sadia kayani
journalist reporter/columnist
Sunday, 22 October 2023
Combating Natural Disaster: Monsoon, Glof & Climate change
Friday, 20 October 2023
Domeshi Village: Another Victim of Climate Change
Tuesday, 17 October 2023
Ultrasound Surgery: A Non-Invasive Solution for Sustainable Healthcare
Sunday, 15 October 2023
Clean and safe drinking waterSevere and complex challenge for Pakistan
Friday, 13 October 2023
Hydropower and Challenges in pakistan
Monday, 10 August 2020
شیخ سعدی کا بادشاہ دانا آدمی تھا!
انسان کی زندگی میں سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا البتہ یہ کبھی سست ہوجاتا ہے اور کبھی کچھ وقت کے لئے رک جاتا ہے۔ ہم نے سنا کہ ’’علم حاصل کرو ماں گود سے قبر کی لحد تک‘‘ اور جب بات کرتے ہیں علم کی ،تو علم کی جو شکل ذہن میں ابھرتی ہے وہ کتاب ہے۔جب بھی کوئی علم سے متعلق بات کرے گا آپ کے ذہن میں کتاب کی تصویر ابھرنے لگتی ہے۔تو معلوم ہوتا ہے کہ علم کے حصول کے کتاب سے تعلق پیدا کرنا ضروری ہے۔ چاہے ٹیکنالوجی جتنی بھی ایڈوانس ہوجائے۔کتاب کی حیثیت اور اہمیت کسی نہ کسی صورت قائم رہے گی۔کیونکہ کتاب صرف کاغذ کے گٹھے کا نام نہیں بلکہ اس میں تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔
بچوں کی کہانیوں میں ایک کہانی”کسان اور بادشاہ” جو “بوستان” شیخ سعدی میں درج ہے۔ بیٹی کو پڑھاتے ہوئے سمجھارہی تھی کہ شیخ سعدی نے دنیا میں سیروسیاحت کی.بہت علم و عمل سیکھا اور تجربہ حاصل کیا۔پھر وہ ساری زندگی کا نچوڑ مختلف کتابوں کی شکل میں جیسے کہ ہمارے لئے ’’گلستان‘‘ و ’’بوستان‘‘ چھوڑ گئے۔ان کی حکایات ہمارے لئے باعث رحمت و رہنمائی ہیں۔حکایات سے مراد ایسی دانائی والی باتیں اعلی درجے کی عقل یعنی صرف عقل نہیں بلکہ(level of intellect and level of knowledge ) دوسروں سے بہتر ہو۔ ایسے عقلمند اور Humble لوگ اپنے تجربات سے جو اچھی باتیں سیکھتے ہیں ،وہ دوسروں کی مدد اور رہنمائی کے لئے اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ہر عام وخاص کو آسانی سے سمجھ بھی آجائیں اور ان پر عمل کرنا بھی آسان ہو۔
شیخ سعدیؒ کی ایک کہانی میں ایک کسان اور اس کے گدھے کا قصہ بیان ہے۔اس میں سمجھایا گیا ہے کہ انسان جب خود اپنے عمل کے ذریعے اپنی مشکل سے نکل نہیں سکتا اور اپنی عقل سے کسی معاملے کو سلجھا نہیں سکتا تو اپنی بےبسی کا ذمہ دار ارد گرد کے لوگوں کو ٹھہراتا ہے، جن کا براہ راست اس معاملے سےتعلق بھی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اپنی نالائقی کا الزام ساری دنیا کو دینے لگتا ہے۔کسان نے بھی ایسا ہی کیا،جب اس کا گدھا کیچڑ میں پھنس گیا اور وہ اسے نکال نہ سکا تو اس نے سارے جاننے والوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا حتی کہ بادشاہ کو بھی کوسنے لگا۔کسان پچھتاوےاور بےبسی کا شکار تھا۔ اس کی نامناسب باتیں وہاں سے گزرتے بادشاہ نے بھی سنیں تو بادشاہ کے وزیرمشیر اپنے نمبر بنانے کے لئے بادشاہ کو مزید اکسانے لگے کہ اس گستاخ کسان کی گردن اڑادی جائے۔ کسی نے کہا، اسے زندان میں ڈال دیں۔ الغرض بادشاہ کو طیش دلانے کی کوشش کی جانے لگی۔ یہ بھی ایک انسانی مزاج ہے کہ جب انسان اپنی محنت سے مقام پیدا نہ کرسکے تو وہ دوسروں کو نیچا دکھا کر یا خود کو اس سے بہتر ثابت کرنے کے لئے اس کی معمولی خرابی کو بڑا کر کے دکھاتا ہےلیکن شیخ سعدیؒ کا یہ بادشاہ بھی دانا آدمی تھا، جو ان وزراء مشرا کی باتوں میں نہ آیا۔اس نے کسان کی بےبسی اور بدحالی کا احساس کیا،اس کی مدد کرتے ہوئے اسے مال اور اپنا ایک گھوڑا بھی دیا۔اس نے دل میں کسان کی حالت پہ ترس کھایا اور سوچا کہ کسان کی معاشی حالت بہتر ہوگی تو اس کی اضطرابی کیفیت سے ارد گرد کے لوگ بھی محفوظ رہیں گے۔بادشاہ نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور اشتعال دلانے والوں کو نظر انداز کیا۔سمجھداری کا عمل کرکے معاملہ احسن طریقے سے نمٹا دیا۔
جب یہ کہانی بچپن میں پڑھی تھی تو اس کا اثر اور طرح کا تھا ۔لیکن آج جب دوبارہ یہ حکایات کی کتاب کھلی تو معلوم ہوا کہ شیخ سعدیؒ تو بہت پتے کی بات کر گئے ۔ایک حاکم کو حکمت آنی چاہیے۔ اس کا ظرف اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ وہ رعایا کی باتوں کو برداشت کرسکے۔ دنیا بھر میں میڈیا بھی عوام کی آواز ہی سمجھا جاتا ہے۔عوام کی آواز اخبارات اور ٹی وی کے ساتھ ساتھ اب سوشل میڈیا پر بھی گونجتی ہے۔ٹی وی اور اخبار تو ہمارے بادشاہ نے بند ہی کروا دئے چہ جائیکہ ظرف دکھاتے اور تنقید کو اصلاح کے لئے استعمال کرتے یا شاید ہمارے حکمران نے شیخ سعدیؒ کی حکایات نہیں پڑھیں اور اگر پڑھی ہیں تو پھر ان حکایات سے حکمت نہیں سیکھی ورنہ یہ کسان اور گدھے کی کہانی کافی تھی نصیحت پکڑنے کے لئے اور سیکھنے کے لئے۔
لگام ڈالنا سیکھئے سواری سے پہلے!
جس طرح گھوڑے پر سواری کرنا ایک فن ہے۔ اسی طرح ریاست کو چلانا بھی ایک فن ہے۔ جس کا سیکھنا اقتدار میں آنے سے پہلے کا عمل ہے۔ جس طرح گھوڑے پر بیٹھنے سے لے کر اترنے تک مکمل توجہ اور ہمت درکار ہوتی ہے۔یونہی امور مملکت کو سمجھنے ,سنبھالنے اور چلانے کے لئے بھی مکمل توجہ اور ہمت درکار ہوتی ہے۔سیاست میں قدم رکھنے سے لے کر امور ریاست کو سنبھالنے تک کا ایڈونچر مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ہموار راستے،اترائی چڑھائی اور کھڈے کھائیاں سب اس ایڈونچر کا حصہ ہے۔
بچپن میں سنتے تھے کہ دوڑتے گھوڑے کی ٹاپوں سے باشاہ کا محل بھی لرز جاتا ہے اور جہاں اس کا گزر ہو سانپ بھی اس جگہ سے دور رہتا ہے۔ جو لوگ گھڑ سواری کرتے ہیں انہیں خبر ہے کہ اس کی ٹانگوں کے ساتھ ساتھ اس کا سر بھی بہت طاقتورہوتا ہے اور اس طاقت کو کنٹرول کرنے کے لئے اس کے نتھنوں یعنی حساس ترین حصے میں رسی یا لگام ڈالی جاتی ہے تاکہ جہاں یہ اپنی طاقت کا اظہار کرے اس کا سوار اپنے ایک ہاتھ سے اس کی لگام کھینچ لے اور دوسرے ہاتھ سے اسے تھپکی دےیعنی اس سرکش طاقت کو کنٹرول میں رکھ کر چلایا جاسکے۔
ہر ریاست کے بہت سے ادارے منہ زور گھوڑے کی طرح اپنی طاقت کا اظہار چاہتے ہیں لیکن ان کی پیٹھ پہ سوار کھلاڑی اگر امور ریاست کی تدبیر سمجھتا ہے تو ان اداروں کی طاقت اپنے واسطے استعمال کرسکتا ہے لیکن اگر اسے یہ ہنر نہیں آتا تو ادارے اسے اپنے اشاروں پہ نچاتے ہیں۔جس طرح گھڑ سوار اگر گھوڑے کو قابو کرنا نہیں جانتا تو وہ ہر وقت بوکھلاہٹ کا شکار رہتا ہے اس کو ڈر لگا رہتا ہے کہ ابھی گرا کہ ابھی گرا۔ کسی وقت بھی گھوڑا اس اناڑی کے ہاتھ میں پکڑی اپنی لگام پہ اس کی گرفت ڈھیلی محسوس کرے گا تو اپنی مرضی سے جس طرف چاہے گا چلےگا۔ گھڑ سوار کو پہلے اس کو گرفت میں لینے والی لگام پکڑنے کا طریقہ سیکھنا ضروری ہے۔
