Sunday, 1 December 2019

اے دل دھڑکتا رہ!

 میری بڑی بیٹی 50% جل گئی تھی اور خود میرا جسم 40%  تک جل چکا تھا چھوٹا بیٹا بھی میری طرح بری طرح سے جھلس گیا تھا۔ ہمیں کچھ خبر نہیں کہ کیسے اور کس نے ہمیں ہسپتال پہنچایا۔ 
وہ سامنے دیوار پہ نظریں گاڑھے مجھے روانی میں اپنی درد ناک داستان سنا رہی تھی۔
ہمیں دو تین روز بعد جب ہوش آیا تو پتا چلا کہ اس حادثے میں میرے شوہر جانبر نہ ہوسکے ۔ وہ کچھ لمحے رکی تو میں نے اس کے چہرے پر شوہر کی جدائی کا درد تلاشنا چاہا لیکن وہاں سکوت تھا کوئی شناسائی کی لہر نہ ابھری ۔ 
اس کے جلے ہوئے خوبصورت چہرے کو دیکھتی رہی جو بفضل تعالی صرف بیرونی جلد کے طور ہی جلا تھا اور اب نئی جلد آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہی تھی ۔
صائقہ! میں نے سرگوشی سی کی۔ بچوں کو کیسے بتایا کہ ان کے ڈیڈی اب اس دنیا میں نہیں ؟ 
صائقہ: آہ۔۔۔ میں نے تو یہی سوچا تھا کہ بچوں کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ ہوگا اس لئے بہت دنوں تک خاموش رہی اور یہی بتاتی رہی کہ وہ ہسپتال میں ہیں اور تشویشناک حالت میں ہیں لیکن بچوں کو کسی نے شاید بتا دیا تھا ۔ مجھ سے کسی نے بھی آکر نہ پوچھا بس سب خاموش تھے ۔ 
صائقہ اپنی داستان سنا رہی تھی ۔ میرے حادثے سے متعلق سوال کے جواب میں کہنے لگی ۔ 
صائقہ: اس روز ہم بچوں کی دادی سے ملنے گئے تھے ۔ وہاں کھانے پہ اویس(صائقہ کےشوہر) نے حسب معمول میرے والدین کو برابھلا کہا، ان کی والدہ بہنیں اور دیگر فیملی بھی سن رہے تھے ۔ مجھے بہت شرمندگی ہورہی تھی کیونکہ میرے والدین اویس کی فیملی کی طرح بہت امیر تو نہ تھے لیکن ان کی عزت سارا علاقہ کرتا تھا۔ یہ لوگ مجھے کم حیثیت ہونے کا طعنہ دیتے رہے ہمیشہ کی طرح میں خاموشی سے دعوت کے اہتمام میں مصروف رہی ۔ میری ساس بھی بار بار مجھے ٹوکتی رہیں اور ایک بار تو ایسا برا جملہ کہا کہ میرے دل سے آہ نکلی ۔۔۔۔ 
صائقہ خاموش ہوگئی ۔ میں اس کے چہرے کا کرب محسوس کررہی تھی ۔ عورت کی عزت ایسی نازک شے کیوں بنا چھوڑی خدا نے ؟ یہ وہ سوال تھا جس کا جواب مجھے کبھی نہ ملا۔ 
سعدیہ۔۔۔(وہ بولی ) میرے بچے بھی اس ڈنر پر دکھی رہے جو میرے سسرال کا ماہانہ پروگرام ہوتا ہے۔ بچوں کو میرے سسرال کے رویے اور میری بےبسی پر غصہ آتا رہا مگر وہ کچھ نہ کرسکتے تھے۔ ہم جب گھر واپسی کیلئے نکلے تو اویس نے راستے میں ایک پٹرول پمپ سے کار میں پٹرول ڈلوایا ۔اس کے بعد کچھ دور جاکر ہماری کار نے دو جھٹکے کھائے اور پھر یکدم کار کے سٹیرنگ نے آگ پکڑ لی۔ آگ ایسے لپک کر اویس پہ پڑی کہ ان کی عینک تپش سے ٹوٹ گئی اور پھر ساری کار آگ کی لپیٹ میں آگئی سعدیہ ۔۔۔  پتا نہیں کیسے لگی لیکن وہ شعلے اویس کو لپیٹ میں ایسے لے رہے تھے جیسے کوئی بلا منہ کھولے ان پہ ٹوٹ پڑی ۔ میں بھی ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی لیکن میرے چہرے پہ آگ کم آئی البتہ میری ٹانگیں جل گئیں ۔بڑی بیٹی عین باپ کے پیچھے بیٹھی تھی اسلئے آگ تیزی سے پیچھے کی طرف بڑھ گئی ۔ ہم دروازوں کو ہاتھ بھی نہ لگا پائے کیونکہ وہ اتنے گرم تھے اور ان کا پلاسٹک پگھل کر ہمیں چپک رہا تھا ۔۔۔ بس سعدیہ۔۔۔۔ وہ بہت خوفناک منظر تھا۔ ہم وہیں پھنسے رہے پھر فائر برگیڈ آگئی لیکن ہم میں سے کوئی بھی ہوش میں نہ تھا ۔ 
صائقہ ایک آہ بھر کر خاموش ہوگئی۔ میں بہت دیر تک اس کی باتیں سنتی رہی درد محسوس کرتی رہی اور پھر بوجھل بوجھل گھر لوٹ آئی ۔
صائقہ سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔اس سے پہلے صرف فون پر بات ہوئی تھی اور وہ بھی محض سرسری سی ۔ لیکن جب وہ اس مصیبت میں تھی تو اس نے مجھے فون کرکے بلایا اور بتایا کہ اسے کچھ مشورہ کرنا ہے ۔ میرے لئے کچھ حیرانی تھی کہ میں صائقہ کو بالکل بھی نہیں جانتی تھی لیکن شاید اسے کوئی آس بندھی تھی کہ میں اگر اسے فائدہ نہ دے سکی تو نقصان بھی نہیں کروں گی ۔ وہ محتاط تھی کیونکہ اس کے سسرال والے ہر وقت پہرہ دئیے رکھتے تھے ۔ 
اس واقعے کے بعد میری صائقہ سے بات ہوتی رہتی تھی ۔وہ اب کچھ کام کرنا چاہتی تھی اور اسے میری مدد درکار تھی۔ کچھ جمع پونجی تھی جس سے وہ کوئی بزنس شروع کتنا چاہتی تھی۔ اپنے ماں باپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی اور یہیں اسلام آباد میں رہنا چاہتی تھی۔ میں نے اس کے سسرال کا پوچھا تو اس نے بڑے اعتماد سے کہا کہ وہ اب میری زندگی کنٹرول نہیں کرسکتے۔ مجھے ان کا پیسہ نہیں چاہیے ۔ وہ جو باتیں بتا چکی تھی اس کے بعد مجھے لگا کہ اس کا فیصلہ درست تھا۔ 
صائقہ نے ایک روز پھر مجھ سے ملنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ جب ہم ملے تو اس نے عجیب سی بات بتائی ۔ 
اس کے شوہر کے دو پارٹنرز اس کے قریب آرہے تھے ۔ پہلے پہل تو وہ یہ سمجھی کہ کاروبار میں شئیرنگ کے سبب یہ سب آنا جانا ہورہا ہے لیکن پھر ایک روز رفیق نے اس سے کچھ غیر متعلقہ گفتگو کی جس سے وہ چونک گئی۔ رفیق اس کے شوہر کے ساتھ دس سال سے کام کررہا تھا اور اس کی بیوی اور بچے بھی تھے ۔
صائقہ نے بتایا کہ شروع دنوں وہ گھر میں سامان اور خرچ وغیرہ دیا کرتا تھا اور یہی کہتا تھا کہ یہ اس حصے میں سے ہے جو بزنس سے آتا ہے ۔ پھر بچے بھی رفیق سے گھل مل گئے اور فرمائشیں کرنے لگے۔ رفیق بھی بچوں سےشفقت سے پیش آتا تھا۔ بچوں کے باپ کا رویہ اکثر بچوں کے ساتھ بھی خراب رہتا تھا اس لئے انہیں انکل رفیق بہت اچھے لگنے لگے تھے ۔
صائقہ اب مجھ سے وہ سوال کررہی تھی کہ جس کا میرے پاس جواب نہ تھا۔ رفیق شادی شدہ تھا اور صائقہ سے شادی نہیں کرسکتا تھالیکن وہ صائقہ کو محبت کا یقین دلا چکا تھا۔ صائقہ جو کہتی تھی کہ اب کسی مرد کو زندگی میں نہ آنے دے گی اس کا دل بھی رفیق کے لئے نرم ہورہا تھا۔ لیکن وہ کوئی غلط مراسم قائم نہ کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی ابھی وہ شادی کا سوچ رہی تھی ۔ 
اویس کے انتقال کو سال گزر چکا تھا۔ رفیق کی طرح اسد جو دوسرا پارٹنر تھا، بھی صائقہ کو پسند کرنے لگا تھا ۔ میرے لئے تعجب کی بات یہ تھی کہ وہ بچوں کی ماں تھی اور اس کی عمر بھی اب زیادہ ہوچکی تھی ۔ پھر ان دونوں حضرات کا اس طرح جھکاؤ کچھ عجیب سا تھا ۔ رفیق کی طرح اسد شادی شدہ نہ تھا بلکہ اس کی شادی ناکام ہوچکی تھی اور اب وہ برسوں سے تنہا رہتا تھا۔ اویس کی زندگی میں اکثر کھانے پر آیا کرتا تھااور ہمیشہ کھانے کی بہت تعریف کرتا تھا۔ شاید وہ صائقہ کے سگھڑپن اور گھرداری سے متاثر تھا اس لئے اسے سہارا دینے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی آسودگی کی تلاش میں تھا۔
میں نے صائقہ کو اسلامی نظریہ سمجھا دیا کہ عورت کو کسی بھی عمر میں شادی کر لینی چاہیے تاکہ مرد کا سہارا میسر آجائے بجائے یہ کہ وہ تنہا رہے اور معاشرے کے تلخ رویے کا سامنا کرے ۔ 
صائقہ کی باتوں سے لگا کہ اسے رفیق پسند ہے شاید اس لئے بھی کہ اس کے بچے اس سے مانوس تھے ۔ جبکہ مجھے اسد زیادہ مناسب نظر آرہا تھا۔ وہ خود بھی ضرورت مند تھا اور سمجھوتہ کرتا نظر آرہا تھا پھر مال دار تھاکیونکہ فیملی نہ ہونے کی صورت وہ سب مال جمع کرتا رہا تھا۔اور بھی بہت ساری باتوں میں اسد ہر لحاظ سے بہتر آپشن تھا ۔ دیکھنے میں بھی اسد رفیق سے زیادہ رکھ رکھا والا تھا لیکن صائقہ فیصلہ نہیں کرپاتی تھی ۔یوں لگتا تھاکہ وہ بچوں کے لگاو کے سبب رفیق کی جانب دیکھ رہی تھی جو ابھی تک واضح طور پر شادی کی ہامی نہیں بھررہا تھا۔ 
میرے لئے یہ انوکھا واقعہ تھا کہ بیوہ عورت کے پاس اتنی جلدی اتنے اچھے آپشن تھے کہ وہ پھر سے گھر بسا لے اور جو خوشیاں اسے اب تک نصیب نہ ہوئیں تھیں شاید اب اس کا مقدر بن جائیں ۔ 
ابھی اس معاملے کا کوئی حل نہیں نکل رہا تھا کہ اویس کی پہلی برسی کے موقع پر اس کے والدین نے بچوں پہ حق جتادیا۔ میں جانتی ہوں کہ اب صائقہ بچوں کی خاطر سسرال کے ڈر سے کسی سے شادی کرنے کا سوچے گی بھی نہیں ۔ چاہے اسے رفیق کا خیال رکھنا پسند ہو یا چاہے اسد اس کی زندگی کو آسودہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ صائقہ اگر شادی کرے گی تو سسرال والے پیسے کی بنیاد پر تگڑا وکیل کریں گے اور صائقہ کے کردار کی دھجیاں بکھیر دیں گے۔ اسے اتنا بےبس کردیں گے کہ وہ شریعت کے حکم کی پاسداری سے بھی باز آئے گی ۔ کیا خبر وہ مجبور ہوکر کسی مرد کا سہارا بھی لے جو اس سے فائدہ بھی اٹھائے لیکن نکاح بھی نہ کرے گا؟ 
کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کس معاشرے کا پرزہ بن چکے ہیں؟ بیوہ کو نکاح کرنے پر طعنے دینے والے اسے گناہ کی راہ پر دھکیلنے والے اسلامی شعائر کا براہ راست مذاق بنانے والے آخر روز محشر کس کس بات کا جواب دیں گے؟
میری ایک دوست محض 30برس کی عمر میں بیوہ ہوئی اور پھر اس کو مجبور کردیا گیا کہ وہ بیوگی کی زندگی گزارے ۔ وہ کسی شادی بیاہ میں میں تیار ہوکر جائے تو طرح طرح کی باتیں سنتی یے جبکہ میں جانتی ہوں کہ وہ کیسی نیک اطوارعورت ہے۔ وہ روتی ہے کہ میری زندگی میں خوشی نہیں بس اپنے بچے کے سہارے جی لوں گی ۔ اس کی داستان بھی ایسی درد ناک ہے دل بجھ جاتا ہے ۔ 
ہم نے نکاح کو کتنا مشکل بنا دیا۔ صائقہ نے شوہر سے محبت اور عزت نہ پائی اور جب اسے کہیں کوئی آس بندھی تو آپ کا شیطانی خطوط پر استوار معاشرہ اس کی راہ میں آن کھڑا ہوا۔ یقین جانیں یہ سب گناہ اس معاشرے کے ہر اس فرد کے کھاتے میں جمع ہورہے ہیں جو کسی نکاح پر طعن کرتے ہیں ۔ برا بھلا کہتے ہیں اور سیدھے راستے پر چلنے والوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں ۔ 
میرے پاس ایسی بیشمار داستانیں ہیں جو اس معاشرے کا بدنما چہرہ دکھا کر مجھے شرمسار کرتی ہیں ۔ ابھی یہی باتیں سوچتے ہوئے مجھے لگا جیسے سینے پہ بوجھ بڑھ گیا اور میرا دل یہ سوچ سوچ کر ڈوبنے لگا کہ میں کیسے کسی بیوہ کسی مطلقہ یا کسی بانجھ عورت کی زندگی میں کسی خوشی کا بیج بو سکتی ہوں ؟ میری دھڑکن الجھ الجھ کر مجھے میری بے بسی بتا رہی ہے کہ میں کسی قابل نہیں ۔۔ 
سچ ہے ۔۔ 
کسی کی مدد کیا کروں میں تو کسی کے قابل نہیں اے دل !



No comments:

Post a Comment