جہاز لینڈ کرچکا تھا اور ہم سب سامان ٹرالی پہ رکھے اب باہر کو جانے لگے۔ کزن اور آنٹی دونوں اپنی اپنی کار لے کر آئے تھے تاکہ سامان اور افراد آرام سے سما سکیں۔ ایلی کے ساتھ میں اور ثناء بیٹھ گئے اور امی آنئی کے ساتھ جا بیٹھیں ۔ ایلی کی شادی اگلے ماہ طے پائی تھی اور وہ ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی کہ اس کی شادی کی تیاری میں مدد کے ساتھ ہلا گلا بھی کیا جاسکے ۔ہم کافی ساری شاپنگ تو پاکستان سے ہی کرکے لے گئے تھے مزید وہاں کرنی تھی ۔
ہئے۔۔ شوگر! ایلی نے شیشے میں مجھے دیکھتے ہوئے شوخی سے کہا ۔۔ تم ڈانس کرو گی نا ؟ میں نے زبردست میوزک ارینج کیا ہے ۔۔ منڈے والے بہت تیز ہیں ۔۔ میں نے بھی بتایا میری بہنیں آرہی ہیں ۔۔ خوب مقابلہ رہے گا۔
ایلی کا لہجہ بڑا عجیب سا ہوتا جیسے ولایتی بچے انگریزی لہجے میں اردو بولنے کی کوشش کرتے تو کچھ مکس سا ساونڈ سنائی دیتا۔یوں بھی اس کے ذیادہ تر دوست سکھ کمیونٹی سے تھے تو اس کے اکثر لفظ انہی کی زبان میں سے تھے۔
ہاں ہاں۔۔ ایلی ۔۔ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ہم تیار ہیں اور ڈانس کی پریکٹس بھی کرلیں گے ۔۔ ہم سے کون جیت سکتا ہے ۔۔۔ میری بات ختم ہونے سے پہلے ایلی اپنی خوشی کا اظہار ۔۔واو شاو ہاو او ۔۔۔ کرکے کرچکی تھی اور اب ہپ ہاپ میوزک پہ ہماری کار اچھلتی ہوئی گھر کی طرف چل پڑی۔
شوگر ہری اپ۔۔۔ کم آن۔۔ مجھے صبح صبح ایلی کی آواز سنائی دی جو ثناء کو تقریبا گھسیٹتے ہوئے کہیں لے جارہی تھی ۔۔ میں جو بہت نرم گرم بستر میں دھنسی پڑی تھی اور ابھی دس گھنٹے کی مسافت کی تکان بھی نہ اتار پائی تھی بمشکل خود کو اس قابل کیا کہ صورتحال کا جائزہ لے سکوں کہ کیا بھونچال آگیا صبح ہی صبح ۔۔۔
ایلی ثناء کو گھسیٹ کر باتھ روم میں دھکیل آئی تھی اور اب میری گرما گرم رضائی پر حملہ آور ہوچکی تھی اور اسی لئے اسے آتا دیکھ کر میں سنڈی کی طرح پوری طرح سے لحاف اپنے گرد لپیٹ چکی تھی اور پرندوں کے پروں سے بھرے اس لحاف کو خوب مضبوطی سے جکڑ لیا کہ جب ایلی کھینچے گی تو اسے کامیابی نہ ہو ۔۔ لیکن اس ٹارزن کی بچی نے صرف ایک ہی جھٹکے میں مجھے لحاف سمیت فلور پر پٹخ دیا تھا یہ اور بات ہے کہ لحاف پھر بھی نہ چھوڑا میں نے اور اسی طرح سنڈی جیسے رینگتی ہوئی بیڈ کے نیچے گھسنے کی کوشش کرنے لگی مگر اس نے پہلوان کی طرح جمپ لگائی اور مجھے دبوچ لیا ۔۔
ہائے ایلئ۔۔ ظالم کی بچی ۔۔ دم نکل جائے گا میرا ۔۔ اٹھ اوپر سے ۔۔ میں بمشکل سانس بحال کرکے چلائی ۔۔
نہیں پہلے قسم کھاو کہ پھر بستر میں نہیں گھسوگی ۔۔
ارے بابا۔۔ اٹھ گئی اب تو ۔۔ اب کدھر سونا ۔ تو۔۔ تو اٹھ میرے اوپر سے۔۔ میں نے ایلی کو دھکیلا اور اسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوگئی ۔۔ ثناء منہ ہاتھ دھو کر آچکی تھی اور وہ بھی بیزار نظر آرہی تھی ۔
تم دونوں فورا نیچے اجاو ۔۔ امی نے ناشتہ بنا دیا میں آفس جانے سے پہلے تمہیں ٹاون سنٹر چھوڑ دونگی ۔۔۔ بریک میں واپس گھر چھوڑ جاونگی۔۔ تم لوگ میری لسٹ لے جاو اور میری چیزوں کی شاپنگ کرلو۔۔ بنا بریک لگائے ایلی نے اپنا منصوبہ بتا دیا۔۔ جی چاہا کہ ایک جھانپڑ لگاوں کونسا کل ہونی ہے شادی جو ایک دن آرام بھی نہیں کرنے دیا ۔۔
لیکن بس اب کیا کریں بچی کی پہلی پہلی لو میرج تھی ۔۔ یہ سب تو برداشت کرنا ہی تھا ۔۔
ناشتہ کی ٹیبل پہ بیٹھے تھے کہ انکل آگئے ۔۔ سلام دعا کے بعد کچھ رقم ہمیں تھما کر بولے۔۔ یہ ایلی کہ شاپنگ کے لئے نہیں ہیں بلکہ تم دونوں کے لئے ہیں ۔۔ ہم نے اصرار کیا کہ ہمارے پاس اپنی رقم موجود ہے لیکن انکل نے کہاں سننا تھا بحرحال ناشتہ کرکے ایلی نے ہمیں ٹاون شاپنگ کےلئے اتار دیا ۔۔ اس وقت موبائیل فون کا رواج عام نہیں تھا بس لینڈ لائن پر بات کی جاسکتی تھی ۔ ہمیں یاد نہ رہا اور یہ بات طے ہی نہ کی کہ اگر ہمیں کوئی ایمرجنسی ہوئی یا ایلی کو بلانا ہوا تو کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ۔ وہ جلدی۔میں تھی اور ثناء بھی شاپنگ سنٹر کی طرف بھاگے جارہی تھی۔
ہم کوئی تین گھنٹے شاپنگ کرتے رہے پھر لنچ کے لئے ایلی کا انتظار کرنے لگے جسے اب کچھ دیر تک آجانا چاہیے تھا ۔لیکن وہ نہ آئی ۔۔ ثناء پریشان ہو گئی تو میں نے پوچھا گھر کا نمبر ہے پاس؟ اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔ میں نے اسے تسلی دی کہ کچھ دیر مزید انتظار کرلیتے ہیں آجائے گی لیکن تقریبا گھنٹہ بھر مزید گزر گیا تو ثناء رونے والی ہوگئی ۔۔ اوہو ۔۔ اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ کونسا کوئی جنگل۔میں بیٹھی ہو جاو گھومو پھرو ۔۔ تمہیں شوق تھا بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز میں شاپنگ کا ۔۔ اب کھلی چھٹی ہے موجیں مارو ۔۔ میں نے چڑ کر ثناء سے کہا تو وہ بولی۔ ہمیں گھر کا رستہ بھی نہیں پتا اگر ایلی نہ آئی تو ؟ میں نے اسے گھورا ۔۔۔ اور ہم تو جنگلی ہیں ہمیں کیا پتا کہاں جانا ہے ؟ میں نے طنز کی تو ثناء خفا سی ہوگئی۔ مجھے ایلی کے آفس اور ڈیپارٹمنٹ کا پتا تھا کیونکہ ہم۔اکثر آپس میں اس کے کام کے حوالے سے بات چیت کرتے رہتے تھے ۔ آو ۔۔ ثناء کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے میں سیکیورٹی آفیسر کی تلاش میں چل پڑی لیکن کوئی بندہ نظر نہ آیا البتہ باہر پولیس کی پٹرول موبائل کھڑی تھی ۔۔ ثناء نے دیکھ لیا کہ میں اس طرف جارہی ہوں تو میرے بازو سے پکڑ کر پیچھے کو کھینچا ۔۔ پاگل ہو ۔۔ کیا کہوگی پولیس کو ؟ ہم ان کی زبان اور قانون سے واقف نہیں ۔۔۔ میں نے ثناء سے بازو چھڑوا کر اسے گھورا ۔۔ اچھا تو بیٹھی رہو اس سازوسامان کے ساتھ یہیں ۔۔ ثناء نے منہ بنایا لیکن میں نے پروا نہ کی اور پولیس آفیسر کو ایکسکیوز کرکے صرتحال بتائی کہ کزن کا مقررہ وقت پر نہ آنا پریشان کن ہے اور ابھی ہمیں ٹھیک طرح سے ایریا اور گھر کا پتا بھی معلوم نہیں ۔ ایک حل یہ تھاکہ ایلی کو آفس کے ذریعے ٹریک کیا جائے اور دوسرا طریقہ یہ تھا کہ پولیس کار میں ہی گھر تک لفٹ لے لی جائے ۔۔ ثناء کو تو بالکل بھی یاد نہیں تھا کہ گھر کس طرف ہے لیکن میں اپنی عادت سے مجبور سٹریٹ سائن بورڈز دیکھتی آئی تھی اور آرچرڈ روڈ پر ایچ 20 لکھا دیکھا تھا ۔۔ پھر پٹرول اسٹیشن اور اس سے آگے ہم ہائی وے پہ آئے تھے اور وہیں سے ہم نے ٹاون والی روڈ پر کار موڑی تھی ۔۔ آفیسر کو پتا سمجھایا تو اس نے دو سڑکوں کے نام لئے جن میں سے ووڈز روڈ معروف لگا جبکہ کوئینز غیر مانوس لفظ تھا۔ثناء کچھ گھبراگئ کہ ہم پولیس کار میں کیوں بیٹھیں لیکن میں نے گھسیٹ کر اسے کار میں بٹھا دیا ۔ بھلا ہو ان کا جو سیدھا اسی سڑک۔پہ لے گئے جو گھر کے سامنے تھی فورا پہچان لیا اور سیدھا گھر کے دروازے پہ جا اترے ۔ پولیس والوں نے آنٹی سے ملاقات کی اور آنٹی نے ان کا بہت شکریہ ادا گیا ۔ آجائے ذرا آج یہ گھر ۔۔ ایسی لاپرواہی کیوں کی۔۔ آنٹی شرمندگی کے ساتھ ساتھ ہمیں تسلیاں بھی دے رہیں تھیں کی آج ایلی کی شامت آئے گی گو کہ میں نے کہا بھی کہ کوئی مسئلہ نہیں ہم پہنچ تو گئے نا ۔۔ چھوڑیں کہیں پھنس گئی ہوگی ۔
اس شام ایلی کی خوب شامت آئی اور وہ آنٹی سے چھپتے رہی کہ مزید سننا نہ پڑے لیکن آنٹی بھی جب ایک بار کوئی بات پکڑ لیں تو پھر 48 گھنٹے تو کہیں نہیں گئے۔ ایلی کا کہنا تھا کہ اسے چھٹیاں تبھی ملنی جب وہ دئے گئے ٹاسک کو مکمل کرے گی اور اسی چکر میں وہ بھول گئی اور جب یاد آیا تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور پھر پولیس نے بھی فون کیا تو اس نے گھر فون کیا تو بھائی نے بتا دیا کہ ہم گھر پہنچ گئے ۔۔۔
شوگر مجھے پتا تھا کہ تم گم نہیں سکتی ۔۔ تمہیں ہمیشہ حل نکالنا آتا ہے اسلئے بھئ مجھے ذرا تسلی تھی ورنہ ثناء کو تو کبھی اسطرح اکیلے نہ چھوڑ کر جاتی۔۔ اب ایلی مجھے مکھن لگا رہی تھی اور اسی سے مجھے اس کے آئندہ کے لئے بھی اسی طرح کے ایڈونچر کا عندیہ مل رہا تھا۔
ہفتہ بھر اسی طرح شاپنگ میں گزر گیا دو ہفتے بعد اس کی سہیلیاں اور رشتہ داروں نے بھی آجانا تھا ۔
امی اپنے بھائیوں سے ملنے گئیں تو وہیں رہ گئیں ہمیں تو ایلی ویک اینڈ پر ساتھ ہی لے آئی کہ جب تک شادی نہیں ہوجاتی تب تک تو ہم اور کہیں نہیں جاسکتے ۔۔ اسکی ایک سہیلی افریقہ سے آنے والی تھی اور ایلی نے اپنے گھر میں سامان ڈال۔کر اسے رہنے کے قابل کر دیا تھا ۔ طے یہ ہوا تھا کہ شادی آنٹی کے گھر پہ ہی ہوگی اور ادھر سے ہی رخصتی ایلی کے نئے گھر میں ہوگی جو آنٹی نے اسے شادی کا گفٹ دیا تھا۔ایلی کا گھر آنٹی کے گھر سے چھوٹا تھا لیکن لوکیشن بہت اچھی تھی البتہ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کے گھر کے ساتھ جہاں اسکا گیرج ختم ہوجاتا تھا اس دیوار کے ساتھ والی دیوار پب یعنی مئے خانہ کی تھی سارا دن وہ پب خالی رہتا اور ہم اس کی دیوار پہ بیٹھے دھوپ سیکتے تو کبھی پارلر کھول کر بیٹھ جاتے کبھی گوٹا کناری تو کبھی لہسن پیاز وہیں بیٹھ کر چھیلتے۔ البتہ شام ہوتے ہی وہاں خوب رونق بننے لگتی اور ہم بیک یارڈ سے طرح طرح کے تماشے دیکھتے ۔