یاد رکھئے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھنے والا سوار ماہر ہے یا اناڑی ؟ یہ بات گھوڑا اپنے سوار کے بیٹھتے ہی سمجھ لیتا ہے اور اناڑی بندے کو خوب تھکاتا ہے جبکہ ماہر سوار کے آگے گھوڑا مکمل فرمانبرداری دکھاتاہے چاہے سوار لگام ڈھیلی ہی کیوں نہ چھوڑ دے۔ہمارے یہاں سیاست دان زبانی کلامی ریاستی امور چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ضروری فائلیں اور ان کے مندجات نہیں پڑھتے۔اس کا نقصان یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی ادارے یا کام کی بنیادی سمجھ اسی فائل میں درج ہوتی ہے جس کے متعلق وہ سنی سنائی کے مطابق ہی فیصلے صادر فرماتے ہیں۔اناڑی یا لاپرواہ سوار کے ساتھ کبھی کبھار ایسا معاملہ بھی ہوجاتا ہے ،جب گھوڑا ایک زور کے جھٹکے سے خود کو چھڑا لیتا ہے اور گھڑ سوار اپنا توازن کھو دیتا ہے۔ ادارہ چیف ایگزیکٹیو کی لاپرواہی کا فائدہ اٹھا کر اس کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔ اور بعض اوقات تو نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ دوبارہ اس ادارے کو قابو کرنے کے لئے یا اپنی حیثیت منوانےمیں وقت لگتا ہے جیسے اگر گھوڑا گھڑ سوار کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اپنی گردن کو جھٹکا دے تو گھڑ سوار عین گھوڑے کے سامنے اس کے کھروں میں پڑا ہوتا ہے اور اگر گھوڑا گھڑ سوار پر اپنا پاوں رکھ دے تو جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ریاستی امور میں غیر سنجیدگی اور لاپرواہی اقتدار کے لئے خطرہ بن جاتی ہے۔
گھوڑے کا بچہ پیدائش کے فورا بعد اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوجاتا ہے اوراگلے تین چار سال میں گھڑ سواری کے قابل ہوجاتا ہے۔پانچ سال میں تو بالکل جوان گھوڑا بن جاتا ہے،اس کی کئی نسلیں ہیں لیکن انہیں خصوصیات کے سبب عموما تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے,بوجھ اٹھانے والے گھوڑے اس تیسری کیٹیگری میں آتے ہیں جو دو نسلوں کے ملاپ سے وجود میں آئیں۔سیاست میں بھی ایسے کئی ملاپ ہوتے ہیں لیکن اس ملاپ کی صورت جو مسائل جنم لیتے ہیں ان کا بوجھ سیاست دان نہیں بلکہ عوام اٹھاتے ہیں۔سیاستدان کی سیاست ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں اپنا حصہ لینے تک ہے، اسے غرض نہیں کی عام آدمی اس کے بارے میں کیا سوچے گا کیونکہ اس کی نگاہ میں عام آدمی کی حیثیت گھوڑے کی نعلیں بدلنے والے سے زیادہ نہیں۔گھوڑوں کی پہلی قسم والا گھوڑا اتنا گرم خون ہوتا ہے کہ وہ کسی کے قابو میں نہیں آتا۔ اپنی مرضی کرتا ہے اور آزاد رہنا پسند کرتا ہے۔ ریاست میں بعض ادارے بھی خود کو اول نسل سے تعبیر کرتے ہیں کسی کی مجال جو کوئی انہیں قابو کرنے کی کوشش کرے۔
گھوڑوں سے متعلق سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ صدیوں پہلے اولین گھوڑوں کی نسلیں گھاس نہیں کھاتی تھی یہ اعلی نسل صرف پھل اور سبزیاں ہی کھاتی تھیں۔وقت کے ساتھ ساتھ مقدس ایوانوں اور مقدس اداروں میں بھی بدلاو آگیا ہے۔ اب جس طرح گھوڑوں نے گھاس کھانے والے دانت اُگا لئے ہیں، اسی طرح سیاست دانوں حکمرانوں اور اداروں نے بھی معیار پر سمجھوتے کرلئے۔ اب دنیا میں اعلی نسل و اعلی اقدار نایاب ہوگئیں۔ اب جو گھوڑے اور گھڑ سوار دستیاب ہیں ،ان سے متعلق حتمی طور پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔کون کس کردار اور مزاج کا ہے اور کیا کرے گا؟ کس کے اصول کس وقت بدل جائیں ؟ ِکسے خبر !