Monday 10 August 2020

لگام ڈالنا سیکھئے سواری سے پہلے!

جس طرح گھوڑے پر سواری کرنا ایک فن ہے۔ اسی طرح ریاست کو چلانا بھی ایک فن ہے۔ جس کا سیکھنا اقتدار میں آنے سے پہلے کا عمل ہے۔ جس طرح گھوڑے پر بیٹھنے سے لے کر اترنے تک مکمل توجہ اور ہمت درکار ہوتی ہے۔یونہی امور مملکت کو سمجھنے ,سنبھالنے اور چلانے کے لئے بھی مکمل توجہ اور ہمت درکار ہوتی ہے۔سیاست میں قدم رکھنے سے لے کر امور ریاست کو سنبھالنے تک کا ایڈونچر مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ہموار راستے،اترائی چڑھائی اور کھڈے کھائیاں سب اس ایڈونچر کا حصہ ہے۔ 

بچپن میں سنتے تھے کہ دوڑتے گھوڑے  کی ٹاپوں سے باشاہ کا محل بھی لرز جاتا ہے اور جہاں اس کا گزر ہو سانپ بھی اس جگہ سے دور رہتا ہے۔ جو لوگ گھڑ سواری کرتے ہیں انہیں خبر ہے کہ اس کی ٹانگوں کے ساتھ ساتھ  اس کا سر بھی بہت طاقتورہوتا ہے اور اس طاقت کو کنٹرول کرنے کے لئے اس کے نتھنوں یعنی حساس ترین حصے میں رسی یا لگام ڈالی جاتی ہے تاکہ جہاں یہ اپنی طاقت کا اظہار کرے اس کا سوار اپنے ایک ہاتھ سے اس کی لگام کھینچ لے اور دوسرے ہاتھ سے اسے تھپکی دےیعنی اس سرکش طاقت کو کنٹرول  میں رکھ کر چلایا جاسکے۔

ہر ریاست کے بہت سے ادارے منہ زور گھوڑے کی طرح اپنی طاقت کا اظہار چاہتے ہیں لیکن ان کی پیٹھ پہ سوار کھلاڑی اگر امور ریاست کی تدبیر سمجھتا ہے تو ان اداروں کی طاقت اپنے واسطے استعمال کرسکتا ہے لیکن اگر اسے یہ ہنر نہیں آتا تو ادارے اسے اپنے اشاروں پہ نچاتے ہیں۔جس طرح گھڑ سوار اگر گھوڑے کو قابو کرنا نہیں جانتا تو وہ ہر وقت بوکھلاہٹ کا شکار رہتا ہے اس کو ڈر لگا رہتا ہے کہ ابھی گرا کہ ابھی گرا۔ کسی وقت بھی گھوڑا اس اناڑی کے ہاتھ میں پکڑی اپنی لگام پہ اس کی گرفت ڈھیلی محسوس کرے گا تو اپنی مرضی سے جس طرف چاہے گا چلےگا۔ گھڑ سوار کو پہلے اس کو گرفت میں لینے والی لگام پکڑنے کا طریقہ سیکھنا ضروری ہے۔

 یاد رکھئے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھنے والا سوار ماہر ہے یا اناڑی ؟ یہ بات گھوڑا اپنے سوار کے بیٹھتے ہی سمجھ لیتا ہے اور اناڑی بندے کو خوب تھکاتا ہے جبکہ ماہر سوار کے آگے گھوڑا مکمل فرمانبرداری دکھاتاہے چاہے سوار لگام ڈھیلی ہی کیوں نہ چھوڑ دے۔ہمارے یہاں سیاست دان زبانی کلامی ریاستی امور چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ضروری فائلیں اور ان کے مندجات نہیں پڑھتے۔اس کا نقصان یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی ادارے یا کام کی بنیادی سمجھ اسی فائل میں درج ہوتی ہے جس کے متعلق وہ سنی سنائی کے مطابق ہی فیصلے صادر فرماتے ہیں۔اناڑی یا لاپرواہ سوار کے ساتھ کبھی کبھار ایسا معاملہ بھی ہوجاتا ہے ،جب گھوڑا ایک زور کے جھٹکے سے خود کو چھڑا لیتا ہے اور گھڑ سوار اپنا توازن کھو دیتا ہے۔ ادارہ چیف ایگزیکٹیو کی لاپرواہی کا فائدہ اٹھا کر اس کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔ اور بعض اوقات تو نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ دوبارہ اس ادارے کو قابو کرنے کے لئے یا اپنی حیثیت منوانےمیں وقت لگتا ہے جیسے اگر گھوڑا گھڑ سوار کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اپنی گردن کو  جھٹکا دے تو گھڑ سوار عین گھوڑے کے سامنے اس کے کھروں میں پڑا ہوتا ہے اور اگر گھوڑا گھڑ سوار پر اپنا پاوں رکھ دے تو جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ریاستی امور میں غیر سنجیدگی اور لاپرواہی اقتدار کے لئے خطرہ بن جاتی ہے۔

گھوڑے کا بچہ پیدائش کے فورا بعد اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوجاتا ہے اوراگلے تین چار سال میں گھڑ سواری کے قابل ہوجاتا ہے۔پانچ سال میں تو بالکل جوان گھوڑا بن جاتا ہے،اس کی کئی نسلیں ہیں لیکن انہیں خصوصیات کے سبب عموما تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے,بوجھ اٹھانے والے گھوڑے اس تیسری کیٹیگری میں آتے ہیں جو دو نسلوں کے ملاپ سے وجود میں آئیں۔سیاست میں بھی ایسے کئی ملاپ ہوتے ہیں لیکن اس ملاپ کی صورت جو مسائل جنم لیتے ہیں ان کا بوجھ سیاست دان نہیں بلکہ عوام اٹھاتے ہیں۔سیاستدان کی سیاست ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں اپنا حصہ لینے تک ہے، اسے غرض نہیں کی عام آدمی اس کے بارے میں کیا سوچے گا کیونکہ اس کی نگاہ میں عام آدمی کی حیثیت گھوڑے کی نعلیں بدلنے والے سے زیادہ نہیں۔گھوڑوں کی پہلی قسم والا گھوڑا اتنا گرم خون ہوتا ہے کہ وہ کسی کے قابو میں نہیں آتا۔ اپنی مرضی کرتا ہے اور آزاد رہنا پسند کرتا ہے۔ ریاست میں بعض ادارے بھی خود کو اول نسل سے تعبیر کرتے ہیں کسی کی مجال جو کوئی انہیں قابو کرنے کی کوشش کرے۔

گھوڑوں سے متعلق سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ صدیوں پہلے اولین گھوڑوں کی نسلیں گھاس نہیں کھاتی تھی یہ اعلی نسل صرف پھل اور سبزیاں ہی کھاتی تھیں۔وقت کے ساتھ ساتھ مقدس ایوانوں اور مقدس اداروں  میں بھی بدلاو آگیا ہے۔ اب جس طرح گھوڑوں نے گھاس کھانے والے دانت اُگا لئے ہیں، اسی طرح  سیاست دانوں حکمرانوں اور اداروں نے بھی معیار پر سمجھوتے کرلئے۔ اب دنیا میں اعلی نسل و اعلی اقدار نایاب ہوگئیں۔ اب جو گھوڑے اور گھڑ سوار دستیاب ہیں ،ان سے متعلق حتمی طور پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔کون کس کردار  اور  مزاج کا ہے اور کیا  کرے گا؟ کس کے اصول کس وقت بدل جائیں ؟ ِکسے خبر !  

No comments:

Post a Comment