پاکستان سے کچھ سامان منگوایا تھا امی نے اور پتا چلا کہ حمزہ کی فلائیٹ ہے اگلے ہفتہ ۔ اب یہ بات خوشی کی تھی لیکن میرا دل بجھ سا گیا تھا ۔آنے سے پہلے چاچی کے گھر ہماری دعوت تھی لیکن حمزہ گھر پہ نہیں تھے ہم کھانا کھا چکے تو وہ آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پی۔ ثناء اور امی سے بات کرتے رہے لیکن نہ مجھے بلایا نہ میں نے بات کی۔ اس بے رخی نے میرے اندر کچھ توڑ دیا تھا۔ ایسا پتھر انسان بھلا کیسے کسی سے پیار کرسکتا تھا ۔ بس یہی سوچ کر میں ان ساری لڑکیوں کی قسمت پہ رشک کھانے لگی جو حمزہ سے شادی نہ کرسکیں۔ اگر ان کی شادی ہو جاتی تو بچاری پتھر سے سر ٹکڑا ٹکڑا کے ہی مر جاتیں۔
بڑی آپا کی شادی میں مجھے یاد ہے کیسے حمزہ سارا وقت کام میں مصروف رہتے تھے۔ گھر سارے رشتےداروں سے بھرا پڑا تھا اور سردی کے دن تھے رضائیاں تلائیاں تکیے ایک انبار لگا ہوا تھا ۔ رات کے وقت جو جہاں لیٹ گیا اب وہاں سے نکلنا ممکن نہ تھا ۔۔ صرف حمزہ کے کمرے میں کسی کو اجازت نہ تھی کہ ان کے بیڈ پہ کوئی لیٹ جاتا وہ بھی تھک ہار کر رات کمرہ بند کر لیتے تھے تو صبح فجر تک ان کا دروازہ نہیں کھلتا تھا۔ البتہ مجھے یہ سہولت رہتی کہ آدھی رات تک میں بھی انہیں کے ساتھ کتابوں میں گھسی رہتی یا کبھی ہم غزلیں سن لیتے ۔ میری موجودگی کبھی انہیں بوجھ نہیں لگی تھی ہاں ساری کزنز ضرور جل بھن جاتی تھیں ۔۔ فرحت کا تو سبھی کو پتا تھا کہ حمزہ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی تھی۔ سارا وقت اس کی نظروں کا محور صرف حمزہ تھے مجال ہے جو اسے شرم ہی آجاتی کہ اس کا بھائی اور ابو بھی یہ سب دیکھ رہے ہوتے ۔ کمال تو حمزہ کا تھا جو اس کے اس بیہودہ رویے کو ایسے نظرانداز کرتے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں ۔۔ ارے ہاں ۔۔ یہی تو ۔۔ یہ بات میں نے پہلے کیوں نہ محسوس کی کہ حمزہ تو ایسے ہی سفاک تھے شروع سے ۔ جب وہ کسی کو اپنی زندگی سے نکال دیتے تو سچ میں ۔۔ ایسے ہی کرتے جیسے فاتحہ پڑھ دی۔۔ ہائے۔ ۔ یہ خیال آتے ہی چھنک سی ہوئی اور میرا دل ٹوٹ گیا ۔۔ تو میں حمزہ کی زندگی سے نکل گئی ہمیشہ کے لئے ؟
بس یہ ایسی کربناک حقیقت تھی کہ مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔ میں اوپر کمرے میں جاکر بیڈ پر جا گری اور پتا نہیں پھر کیا ہوا ۔۔ سب تاریک ہوگیا۔۔ اب تک میں اس امید پر تھی کہ کچھ دنوں میں حمزہ کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو ہم پھر سے دوست بن جائیں گے پھر سے گپیں لگائیں گے دور دیسوں کی کہانیاں قصے اور لطیفے ایک دوسرے کو سنائیں گے ۔۔ لیکن آج جب میں نے حمزہ کو دور سے دیکھا تو وہ کوئی نرم گرم انسان نہیں بلکہ ایک پتھر لگا سفاک اکھڑ جزبوں والا شخص تھا ۔ حمزہ کی شخصیت کا یہ پہلو میرے سامنے نہ تھا لیکن آج جب دور کھڑی دیکھ رہی تھی تو ان کی تمام تر شخصیت یکسر مختلف نظر آنےلگی تھی۔
مجھے کچھ پتا نہیں کتنا وقت گزر گیا اس نرم سے بستر میں اندر تک دھنسی پڑی تھی کہ اچانک کوئی میرا گلہ دبانے لگا ۔میں دونوں ہاتھوں سے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کررہی تھی آہستہ آہستہ گرفت سخت ہونے لگی اور اب میرا سانس رکنے لگا تھا ۔ میں چینخنا چاہتی تھی لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی ۔ مجھے لگا کہ میرا دشمن مجھ پہ حاوی ہورہا ہے اور میری نبض ہلکی پڑ رہی ہے ایک لمحہ کو آیا کہ چھوڑ دوں یہ جدوجہد اور اس کے سپرد کردو خود کو۔ جو رہ گیا وہ بھی لے لے ۔۔۔ میری گرفت اس کے سخت ہاتھوں پر کمزور ہوگئی اور تاریکی مزید گہری ہونے لگی ایک سیٹی سی بجنے لگی اور دور بہت دور ایک سفید دھبہ نظر آنے لگا ۔ میں بےجان اس دھبے کو بغور دیکھنے لگی اور اسے دیکھتے دیکھتے اچانک میرا دماغ جاگ گیا صرف ایک ساعت کے لئے ایک کرنٹ میرے دماغ کو گیا اور صرف ایک بات سمجھ میں آئی اسے جیتنے نہ دینا ! بس اگلے ہی لمحے میری گرفت پھر مضبوط ہونے لگی اور مجھے اپنے دانتوں کا آپس میں رگڑ کھانا محسوس ہوا ۔ اب میرے کانوں میں سیٹی کی بجائے کوئی اور آواز آرہی تھی۔۔ شوگر ۔۔۔شوگر ۔۔ یہ ایلی تھی ۔۔ میرے آدھ موئے دماغ نے اسے پہچان لیا تھا لیکن میری سانس اب بھی اکھڑ رہی تھی۔۔ کوئی سخت شے میرے دانتوں سے ٹکرا رہی تھی اور مجھے درد کا احساس تھا ۔۔ ہائے یہ میرے منہ میں کیا ہے اور میرے اعصاب بحال ہونے لگے ۔۔ حلق جیسے کٹ رہا تھا اور مٹھاس کا احساس بیدار ہونے لگا ۔۔ ثناء کیوں رو رہی ہے ؟ میں نے آنکھیں کھول دیں جو غالبا اوپر چڑھ گئی تھیں کچھ دیر پہلے ۔ وہ سامنے کھڑی کانپ رہی تھی اور بری طرح سے رو رہی تھی ۔ ایلی مجھ پہ جھکی ہوئی اور میرے منہ میں کچھ ڈال رہی تھی ۔۔ اور کچھ بول بھی رہی تھی۔۔ شوگر ۔۔۔ ہاتھ کھولو ۔۔۔ اب مجھے سمجھ آنے لگی تھی کہ وہ مجھے گلوکوز کے ساشے منہ میں ڈال رہی ہے جس سے حلق کٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا اور میری مٹھیاں سختی سے بند تھیں جو ابھی تک کی کوشش کے باوجود ایلی نہ کھول سکی تھی۔
سائیرن کی آواز اب بہت قریب سے آرہی تھی اور چند ہی لمحوں میں دو عدد میل نرس میرے سر پہ کھڑے تھے دونوں بھورے گولڈن بال اور ایک انتہائی لمبا جبکہ دوسرا خاصا چھوٹے قد کے صحت مند جوان تھے وہ کچھ پوچھ رہے تھے لیکن مجھے ان کی آواز تک نہیں آرہی تھی ۔ پھر چند ہی لمحوں میں مجھے اٹھا کر ایمبولنس میں ڈال دیا گیا ۔۔ایمبولینس میں میری سانس بحال ہونے لگی جیسے وہاں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہو ۔ میرے ساتھ ایلی کی ایک کزن بیٹھ گئی تھی اور ایلی اپنی کار میں پیچھے آرہی تھی ۔
Saturday, 13 January 2018
سفاک
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment