سمندر پہ دھوپ کی تپش کا بالکل بھی احساس نہیں ہورہا تھا حالانکہ کراچی کا اگست ستمبر شدید گرم ہوا کرتا ہے۔
سمندر بھرا پڑا تھا چھوٹے بڑے ستاروں سے ۔۔ جس کو کچھ دیر تک مسلسل دیکھنے کے بعد نظر کچھ اور دیکھنے کے قابل ہی نہ رہتی تھی۔ دھڑپ۔۔اور میرے سامنے ایک لڑکی لہروں پہ جاگری اور دوسری جس نے غالبا دھکا دیا تھا اب خود بھی ہنستی ہنستی اس کے اوپر ہی جا گری تھی۔دونوں ہی سمندر کی آتی جاتی لہروں پہ ایکدوسرے کو بھگونے میں مصروف تھیں۔ جب لہریں ساحل سے ٹکرا کر واپس پلٹتیں اور ان کے نیچے سے ریت سرکتی اور گدگداتی تو دونوں چلانے لگتی تھیں۔ میری عمر اس وقت بمشکل سولہ برس تھی بلکہ ابھی پندرہویں سال میں ہی تھی لیکن اس زمانے میں مجھے خاموشی نے گھیرے میں لئے رکھا تھا ۔ مزاج گرم اور ایک دم غیر لچکدار ۔ ایک سے دوسری بات سننے کی روادار نہ تھی کوئی زیادہ تنگ کرتا تو چٹاخ طمانچہ دے مارتی تھی ۔ سب سہیلیاں اور محلے کے لڑکے ڈرے رہتے تھے ۔ کوئی بھی زیادہ بات کرنے سے گریز کرتا تھا البتہ اگر کوئی کام ہوتا تو تب سبھی کو پتا تھا کہ میں منع نہیں کرونگی اور جو ممکن ہوگا کردوں گی۔
اچانک مجھے لگا جیسے میرے پیچھے کوئی بہت اونچے قد والا کھڑا ہے سورج سامنے تھا اسلئے سایہ بھی میری کمر کے پیچھے ہی تھا ۔ ہم تو سب خواتین ٹیچرز کے ساتھ آئے ہیں تو مرد کہاں سے آگیا اس طرف ؟ بہت سے خیال تیزی سے میرے ذہن میں آنے جانے لگے اور ابھی پلٹنے ہی والی تھی کہ کسی نے میرے شانے پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔
کیانی ۔۔ میرے بھائی تم سے ملنا چاہتے تھے ۔۔ مس حمیرا میرے کندھے پکڑے مجھے پلٹتے ہوئے بولیں ۔ یہ میرے خالہ زاد ہیں ۔ میجر عامر ۔۔ میں نے سامنے کھڑے مسکراتے شخص پہ نگاہ ڈالی جسکا قد چھ فٹ کا نظر آتا تھا اس کی آنکھوں میں بلا کی چمک اور ماتھے پہ گہرا محراب بتا رہا تھا کہ صوم وصلاة کا پابند مسلمان ہے ۔
میں نے مسکرا کر سلام کیا ۔ایک بات جو مجھے اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ چاہے کتنا بھی غصہ ہو میں ہمیشہ لوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آتی تھی یہ مجھے وراثت میں ملا تھا شاید۔۔ اپنے دادا کے قصے سنتی تھی کہ گاوں کے لوگ عزت سے مولوی صاحب کہا کرتے تھے جب مسجد کو جاتے تو لوگ احتراما راستے سے پرے ہو جاتے کوئی لڑ رہا ہوتا تو ان کو دیکھ کر کچھ دیر لڑنا بند کر دیتا اور لوگوں کو جھگڑے نمٹانے ہوتے یا کسی جگہ منصفی درکار ہوتی اللہ بخشے داداجی کے پاس ہی آتے ۔مجھے جس بات نے بہت متاثر کیا وہ یہ تھا کہ دادا جی اپنے گھر میں بھی داخل ہونے سے قبل تین دستک دیا کرتے تھے جس سے پتا چلتا تھا کہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تھے اور اپنی عملی زندگی میں بھی پیروی کیا کرتے۔ میرے پیدا ہونے سے بہت پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے لیکن ہم نے اپنے ابا اور تایاجی کے اصولوں پر مبنی زندگی میں ان کا عکس بارہا دیکھا تھا۔
ایک ہمارے عزیز کراچی مزار قائد کے پاس رہتے تھے چوہدری حشمت، وہ ہمارے خاندان سے نہیں تھے لیکن ہم نے انہیں ہمیشہ تایا ہی سمجھا تھا ۔ماشاللہ ڈھیر ساری اولاد سے نوازے گئے تھے جس میں ایک غالبا جج بھی تھے۔ تایا حشمت علی خود بھی کسی اچھے سرکاری عہدے پر فائز تھے اور ساری اولاد کو خوب پڑھا لکھا کر اچھے عہدوں تک پہنچایا تھا۔ میں اسوقت بہت چھوٹی تھے لیکن میری دلچسپی تایاجی سے دادا جی کے قصے سننا ہوتی تھی ۔جب بھی ان کے گھر جانا ہوتا سب جامن اور بیر کے درخت پر چڑھے پھل توڑ رہے ہوتے کبھی گھر کے پاس پارک اور بازاروں کا رخ کرتے لیکن میں ہمیشہ زیادہ وقت تایا جی کے پاس بیٹھنے میں گزارتی اور ڈھیر سارے سوالات کرتی کہ پاکستان بننے اور اسکے بعد مسلمانوں کی آباد کاری اور مشکلات کیا تھیں۔ تایا جی مجھے پاس بٹھا کر بہت کچھ بتاتے تھے کہ کس طرح ہم نے لٹے پٹے مسلمانوں کو اس خطے ارضی پر سجدے کرتے دیکھا کسی کا باپ نہیں تو کسی کی ماں نہیں خود تایا جی نے بتایا کہ جب وہ انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تو ہمارے داداجی نے ان کے خاندان کو سہارا دیا اور اپنی زمینوں پر آباد کیا ۔ پھر ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور پھپھو کی بات کرتے کرتے دعائیں کرنے لگتے ۔کہتے جس روز سکول جانے کا دن آیا تو میرے پاوں میں جوتا نہیں تھا بڑی پھپھو نے تیرے ابا جی کے پیر سےجوتے اتروا کر مجھے پہنا دئے ۔۔تیری پھپھو بہت سخت مزاج تھی اور بہت انصاف پسند تھی جتنے آنے(پیسہ ) تیرے ابا کو دیتی اتنے ہی مجھے بھی دیا کرتی پھر وہ بہت دیر تک پھپھو کی باتیں کرتے جاتے اور روتے جاتے بس یہی وقت ہوتا جب میں وہاں سے اٹھ جاتی تھی۔ میں تب بھی اس بات سے ڈرتی تھی کہ میری آنکھوں سے کوئی آنسو نہیں گرنا چاہیے ۔یہ بات اب بھی مشکل ہے لیکن تب تو غضب کی انا تھی جو مجھے کسی لمحے کمزور نظر نہ آنے دیتی ۔بہادری اور بے خوفی کا جنوں سوار رہتا جو کام کسی نے نہیں کرسکنا وہ میں نے کر دکھانا ۔جہاں بچے جانے سے گھبراتے مجھے وہیں جانا ہوتا جس درخت پر چڑیلیں رہتیں اسی پر چڑھ جانا جن راستوں پر مغرب کے بعد جانا منع ہوتا وہیں چھپ چھپا کر چلی جاتی ۔ ڈر لگتا لیکن میں نے سیکھ لیا تھا کہ ڈر وہ ہے جو طاری ہوجائے دل ڈرتا رہے جان سوکھتی رہے لیکن چہرے کو پرسکون رکھنا اور اعصاب کو قابو میں رکھنا ہی بہادری ہے۔ میں ڈرتی تھی لیکن ظاہر نہیں کرتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ میں نے بہادری کا بھرم قائم رکھا۔
میرا دل کسی سے بات کرنے کا نہیں تھا میں سمندر سے محبت کے لمحات انجوائے کرنا چاہتی تھی اسکے ٹھنڈے جھونکے اور لہروں کے بوسے میرے لئے کافی تھے کہ میں گھنٹوں اس سے راز و نیاز کر سکتی تھی۔ لیکن اب اپنی طبیعت سے مجبور میجر عامر سے گفتگو پر مجبور تھی۔
بھائی کہتے ہیں کہ اس لڑکی کے ماتھے پہ بہت شاندار ستارہ چمکتا ہے۔ مس حمیرا کی بات سن کر میں چونکی۔۔۔ اور میجر عامر کو دیکھا جو ابھی تک مجھے بہت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اور اب مسکراہٹ پہلے سے گہری ہوگئی تھی۔ انہوں نے بہت کتابیں پڑھ رکھی ہیں علم نجوم اور روحانی علم بھی جانتے ہیں۔۔ مس حمیرا اپنے کزن کا تعارف کروا رہی تھیں اور میں صرف اخلاقی طور پر اثبات میں سر ہلا رہی تھی۔ کافی دیر سے ہم ساحل پہ ادھر ادھر لڑکیوں کو نظر میں رکھنے کیلئے گشت کررہے تھے تو عامر بھائی نے تمہارا پوچھا ۔میں تو اتنی مصروف ہوتی ہوں سنٹر میں کہ کبھی تم سے تفصیلی بات ہی نہیں کی۔ میں دل میں سوچ رہی تھی کہ اچھا کیا جو کبھی توجہ نہ دی ورنہ یہاں سے بھی مجھے رخصت باندھنی پڑتی ۔
آپ کونسی جماعت میں ہیں؟ کیا شوق ہیں ؟ کتابیں کونسی پڑھتی ہیں ؟ کیا بننا چاہتی ہیں ؟ میجر عامر جب بولے تو ڈھیر سارے سوال کر ڈالے ۔ میں نے رسمی جواب دئے تو پھر بولے۔۔ آپ کیا سوچتی ہیں ؟ کیا ہونا چاہیے؟ یہ جو چل رہا ہے ٹھیک ہے ؟ ہم حق ادا کررہے ہیں ؟ ۔۔۔ اب میں ذرا سا سنبھل گئی تھی ۔۔ یہ بندہ مجھ سے کیسے سوال کررہا ہے ۔۔ اسے کس نے کہا کہ میں کتابیں پڑھتی ہوں ۔ اسے کس نے کہا کہ میں حق و باطل کی جمع تفریق میں الجھتی ہوں اور پھر یہ کیسے جانتا ہے کہ میری سوچ کا زاویہ کیا ہے۔۔ ہاں ابھی تو مس حمیرا نے بتایا کہ وہ روحانی علم پر دسترس رکھتا ہے تو کیا وہ میرے ذہن کو پڑھ رہا ہے؟ یہ خیال آتے ہی مجھے یکدم بے پردگی کا احساس ہونے لگا اور میرے لئے وہاں کھڑے رہنا مشکل ہوگیا۔ میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی کہ شاید کو میری طرف متوجہ ہو اور میں بہانہ کر کے یہاں سے الگ ہوجاؤں ۔ آپ گھبرائیں نہیں ۔ میجر عامر جیسے واقعی میرے خیال پڑھ رہے تھے ۔میں صرف آپ کو بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔ آپ کے پاس بے پناہ طاقت ہے ۔۔ جو سوچتی ہیں وہ کر سکتی ہیں ۔۔ آپ کو کسی انسانی ساتھ کی ضرورت نہیں اکیلی ہی بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اب میں بے چین ہونے لگی۔۔ کیونکہ ایسی باتیں میں نے بہت سنی تھیں بچپن سے سنتی آئی تھی اسلئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ البتہ ایک بات نے مجھے چونکایا۔۔ آپ جس کی زندگی میں داخل ہونگی وہ کمال کو پہنچ جائے گا ۔۔ اس کے رکے کام چل پڑیں گے وہ شہرت کی بلندی اور دولت کے انبار پہ جا کھڑا ہوگا ۔ آپ جس سے جڑ جائیں گی وہ نام معتبر کہلائے گا ۔۔۔ پھر وہ بہت کچھ بولتے رہے اور آخر میں کہا۔۔ آپ کچھ نہ بھی کریں تو بس جن کے متعلق سوچیں گی وہ بھی فائدہ پائیں گے اپ کے ستارے بہت روشن ہیں ۔۔ اسی طرح لوگوں کے کام کرتی رہیں یہی آپ کا کمال ہے ۔۔ ہر جگہ سے مایوس لوگ آپ کے پاس آتے رہیں گے۔ اللہ آپ کو بہت عزت دےگا شہرت دے گا ۔۔۔ ایک روز آپ کے والدین فخر کریں گے ۔۔۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہ تو سچ ہے کہ میں کسی کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتی اور آگے بڑھ کر اس کی مدد کرتی ہوں یہ بھی درست کہا کہ جب کسی کے متعلق سوچنے لگوں تو اسکی زندگی کے تغیرات واضح نظر آنے لگتے ہیں ۔ لوگوں کو کبھی پتا نہیں چلے گا کہ آپ ان کی زندگی میں کیا تبدیلی لائی ہیں وہ یہی سوچتے رہیں گے سب ان کا کمال ہے ۔۔ میجر عامر اب بھی بولتے جارہے تھے ۔ آپ کی انرجی ۔۔ آپ کے اردگرد ہر شے کو طاقت دینےلگتی ہے۔۔ میں نے ایسی انرجی کی لہریں پہلے کبھی نہیں دیکھیں ۔۔۔ میں نے دنیا گھومی ہے پاکستان کے چپے چپے سے واقف ہوں۔۔۔ میجر عامر مستقل بول رہے تھے مس حمیرا کبھی کی جا چکی تھیں سورج گھوم کر اب سمندر کی طرف پلٹ گیا اور میں بے بسی سے راہ فرار کا طریقہ ڈھونڈ رہی تھی ۔ ان کی باتوں میں سے اکثر میں پہلے بھی سن چکی تھی اور اپنی زندگی میں پھیلے مسائل کو دیکھ کر کسی کی بات کا یقین کرنا مذاق لگتا تھا۔ خود کی زندگی رکی ہوئی تھی تو دوسروں کو کیا چلانا؟ میجر عامر سمجھ گئے کہ میں مزید ان کی گفتگو برداشت نہیں کرنا چاہتی ۔۔ بہت اچھا لگا آپ سے مل کر ۔آپ کو بھوک لگ رہی ہوگی سب لڑکیاں کھانے کے لئے چلی گئی ہیں آئیں آپ کو چھوڑ دوں۔۔ وہ چلتے ہوئے بولے تو میں ذرا فاصلہ رکھ کر ان کے ساتھ چلتے ہوئے لڑکیوں کے جھرمٹ میں مل گئی ۔
میجر عامر کی باتوں کو زیادہ سر پہ سوار نہ کیا البتہ دوسروں کی زندگی میں بہتری اگر میرے سبب آسکتی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہی سوچتی کھانا کھانے لگی۔ پتا نہیں میرا گروپ کہاں بیٹھا تھا ۔۔۔ کسی کا کچھ پتا نہیں تھا۔
میری نگاہیں دوستوں کی تلاش میں تھیں کہ مجھے لگا جیسے کوئی چلا چلا کر مجھے پکار رہا ہے میں گھبرا کر اٹھنے ہی والی تھی کہ دھپ۔۔ دھپ ۔۔ دھپ اور ایک اونٹ بالکل سر کےپاس سے گزر رہا تھا ۔۔۔ ادھر ادھر ۔۔ اوپر دیکھو۔۔ عروج اونٹ پر سوار تھی اوہ۔۔ فری انیلا اور رباب۔۔۔ سبھی سوار تھیں ۔۔ پوری بتیسیاں باہر ۔۔ وکٹری کا نشان بناتی ہوئی وہ بچوں کی طرح چہک رہی تھیں۔ مجھے ابھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ کہاں سے آ رہی تھیں اور کدھر کو جارہی تھیں کہ کسی نے میری کمر پر وزن ڈالا اوراگلے ہی لمحے دونوں طرف بازوں سے پیچھے کو گھسیٹےلگے۔ یہ کون مجھے کدھر لے جارہا تھا ؟ اور پھر وہ دونوں مجھے ساحل پہ پٹخ کر بھاگنے لگیں ۔۔ صائمہ اور عالیہ دونوں مجھے گرا کر اب بھاگ رہی تھیں ۔میں اٹھ کر ان کے پیچھے بھاگی۔ دونوں بھاگتی جارہی تھیں اور ساتھ چیختی جا رہی تھیں کہ مارنا نہیں ۔۔ پلیز مارنا نہیں ۔۔ صائمہ کو تو میں نے فورا ہی پکڑ لیا اور وہ غریب منہ چھپا رہی تھی ۔۔ اب نہیں کرونگی ۔۔قسم سے اب نہیں کرونگی ۔۔ مارنا نہیں ۔۔ وہ منت ترلا کرنے پہ آگئی تو میں اسے چھوڑ کر ٹیچرز کے پیچھے پناہ لیتی عالی کی طرف دوڑی جو مجھے آتے دیکھ کر اب وہاں سے بھی بھاگ نکلی تھی ۔۔ اور ساتھ ہی کچھ کہہ رہی تھی جو ابھی مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ جب میں اس کے سر پہنچ گئی تو وہ تھک کر رک گئی اور ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی ۔۔ مارنا نہیں مجھے ۔۔ دیکھ تو کھیل نہیں رہی تھی اسلئے تجھے گھسیٹا۔۔ بس مارنا نہیں ۔۔ میں اتنی دیر تک اس کی گردن پکڑ چکی تھی اور وہ غریب ابھی تک ہاتھ جوڑے ہوئے تھی ۔ یار ۔۔ چھوڑ ناں۔۔ درد ہو رہی ہے ۔۔ عالی نے درد سے چلاتے ہوئے کہا تو میں نے اسے ڈانتے ہوئے کہا ۔۔ مجھے گھسیٹنا ضروری تھا منہ ٹوٹا ہوا تھا تمہارا۔۔۔ میں نے اس کی گردن چھوڑ دی اور وہ اسے سہلاتی ہوئی قدرے خفگی سے بولی ۔۔ اس فولادی ہاتھ کو میری نازک گردن پہ ضرور ڈالنا تھا ۔۔ پتا نہیں کتنی رگیں ٹوٹ گئی ہونگی۔۔ یار سب لڑکیاں مزے کررہی ہیں اور تم ہو کہ اس انکل کے ساتھ پھر رہی ہے ۔۔ صائمہ جو ہمارے گینگ میں سب سے معصوم جانی جاتی تھی۔۔ انتہائی بے زاری سے میجر عامر کی طرف اشارہ کرکے بولی جو مس حمیرا کے ساتھ اب دور کھڑے چائے کا کپ پکڑے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔ عالی نے ہنسنا شروع کردیا ۔۔ اوہ کمینی ۔۔ ابھی تو ان کی شادی بھی نہیں ہوئی اور تو نے انکل بنا دیا ۔ صائمہ بے ساختہ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگی ۔۔ سچی؟ تو ایسے بڑے بڑے کیوں لگتے ہیں ؟ وہ واقعی بہت معصوم تھی ۔۔ یار یہ فوجی ایسے ہی ہوتے ہیں سخت محنت اور مشقت ان کو ایسا ہی بنا دیتی ہے البتہ وردی میں تجھے یہ ایسے بوڑھے نہیں لگیں گے۔ وردی اچھے بھلے بوڑھے فوجی کو جوان کا روپ دے دیا کرتی ہے۔۔ ہاں ہاں ۔۔ یہ ٹھیک کہہ رہی ہے ۔۔ میرے ابو بھی یونیفارم میں بہت سمارٹ لگتے ہیں ۔۔ عالی کے ابا اس وقت ایس ایس پی ہو چکے تھے ۔
اس کے بعد ہم کچھ دیر اسی موضوع پر بولتے رہے ۔ کچھ دیر ان کے ساتھ کھیلتی رہی پھر آئسکریم کھانے چل دئے۔۔۔ شام ہوگئی سب گاڑیوں میں بیٹھنے لگے ۔۔ لڑکیاں گنی جا رہی تھیں۔۔ اور میں سمندر کو پھر ملنے کا وعدہ کرکے الوداع کہنے میں مصروف تھی کہ لڑکیوں نے تالیاں بجا بجا کر گانے گانا شروع کردیا۔۔میں بھی ان کے ساتھ تالیاں بجاتے رہی اور میری نگاہیں دور ہوتے سمندر کو دیکھتی رہیں۔
Friday, 15 December 2017
عکس
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment