Monday, 28 October 2019

خود نمائی یا خدا نمائی (قسط نمبر۔3)

سمیرا اور حمیرا بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں اور سکتے میں کھڑی ماں کو دیکھنے لگیں۔ سامنے بوریوں کے اندر ہلچل ہوئی دونوں بہنوں کے منہ سے بھی بے اختیار چینخ نکلی۔" ہائے اماں " سمیرا سے بڑی حمیرا نے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔ مہرالنساء کی ماں جلدی سے آگے بڑھی اور ساری بوریاں اٹھا کر ایک طرف پھینکیں۔ 
"ہائے اللہ ۔۔ میری مہرالنساء! " مہرالنساء کی ماں کا رنگ سفید پڑ گیا۔ کم روشنی میں اسے سامنے پڑی مہرالنساء کی لاش ٹھیک سے دکھائی نہ دی لیکن اس کے پیروں تلے سے زمین نکل چکی تھی۔ سمیرا نے آگے بڑھ کر ماں کو سہارا دیا تو حمیرا نے جلدی جلدی اس بے حس و حرکت بدن کو ہلایا۔قریب جاکر دیکھنے سے یقین ہوگیا کہ وہ مہرالنساء ہی تھی ۔ لیکن اس کا جسم کسی شے سے کالا ہوا نظر آیا۔ مہرالنساء کی ماں یہی سمجھی کہ مہرالنساء کو کسی نے مار کر یہاں ڈال دیا اور رات بھر سردی سے لاش نیلی پڑگئی۔ سمیرا نے جلدی سے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں پوری طرح سے کھول دیں ۔ کمرے میں روشنی کا اور کوئی انتظام نہ تھا۔باہر سے آتی روشنی میں جب حمیرا نے اس بےسدھ پڑے بدن کو ہلایا تو اس میں حرکت ہوئی ۔ 
"اماں مہرالنساء ہے یہ زندہ ہے یہ زندہ ہے " حمیرا کی خوف اور خوشی کی ملی جلی کیفیت سے کانپتی آواز نے ایک شور برپا کردیا ۔ دوسرے کمروں سے بھی بچے بھاگتے ہوئے اسی طرف آگئے۔ اب مہرالنساء کو گھسیٹ کر نیچے اتارا جاچکا تھا۔ 
اماں یہ ٹھیک ہے مہرالنساء ٹھیک ہے اماں ۔۔ یہ گارے میں لتھڑی ہوئی ہے ۔ حمیرا نے جلدی جلدی مہرالنساء کے چہرے اور بدن سے سوکھا کیچڑ رگڑنا شروع کیا تو اس کا چہرہ پہچان میں آنے لگا ۔ 
مہرالنساء کی ماں آگے بڑھی اور اسے زور سے بھینچ لیا ۔ اس کیچڑ سے لتھڑی مہرالنساء کو وہ دیوانہ وار چوم رہی تھی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ وہ روتی بھی جارہی تھی۔یہ دیکھ کر وہاں موجود سب بچے رونے لگے۔ 
مہرالنساء حیران پریشان صورتحال سے بالکل انجان کھڑی دیکھ رہی تھی کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ آج سب اس کے گرد جمع ہو گئے ۔پہلے اسے لگا شاید اس نے کوئی غلطی کردی لیکن پھر سب کے پیار نے اس تاثر کو زائل کردیا ۔ 
باہر برآمدے میں جب مہرالنساء کو لایا گیا تو وہ سر سے پیر تک گارے مٹی میں لت پت تھی۔ سمیرا نے اس سے پوچھا ۔ مہرالنساء یہ گارا کیوں لگا ہے تجھ پہ ؟ 
مہرالنساء کے کچھ کہنے سے پہلے اس کی ماں نے اسے پھر سینے سے لگا لیا۔" بس بس ۔۔ ابھی کچھ نہ پوچھو۔ پانی گرم کر حمیرا میں اپنی بچی کو خود نہلاوں گی ۔ بس اللہ نے میری بچی مجھے لوٹا دی میرے لئے یہ معجزہ کافی ہے بس اس بات کا شکر ہے ۔ جلدی جلدی پانی گرم حمیرا ۔ 
مہرالنساء کی ماں اب بہت جذباتی ہورہی تھی۔
چند ہی گھنٹوں میں یہ خبر سارے گاوں میں پھیل گئی اور اب سارے ایک بار پھر مہرالنساء کے گھر جمع ہورہے تھے ۔ 
مہرالنساء کی ماں نے اسے نہلا دھلا کر دھوپ میں بٹھایا اور پھر اپنے ہاتھ سے دیسی گھی اورشکر کی چوری بناکر کھلائی ساتھ ہی ساتھ وہ بار بار اللہ کا شکر ادا کرتی رہی۔
مہرالنساء کو اب تک یہ بات سمجھ نہ آئی کہ آخر ایسا کیا ہوگیا جو اس گھر میں آج اسے اتنی اہمیت دی جارہی تھی۔
اس کا سوتیلا بڑا بھائی اشرف جس کے ساتھ وہ بکریاں چراتی تھی،گھر میں داخل ہوا تو مہرالنساء گھبرا گئی کہ وہ اسے مارے گا لیکن جب اس نے دیکھا کہ اشرف نے بھی آکر اسے خوب پیار کیا تو وہ مزید الجھ گئی کہ آخر ماجرہ کیا ہے ۔
شام تک ساری بات کھل چکی تھی کہ بکریاں چراتے ہوئے مہرالنساء کھالے ( پانی کے نالے ) میں گر گئی اور نالے میں پانی نہ ہونے کے سبب کیچڑ اور مٹی میں لت پت  ہوگئی۔ اسے ڈر تھا کہ کپڑے گندے ہونے پر اسے گھر سے مار پڑے گی تو وہ پہلے کھیتوں میں چھپی رہی پھر شام ڈھلے ڈرتی ہوئی چپکے سے گندم کی بوریوں کے پیچھے چھپ گئی۔رات اسے سردی لگی تو خالی بوریاں لپیٹ کر وہیں بھوکی پیاسی سوگئی۔
مہرالنساء کی ماں یہ جان کر مزید غمگین ہوئی کہ سردی میں مہرالنساء اکثر رات میں اس کمرے میں انہی بوریوں پہ آکر سوتی تھی کیونکہ بڑی بہنیں اسے ساتھ نہ سلاتی تھیں اور اس کو اکثر لحاف بھی نہ ملتا تھا۔ اناج کا کمرہ سردیوں میں گرم رہتا اور خالی بوریوں کو وہ لحاف کے طور پر استعمال کرتی تھی۔اس روز اس گھرانے نے مہرالنساء کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو محسوس کیا اور ندامت کے سبب ہر کوئی ایک دوسرے سے کتراتا رہا۔ کسی کو بھی اندازہ نہ تھا کہ  نو/ دس برس کی مہرالنساء اتنی حساس اوراندر سے اتنی دکھی ہے کہ اپنی تکلیفوں میں کبھی اس نے اپنے گھر کے کسی فرد حتی کے ماں تک کو نہ پکارا تھا۔ مہرالنساء کی ماں اس روز یہ سوچ سوچ کر ساری رات کروٹیں بدلتی رہی کہ اسے تو کبھی بھی مہرالنساء کی کسی بھی بیماری یا تکیف کاعلم نہ ہوا ۔ وہ شرمندہ تھی کہ کیسی ماں ہے اور اللہ سے بار بار توبہ کرتی رہی کہ اس نے معصوم بچی کو توجہ ہی نہ دی ۔ مہرالنساء کو اس رات ماں نے اپنے پاس سلایا تھا اور ساری رات اسے چومتی رہی ۔ اسی گھر میں مہرالنساء کو خدا نے ان کی نگاہوں سے چھپا کر ہدایت کا سامان کردیا تھا۔کہتے ہیں کہ جب اللہ اپنے پسندیدہ بندے کا بھلا چاہے تو اس کی خطا پر اس کی سرزنش فرماتا ہے اسے توبہ کا راستہ فراہم کرتا ہے ۔
جبکہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو گناہ پر گناہ جرم در جرم کرتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کی رسی ڈھیلی چھوڑ دی جاتی ہے۔
بعض کو تو توبہ تک نصیب نہیں ہوتی اور ان کا آخری وقت آن پہنچتا ہے ۔ آخر جہنم کا پیٹ بھی تو بھرنا جس کی بھوک لالچی آدمی کی طرح اور شکم دین فروش منافق کی طرح ُپر ہوتا ہی نہیں۔
 اگلی صبح مہرالنساء کی زندگی میں ایک یکسر مختلف دن لے کر طلوع ہوئی۔ صبح سویرے اس کی بڑی بہنیں اس کا منہ ہاتھ دھلا کر پراٹھے انڈے کا ناشتہ کروا رہی تھیں ۔ اس کے بڑے بھائی بار بار اس کے سر پہ ہاتھ پھرتے تھے اور ماں بار بار صدقے واری تھی۔دوسری ماں ( باپ کی دوسری بیوی ) کالی مرغی لے آئی اور اس کے سر سے گھما کر اشرف کو دی کہ اسے ذبح کرکے کسی غریب کو دے آ۔یہ میں نے منت مانی تھی کہ ہماری بچی مل جائے تو اپنی پیاری ککڑی ذبح کردوں گی۔ مہرالنساء کی ماں نے اپنی سوکن کو گلے لگایا اور پھر ۔ 
اس روز کے بعد مہرالنساء پھر بکریاں چرانے نہ گئی بلکہ اب باقاعدہ سکول اور گھر میں بہنوں سے پڑھائی کرنے لگی ۔
وقت گزرتا رہا۔ آہستہ آہستہ مہرالنساء بڑی ہورہی تھی لیکن باقی بچوں جیسی ہشیار چالاک نہ تھی۔ وہ اب بھی معصوم بھولی بھالی سی لڑکی تھی ۔جس کو کوئی بھی اپنے دام میں پھنسا لیتا اور یہی غم مہرالنساء کی ماں کو اب کھائے جارہا تھا۔ وہ خاندان کے بڑے بوڑھوں سے پوچھ پوچھ تھک گئی تھی کہ کس طرح مہرالنساء کو سمجھائے کہ ہر کسی کا اعتبار نہیں کرتے اور ہر بات کو سچ نہیں مانتے ۔ تایا فضل داد کہتے تھے کہ مہرالنساء ابھی بچی ہے جب بڑی ہوگی تو سمجھ جائے  گی ابھی تو فکر نہ کر ۔لیکن مہرالنساء کی ماں جانتی تھی کہ  جومزاج مہرالنساء کا ہے وہ عام بچوں والا نہیں ۔ اسے مہرالنساء میں درویشی نظر آرہی تھی۔قناعت پسند اور غنی ۔وہ کسی کے لئے اپنا حق چھوڑ دیتی تھی اور اپنے حق کے لئے لڑتی بھی نہ تھی۔

No comments:

Post a Comment