ثناء اپنا بیگ تیار کرچکی تھی امی اور بھائی بھی سب اپنا سامان باندھ چکے بس ایک میں رہ گئی تھی جو ابھی تک تیار نہ تھی ۔ویزہ لگے اب دوسرا ہفتہ تھا اور ثناء کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک ہفتہ خواہمخواہ ہی گزر گیا اب تک ہم کزن کی شادی کی شاپنگ میں وہاں کی مارکیٹ اور بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز میں پھر رہے ہوتے لیکن امی کو ان کی بھتیجی کی طرف سے ایک فرمائش آگئی تھی جسے پوارا کرنے میں چند دن کا قت درکار تھا اسلئے ہمیں ہفتہ بھر رکنا پڑا ۔۔
حمزہ اور میری لڑائی کے بعد اب تقریبا دو ہفتے گزر چکے تھے یہ پہلی بار ہوا کہ ہم اتنا عرصہ ایک دوسرے سے بولے بھی نہ تھے۔ وہ مجھ سے خفا تھے اور میرا ظرف یہ گوارہ نہیں کررہا تھا کہ میں جاکر انہیں منا لیتی۔۔ ایسی ہی خود سر تھی۔ ساری زندگی اپنا نقصان کیا محض انا اور خود داری کی پرورش کرتے۔ اگر ذرا سا احساس ہو گیا کہ مجھے نظر انداز کیا گیا ہے تو پھر میں اس طرف سے اپنا رخ موڑ لیتی تھی چاہے کتنا ہی مشکل ہوتا لیکن پھر میں ان لوگوں سے نہ ملتی تھی جنہوں نے مجھ سے بے رخی برتی ہو۔حمزہ سے جنوں کی حد تک پیار تھا لیکن ان کی بے رخی نے میرا دل بھی سخت کردیا تھا دونوں کے گھروں کی دیواریں ملی ہوئی تھیں لیکن ہم نے اپنے دلوں میں فاصلہ بڑھا لیا تھا ۔ اب ہم پہلے جیسے دوست نہ رہے تھے ۔مجھے افسوس تھا کہ میں نے حمزہ کے ساتھ زیادتی کی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہوں نے زندگی بہت مشکل انداز سے بسر کی۔ خوبصورت جوان لڑکیوں سے خاندان بھرا پڑا تھا لیکن مجال ہے جو کوئی حمزہ سے کوئی نسبت استوار کرسکتی۔ کئی ایک نے حمزہ کو پھنسانے کی کوشش کی لیکن مایوس ہوئیں۔ حمزہ جیسے خوبرو جوان کو دیکھ کر کس کا دل نہ ڈولتا۔ لمبا قد ، سرخ و سفید رنگ، بڑی بڑی کالی انکھیں جن پہ قدرتی طور پر سلیقے سے بنی بھنویں اور کشادہ پیشانی، گہرے گلابی ہونٹ سفید رنگت پر آفت لگتے تھے۔ ان کے ساتھ ائیر لائن کی سینکڑوں لڑکیاں کام کرتی تھیں کئی لڑکیوں نے تو باقاعدہ خود شادی کا پیغام بھیجا رشوت کے طور پر باجی اور چاچی کو خوب تحائف ملتے رہتے بلکہ ایک دفعہ تو ہم جہاز میں ہی یہ نظارہ دیکھ چکے تھے جب ایک انتہائی خوبصورت ائیر پوسٹس کو علم ہوا کہ کیپٹن حمزہ کی فیملی جہاز میں بیٹھی ہے تو اس نے ہماری خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی فرسٹ کلاس سے روسٹ اسپیشل کوکیز جوس گفٹس اور پتا نہی کیا کیا وہ لاتی رہی ۔ہم منع کرتے تو اور زیادہ خدمت کرنے لگتی ۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر تو بہت ترس آیا ۔ گھر پہنچ کر میں نے حمزہ سے کہا کہ بچاری اتنی منت ترلہ کررہی تھی ۔ کر لیں شادی ۔ ہے بھی خوبصورت اور سلیقے والی۔ بال بھی خوب لمبے ہیں ۔قد بھی خوب لمبا ہے ۔رنگ بھی صاف ۔میں بولتی گئ اور حمزہ آرام سے بیٹھے چلغورے چھیل چھیل کر کھاتے گئے اور کچھ میرے منہ میں ڈال کر مجھے چپ کروانے کی کوشش کرتے رہے لیکن میں تو اس بچاری کا حال دیکھ کر ابھی کے ابھی اسکی شادی کروادینا چاہتی تھی لیکن حمزہ پتھر کی مورت بنے تھے زرا بھی اثر نہ ہوا۔
حمزہ کی ڈیل ڈول کسی کمانڈو جیسی تھی ۔ بچپن میں وہ مجھے اکثر اپنے کندھوں پہ اٹھا لیا کرتے تھے خصوصا جب وہ لمبی ڈیوٹی کرکے آتے تو میں بھاگتی ہوئی ان کی گاڑی کے پاس پہنچ جاتی اور وہ بھی اترے ہی مجھے زور سے گلے لگا کر پیار کرتے تھے اور ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ ہی ان کے گھر جاتے اور پھر کئی گھنٹوں تک میں وہیں رہتی کھانا کھاتے باتیں کرتے اور ابھی یہ کچھ عرصہ پہلے تک ہوتا رہا تھا لیکن پھر ایک دن حمزہ کو احساس ہوا کہ ان کی ننھی اب جوان ہونے لگی ہے اور محلے والے عجیب نظروں سے ہماری بے تکلفی کو دیکھنے لگے ہیں
لڑکی ۔۔ اب تم اس طرح مجھ سے اکیلے میں ملنے نہ آیا کرو ۔۔ حمزہ نے مجھے یہ بات اس وقت کہی جب گھر پہ کوئی نہیں تھا اور لوڈشیڈنگ کے باعث بجلی بھی نہ تھی ۔ حمزہ نے بیڈ سائڈ پر موم بتی جلا رکھی تھی ۔ میں بھی باہر واک پر جانے والی تھی سب کے ساتھ جب حمزہ کا پیغام آیاکہ چائے چاہیے ۔ باجی دروازے سے مجھے کہہ گئی کہ پلیز تم حمزہ کو چائے بنا دو میں اور ثناء باہر جارہے ہیں۔ میں نے کہا بھی کہ مجھے بھی سہیلیاں بلا رہی ہیں لیکن وہ میری منت سماجت کرکے مجھے چائے بنانے پہ لگا گئی۔ چائے لے کر میں حمزہ کے کمرہ میں گئی جو اوپر کی منزل پر واقع تھا۔ وہ ملٹی پل اسٹیشن کی فلائیٹ کرکے آئے تھے اور اب کھانے کے بعد بیڈ پہ لیٹے چائے کا انتظار کررہے تھے ۔ میں نے چائے رکھی تو بولے ۔ مجھے ایک گلاس پانی اور دو گولیاں دو ۔آج سر میں بہت درد ہے ۔ وہ لیٹے رہے تو میں نے دراز سے سر درد کی گولیاں نکالیں پانی کا گلاس لائی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر حمزہ کے سر سے بازو ہٹایا۔ میں دبا دوں سر ؟ اور ساتھ ہی میں سر دبانے لگی ان کا بدن ہلکا سا گرم لگا جیسے بخار چڑھنے والا ہو ۔ابھی چند لمحے گزرے تھے کہ حمزہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہٹا دیا اور اٹھ بیٹھے۔ نہیں بس مجھے پانی اور گولیاں دو ۔ چائے پی کر بھی آرام آہی جائے گا گندی فلائیٹ تھی بہت تھک گیا ہوں۔ وہ بنا میری طرف دیکھے بول رہے تھے ۔ کمرے میں روشنی بھی زیادہ نہ تھی ۔ دوسری لائٹس کہاں ہیں ؟ میں نے انہی گلاس تھماتے ادھر ادھر دیکھا کیونکہ موم بتی کی روشنی سے ماحول عجیب پراسرار سا لگ رہا تھا ۔رہنے دو کوئی بھی چارج نہیں ۔سب میرا ہی انتظار کرتے ہیں کہ میں ہی سب کام کروں آکر ۔حمزہ کچھ بیزاری سے بولتے ہوئے بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تو میں بھی ان کی ساتھ ٹیک لگا بیٹھ گئی ۔ وہ میرے بال سہلانے لگے اور ساتھ فلائیٹ کا حال بتانے لگے۔باتوں باتوں میں ایک دم سے خاموش ہوگئے ۔ مجھے دیکھ رہے تھے آنکھیں چمک رہ تھیں ۔ ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔ارے تمہاری شکل تو فلاں ایکٹریس سے بہت ملتی ہے ۔ ان دنوں ٹی وی پہ ایک ڈرامہ بہت مقبول تھا جسے دیکھنے کےلئے لوگ سب کام چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جاتے حتی کے گلیاں بھی سنسان کرہوجاتیں ۔
میں نے نہیں دیکھا کبھی وہ ڈرامہ میں نے کچھ خفگی سے کہا کیونکہ مجھے لوگوں کا یہ کہنا کبھی پسند نہ تھا کہ آپ فلاں سے ملتی ہیں اور فلاں کی شکل آپ جیسی ہے ۔ حمزہ پیار سے میرے ریشمی بال سہلارہے تھے۔
وہ بار بار میرے چہرے سے بال ہٹاتے اور بھاری بالوں کی ایک لٹ پھر چہرے پر آن گرتی ۔ میں بھی اب تقریبا حمزہ کے سینے تک جاپہنچی تھی اور اب ان کی چھاتی پر کہنی ٹکا کر ان کی باتیں سن رہی تھی ۔وہ ایک دوست کا قصہ سنا رہے تھی کہ فلائیٹ کے دوران اس کے گھر سے پریشانی کی خبر آئی اور وہ توجہ سے ڈیوٹی نہی دے سکا تو اس کے حصے کا کام بھی مجھے کرنا پڑا ۔۔ حمزہ بولتے بولتے رک گئے مجھے لگا جیسے ان کے دل کی دھڑکن یکدم بڑھنے لگی ہے اور پھر حمزہ کی انگلیاں میرے چہرے کو چھوتی ہوئی میرے ہونٹوں تک آ پہنچی ۔ وہ خاموش تھے دھڑکن ڈرم کی طرح زور دار تھی ان کی نگاہوں کا مرکز میرے ہونٹ تھے جہاں ان کی انگلیوں سے نکلنے والی حرارت کو میں اب بہت واضح محسوس کررہی تھی میں سمجھی کہ شاید بخار ہونے لگا ہے اسلئے ہاتھوں میں تپش ہے لیکن پھر حمزہ نے یکدم زور سے سانس کھینچا جیسے کوئی چونک جاتا ہے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے میں بھی تیزی سے اٹھ بیٹھی تھی لیکن مجھے قطعا علم نہ تھا کہ حمزہ کے دل میں کیا اودھم مچی ہوئی ہے۔
تم اب جاو ۔ وہ مجھے بے زاری سے جانے کو کہہ رہے تھے لیکن میں ان کی آنکھوں میں نمی کو واضح طور پر دیکھ سکتی تھی۔
کیوں ؟ کیاہوا؟ ابھی تو بہت وقت ہے بجلی کے آنے میں۔۔ ادھر ہی رکتی ہوں جب تک چاچی نہ آجائیں ۔ آپ کو بخار بھی بننے لگا ہے اب تو ۔۔ میں اپنی روانی میں بولے جارہی تھی اور حمزہ کی آنکھوں میں چمک اور پیار بڑھتا جاتا تھا۔
نہیں ۔۔ مجھے بخار نہیں ۔۔ تھکاوٹ سے بدن گرم محسوس ہورہا ہے ۔۔ تم جاو ۔۔ اور ساتھ ہی انہوں پیار سے میرے چہرے کو تھپکی لگائی ۔۔ میں ابھی جانے کے موڈ میں نہی تھی کہ اب تو سب دور جاچکے ہوں گے گھر پہ بھی کوئی نہیں تو کیا کرونگی اکیلی ۔۔ یہی سوچ کر میں نے پھر کہا۔ لیکن وہ سب تو واک پہ نکل گئے اور گھر پہ کوئی نہی تو میں کیا کرونگی اکیلی جا کر نیچے؟ حمزہ نے چائے کا خالی کپ مجھے تھمایا اور لیٹتے ہوئے بولے ۔۔ اچھا تو جاو ٹی وی لگا لو ۔۔ دوسرے کمرے میں چلی جاو ۔۔ وہ بستر پر لیٹ گئے اور بازو ماتھے پہ رکھ لی تاکہ میں سمجھوں کہ وہ سونا چاہتے ہیں۔
آپ مجھ خفا ہیں ؟ کیوں زبردستی بھیجنا چاہتے ہیں؟ ابھی تو ٹھیک تھے ۔۔ اب کیا ہوا؟ میں نے گھور ڈالی تو حمزہ نے ایک زور کی آہ بھری ۔۔۔ بازو ہٹایا۔۔ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔ تھوڑا سا اٹھ بیٹھے ۔۔
گڑیا ۔۔۔ میری جان ۔۔ اب تم بڑی ہوگئ ہو ۔۔ اس طرح ۔۔
ابھی حمزہ نے بات پوری بھی نہ کی تھی اور میں نے غصے سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ یہی بات امی اور پڑوسن خالہ بھی کہہ رہی تھیں ۔۔ بھلا میں بڑی ہوئ تو آپ بھی تو اتنے ہی بڑے ہوگئے نا ؟ میں نے بچوں کی طرح حساب کتاب کیا ۔۔ اس میں ایسا کیا مسئلہ ہوگیا ؟ آپ بھی ویسے ہیں اور میں بھی ویسی ہی تو ہوں ۔۔ بس ۔۔
اے لڑکی ۔۔۔ سمجھتی کیوں نہیں ۔۔ ہمارے معاشرے میں ایسے رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ۔۔ اب ان کی آنکھیں گہری ہونے لگیں ۔۔ جیسے ڈوبنے والی ہوں۔۔۔ وہ یکدم بولتے بولتے رک گئے ۔۔۔ تم۔۔۔ تم اکیلے نہ آیا کرو ۔۔ یکدم حمزہ کی شکل بدل گئی تھی ۔۔ سامنے بیٹھا شخص اب اجنبی سا لگنے لگا تھا ۔۔ میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔ یہ کون ہے ؟
Wednesday, 10 January 2018
بے رخی گوارہ نہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment