Thursday, 14 December 2017

بھلا پرفیکٹ بھی کچھ ہوتا ہے؟

موٹی آنٹی ہم آگئے ۔۔ چھوٹی نے سیڑھیاں چڑھتے ہی نارے کو آواز لگائی ۔ وہ پہلے ہی عین سامنے بازو پیھلائے کھڑی تھی ۔زور سے بچوں کو بھینچ کر پیار دیا اور میری  طرف بڑھی ۔ نارے کو جپھی لگانے کیلئے بازو انکرڈبل فورس والے چاہئے ہوتے ہیں ۔محترمہ نے خوب وزن بڑھا رکھا تھا اور پہلی نظر میں یوکوزونا(پہلوان) کی رشتدار لگتی تھی ۔
ہم وہیں لاؤنج میں بیٹھ گئے بچے ادھر ادھر تخریب کاری میں مصروف ہوگئے اور ہر چند منٹ بعد کبھی میں اور کبھی نارے کسی پیٹی ماسٹر جیسی آواز میں ان سب کو لائن حاضر کرتےکہ سکون سے بیٹھ جاو حالانکہ یہ کہنا بنتا بھی نہیں تھا کیونکہ ہمارے کہنے سے میاں صاحب نے کبھی سکون نہ لیا تو ان کی اولاد میں تو یوں بھی بجلیاں بھری پڑی تھیں جب تک دو چار کو کرنٹ نہ لگا لیں اور کہیں کہیں بجلی گرا نہ لیں ۔۔ سکون ممکن نہ تھا۔
اچھا بتا کیا کھائے گی ؟ نارے نے ہاتھ میں تھامے رشین سلاد کا ڈونگہ میز پہ رکھتے ہوئے پوچھا ۔ کوفتہ انڈے بھی تیار ہے بالکل اگر کہتی ہے تو نان منگوالوں؟ میں نے ایک پلیٹ میں سلاد ڈالتے ہوئے نارے کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
میرے لئے یہ بہت ہے اور بچے تو آج گھر پہ کچھ کھانے کے موڈ میں نہیں بس نکلتے ہیں پارک کی طرف تاکہ ان کی انرجی کھیل کود میں لگے۔
ہائے سعدی۔۔ میں جو ڈھیر سارا کھانابنا کر بیٹھ گئی دال اور سبزی بھی بنا لی وہ کون کھائے گا؟ نارے نے پھپھیکٹنی کی طرح ہاتھ نچانچاکر طعنے دینے کے انداز سے کہا تو میں نے ایک نظر اوپر سے نیچے تک نارے کو دیکھا جو مجھے ڈھیر سارے کھانے کے ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کررہی تھی ۔ جو حال وہ اپنا بنا چکی تھی کھا کھا کر وہ تو بالکل مختلف داستان سنا رہا تھا۔ واپس آکر کھائیں گے رات کو ایک ہی بار جب بھائی صاحب اور لڑ کے واپس آجاتے ہیں ۔ ابھی تو جلدی سے تیار ہو۔۔ میں نے پہلے سے تیار نارے کو مزید تیار ہونے کا کہا تو وہ بولی۔ میں تو تیار ہی ہوں پر جائیں گے کدھر یار؟ لو جی نارے کو پھر فکری لاحق ہونے لگیں ۔ یار تو ریڈی ہو یہاں سے نکلیں گے تو دیکھ لیں گے پارک جانا ہے یا سینما ۔ ابھی تو دیر نہ کر پھر شام ہوجائے گی اور مجھے واپس گھر بھی جانا ہے ۔ میں نےمزیدار سلاد کا چمچ بھرتے ہوئے اس کو پھر تاکید کی۔کچھ ہی دیر میں ہم سب گلی میں کھڑے تھے اور کسی ٹیکسی کی تلاش میں تھے۔ نارے اپنے میاں اور بیٹے کے سوا گھر سے باہر نہ جایا کرتی تھی اور کبھی ٹیکسی رکشہ میں شاید ہی بیٹھی ہو ۔ سعدی مجھے کوئی تجربہ نہیں میاں کے بنا اسطرح ٹیکسی میں بیٹھنے کا ۔ڈر لگ رہا ہے ۔۔ میں نے تقریبا گھورتے ہوئے اسے دیکھا تو کھسیانی سی ہوگئی ۔ اب تیری جیسی پھرتیلی تو نہیں ناں میں دیکھ گھر سے یہاں تک آنے میں میرا برا حال ہو گیا اتنا کہاں چل سکتی ہوں۔ واقعی بچاری پسینے سے بھیگی ہوئی تھی حالانکہ بمشکل 100/150 گز ہی دور تھا روڈ اس کے گھر سے لیکن اس بھاری وجود نے اسے کسی قابل نہ چھوڑا تھا۔ نارے ٹیکسی تو ایک بھی نہیں آئی چل آج تجھے رکشہ میں بٹھاتی ہوں ۔۔ بچے خوشی سے تالیاں بجانے لگے کہ رکشہ میں بیٹھنے والے ہیں مگر نارے کا رنگ سفید ہوگیا ۔۔ ہائے سعدی نا ۔۔ نا  کبھی بھی نہ بیٹھوں رکشہ میں ۔۔ ڈر لگتا ہے الٹ جائے گا اور میں پوری کب آتی ہوں اس میں ؟ نارے نے بہت دیر بحث کی اور آخر کار ہمیشہ کی طرح ہتھیار ڈال دیے لیکن اس کے چہرے سے پریشانی صاف جھلک رہی تھی ۔ ہم نے ایک قدرے کھلا سا رکشہ کیا اور نارے کو کچھ محنت کرنے کے بعد بمشکل اس میں فٹ کیا تو بچے اسے دیکھ دیکھ ہنستے رہے کہ وہ بمشکل سانس لے رہی تھی اور سخت مشکل میں نظر آرہی تھی ۔ میں نے بھی طے کر لیا تھا کہ آج اسے رکشہ پہ ضرور بٹھانا ہے تو خود اپنی جگہ مزید سکیڑ کر اسے ریلیکس ہونے کا کہا۔ نارے یہ ایڈونچر بھی تجھے نہیں بھولنے والا ۔ہر وقت میاں اور بچوں کے آسرے پہ رہتے تیری عادتیں خراب ہوگئیں ہیں ۔ میں ابھی بات کررہی تھی لیکن نارے کی چیخیں سن سن کر رکشہ والا بھی ہنسی روکنے سے قاصر تھا ۔۔ ہائے سعدی اللہ تجھے پوچھے میں نے گر جانا ۔۔ ہائے رکشہ الٹ جانا ۔۔ ہائے سعدی میں نے کیوں مان لی تیری ۔۔ ہائے ہائے ۔۔۔ نارے کا واویلا جاری رہا بچے ہنستے رہے اور پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا ۔۔ بازار میں سے گزرے ہوئے ایک جگہ کھڈا آیا اور رکشہ ذرا سا اچھلا۔۔ اگر نارے نہ بیٹھی ہوتی تو یقینا زیادہ اچھل جاتا ۔ باجی آپ ذرا نیچے اتریں ۔۔ رکشہ والے نے رکشہ سڑک کے ایک طرف کھڑا کر دیا ۔میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔ ہوگیا پنکچر؟
نارے نے جھٹ غصے سے میری طرف دیکھا ۔ تجھے کہا تھا اب تو میرا تماشا بنا کمینی کہیں کی ۔۔ وہ غصے سے خود کو رکشہ کی قید سے آزاد کروانے کی جدوجہد کرتے ہوئے بڑبڑاتی رہی اور میں بچوں کو منع کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ اب ہنسنا بند کرو آنٹی ناراض ہو جائینگی لیکن ان کو مجھ سے زیادہ آنٹی کا پتا تھا کہ وہ بھی انجوائے کرے گی جب بعد میں ذکر کریں گے ۔اسی لئے بار بار اسے چھیڑ رہے تھے جو بچاری مسلسل رکشہ سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف تھی ۔ اوئے خان ۔۔ یہ تو پنکچر ہوگیا اب کیا کرنا ہے ؟ میں نے سر کجھاتے رکشہ ڈرائیور سے پوچھا جو اس طرف کے ٹائر کو دیکھ رہا تھا جس کے عین اوپر نارے بیٹھی تھی اور اب بہت محنت کے بعد نیچے اترنے میں کامیاب ہوچکی تھی ۔ باجی آپ ادر سے اور کوئی شے کر لو میں اس کا کام کروائے گا۔ پشتوں لہجے میں اس نے ہمیں بتایا تو نارے نے جیسے شکر کا سانس لیا کہ اب اسے پھر نہیں اس میں بیٹھنا پڑے گا ۔۔ اوئے منحوسو۔۔۔ نارے بچوں کی طرف کہ لپکی جو میرے موبائل سے اس کی اور پنکچر ٹائر کی تصاویر لے رہے تھے۔ میں نے رکشہ ڈرائیور کو کرایہ تھمایا اور نارے کو سڑک کراس کرنے کا اشارہ دیا۔ سعدی میں مزید نہیں چل سکتی بس تھک گئی ۔۔ نارے جو ابھی بمشکل بیس قدم بھی نہ چلی تھی پھر شور مچانے لگی تو میں نے اس پر ترس کھاتے ہوئے خود ہی جاکر ٹیکسی لانے کا ارادہ کیا ۔ پارک پہنچ کر بچے ہماری دسترس سے باہر ہوگئے اور ہم دونوں ایک بنچ پر جا بیٹھے ۔
بچے تھوڑی دیر بعد آجاتے کہ مزید پیسے دیں  اور جھولے لینے ہیں اور میں بار بار ٹکٹ دلواتی رہی کہ جی بھر کے جھول لیں کافی عرصے بعد اس طرف کا چکر لگا تھا۔ 
گول وہیل پر مجھے ساتھ بیٹھنا پڑا اور جب جھولا اوپر جاکر رکا تو میں نے اونچائی سے شہر کی اور پارک کی تصاویر لے لیں ۔ ایک قبرستان اور اس میں چند بوسیدہ قبریں عدم توجہی کا شکار تھیں ۔ خیال آیا کہ کتنی دیر لگتی ہے انسان کو یہاں سے وہاں منتقل ہونے میں ؟ محض چند گھنٹوں میں تمام انتظامات ہوجاتے ہیں وہی آپ کے پیارے آپ کو منوں مٹی تلے چھوڑ کر اپنے گھروں کو پلٹ جاتے ہیں ۔ ماما مجھے ابھی اور جھولنا یے ۔۔ میں ابھی اپنی سوچ میں گم تھی کہ پتا ہی نہ چلا کب جھولا بند کر دیا گیا اور اب پھر ٹکٹ کیلئے خاصے دور ٹکٹ گھر تک جانا مشکل نظر آرہا تھا حلانکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میری مٹھی ڈھیر سارے ٹکٹوں سے بھری پڑی تھی۔  یہ بھی بڑی ہی زیادتی ہے کہ اچھی خاصی قیمت کا ٹکٹ چند منٹوں میں پورا ہوجاتا ہے۔ شدید غصیلی قوم کو نہ تفریح کے مواقع میسر ہیں اور نہ ہی کوئی کارآمد ادارہ جو ذہنی دباو کو کم کرنے میں عوام کا مددگار ہو ۔ مہنگائی سے متاثر صرف غریب نہیں بلکہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے مشکل میں پڑ جاتے ہیں جب تنخواہیں ہاتھ میں آتی ہیں۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے لڑکے کو اشارہ کیا جو اسے چلا رہا تھا کہ وہ اسے پھر چلا دے میں بعد میں اسے ٹکٹ دے جاونگی ۔ پھر دوبارہ جھولا چلا اور نارے ہمیں نیچے کھڑی ہاتھ ہلاتی رہی۔ یہاں سے فارغ ہو کر بچوں کو آیسکریم کھلانے لے گئے اور جو کچھ الم غلم کھانا تھا کھا کر بچے دوسری جگہ اسکیٹنگ کرنے چل پڑے میں نے کہا بھی کہ اگلی بار کر لیں گے لیکن نہ مانے الٹا مجھے لالچ دینے لگے کہ وہاں تیر اندازی کا بھی انتظام ہے اپ اپنی پریکٹس بھی کر لیجئے گا ۔بس پھر اس پارک کا رخ کیا بچوں کو اسکیٹنگ کے لئے چھوڑا اور نارے کو گھسیٹتے ہوئے خود آرچری کے لئے چل پڑی۔ کچھ نشانے داغے اور پھر نارے کے پاس جا بیٹھی۔ یہ کیا کھسرپھسر کرریاتھا تجھ سے؟ نارے آرچری انسٹکٹر کی طرف اشارہ کرتے بولی تو میں ہنس پڑی۔۔ کہتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ مقابلوں میں حصہ لیں ۔ نیشنل اور انٹرنیشنل گیم ہوتے ہیں تو آپ بھی جوائن کریں آپ کا نشانہ اچھا ہے اور کچھ پریکٹس سے آپ پرفیکٹ ہوجائیں گی۔( بھلا پرفیکٹ بھی کچھ ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا تو جواب آیا ۔۔ "آپ لگتی ہیں" ۔۔مجھے کسی کی بات یاد آگئی)
میں نے ہنستے ہوئے نارے کی طرف دیکھا کہ وہ بھی اس بات پر ہنسے گی لیکن وہ مجھے گھورتے ہوئے بولی۔ ہاں تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہے اچھا ہے خواتین ویسے بھی کونسا کہیں کچھ کرتی نظر آتی ہیں اور گیمز میں تو بالکل نہی ۔تیرا نشانہ دیکھ کر پچھلی بار میاں صاحب بھی کہہ رہے تھے کہ سعدی کو باقاعدہ آرچری کمپٹیشن میں حصہ لینا چاہیے زبردست کھیلتی ہے۔ وہ دیکھ ۔۔ نارے سامنے ایک جوان کو نشانہ لگاتے دیکھ کر بولی ۔۔ کتنے تیر ادھر ادھر جارہے ہیں ان لڑکوں کے ۔۔ کسی ایک نے بھی تیری طرح نشانہ نہیں لگایا ۔ اب مجھے کچھ بے چینی سی شروع ہوگئی تھی ۔۔ یار جانڑ دے۔۔ اتنا مہنگا کھیل میں نہیں افورڈ کرتی اور نہ ہی اتنا کھلا ایریا ہے میرے پاس جہاں اس کی پریکٹس کروں اور اس کے مقابلے سے پہلے بہت ساری ۔۔ ڈھیر ساری پریکٹس درکار ہے ۔۔ میں نے بازو پھیلا کر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مجھے اکسانے سے باز رہے کیونکہ کہیں اگر اک بار ذہن بنا لیا تو پھر کون روک سکے جنوں کو!
بچے کھیل کود کر تھک گئے ہلکا پھلکا فاسٹ فوڈ بھی کروا دیا گو کہ مجھے اس خوراک سے شدید تحفظات ہیں مگر اب میں نے بھی بہت ساری باتوں کو درگزر کرنا شروع کردیا ہے ۔ مشکل اصولوں والی زندگی نے مجھے کچھ فائدہ ایسا نہیں دیا جو میرے بچوں کے کام آسکتا البتہ ضمیر مطمئین رہا نفس قابو میں رہا اور اللہ نے عزت عطا کی۔ بچوں کو بھی ماں کے متعلق کوئی ابہام نہ تھا اسلئے ایک حد تک ضد کرتے اور کئی معاملات میں تو صرف اشارہ ہی کافی رہتا اور انہیں سمجھ آجاتی کہ اجازت نہیں ملے گی۔
نارے کے ساتھ اس کے گھر گئے ۔ بھائی صاحب اور بچے بھی آگئے تھے ۔کھانا سب نے مل کر کھایا اور خوب مزہ آیا جب میں نے نارے کے بچوں کو رکشہ والی تصاویر دکھائیں ۔ بچے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے اور بھائی صاحب نارے کو ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے کہ میری بیگم کو آج کتنا تھکا دیا سعدی نے۔
تو کتنی کمینی ہے سعدی ۔۔ نارے بچوں کی طرح زمین پے پاوں مار رہی تھی اور رونے والی شکل بنائی ہوئی تھی ۔۔ میں نے کندھے اچکائے کہ کیا ہوا؟
تونے اپنے میاں کو بھی میری تصویر بھیج دی؟ نارے نے سڑے ہوئے انداز سے دیکھا تو میں جو گلاس منہ کو لگا چکی تھی میری ہنسی نکل گئی اور پانی کا پھندا لگ گیا۔۔ سب ہنس رہے تھے۔۔ بھائی صاحب بھی منہ نیچے کیے ہنستے جارہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ڈر بھی رہے تھے کہ نارے ابھی کچھ بول نہ دے۔ تجھے تو ذرا شرم نہیں ۔۔ اب فیس بک اور ٹویٹر پہ بھی دے دئیں ۔۔۔ نارے نے جب یہ کہتے ہوئے فون اٹھایا تو میں کانوں پر ہاتھ رکھ چکی تھی کہ اب جو گالیاں سننے کو ملیں گی وہ ناقابل سماعت ہونگی ۔۔ اور وہی ہوا ۔۔ بھائی صاحب نے نارے کو اشارہ کرکے چپ کرانے کی کوشش کی کہ بچوں کے سامنے نہ بولے لیکن نارے ک اندر اس وقت پشتون  سکول پوری طرح حرکت میں آگیا تھا اور خوب ہاتھ ہلا ہلا کر وہ مجھے گالیاں دے رہی تھی کہ فیس بک پر دوستوں کے ڈھیر سارے کمنٹ آ بھی چکے تھے ۔۔ تو ہے ہی بے شرم ۔۔ جھنڈے لگا دئے ہر طرف ۔۔ وہ دیکھ میرے بھائی کے بھی کمنٹ آگئے ۔۔ سعدی ۔۔ سعدی ۔۔ نارے دانت بھنیچتی ہوئی میری طرف بڑھی تو میں جلدی سے اٹھ کر بیڈروم کو بھاگی۔ بھائی صاحب نے ہماری لڑائی دیکھی توبےچارے خود ہی دسترخوان سمیٹنے لگے ۔بچیاں بھی ہنستی ہوئی انکل کی مدد کرنے لگیں ۔۔۔ کچھ دیر میں نارے تھک ہار کر گالیاں والیاں بک بکا کر بستر پہ جا گری اور پھر ہم مل کر سب کے کمنٹ پڑھنے لگے جو کسی لطیفے سے کم نہیں تھے۔
رات نارے اور بھائی دونوں ہی گھر چھوڑنے کے لئے آئے ۔راستے میں بھی ہماری کار اچھلتی رہی ۔ہمیشہ کی طرح نارے نے فاسٹ میوزک لگایا آگے وہ آور پیچھے ہم بچوں سمیت بھنگڑے ڈالتے رہے ۔
نارے کی بہت اچھی خوبی ہے کہ وہ ہنستی رہتی ہے ۔ بہت جلدی گھل مل جاتی ہے ہمدرد ہے اور بہت مہمان نواز ۔ جس زمانے میں لڑکیوں کو میٹرک سےآگے پڑھنے کی اجازت نہ تھی اس نے اس وقت جیوگرافی میں ماسٹرز کیا اور وہ بھی پشاور جیسے شہر سے۔پھر ایک بہت ادارے میں بطور ہیڈ ملازمت اختیار کی تقریبا 12سال ملازمت کے بعد نارے نے ملازمت کو خیر باد کہا اور مکمل طور پر ایک گھریلو خاتون بن کر رہ گئی ۔ میں نے کئی بار کہا کہ کم از کم ڈرائیونگ تو خود کرتی رہو لیکن محال ہے جو یہ خاتون کسی بھی ایسی بات پر آمادہ ہوجائے جو اسے گھر سے باہر نکالنے کے لئے مفید ہو۔ وہ کہتی ہے بس اب گھرداری میں ہی مزہ ہے ۔ اور ٹھیک کہتی ہے اس کے بچے اب جوان ہورہے ہیں ان کی ضروریات اور تربیت دونوں کے لئے اس کا گھر پہ موجود رہنا اچھا ہے۔ وہ خود بھی کہتی ہے کہ سعدی تو اجاتی ہے تو کہیں نا کہیں آوارہ گردی کر ہی لیتے ہیں تو کیا کمی رہ جاتی ہے پھر ۔ بات تو نارے کی بھی ٹھیک ہے ہم نے اپنی زندگیوں کو سارے ہی رنگوں سے سجا رکھا ہے اور معاشرے میں ابھرنے والے منفی اثرات ہماری اس ہل چل والی زندگی میں کہیں داخل ہونے کا رستہ نہیں پاتے۔ ہونا تو ایسا ہی چاہیے کہ سبھی خود ایسی مصروفیات میں ملوث رکھیں جو ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو مزید نکھار دیں اور ان کی صحت مندی معاشرے کو توانائی دیتی رہے۔
اس رات ہم بہت دیر سے گھر پہنچے بچے تھکے ہوئے تھے لیکن میں نےدانت برش کے ساتھ لباس تبدیل کروا کر ہی سونے دیا ۔ خود بھی اپنی سوشل نیٹ ورکنگ کی تفصیلات دیکھتے دیکھتے سو گئی اور آخری وزٹ نارے کی تصویر پر کیا۔جہاں اسوقت بھی خوب رش لگا ہوا تھا اور ہر کوئی جملے پھینک رہا تھا اور سب سے زیادہ نارے کا چھوٹا بھائی متحرک تھا جسے آج موقع مل گیا تھا کہ اپنے پرانے بدلے چکائے۔
کچھ دیر دیکھتی رہی پھر وائی فائی آف کرنے سے میں نے وہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی۔ نارے جاگ رہی تھی اب تک۔اس کے بعد وہ بھی سو گئی ہوگی۔

No comments:

Post a Comment