Monday 10 August 2020

شیخ سعدی کا بادشاہ دانا آدمی تھا!

انسان کی زندگی میں سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا البتہ یہ کبھی سست ہوجاتا ہے اور کبھی کچھ وقت کے لئے رک جاتا ہے۔ ہم نے سنا کہ ’’علم حاصل کرو ماں گود سے قبر کی لحد تک‘‘ اور جب بات کرتے ہیں علم کی ،تو علم کی جو شکل ذہن میں ابھرتی ہے وہ کتاب ہے۔جب بھی کوئی علم سے متعلق بات کرے گا آپ کے ذہن میں کتاب کی تصویر ابھرنے لگتی ہے۔تو معلوم ہوتا ہے کہ علم کے حصول کے کتاب سے تعلق پیدا کرنا ضروری ہے۔ چاہے ٹیکنالوجی جتنی بھی ایڈوانس ہوجائے۔کتاب کی حیثیت اور اہمیت کسی نہ کسی صورت قائم رہے گی۔کیونکہ کتاب صرف کاغذ کے گٹھے کا نام نہیں بلکہ اس میں تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔

بچوں کی کہانیوں میں ایک کہانی”کسان اور بادشاہ” جو “بوستان” شیخ سعدی میں درج ہے۔ بیٹی کو پڑھاتے ہوئے سمجھارہی تھی کہ شیخ سعدی نے دنیا میں سیروسیاحت کی.بہت علم و عمل سیکھا اور تجربہ حاصل کیا۔پھر وہ ساری زندگی کا نچوڑ  مختلف کتابوں کی شکل میں جیسے کہ ہمارے لئے ’’گلستان‘‘ و ’’بوستان‘‘ چھوڑ گئے۔ان کی حکایات ہمارے لئے باعث رحمت و رہنمائی ہیں۔حکایات سے مراد ایسی دانائی والی باتیں اعلی درجے کی عقل یعنی صرف عقل نہیں بلکہ(level  of  intellect  and level  of  knowledge ) دوسروں سے بہتر ہو۔ ایسے عقلمند اور Humble لوگ اپنے تجربات سے جو اچھی باتیں سیکھتے ہیں ،وہ دوسروں کی مدد اور رہنمائی کے لئے اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ہر عام وخاص کو آسانی سے سمجھ بھی آجائیں اور ان پر عمل کرنا بھی آسان ہو۔

شیخ سعدیؒ کی ایک کہانی میں ایک کسان اور اس کے گدھے کا قصہ بیان ہے۔اس میں سمجھایا گیا ہے کہ انسان جب خود اپنے عمل کے ذریعے اپنی مشکل سے نکل نہیں سکتا اور اپنی عقل سے کسی معاملے کو سلجھا نہیں سکتا تو اپنی بےبسی کا ذمہ دار ارد گرد کے لوگوں کو ٹھہراتا ہے، جن کا براہ راست اس معاملے سےتعلق بھی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اپنی نالائقی کا الزام ساری دنیا کو دینے لگتا ہے۔کسان نے بھی ایسا ہی کیا،جب اس کا گدھا کیچڑ میں پھنس گیا اور وہ اسے نکال نہ سکا تو اس نے سارے جاننے والوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا حتی کہ بادشاہ کو بھی کوسنے لگا۔کسان پچھتاوےاور بےبسی کا شکار تھا۔ اس کی نامناسب باتیں وہاں سے گزرتے بادشاہ نے بھی سنیں تو بادشاہ کے وزیرمشیر اپنے نمبر بنانے کے لئے بادشاہ کو مزید اکسانے لگے کہ اس گستاخ کسان کی گردن اڑادی جائے۔ کسی نے کہا، اسے زندان میں ڈال دیں۔ الغرض بادشاہ کو طیش دلانے کی کوشش کی جانے لگی۔ یہ بھی ایک انسانی مزاج ہے کہ جب انسان اپنی محنت سے مقام پیدا نہ کرسکے تو وہ دوسروں کو نیچا دکھا کر یا خود کو اس سے بہتر ثابت کرنے کے لئے اس کی معمولی خرابی کو بڑا کر کے دکھاتا ہےلیکن شیخ سعدیؒ کا یہ بادشاہ بھی دانا آدمی تھا، جو ان وزراء مشرا کی باتوں میں نہ آیا۔اس نے کسان کی بےبسی اور بدحالی کا احساس کیا،اس کی مدد کرتے ہوئے اسے مال اور اپنا ایک گھوڑا بھی دیا۔اس نے دل میں کسان کی حالت پہ ترس کھایا اور سوچا کہ کسان کی معاشی حالت بہتر ہوگی تو اس کی اضطرابی کیفیت سے ارد گرد کے لوگ بھی محفوظ رہیں گے۔بادشاہ نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور اشتعال دلانے  والوں کو نظر انداز کیا۔سمجھداری کا عمل کرکے معاملہ احسن طریقے سے نمٹا دیا۔

جب یہ کہانی بچپن میں پڑھی تھی تو اس کا اثر اور طرح کا تھا ۔لیکن آج جب دوبارہ یہ حکایات کی کتاب کھلی تو معلوم ہوا کہ شیخ سعدیؒ تو بہت پتے کی بات کر گئے ۔ایک حاکم کو حکمت آنی چاہیے۔ اس کا ظرف اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ وہ رعایا کی باتوں کو برداشت کرسکے۔ دنیا بھر میں میڈیا بھی عوام کی آواز ہی سمجھا جاتا ہے۔عوام کی آواز اخبارات اور ٹی وی کے ساتھ ساتھ اب سوشل میڈیا پر بھی گونجتی ہے۔ٹی وی اور اخبار تو ہمارے بادشاہ نے بند ہی کروا دئے چہ جائیکہ ظرف دکھاتے اور تنقید کو اصلاح کے لئے استعمال کرتے یا شاید ہمارے حکمران نے شیخ سعدیؒ کی حکایات نہیں پڑھیں اور اگر پڑھی ہیں تو پھر ان حکایات سے حکمت نہیں سیکھی ورنہ یہ کسان اور گدھے کی کہانی کافی تھی نصیحت پکڑنے کے لئے اور سیکھنے کے لئے۔

No comments:

Post a Comment