیکھا کہ مہرالنساء سوال نہیں کرتی۔ جو دے دیا جائے وہ کھا لیا اور جو پہنا دیا جائے وہ پہن لیا۔ البتہ کسی دوسرے کو مدد چاہیے تو مہرالنساء یکسر بدل جایا کرتی تھی۔ مدد کرنے کے واسطے وہ سب سے آگے ہوتی اور اسی وجہ سے اب گاوں میں اس کی شناخت اس کے دادا کے نام پر ہونے لگی تھی۔ جیسے اس کے دادا کو لوگ منصف مانتے تھے اور سب مسائل کے لئے ان کی جانب دیکھتے تھے ایسے ہی مہرالنساء نے بھی اپنے فیصلوں اور فلاح و بہبود سے نام بنا لیا تھا۔گاوں کے سادہ لوگ بات بہ بات لڑ پڑتے ، چھوٹی چھوٹی سی عام فہم باتوں پر بھی الجھ جاتے تھے۔ مہرالنساء کی غیرمعمولی ذہانت اور بصیرت کے سبب ان لوگوں کے مسائل حل ہوجاتے وہ چونکہ گھومتی پھرتی رہتی تھی ۔سب سے ملتی تھی اس لئے جہاں کوئی مسئلہ بن رہا ہوتا مہرالنساء وہاں پہلے ہی پہنچ جاتی ۔ ماسی زلیخا کے گھر چوری ہوگئی اور گھر میں سوائے اس کے شوہر کوئی بندہ تھا نہیں تو ماسی نے سارا الزام اپنے ہی خاوند کے سر تھوپ دیا ۔خوب لڑائی ہوئی برتن تک اٹھا اٹھا کر ماسی نے خاوند کو دے مارے۔اس وقت مہرالنساء وہاں چھت سے ساگری کے گھر اسے بلانے کو جھانک رہی تھی جو پڑوس میں رہتا تھا۔ ماسی نے لوٹا اٹھا کر خاوند کی طرف پھینکا اور دہائی دے کر بولی: تیرا ککھ نہ رہوے ۔ تو نے مجھے لوٹ کر کھایا اب میرے بچوں کے عید کے کپڑوں کے پیسے بھی تو کھا گیا ۔ تو کبھی نہیں سدھرے گا ابکہ فیصلہ ہوگا ۔۔ بس اب فیصلہ ہوگا۔
مہرالنساء چھت سے یہ سب دیکھ رہی تھی ۔ ماسی زلیخا کی لاڈلی بکری ادھر ادھر منہ مارتی پھر رہی تھی مہرالنساء نے دیکھا کہ بکری چارپائی پہ پڑی کاپی کے ورق کھینچ کھینچ کر کھا رہی ہے تو اسے خیال آیا کہ ماسی کے آئے روز پیسے غائب ہوجاتے ہیں تو کہیں بکری نہ کھا جاتی ہو۔ اس نے وہیں سے آواز لگائی ۔
ماسی زلیخا ۔۔۔ آپ نے پیسے کدھر رکھے تھے جو چوری ہوئے ؟
ماسی تو اس وقت دکھڑا سنانے کے واسطے بیتاب تھی یہ لمبی کہانی سنا دی جس کا لب لباب یہی تھا کہ اس کا خاوند اسی چارپائی پر بیٹھا تھا جس کے تکیے کے نیچے پیسے رکھے تھے ۔
مہرالنساء سمجھ گئی کہ پیسے بکری کھا گئی کیونکہ ماسی کے خاوند نے چارپائی پر بیٹھے بیٹھے وہ تکیہ اٹھا کر گود میں رکھا تھا جب ماسی اسے حساب لکھوا رہی تھی ۔اس وقت تکیہ چارپائی کے دوسرے سرے پڑا تھا۔ اس نے ماسی کے خاوند سے سوال کیا ۔ چاچا جی آپ نے چارپائی پر بیٹھ کر کیا کیا تھا ؟ چاچے نے بالکل وہی کہانی سنائی جو مہرالنساء کو سمجھ آگئی تھی کہ چارپائی پر بیٹھتے ہی اس نے تکیہ گود میں رکھا اور زلیخا نے جو سودا سلف اور اخراجات کا حساب کتاب لکھوایا وہ لکھنے لگا۔ مہرالنساء نے پوچھا کہ کیا ماسی کی بکری اسی طرح کھلی پھر رہی تھی جیسے اب پھر رہی ہے تو انہوں جواب اثبات میں دیا ۔ مہرالنساء نے وہیں چھت سے ہی ماسی زلیخا کو آواز لگائی : ماسی افسوس ہوا آپ کے نقصان کا لیکن پیسے چوری کسی نے نہیں کئے بلکہ آپ کی بکری کھا گئی ہے جو اب بھی کاپی کے کاغذ کھانے میں مصروف ہے ۔ اور چاچے نے پہلے بھی کبھی آپ کے پیسے نہیں اٹھائے بلکہ یہی بکری پہلے بھی کھا جاتی رہی کیونکہ اسے کاغذ کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے ۔
ماسی زلیخا سر پر ہاتھ رکھے کبھی بکری کو دیکھ رہی تھی تو کبھی ڈرے سہمے چاچے کی طرف ۔ پھر ماتھا پیٹتے دہائیاں دینے لگی کہ اس بکری کو کھونٹی سے کھولتا کون ہے؟ بس پھر ماسی شرمندی اور غم کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ خاوند سے بکری کو باندھنے کا کہنے لگی اور پیسوں کے ضائع ہونے پر ہاتھ مل مل کر ملا ل کرتی رہی ۔ ساگری چھت پر چڑھ آیا تو مہرالنساء دوسری طرف اسے لے کر اتر گئی جہاں دادا دین محمد کے مال ڈنگر کے لئے چارہ کاٹنا تھا ۔ یہی مہرالنساء کا معمول بن چکا تھا۔ ساگری کے ساتھ پٹھے کاٹنے اور بھوسی ملا کر بھینسوں کا چارہ تیار کرنے کے بعد دادا دین محمد کی دعائیں لیں اور اگلی مہم روئی( پُھٹی) چنائی میں گاوں کی عورتوں کا ہاتھ بٹانا تھا ۔اس طرح مہرالنساء سکول کے دنوں میں چھٹی کے بعد اور چھٹیوں میں سارا دن گاوں والوں کے کام کرتی رہتی تھی ۔اس نے کبھی کھانے پینے اور پہننے کی پرواہ نہ کی تھی جہاں کھانے کا وقت ہوا وہیں جو مل گیا بیٹھ کر کھا لیا کبھی نہ کہا کہ یہ نہیں کھانا یا یہ پسند نہیں۔اس کے مزاج کی سادگی اور اس کا بھولا پن ہی اس کی ماں کے لئے پریشان کن تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں مہرالنساء کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کر جائے کیونکہ گاوں کا ماحول بہتر تو تھا لیکن مہرالنساء آہستہ آہستہ رنگ روپ بدل رہی تھی۔ چند برس بعد وہ بھی بہنوں سی خوبصورت اور لمبی دوشیزہ نظر آنے والی تھی۔
No comments:
Post a Comment