Tuesday, 17 December 2019

زخم چاٹنے کی عادت


ہمارے لئے 16دسمبر کوئی اچھی تاریخ ثابت نہ ہوا۔ پہلے ہم اسے سقوط ڈھاکہ کے سبب منحوس قرار دیتے تھے حالانکہ یہ نحوست نہیں نااہلی ناانصافی اور ناقدری کی داستان تھی۔  اس زخم کوچاٹتے 43/42 برس گزرے تھے جب ہمیں ایک ایسا دھچکا لگا کہ صرف ہم ہی کیا ساری دنیا کے دل دہل گئے۔ یہ المناک واقعہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شیطانوں کا حملہ تھا جو عین 16دسمبر کے دن ہی پیش آیا۔ اس دن جو مناظر دیکھے وہ اس سے قبل شاید ہی دنیا نے کبھی دیکھے ہوں گے۔ ننھے ننھے معصوم بچے اور وہ نوجوان جن کی مائیں ان کی نئی نئی جوانی کو دیکھتے ہوئے مسقبل کے خواب بننے لگی تھیں ، وہ جن کو مسقبل میں اس ملک کا روشن چہرہ بننا تھا اپنے وقت سے بہت پہلے بہت سفاکی بےدردی سے ان چراغوں کو بجھا دیا گیا۔
مجھے لگا تھا کہ آج قوم کے منتخب نمائندے کثیر تعداد میں قومی اسمبلی میں جمع ہوں گے اور اپنی قوم کے درد میں ان کے غمگسار ہوں ۔ کوئی دوچار اچھے جملے کہیں گے اپنی کوتاہیوں پر شرمسار ہوں اور آئندہ کے لئے کوئی تسلی دیں گے کہ اب ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی موثر حکمت عملی بنائیں گے یا ہم نے ایسا کچھ کر لیا کہ اب آپ مطمئین رہیے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن سخت مایوسی ہوئی جب میں نے پریس گیلری میں بیٹھے چند صحافیوں کے ساتھ ہاوس میں بیٹھے ممبران پارلیمنٹ کو گننا چاہا تو پتا چلا کہ یہاں تو قورم ہی پورا نہیں کہ اجلاس چل سکے البتہ کسی ممبر نے بھی اس بات کی نشاندہی سپیکر کو نہ کی اور قاعدے کے مطابق جب تک نامکمل قورم کی نشاندہی نہ کی جائے تب تک اجلاس کی کاروائی چاہے دس ممبران ہی کیوں نہ ہوں جاری رہتی ہے۔ بس یہی سب دیکھ کر جی متلانے لگتا ہے کہ یہ سیاستدان الیکشن کے دنوں میں عوام کے پیروں تلے بچھےجاتے ہیں لیکن پھر اقتدار میں آنے کے بعد کبھی سنجیدگی سے ان کے مسائل کے حل کے لئے تو کیا ان کے مسائل پر آواز اٹھانے کے لئے بھی اجلاس میں شرکت نہیں کرتے بلکہ رجسٹرار کو حاضری لگانے کا ایک مخصوص معاوضہ دے کر گھر بیٹھے تنخواہ اور الاونس لیتے رہتے ہیں ۔ باقیوں کو تو چھوڑئیے خود وزیر اعظم عمران  خان ملک میں ہونے کے باوجود پارلیمان کو عزت نہیں بخشتےاور روز روز حاضری سے شاید کوئی تکریم میں کمی واقع ہوجانے جیسی بات ذہین میں رکھتے ہوئے شاذو نادر ہی پارلیمنٹ کے کسی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں ۔ 
میں اجلاس کے ایجنڈا کو دیکھ رہی تھی جس میں بہت سے اہم معاملات کا ذکر تھا پھر آج وقفہ سوالات بھی تھا جسے خاص اہمیت حاصل ہے جب ممبران عوامی مسائل پر سوال اٹھاتے اور پھر حکومتی ارکان اس کا جواب دے کر اس کی بحث کا آغاز کرتے ہیں۔حیرت ہوئی کہ آج کے دن کی اہمیت کو نظرانداز کرنے والے ممبران میں وہ ممبران بھی شامل تھے جن کے طرف سے اج اجلاس میں سوال اٹھائے گئے ۔ سمجھنے کی بات ہےکہ جنہوں نے خود اپنے سوال کو اہم نہ جانا اور وہاں موجود نہ تھے ان کو حکومت کیونکر کوئی سنجیدہ جواب دیتی۔ البتہ ہمیشہ کی طرح آج بھی راجہ پرویز اشرف، حنا ربانی کھر، شازیہ مری، محسن داوڑ نے کچھ کام کی باتیں کیں۔ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جلدی دکھاتے ہوئے اکثر سوالات کو "پڑھا ہوا سمجھاجائے"کے حق کو استعمال کرکے آگے بڑھنا چاہتے تھے کہ شازیہ مری نے انہیں ٹوٹکتے ہوئے بتایا کہ وہ تنہا اس حق کو استعمال۔کرنے کے مجاز نہیں بلکہ سوال اٹھانے والے ممبر سے پوچھنا بھی ضروری ہے اور ساتھ اپنے سوال کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے اسے پھر سے دہرایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پیپلز پارٹی اس ملک کہ وہ واحد جماعت ہے جو عوامی بنیادوں پر وجود میں آئی جس کو درست معنوں میں سیاسی جماعت کہا جاسکتا ہے کیونکہ باقی تقریبا سبھی جماعتیں کسی نہ کسی رد عمل یا کسی اور کے کسی ایجنڈے کے تحت وجود میں آئیں ۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد روٹی کپڑا اور مکان کے خالص نعرے سے جڑی تھی۔ گو کہ بعد میں محترمہ اور مسٹر ٹن پرنسٹ نے اس جماعت کے عوامی رخ کو بدل کر محض ذاتی نفع و نقصان کو ہی سب کچھ بنا لیا۔ پھر بھی کچھ اچھے مقرر اور کچھ سنجیدہ سیاست دان آج بھی انہیں کی جماعت میں نظر آتے ہیں۔
گھنٹہ بھر سوال جواب ہوئے۔ اس دوران نماز کے وقفے میں ہم کیفیٹریا چلے گئے جہاں اکا دکا لوگ کھانے پینے میں مصروف تھے۔ ہم کچھ دیر بیٹھے لیکن میرے وہاں سے اٹھ کر دوبارہ اجلاس کی کاروائی دیکھنے پریس گیلری میں جانے تک تقریبا سبھی احباب اجلاس کی کاروائی سے مایوس اپنے اپنے گھروں یا دفتروں کو نکل چکے تھے۔ میں تنہا پھر سے پریس گیلری کی طرف چل دی۔ شاہ محمود قریشی تقریر کرچکے۔ سعد رفیق بھی اپنا درد بیان کر چکے تھے۔ محسن داوڑ نے سانحہ آرمی پبلک پر پانچ سال گزرنے کےباوجود کسی قسم۔کی پیش رفت نہ ہونے پر تنقید کی اور زمہ دران کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا اور جو جوڈیشل کمیشن اس سانحہ کی انکوائری کے لئے بنا تھا اس کی رپورٹ کو ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ 
 اب خواجہ آصف اب ہمیں بھاشن دے رہے تھے کہ کشمیر کے مسئلہ پر ہم نے کوئی خاطر خواہ اقدام نہ کیا۔ میں حیران تھی کہ اس نوزائیدہ اور سچ پوچھئے تو جس طرح کی حکومت اس وقت عمران خان چلارہے ہیں اس کو طفل نادان کہنا غلط نہیں، خواجہ صاحب کی تنقید پہ میں سوچ رہی تھی کہ تین بار اقتدار میں رہنے والی جماعت کے صفحہ اول کے لیڈر سے کوئی یہ تو پوچھے کہ آپ نے کیا کیا کشمیر کے لئے؟ آپ نے اپنے دور اقتدار میں تو صرف اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا آپ کے لیڈر نواز شریف نے صرف خاندانی معیشت کو مضبوط کرنے پر توجہ دی اور ملکی معیشت کا ستیاناس مار دیا۔ دوسری طرف بھارتی رہنما مسلسل اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کرتے رہے اور دنیا بھر میں اپنی مارکیٹ بنا کر سفارتی تعلقات بہتر کرتے رہے۔ دنیا ہمیں منہ لگانے کو تیار نہ تھی کیونکہ ہماری پہچان کشکول بن گیا تھا کیسے کیسے طعنے سنتے تھے کہ پاکستانی کرپٹ لیڈر تو جدھر جاتے ہیں اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بھیک مانگتے رہتے ہیں۔ خود خواجہ آصف ایک اماراتی کپمنی کے ملازم نکلے اور رکن پارلمنٹ ہونے کے باوجود ناصرف اقامہ رکھے ہوئے تھے بلکہ حلف برداری کے بعد بھی ملازمت جاری رکھی۔ ان کی تقریر میں لفظوں کے سوا کچھ نہ تھا جیسے ڈھول کی ڈھم ڈھم اس کے بجنے تک اپنا اثر رکھتی ہے اور بعد میں صرف سر درد بن جاتی ہے ویسے ہی خواجہ آصف کی کشمیریوں سے ہمدردی کے نعرے محض لفاظی ہی نظر آئے ۔
بس پھر وہی قومی اسمبلی میں موجود ارکان نے بھارت کے متنازعہ سٹیزن شپ ایکٹ کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے۔
اجلاس کے ایجنڈا پر موجود اکثر سوالات بنا جواب رہے بالکل ہمارے ادھورے خوابوں کی طرح۔ ہم نے کسی سانحہ سے کچھ نہ سیکھا شاید ہمیں زخم اچھے لگتے ہیں یا شاید ہم اب زخموں کو چاٹنے کے عادی ہوگئے.

No comments:

Post a Comment