Monday, 21 August 2017

توازن

سعدیہ کیانی
20اگست2017
انسان کی صلاحیتوں کا پتا لگانا ہو تو اسے اس کام میں ڈال دیں جس کے متعلق وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے کرنے سے قاصر ہے یقین جانیں دو چار بار ناکامی کے بعد وہ اگر مکمل طور پر نہ سہی تو کسی تک وہی کام انجام دے چکا ہوگا ۔
اللہ نے انسان کو اعلی مرتبہ پر فائز کیا اور یہ تمام عمر خود کو نااہل ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے کہ وہ اس قابل نہیں جس قابل مالک دو جہاں نے اسے بنایا۔کیا یہ عاجزی ہے؟ یا انسان کو اس کا ادراک نہیں کہ اس کے سوا بھی اللہ نے اور بہت سی مخلوق پیدا فرمائی ہے مگر اسے سب سے ممتاز بنایا ۔۔کیوں؟
خلافت بڑا مرتبہ ہے۔۔۔اور  خلیفہ اپنے جاہ کا قائم مقام ہوتا ہے ۔۔۔ اب بات سمجھنے کی ہے۔۔۔ دھیان دیں ۔۔۔ ایک نقطہ سمجھانا چاہتی ہوں ذرا خود کو اس مقام تک لائیں ۔۔۔ وہ کہتا کیا ہے ۔۔۔ رب العالمین فرماتا ہے کہ بے شمار مخلوق پر تجھے۔۔ اے انسان تجھے اپنا  نائب بنا کر دنیا میں اتارا ہے ۔۔ تجھے تمام تر اختیارات تقویض کئے ۔۔ تجھے   ambassador بناکر مخلوق کو تیرے تابع کردیا ہر شے تیرے نفع کیلئے ۔۔ ہر ساعت تیرے دماغ کی غلامی کرے ۔۔ تجھے بے پناہ طاقت عطا کردی کہ تو اس زمین کو جنت بنا یا جہنم ۔۔۔ تجھے اختیار ہے۔
یہ اختیار دے کر اللہ نے ایک بہت اہم شرط عائد کر دی کہ بیشک تو میرا representative ہے مگر تو تنہا نہیں ۔۔۔ بے شمار اور بھی ہیں تیری طرح کے ہی جو تیری طرح میری خلافت کے حقدار ہیں ۔۔ اور یہی تیری آزمائش ہے ۔۔ توکس طرح اس طاقت اور مرتبے کو توازن میں رکھے گا؟ جی ہاں۔۔۔ یہی وہ بات ہے جو آج ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ توازن قائم رکھنا ۔۔ کیسے؟
چند دن قبل ہم نے اپنا جشن آزادی منایا اور خوب حب الوطنی کا اظہار کیا ۔۔ ترانے گائے گھر سجائے ایک دوسرے کو مبارک دی اور ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر وطن سے محبت کا اظہار کرتا نظر آتا تھا ۔۔۔ ظاہر ہے وطن سے محبت جہاں معاشرتی تقاضا ہے وہیں اسے ہمارے ایمان کاحصہ بھی بتایا گیا اور وطن کے دفاع کو ہم پر لازم کردیا گیا ۔۔۔ وطن ۔۔ چاہے فرنگی کا ہو یا کہ کافر کا ۔۔۔ وطن سے وفا ہر کسی کے فرائض میں شامل ہے ۔۔ تو ہوا یوں۔۔۔ کہ 14 اگست کے بعد 15 اگست کا سورج طلوع ہوا اور وہی محب وطن پاکستانی جو چند گھنٹے قبل عظیم دن کا چرچا کرتے تھے یکدم منحوس دن ۔۔ سیاہ دن ۔۔ اور نفرت انگیز کلمات سے 15 اگست کو کوستے نظر آئے ۔۔ بھلا کیوں؟ اس لیے کہ 15 اگست پڑوسی ملک بھارت کی آزادی کا دن تھا ۔اب اصولاً تو ہمیں اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے ہمارا جشن آزادی منانے کا حق تھا یوں ان کا بھی حق ہے مگر چونکہ ہم روایتی حریف ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اسلئے یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ان سے اور وہ ہم سے ہماری خوشیاں چھین لیں ۔۔۔ یہی حال ان کا بھی ہے کہ وہ ہمارے وطن عزیز کے وجود سے گھن کھاتے ہیں اور آج 70 سال بعد بھی اس امید پہ خود کو چٹکیاں کاٹے جاتے ہیں کہ شاید پاکستان کا بننا خواب ہے جو ابھی آنکھ کھلتے ہی ختم ہوجائے گا ۔۔۔ ارے بھئی بس کرو ۔۔ جاگ جاؤ اب ۔۔ ہوش کرو ۔۔ یہ تقسیم ہو چکی ۔۔ ہم جیتی جاگتی حقیقت ہیں تم اب تسلیم کر لو اسی میں بھلائی یے تمھاری بھی ہماری بھی۔
تو بات آگئی توازن کی ۔۔۔ اے سفیر امن  ۔۔ یہی ہے وہ توازن جو تجھے قائم رکھنا ہے ۔۔ اور یہ بہت عمدہ طریقے سے قائم رکھا جا سکتا ہے بس فقط اتنا کرنا ہے کہ جب دل میں یہ خیال آئے کہ جو حق مجھے حاصل ہےوہ دوسرے کو نہیں ہوسکتا تو پھر چند لمحوں کے لیے خود کو ۔۔ "دوسرا" تصور کر لیں ۔۔ جی وہی دوسرا جس کے وجود سے آپ کی کائنات میں جنگ چھڑ جاتی ہے سوچ لیں جس طرح وطن آپ کو پیارا ان کو بھی پیارا ہے  جیسے آپ کا لہو گرم ہے ان کا بھی ہے جس طرح وطن آپ سے وفا کا تقاضا کرتا ہے اسی طرح ایک بھارتی امریکی افغانی یا ایرانی کا بھی وطن اس سے بھر پور محبت کا تقاضا کرتا ہے اور جیسے آپ پر واجب ہے وطن سے وفاداری ایسے ہی ان پر بھی واجب ہے ۔۔۔ تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اپنے نظریے کے مطابق جئیں اور چاہیں کہ وہ بھی آپ ہی کے نظریات کے مطابق جئیں؟ ارے انسان۔۔۔۔! یہی توازن تجھے قائم رکھنا تھا ۔۔ انسان کا انسان سے معاملہ ہی اصل ہے باقی سب بعد کی باتیں ۔۔ دشمنی رکھیں ضرور رکھیں ۔۔ دشمنی بھی لہو گرم رکھنے کے لئے ضروری ہے مگر اصول اور توازن کے ساتھ ۔جہاں بات آجائے انسان کی بھلائی کی اور انسان کے احساس کی تو پھر رنگ و نسل سے با لا تر ہو کر اس مالک کی جانب دیکھئے وہ کیسے دیکھتا ہے ؟ کیا اس نے آپ کو کہا کہ آپ کا حق زیادہ ہے؟ نہیں نا؟ تو بس آ جائیں زمین پر ۔۔
کسی کو اس کی محنت پر کامیابی کی مبارک دیتے آپ کی شان میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے ہم کرکٹ میچ جیت جائیں تو ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کر دیتے ہیں بجائے اس کھیل کے اصل صحت مند مقاصد کو سمجھیں ہم نقصان دہ عمل اپنا لیتے ہیں ۔امتحان کا نتیجہ آنے سے پہلے نوجوان پاس ہونے سے زیادہ دوستوں سے طعنے نہ سننے پڑیں کی دعا کرتے نظر آتے ہیں۔ بھئی کیا ہوگیا جو فرسٹ ڈویژن نہیں بنی کسی کی ! اگر سبھی نے آپ کی طرح ٹاپ کرنا ہے تو یہ باقی گریڈز کس کے کھاتے میں جائیں گے؟ آپ الگ اور نمایاں کیسے نظر آئیں گے؟ دوسرے کو موقع دیں وہ خود اپنی غلطی کو دیکھے اور اصلاح کرے۔آپ اسے مجبور نہ کریں کیونکہ آپ کا دباو اسے رد عمل پر اکسائے گا جبکہ خود سے احساس اسے اصلاح کی طرف لے جائے گا۔
انسانیت کے معیار کو سمجھنا چاہیے دوسرے کے درد کو سمجھنے کیلئے اپنے درد کا احساس یاد رکھیں اپنی خوشی کے لمحے دوسرے کی خوشی میں نظر آنے چاہیں ایسا ممکن نہیں کہ تمام دنیا آپ کے مزاج اور خواہشات کے تابع ہوجائے ۔۔ ہمیں خود کو دنیا میں رہنے کیلئے بنیادی شرط دماغ میں رکھنا چاہئے کہ مالک کائنات آپ جیسے بہت سے representatives  آپ ہی کے ساتھ دنیا میں اتارے ہیں اور سب کو برابر حقوق عطا کردیئے تو بس قانون قدرت کا احترام کریں اور اختلافات کے باوجود ظرف وسیع رکھیں دوسروں کی رائے کا احترام اور غم و خوشی کا احساس کریں ۔۔ یہ دنیا آپ کے ہاتھوں میں ہے چاہیں تو جنت بنا لیں اور چاہیں تو جہنم !

No comments:

Post a Comment