میں کسی سے بات چیت نہیں کرنا چاہتی تھی یہ خامشی اور اس کے دل کی ہمک۔۔ مجھے عجیب سحر میں جکڑے ہوئے تھی۔میرے اور سمندر کے درمیان رازونیاز کا سلسلہ غالبا اسی زمانے میں شروع ہوا میں گھنٹوں تنہا اس کے ساتھ باتیں کرتی رہتی وہ بھی مجھے بہت کچھ بتایا کرتا سمندر کی محبت میرے اعصاب پر ایسے سوار رہتی کہ کئی بار میں چلتی چلتی کندھوں تک اس میں ڈوب جاتی اور وہ پھر مجھے پیچھے دھکیل دیتا کئی بار میں اس سے لڑی کہ تیری محبت میں کھوٹ ہے ورنہ تو مجھے قبول کرتا لیکن تو ہر بار مجھے باہر دھکیل دیتا ہے میں جتنا تیری سمت چلتی ہوں تو اتنی ہی لہریں کھینچتا جاتا ہے ۔۔۔ پھر مجھے لگنے لگا کہ سمندر بھی مجھ سے خوفزدہ رہتا ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ میں اس کی تہہ میں چھپا درد جان لوں اور اس کا بھرم قائم نہ رہے ۔۔ عجیب دن تھے۔۔ عجیب جذبات اور احساسات ہوا کرتے ۔ سمندر کی لہریں مجھے چومتی تھیں دیوانہ وار ۔۔مگر وہ مجھے مکمل نہ ہونے دیتا ۔۔ میں اس میں اترنا چاہتی تھی تو وہ مجھے اپنی چاہت سے جل تھل کرکے پھر ساحل پہ چھوڑ جاتا۔۔ ایک دن مجھے غصہ تھا ۔۔بہت غصہ۔۔۔جب بہت دور تک میں چلتی اور ساحل بڑھتا گیا لوگ مجھے دھبوں جیسے دکھنے لگے تو میں لڑنے لگی۔۔۔ چلانے لگی ۔۔ تو دھوکےباز ہے تیری محبت میں کوئی سچائی نہیں تجھے مجھ سے ملنے کی تڑپ ہوتی تو اس حد تک آنے کے بعد تو مجھے کبھی نہ لوٹاتا ۔۔ اتنی چاہت کے بعد بھی تو مجھے اپنی گہرائی میں اترنے نہیں دیتا ۔۔آج میں نہیں جاونگی آج یہ کسک ختم ہوگی اور ہم ملیں گے یا تو مجھ میں اتر جا یا مجھے خود میں سمو۔۔۔ اور پھر میں جھکنے لگی گھٹنے ٹیکنے لگی لیکن پانی میری ناک کو چھو کر پھر میرے کندھوں تک آجاتا ۔۔ میں بیٹھنے لگتی تو لہریں میرے بدن کو اچھالنے لگتیں میں لڑ رہی تھی اور وہ بھی لڑ رہا تھا ۔پھر ریت تیزی سے سرکنے لگی میں نے پانی میں ڈولتے بدن کو نیچے دھکیلنا چاہا مگر وہ ردعمل بہت سخت تھا میں ہاتھوں سے اس کی تہہ کو پکڑنے کی کوشش کررہی تھی لیکن وہ مجھے جھکنے نہیں دے رہا تھا سورج سرخ ہوچکا تھا اور میں نڈھال ۔۔ پھر ایک لہر زور سے اٹھی اور چٹاخ سے میرے گال پہ طمانچہ لگا یہ پہلی لہر تھی جس نے میرے سر تک مجھے بھگودیا تھا میری آنکھوں کو نمکیں لمس نے چھوا اور کچھ دیر تک میں دیکھنے کے قابل نہ رہی ۔ریت اب بھی تیزی سے سرک رہی تھی اور میں کسی ناو کی طرح تیزی سے کسی سمت جارہی تھی اور کچھ انسانی آوازیں بہت دور سے آ رہی تھیں میرے ہواس بحال ہونے لگے تو سمجھ آنے لگا ۔۔ وہ مجھے بہت تیزی سے ساحل کی طرف گھسیٹ رہا تھا میں پھر لڑنے لگی ۔۔ نہیں۔ ۔ نہیں ۔۔ اب نہیں ۔۔۔ اب کہ یہ جستجو کسی انجام کو پہنچے گی ۔۔ اب میں نامراد نہیں لوٹوں گی ۔۔ تو مجھے اپنی چاہت کا ثبوت دے آج مجھے خود میں اترنے دے۔۔۔ لیکن وہ بپھرا ہوا تھا اس نے میری ایک نہ سنی اور یکدم ایک زور کا جھٹکا دیا میرے قدم اکھڑ گئے اور میں پیچھے کو گرنے لگی ۔۔ اب جو لہریں واپسی کو پلٹیں تو میں صرف گھٹنوں تک پانی میں تھی ۔ یہ کیا بدمعاشی ہے۔۔ میں غضب ناک ہوئی اور اس سے پہلے کہ پھر اس کے پیچھے بھاگتی وہ تیزی سے میری طرف بڑھا اسکا انداز بہت خطرناک تھا وہ یکدم کسی بپھرے ہوئے سانڈ میں ڈھل گیا اور لال آنکھوں سے مجھے دیکھتا پوری طاقت کے ساتھ مجھ سے ٹکرا گیا ۔۔ مجھے لگا کسی نے پوری طاقت سے زور کا دھکا دیا ہے کہ میں اچھلتی ہوئی دور جا گری ۔۔۔ پاگل پاگل ۔۔ پکڑو اسے۔۔ کی آوازیں میرے کان میں واضح آنے لگی تھیں ۔۔ ابھی میں سنبھلی بھی نہیں تھی کہ بہت سے ہاتھوں نے مجھے گھسیٹنا شروع کردیا میں سمندرکو بے رخی سے پلٹتے دیکھ رہی تھی وہ اب دور جا چکا تھا اور اس کے مزاج کی تپش آہستہ آہستہ مجھ سے دور ہورہی تھی ۔میں بچارگی اور تھکن سے چور اس کی بے رخی کو دیکھ رہی تھی ۔وہ اتنا دور جاچکا تھا کہ ان انسانی ہاتھوں سے نکل کر اس تک پہچنا اب ممکن نظر نہیں آتا ۔۔۔ تمہارا ذہنی توازن خراب ہوگیا ہے ابھی شام دو لاشیں ملی ہیں ساحل سے۔۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو ہجوم سے میری بہن اور اس کی سہیلیوں نے واویلا مچا رکھا تھا ۔ مجھے گھسیٹ کر کھڑا کردیا گیا تھا ۔ میں سر سے پاوں تک بھیگی ہوئی تھی ۔وہ بہت کچھ بولتی جارہی تھیں ۔۔ اس وقت بپھرے ہوئے سمندر کے پاس کون جاتا ہے تمہارا دماغ کام نہیں کرتا؟ ڈوب جاتیں تو۔۔ نہیں ڈوبتی ۔۔تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ میں نہیں ڈوبتی ۔۔ میں نے روحی کی بات کاٹ کر تیز لہجے میں کہا تو وہ ڈر کے پیچھے ہٹ گئی ۔۔ میں نے چپکے ہوئے کپڑے بدن سے الگ کئے تو پانی تیزی سے پیروں کی طرف اترنے لگا۔ ایک نظر پھر سمندر کو دیکھا جو رات کے اندھیرے میں اب بہت دور نظر آرہا تھا ۔۔ میں اب بھی اس کے دل کے ہمک محسوس کررہی تھی جو اب آہستہ آہستہ کم ہونے لگی تھی۔۔ چلو اب دیر ہورہی ہے بھوک لگی ہے ۔۔۔ سیمی جو اب مجھ سے کچھ قدم سڑک کی طرف جا کھڑی ہوئی تھی خفاخفا سی بولی۔۔ میں بھی ان کے پیچھے کار کی طرف بڑھنے لگی تو دیکھا کہ ساحل بہت دور تک پھیل گیا ہے پھر پلٹ کر دیکھا تو اب سمندر کی لہروں اور ساحل پہ کھڑے لوگوں کا فاصلہ میلوں میں بدل چکا تھا وہ مجھ سے بے زار اپنی لہریں بہت دور لے گیا تھا۔۔۔ پچھلے چار دنوں سے سمندر کی دہشت پھیلی ہوئی تھی وہ کتنی جانیں نگل چکا تھا ۔ بار بار اعلان ہوتا کہ سمندر بڑھا ہوا ہے لوگ ساحل کے پاس رہیں بہت اندر تک نہ جائیں ۔ آج وہ سمندر جو کتنی ہی جوان زندگیاں پی گیا تھا آج مجھے باہر دھکیلتا دھکیلتا خود کہیں دور چلا گیا تھا۔۔
حمزہ نے اچھا نہی کیا انہیں اتنی جلدی ہمت نہیں ہارنی چاہیے تھی ۔ مرد کا اسطرح راہ فرار اختیار کرنا مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا ۔ اتنے برسوں کی رفاقت اور محبت کا اعتماد خاک میں ملا دیا۔
حمزہ بس کر یار دے دے اسے جو مانگتی ہے ۔چاچا جی اب میری اور حمزہ کی لڑائی سے بے زار ہوچکے تھے ۔صرف چاچا جی کیا باجی فرحت اور چاچی بھی اب دوسرے کمرے میں جا بیٹھےتھیں.
پچھلے چار گھنٹے سے مسلسل ہم اس قصے میں الجھے پڑے تھے کہ میرے پاس ہونے پر حمزہ کا وعدہ تھا مجھے شاپنگ کروانے کا لیکن چونکہ حمزہ طبیعتا کچھ کنجوس واقع ہوئے
تھے اسلئے اب ان کو پیسہ خرچ کرنا مشکل نظر آرہا تھا اسی لئے جب میں نے وعدہ یاد دلایا تو پہلے بہانے کرنے لگے پھر کہنے لگے کہ آج تک کسی لڑکی کو گفٹ نہیں دیا تم آسمان سے اتری ہو جو تمہیں دلا دوں اور اپنا رکارڈ توڑ دوں بس یہی بہانے حمزہ کی شامت لے آئے ۔پہلے میں نے کہا کہ آپ کو رعایت دیتی ہوں 500 دیں اور میں چلی جاتی ہوں میرے ہاتھ میں حمزہ کا بٹوہ تھا ۔ حمزہ نے کہا کہ گفٹ تو وہ ہے جو میرے ہاتھ سے تمہیں ملے اسطرح تو چوری ہوگی ۔ حمزہ دراصل کچھ بھی دینا نہیں چاہتے تھے مگر بہانے بنا کر اپنا بھرا ہوا بٹوا واپس لینا چاہتے تھے جو میں نے اس وقت اچک لیا تھا جب انہوں نے وعدہ پورا کرنے سے انکار کیا تھا۔چاچا جی نے حمزہ کو اشارہ کیا کہ اسے لے لینے دو تاکہ یہ جھگڑا ختم ہو ۔انہیں پتا تھا کہ دونوں ضدی ہیں کسی صورت یہ معاملہ کسی ایک کی ہار اور دوسرے کہ جیت پر ختم نہیں ہوگا ۔نا میں نے پیچھے ہٹنا اور نہ حمزہ نے سمجھوتہ کرناتھا۔ حمزہ کی غلطی یہ تھی قوم بنی اسرائیل کی طرح حیلہ و حجت کرتے کرتے اب وہ پھنس چکے تھے کیوں کہ میں اب گفٹ سے زیادہ ان کی اکڑ اور ضد کو توڑنے کے در پہ تھی جبھی شاپنگ کی بجائے صرف 500 کا مطالبہ کردیا تھا تاکہ حمزہ کو سبق سکھایا جاسکے کہ وعدہ کرکے نبھانا کتنا ضروری ہے اور پھر مجھ سے ہیرا پھیری کرنےکی سزا تو ملنی ہی تھی۔
میں نے حمزہ کو بٹوا پکڑاتے ہوئے ایک بار آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر کہا۔۔ آپ مجھے جانتے ہیں مزید جھگڑا بڑھانے کی بجائے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا کریں ۔
حمزہ نے بٹوا لے کر جیب میں ڈالا اور مسکراتے ہوئے باتھ روم کی طرف چل دئے ۔۔
مجھے پیسے دیں ۔۔ میں نے آگے بڑھ کر راستہ روک لیا تو ہنسنے لگے ۔ تم کتنی بیوقوف ہو ۔ تمہارے ہاتھ میں تھا بٹوا اور تم جتنے نکال سکتی تھی نکال لیتیں لیکن ۔۔۔ اے لڑکی میرے گال پر چٹکی کاٹتے ہوئے بولے۔۔۔ تم بہت معصوم ہو ۔۔ اب تمہیں کچھ نہیں ملے گا ۔جاو دنیا سے جینے کا گر سیکھو ۔۔
حمزہ تو یہ کہہ کر پلٹ گئے لیکن چاچا باجی اور چاچی اب گھبرا گئے تھے انہوں میرا لال سرخ ہوتا چہرہ دیکھا تو اونچا اونچا کہنے لگے۔دے دو حمزہ ۔۔ بس کرو حمزہ ۔۔ تم نے وعدہ کیا تھا اس سے ۔۔ کرنے سے پہلے سوچتے ۔۔ دے دو اب اس کو جو مانگتی ہے ۔۔ ایسے نہیں چھوڑے گی تمہیں ۔۔ الغرض چند لمحے وہاں ایک شور مچ گیا تھا مگر حمزہ مسلسل ہنستے جارہے تھے اور میرے غصے سے لال چہرے کی طرف اشارہ کرکے مذاق اڑانے لگے ۔۔ اب فرحت باجی نے زور سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور چاچی سے مخاطب ہوئیں ۔امی میں نماز پڑھنے لگی آپ چائے بنائیں ۔۔ یہ معاملہ آج حل نہیں ہوگا ۔ باجی نے غصے سے حمزہ کو دیکھا اور وضو کرنے چلی گئیں ۔حمزہ نے ذرا سنبھل کر چاچی کی طرف دیکھا تو وہ بھی نفی میں سر ہلاتی ہوئی بیزاری سے کچن کوچل دیں ۔۔ اب حمزہ نے چاچاجی کی طرف دیکھا تو وہ شدید غصے میں انہیں گھور رہے تھے ۔ حمزہ کے لبوں سے ہنسی یکدم غائب ہوگئی انہیں اندازہ ہوگیا کہ انہوں نے انجانے میں ایک بڑی جنگ چھیڑ دی ہے۔ اتنی عمر ہوگئی لیکن تجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہر وقت کا مذاق اچھا نہیں ۔ پچھلے چار گھنٹے سے تو نے ہم سب کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے ۔ مجھ سے لے لیتا پیسے لیکن اس سے جو وعدہ کیا تھا وہ تو پورا کرتا ۔۔ چاچاجی مجھے پیار سے دیکھتے بولے ۔۔ جو اب بھی آگ کی طرح لال ہوئی کھڑی تھی ۔اس زمانے میں میرے چہرے کا رنگ بہت واضح طور پر بدلا ہوا دیکھا جا سکتا تھا اور ٹماٹر کہہ کر سہیلیاں میرا مذاق اڑانے لگتی تھیں جب ہم سکول کے گراونڈ میں سخت دھوپ میں کھیل کر نڈھال ہوتے ۔ کافی دیر تک میرا چہرہ اور کان سرخ رہتے تو ہنستی رہتیں۔
اچھا یہ لو ۔۔ حمزہ نے بٹوہ چاچاجی کے پاس پھینک دیا اور غصے سے بولے نکال لو جو تمہیں چاہییں ۔
میں نے وہیں کھڑے کھڑے ہاتھ باندھ لئے اور سخت ناراض نگاہوں سے چاچا جی کو دیکھا ۔ چاچاجی جو بیڈ سے نیچے اترکر کھڑے ہوگئے تھے کہ نماز کو جائیں ۔۔ بٹوے کو بیڈ پر پڑا دیکھ کر سمجھ گئے کہ حمزہ اب ضد میں آگیا ہے۔اپنے ہاتھ سے نہیں دے گا پیسے۔ التجاعا میری طرف دیکھ کر بولے ۔۔ میری بچی چل چھوڑ اب اس جھگڑے کو نکال لے جتنے پیسے تجھے چاہیے ہیں ۔ جاو تم لوگوں نے کھانے کے لئے باہر جانا تھا اب کافی دیر ہوگئی۔۔۔۔ باجی اور چاچی بھی اب دروازے میں آ کھڑی ہوئیں ۔ حمزہ اب غصے سے بازو اوپر چڑھا رہے تھے کہ میں راستے سے ہٹوں تو وہ وضو کے لئے جائیں لیکن میں نے اب ضد لگا لی تھی ۔
آپ مجھے اب اپنے ہاتھ سے دیں گے ۔۔ میں نےسپاٹ لہجے میں کہا اور حمزہ کی آنکھوں میں دیکھا جو یکدم چونک کر مجھے دیکھنے لگے ۔۔ کچھ دیر گھورتے رہے اور پھر بولے وہ پڑا ہے بٹوا جو لینا ہے لو۔۔ میں خود نہیں دونگا ۔
اب نہیں ۔۔ اب آپ مجھے اپنے ہاتھ سے دیں گے ۔۔ اگر مجھے خود لینا ہوتا تو پہلے ہی لے لیتی ۔۔
حمزہ آگے بڑھے اور بالکل سامنے آکر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوتے ہوئے بولے۔۔۔ تم خود کو سمجھتی کیا ہو؟ مجھے توڑنا چاہتی ہو ؟ حمزہ نے سخت لہجے میں کچھ اسطرح کہا کہ ایک ٹھنڈی سی لہر میرے بدن میں دوڑ گئی میں کچھ پیچھے کو ہٹی کیونکہ حمزہ اسقدر پاس آگئے کہ مجھے ان کی سانس ٹکرانے لگی تھی۔۔ بے باک ضرور تھی لیکن اسطرح کسی مرد کا اتنے پاس آجانے سے کچھ حیا سی آنے لگی ۔۔ ذرا سا پیچھے ہٹ کر میں نے کہا ۔
میں صرف آپ کے ہاتھ سے 500 کا نوٹ لینا چاہتی ہوں اور بس۔۔
میرے ہاتھ سے تو نہیں لے سکتی خود لینا ہے تو لے لو ۔۔
یہ کہتے ہوئے حمزہ میرے پاس گذر کر باتھ کی طرف چل دیئے ۔۔ دروازے تک پہنچ کر پھر پلٹے ۔۔ آج تک پورے خاندان سے سوائے اپنی بہنوں کے ایک لڑکی کو بھی میں نے کبھی کوئی گفٹ یا پیسے نہیں دئے ۔۔ تمہیں کیسے دے دوں ۔۔ تم آسمان سے اتری ہو ۔۔ وہ پڑا ہے بٹوا ۔۔ تمہیں پیسے چاہیں نا ۔۔ لے لو ۔۔ حمزہ حقارت سے بولے اور وضو کرنے چلے گئے ۔ نماز پڑھنے لگے تو جائے نماز کے ساتھ بیٹھ گئئ ۔۔اور اچھا خاصا بڑا سا منہ پھلا لیا ۔ نماز پڑھتے ہوئے یکدم ان کی ہنسی نکل گئی اور سلام پھیر کر ہنستے ہوئے جائے نماز سمیٹ کر لاؤنج کیطرف چل دئے ۔۔ تم کیوں میری نماز خراب کررہی ہو اب حمزہ کی آنکھوں میں وہی چمک تھی جس نے مجھے ہمیشہ ان کی محبت میں گرفتار رکھا تھا آج بھی آنکھیں بند کروں تو وہی سیاہ چمکدار بڑی بڑی سی آنکھیں تصور میں ابھرنے لگتی ہیں ۔ جب کبھی آتےجاتے گلی میں ملتے تو مجھے دیکھتے ہی وہ ایسے جل اٹھتی جیسے کسی نے بجھتے چراغوں میں تیل ڈال کر لو بڑھادی ۔ ہم آتے جاتے دن میں کئی بار ملتے تھے لیکن ہر بار وہ ایسے خوش ہوتے اور کبھی کبھی کوئی ہلکا پھلکا جملہ ایسا بھی کہہ کر گزر جاتے کہ میں خفا ہوجاتی مجھے لگتا کہ وہ مجھ پہ طنز کرتے ہیں میرے غصے اور شرارتوں سے سبھی تنگ تھے تو یہ عام سی بات تھی ۔۔ دن میں کئی بار سلواتیں سننے کو ملتیں۔
اللہ ایسے لوگوں کی نماز کا کیا کرے جو وعدہ نہیں نبھاتے ۔ حمزہ نے نیت پھر باندھ لی تھی لیکن میرے اس جملے پر سجدے سے سر اٹھاتے ہی پھر سلام پھیرا اور ہنسنے لگے ۔۔ہنستے ہنستے ان کی آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی ۔۔ مجھے نماز پڑھنے دو ۔۔ اب ان کے لہجے میں اداسی تھی مجھے بے چینی سی ہونے لگی ۔۔ نہیں پہلے مجھے 500 دیں ۔۔ حمزہ نے چند لمحے خاموشی سے مجھے دیکھا اور پھر تیزی سے اٹھے اور دوسرے کمرے میں جاکر دروازہ بند کرلیا ۔۔ میں بھی پیچھے بھاگی لیکن وہ دروازہ اندر سے لاک کر چکے تھے ۔میں وہیں دروازہ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔
مجھ سے لے لے پیسے ۔۔ چاچا جی نے 1000 روپے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔ یہ ائسکریم کھا لینا اور شاپنگ بھی تجھے میں خود کروادونگا ۔۔ اس کنجوس سے مت مانگ ۔۔ اٹھ شاباش۔۔
میں نے نفی میں سر ہلاتے بازو باندھ لئے ۔۔ نہیں چاچا جی ۔۔ میں انہیں سے لونگی اور اب وہ اپنے ہاتھ سے دیں گے ۔کیوں جھوٹ بولا تھا اب نہیں چھوڑوں گی ۔۔ میں بچوں کی طرح خفا خفا سی بولی تو چاچا جی تھکے لہجے میں بولے ۔۔ وہ نہیں دے گا اپنے ہاتھ سے ۔۔ ضد میں آگیا ہے ۔۔ کبھی سنتا ہے کسی کی ۔۔ جو تیری سنے گا ؟
میں نے چاچا جی کو تیکھی نظر سے دیکھا۔۔ سنیں گے ۔۔ آج دیکھ لیجئے گا ۔۔ میں بھی ایسے نہیں جانے دونگی اب ۔۔ میرے لہجے میں سختی تھی ۔۔ باجی میری طرف دیکھ رہی تھیں چاچاجی اب تھک ہار کر لیٹ گئے ۔۔ مان جا نا یار ۔۔ باجی نے مجھے پیار سے دیکھا۔۔ چل میں بھی تجھے شاپنگ کرواونگی ۔۔ طارق روڈ چلیں گے کل ۔۔ تیرے پسندیدہ تالو شوز پہ چلیں گے مرضی سے شوز بھی لے لینا ۔۔ باجی نے بڑی ہشیاری سے مجھے لالچ دینا چاہا کیونکہ اس زمانے میں مجھے بند جوتے پہننے بہت پسند تھے اور صرف یہی شوق پال رکھا تھا ورنہ کپڑوں اور جیولر وغیرہ سے بالکل نہیں لگتی تھی ۔۔ محمد علی سوسائٹی سے ائسکریم کھاتے ہیں اور کارڈز بھی دلواتی ہوں چل اٹھ جا میری گڑیا ۔۔۔ باجی میری طرف بڑھی اور میں ابھی نفی میں سر ہلا رہی تھی کہ حمزہ نے دروازہ کھولا اور میں دھڑام پیچھے کو ان کے قدموں پہ جا گری۔ وہ باجی کو دیکھ کر بولے چلو ۔۔ دیر ہورہی ہے ۔۔ رات مجھے پیکنگ بھی کرنا ہے ۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ میرے اوپر سے پھلانگ گئے اب ان کا لہجہ سخت تھا سبھی سمجھ گئے تھے کہ اب ہماری لڑائی ہونے والی ہے ۔۔ باجی سر ہلاتی کمرے میں جاگسی کہ تیار ہو کر آتی ہوں اور چاچا جی نے بازو ماتھے پہ رکھ کر آنکھیں موند لیں ۔ ایسے نہیں جا سکتے آپ ۔۔ میں ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔۔ اب میرا قد ان کے کندھوں سے کچھ اوپر ہونے لگا تھا اسلئے ہمارا چہرہ آمنے سامنے آگیا ۔۔ میرے پیسے دیں تو پھر جانے دونگی ڈنر کے لئے ۔۔ میں اپنی روانی میں بول رہی تھی اور وہ میرے چہرے پہ نظر جمائے گم سم کھڑے تھے بس دیکھ رہے تھے ایسے جیسے پہلی بار دیکھا ہو پھر مجھے کچھ الجھن سی ہونے لگی کہ یہ آج کیسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے ہیں جیسے ابھی پہلی بار دیکھا ہو۔ تم کیوں مجھے توڑنا چاہتی ہو ۔۔ وہ تقریبا سرگوشی کرتے ہوئے بولے ۔۔ ان کا لہجہ کچھ نرم ہونے لگا ۔۔ ایسا کیوں کررہی ہو ؟ اب وہ بالکل نڈھال سےبول رہے تھے ۔۔ کیا چاہتی ہو ؟ مجھے ان کی کسی بات کی سمجھ نہ آئی اور میں نے جھٹ کہا میرے ہاتھ میں 500 روپے رکھیں بس ۔۔ حمزہ نے ایک لمحے کو بھی میرے چہرے سے نگاہ نہ ہٹائی تھی۔۔ بول دیا نہیں دونگا ۔۔ خود نکال لو ۔۔ اور وہ پلٹ کر کمرے کی طرف بڑھے تو میں نے جھٹ ان کی بازو پکڑ لی جو لوہے کی مانند سخت اورخمدار تھی۔۔ میں انہیں کیا پلٹتی ۔۔۔ ایک جھٹکے سے انہوں نے مجھے اپنے سامنے کرلیا اور میری بازو کو زور سے دباتے ہوئے بولے۔۔ میری انا کے راستےمیں مت آو ۔۔مجھے ٹوٹنا پسند نہیں ۔۔ان کی آنکھوں سے آگ نکل رہی تھی تم کیا سمجھتی ہو تم مجھے توڑ لو گی ۔۔ وہ غصے میں تھے ان کا چہرہ میرے چہرے کے سامنے تھا اور میں ان کے سانسوں کی تیزی کو محسوس کررہی تھی ۔۔ کچھ ڈر سی گئی تھی اور یہ درد کیسا ہے ؟ اگلے ہی لمحے مجھے بازو میں شدید درد محسوس ہونے لگا اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی باجی نے حمزہ کو پیچھے کرتے ہوئے التجا کی ۔۔ حمزہ یہ نہیں مانے گی یار دے دو ایک 500 ہی تو ہیں ۔۔ اب چاچا جی بھی غصہ کرنے لگے ۔۔ چاچی بھی نماز پڑھ کر چائے بنانے گئی تھیں اب وہ بھی غصہ کررہی تھیں ۔۔ حمزہ نے اتنی سلواتیں سنیں تو بٹوا اٹھایا اور اس میں سے 500 کا نوٹ نکالا اور دو انگلیوں میں ایسے پکڑ کر میری طرف بڑھایا جیسے کوئی ویٹر کو ٹپ دے رہا ہو لیکن ان کی آنکھوں میں شدید غصہ ۔۔اب نفرت جیسے رنگ میں ڈھل رہا تھا ۔۔۔ اور اب واقعی ان کی آنکھوں سے نفرت جھلک رہی تھی ۔یہ تمہارے تابوت کا آخری کیل ہے ۔۔۔
اور یکدم ان کی آنکھیں بھرنے لگیں ۔۔۔ وہ نمی سے زیادہ آنسو جیسا تھا۔
کار تیزی سے کلفٹن کی طرف بڑھ رہی تھی میرے ساتھ سبھی خاموش تھے ۔۔حمزہ ڈرائیونگ بہت خطرناک انداز سے کررہے تھے ۔۔ مجھے گرم گرم سا کچھ محسوس ہوا ۔۔ آہ ۔۔۔ میں رو رہی ہوں ؟کیوں ؟ میں اپنے آنسو پونچھ رہی تھی کہ دیکھا حمزہ بھی اپنی آنکھیں بار بار صاف کررہے ہیں ۔۔ ہم کیوں رو رہے ہیں ؟ میں 18 برس کی تھی ایسے جزبوں کو سمجھنا اس وقت میرے بس میں نہ تھا۔
صبح میرے سارے بدن میں درد تھا ۔۔ بستر پہ ہی پڑی انگاڑیاں لے رہی تھی ۔۔ ہائے ۔۔ آج مجھے کسی نے جگایا نہیں؟ کیوں؟ کہاں ہیں سب ؟ میں بیڈ پہ ہی گردن گھما گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی مگر خامشی تھی ۔کہاں گئے سب ؟ گھر پہ کوئی نہ تھا ۔میں منہ ہاتھ دھو کر اپنی چائے بنانے لگی۔ ثناء اور امی گھر میں بہت سے شاپنگ بیگ لئے داخل ہوئیں یہ صبح سویرے ہی شاپنگ کرنے نکل گئی تھیں ۔ کیا بات ہے؟ میں نے سوالیہ انداز سے امی کو دیکھا تو وہ پانی کا خالی گلاس رکھ کر بولیں۔ ویزے لگ کر آگئے ہیں تو بس اسی ہفتے روانہ ہو جائیں گے پھر کب وقت ملے گا شاپنگ کا۔ ہمارا بیرون ملک جانے کا ارادہ تھا اور ویزوں کا انتظار تھا سو اب دیر کیا کرنی تھی۔ثناء تو یوں بھی خوشی سے اچھل رہی تھی اور امی بھی اپنے رشتےداروں سے ملنے کے لئے بےچین تھیں۔
حمزہ کی فلائٹ تھی سو وہ کبھی کے جا چکے تھے ۔ رات کیسی گزری؟ انہوں نے کیوں کہا کہ یہ تمہارے تابوت کا آخری کیل ہے ؟ کیا واقعی وہ اب کبھی مجھ سے نہیں ملیں گے ؟ بیسیوں سوال میرے دل کو بٹھائے جارہے تھے ۔ میں کس سے پوچھوں ؟ کیا پوچھوں ؟ اسی پریشانی میں دو دن گزر گئے ۔ مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ وہ کس فلائٹ پر گئے ہیں ۔ یہ روسٹرم کی فلائیٹ نہیں تھی ۔ سٹینڈ بائے تھے کہ کسی پائلٹ کی انکوائری چل رہی ہے شاید اس کی جگہ مجھے بھیج دیں بس اتنی بات چاچا جی سے کررہے تھے تو سنا تھا۔ حمزہ ایک ایئر لائن میں بطور پائلٹ جاب کرتے تھے اور عموما
بیرون ممالک کی پرواز ہوتی کبھی تین چار دن تو کبھی ہفتہ بھر گھر نہ آتے اور اگر مختصر فلائیٹ ہوتی تو اگلے روز پھر ڈیوٹی ہوتی البتہ نیویارک جیسی لمبی فلائیٹ کے بعد انہیں دو چار ڈے آف مل جاتے تو پھر ہم سب مل کر شاپنگ اور ڈنر وغیرہ کے مزے لے لیا کرتے تھے ۔
بیل بجی تو ثناء نے دروازہ کھولا ۔ میں کمرے میں بیٹھی اسائنمنٹ مکمل کررہی تھی ۔ اچانک میرے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی ۔۔ یہ توحمزہ کی آواز ہے ۔۔ واپس آگئے ؟ میرے ذہن میں کئی سوال پھر ابھرنے لگے اور میں ابھی باہر جاکر دیکھنے کا سوچ رہی تھی کہ دروازہ بند ہونے کی آواز آئی ۔ہائیں۔۔ حمزہ نے مجھے نہیں بلایا ؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟ وہ جب بھی فلائیٹ سے لوٹتے تھے تو سب سے پہلے مجھ سے ہی ملتے تھے بلکہ اپنے گھر جانے سے پہلے ہمارے گھر کی بیل بجا کر مجھے کہہ جاتے تھے کہ میرے چینج (کپڑے) کرنے سے پہلے پہنچ جاو اور ایسا ہی ہوتا مجھے پیغام ملتا اور میں بھاگم بھاگ حمزہ سے ملنے پہنچ جاتی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گھر پہ کوئی نہ ہوتا اور میں ان کے لئے کھانا لے کر پہنچ جاتی وہ کھانا کھا کر لیٹ جاتے اور میں وہیں دسترخوان سمیٹ کر سامنے بیٹھ جاتی ۔ دوسرے دیسوں کے لوگوں کے قصے سناتے اور وہیں ساتھ ساتھ میری تربیت کا عمل بھی جاری رہتا ۔ میں نے زندگی میں حمزہ سے بہت کچھ سیکھا تھا اور سب سے اہم بات جو آج بھی مجھے ان سے عقیدت پر مائل رکھتی ہے کہ اس نوجوانی میں اکثر لوگ پیار محبت کی وادیوں میں الجھ جایا کرتے تھے ۔ میں 18 برس کی ہوگئ تھی لیکن باوجود سبھی دوستوں کے بے شمار پریم بندھنوں کے میں کسی کے ساتھ ایسا کوئی تعلق قائم نہ کرسکی تھی ۔ کبھی کبھی میری سہیلیاں میرا مذاق اڑاتیں کہ شاید مجھے کوئی نقص ہے جو میرے جذبات لڑکوں کے معاملے میں ایسے ٹھنڈے تھے کہ بچاروں کے ہزارہا جتن کے باوجود میں نے کبھی ان کو توجہ نہ دی تھی ۔ مجھے اس رویے کے پیچھے حمزہ کا مجھ سے اپنے تجربات کا ذکر کرکے جبلتوں اور نفس کے کنٹرول سے خود کو آزاد رکھنے کی باتیں کرنا لگتا ہے۔ ہم گھنٹوں ان موضوعات پر بحث کرتے کہ نفس کا کام ہی اکسانا ہے لیکن انسان کے پاس اسے کنٹرول میں رکھنے کا گر ہونا چاہیے ۔
کون تھا باہر؟ میں نے جھوٹ موٹ لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثناء سے سوال کیا تو وہ بولی۔ بھیا تھے کھانا منگوایا ہے چاچی گھر نہیں ۔ جارہی ہوں دینے۔۔۔ ثناء کی بات سن کر میرا دل بجھ گیا ۔ تو اس کا مطلب حمزہ کی ناراضگی پکی ہے ۔ اس کے بعد مجھ سے لکھا ہی نہ گیا اور میں اپنی غزلوں کی کیسٹ ٹیپ میں ڈال کر بستر پہ جا گری ۔۔ بس پتا نہیں کب سنتے سنتے سوگئی۔
بیل بج رہی تھی اور کوئی دروازہ کھولنے کو نہیں اٹھا ۔۔ میری آنکھ کھلی تو موڈ اب بھی بہت خراب تھا ۔غصے میں بڑبڑاتی دروازہ کھولا تو نومی کھڑا تھا ۔۔ کیا ہے ؟ میں غصہ سے تقریبا چلاتی ہوئی بولی ۔ وہ گھبرا گیا اس کے ہاتھ میں فائل تھی ۔ ایک کام تھا تم سے پلیز کردو ۔۔ نومی محلے میں ہی رہتا تھا اور ہم بچپن سے ساتھ کھیلتے کودتےجوان ہوئے تھے ۔ میں دروازے سے باہر نکلی اور مزید گھور ڈال کر اس کو دیکھا ۔۔ بولو ۔ وہ فائل میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔ میرے امتحان سر پہ ہیں یہ میرا پروجیکٹ ہے پلیز یہ اسائنمنٹ اور اسکیچ بنا دو ۔۔ نومی این ای ڈی سے سول انجینرنگ کررہا تھا لیکن اس کا تقریبا سارا کام ہی میں نے کیا تھا انتہائ سست اور کام چور لڑکا تھا کرکٹ میچ کے چکر میں کبھی اپنا کام وقت پر نہ کرتا ۔ یہ ڈگری تو تم خواہ مخواہ ہی لے رہے ہو اس کی اصل حقدار تو میں ہوں۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے فائل تقریبا چھینتےہوئے پکڑی تو وہ ہاتھ جوڑ کر ہوا میں بوسےدیتے ہوئے بولا ۔۔ میری بہن ہو نا ۔۔ مجھے پتا تھا تم لائف سیور ہو۔۔ ابھی میں فائل کو دیکھ رہی تھی کہ وہ یکدم غائب ہوگیا ۔۔ ارے کدھر گیا ؟ گدھا بتا کر بھی نہیں گیا کہ کب تک چاہیے ۔ میں نے آگے بڑھ کر گلی میں جھانکا لیکن وہ تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوچکا تھا ۔ ابھی پلٹی ہی تھی کہ فائل منہ پر آلگی ۔۔ ہائے ۔۔ میری آنکھ میں اس کا کونہ لگا تو میری درد سے آہ نکل گئی جی چاہا تھپڑ جڑ دوں جو بنا بولے پیچھے آن کھڑا ہوا ۔۔ لیکن سر کیا اٹھاتی ۔۔ خوشبو بتا رہی تھی کہ حمزہ کھڑے ہیں ۔۔ میں باوجود کوشش سر نہ اٹھا سکی ایک طرف سے ہوکر گھر کی طرف بڑھی تو وہ بھی مجھ سے کترانےکے لیے اسی طرف بڑھے اور ہم پھر ٹکرا گئے ۔۔ پھر تیزی سے دوسری سمت سے بڑھی تو وہ بھی مجھ سے بچنے کےلئے اسی سمت بڑھے ۔۔ دوچار بار جب ایسا ہی ہوا تو وہ ایک طرف ہوکر کھڑے ہوگئے ۔۔۔ آذان کی آواز بلند ہوچکی تھی حمزہ نے مسجد پہنچنا تھا سو جب میں دروازے کی طرف بڑھ گئی تو وہ تیزی سے گلی کی طرف چل دئے ۔۔ میں گھر میں داخل ہوئی تو میرا دل بہت اداس تھا ۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حمزہ اور میں ملیں ہوں اور ہم نے ایکدوسرے کو سلام نہ کیا ہو ۔ وہ ہمیشہ مجھے مسکرا کر ملتے تھے ۔آج مجھے ان کی وہ بات سمجھ آرہی تھی ۔ یہ تمہارے تابوت کا آخری کیل ہے ۔
ثناء اپنا بیگ تیار کرچکی تھی امی اور بھائی بھی سب اپنا سامان باندھ چکے بس ایک میں رہ گئی تھی جو ابھی تک تیار نہ تھی ۔ویزہ لگے اب دوسرا ہفتہ تھا اور ثناء کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک ہفتہ خواہمخواہ ہی گزر گیا اب تک ہم کزن کی شادی کی شاپنگ میں وہاں کی مارکیٹ اور بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز میں پھر رہے ہوتے لیکن امی کو ان کی بھتیجی کی طرف سے ایک فرمائش آگئی تھی جسے پوارا کرنے میں چند دن کا قت درکار تھا اسلئے ہمیں ہفتہ بھر رکنا پڑا ۔۔
حمزہ اور میری لڑائی کے بعد اب تقریبا دو ہفتے گزر چکے تھے یہ پہلی بار ہوا کہ ہم اتنا عرصہ ایک دوسرے سے بولے بھی نہ تھے۔ وہ مجھ سے خفا تھے اور میرا ظرف یہ گوارہ نہیں کررہا تھا کہ میں جاکر انہیں منا لیتی۔۔ ایسی ہی خود سر تھی۔ ساری زندگی اپنا نقصان کیا محض انا اور خود داری کی پرورش کرتے۔ اگر ذرا سا احساس ہو گیا کہ مجھے نظر انداز کیا گیا ہے تو پھر میں اس طرف سے اپنا رخ موڑ لیتی تھی چاہے کتنا ہی مشکل ہوتا لیکن پھر میں ان لوگوں سے نہ ملتی تھی جنہوں نے مجھ سے بے رخی برتی ہو۔حمزہ سے جنوں کی حد تک پیار تھا لیکن ان کی بے رخی نے میرا دل بھی سخت کردیا تھا دونوں کے گھروں کی دیواریں ملی ہوئی تھیں لیکن ہم نے اپنے دلوں میں فاصلہ بڑھا لیا تھا ۔ اب ہم پہلے جیسے دوست نہ رہے تھے ۔مجھے افسوس تھا کہ میں نے حمزہ کے ساتھ زیادتی کی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہوں نے زندگی بہت مشکل انداز سے بسر کی۔ خوبصورت جوان لڑکیوں سے خاندان بھرا پڑا تھا لیکن مجال ہے جو کوئی حمزہ سے کوئی نسبت استوار کرسکتی۔ کئی ایک نے حمزہ کو پھنسانے کی کوشش کی لیکن مایوس ہوئیں۔ حمزہ جیسے خوبرو جوان کو دیکھ کر کس کا دل نہ ڈولتا۔ لمبا قد ، سرخ و سفید رنگ، بڑی بڑی کالی انکھیں جن پہ قدرتی طور پر سلیقے سے بنی بھنویں اور کشادہ پیشانی، گہرے گلابی ہونٹ سفید رنگت پر آفت لگتے تھے۔ ان کے ساتھ ائیر لائن کی سینکڑوں لڑکیاں کام کرتی تھیں کئی لڑکیوں نے تو باقاعدہ خود شادی کا پیغام بھیجا رشوت کے طور پر باجی اور چاچی کو خوب تحائف ملتے رہتے بلکہ ایک دفعہ تو ہم جہاز میں ہی یہ نظارہ دیکھ چکے تھے جب ایک انتہائی خوبصورت ائیر پوسٹس کو علم ہوا کہ کیپٹن حمزہ کی فیملی جہاز میں بیٹھی ہے تو اس نے ہماری خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی فرسٹ کلاس سے روسٹ اسپیشل کوکیز جوس گفٹس اور پتا نہی کیا کیا وہ لاتی رہی ۔ہم منع کرتے تو اور زیادہ خدمت کرنے لگتی ۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر تو بہت ترس آیا ۔ گھر پہنچ کر میں نے حمزہ سے کہا کہ بچاری اتنی منت ترلہ کررہی تھی ۔ کر لیں شادی ۔ ہے بھی خوبصورت اور سلیقے والی۔ بال بھی خوب لمبے ہیں ۔قد بھی خوب لمبا ہے ۔رنگ بھی صاف ۔میں بولتی گئ اور حمزہ آرام سے بیٹھے چلغورے چھیل چھیل کر کھاتے گئے اور کچھ میرے منہ میں ڈال کر مجھے چپ کروانے کی کوشش کرتے رہے لیکن میں تو اس بچاری کا حال دیکھ کر ابھی کے ابھی اسکی شادی کروادینا چاہتی تھی لیکن حمزہ پتھر کی مورت بنے تھے زرا بھی اثر نہ ہوا۔
حمزہ کی ڈیل ڈول کسی کمانڈو جیسی تھی ۔ بچپن میں وہ مجھے اکثر اپنے کندھوں پہ اٹھا لیا کرتے تھے خصوصا جب وہ لمبی ڈیوٹی کرکے آتے تو میں بھاگتی ہوئی ان کی گاڑی کے پاس پہنچ جاتی اور وہ بھی اترے ہی مجھے زور سے گلے لگا کر پیار کرتے تھے اور ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ ہی ان کے گھر جاتے اور پھر کئی گھنٹوں تک میں وہیں رہتی کھانا کھاتے باتیں کرتے اور ابھی یہ کچھ عرصہ پہلے تک ہوتا رہا تھا لیکن پھر ایک دن حمزہ کو احساس ہوا کہ ان کی ننھی اب جوان ہونے لگی ہے اور محلے والے عجیب نظروں سے ہماری بے تکلفی کو دیکھنے لگے ہیں
لڑکی ۔۔ اب تم اس طرح مجھ سے اکیلے میں ملنے نہ آیا کرو ۔۔ حمزہ نے مجھے یہ بات اس وقت کہی جب گھر پہ کوئی نہیں تھا اور لوڈشیڈنگ کے باعث بجلی بھی نہ تھی ۔ حمزہ نے بیڈ سائڈ پر موم بتی جلا رکھی تھی ۔ میں بھی باہر واک پر جانے والی تھی سب کے ساتھ جب حمزہ کا پیغام آیاکہ چائے چاہیے ۔ باجی دروازے سے مجھے کہہ گئی کہ پلیز تم حمزہ کو چائے بنا دو میں اور ثناء باہر جارہے ہیں۔ میں نے کہا بھی کہ مجھے بھی سہیلیاں بلا رہی ہیں لیکن وہ میری منت سماجت کرکے مجھے چائے بنانے پہ لگا گئی۔ چائے لے کر میں حمزہ کے کمرہ میں گئی جو اوپر کی منزل پر واقع تھا۔ وہ ملٹی پل اسٹیشن کی فلائیٹ کرکے آئے تھے اور اب کھانے کے بعد بیڈ پہ لیٹے چائے کا انتظار کررہے تھے ۔ میں نے چائے رکھی تو بولے ۔ مجھے ایک گلاس پانی اور دو گولیاں دو ۔آج سر میں بہت درد ہے ۔ وہ لیٹے رہے تو میں نے دراز سے سر درد کی گولیاں نکالیں پانی کا گلاس لائی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر حمزہ کے سر سے بازو ہٹایا۔ میں دبا دوں سر ؟ اور ساتھ ہی میں سر دبانے لگی ان کا بدن ہلکا سا گرم لگا جیسے بخار چڑھنے والا ہو ۔ابھی چند لمحے گزرے تھے کہ حمزہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہٹا دیا اور اٹھ بیٹھے۔ نہیں بس مجھے پانی اور گولیاں دو ۔ چائے پی کر بھی آرام آہی جائے گا گندی فلائیٹ تھی بہت تھک گیا ہوں۔ وہ بنا میری طرف دیکھے بول رہے تھے ۔ کمرے میں روشنی بھی زیادہ نہ تھی ۔ دوسری لائٹس کہاں ہیں ؟ میں نے انہی گلاس تھماتے ادھر ادھر دیکھا کیونکہ موم بتی کی روشنی سے ماحول عجیب پراسرار سا لگ رہا تھا ۔رہنے دو کوئی بھی چارج نہیں ۔سب میرا ہی انتظار کرتے ہیں کہ میں ہی سب کام کروں آکر ۔حمزہ کچھ بیزاری سے بولتے ہوئے بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تو میں بھی ان کی ساتھ ٹیک لگا بیٹھ گئی ۔ وہ میرے بال سہلانے لگے اور ساتھ فلائیٹ کا حال بتانے لگے۔باتوں باتوں میں ایک دم سے خاموش ہوگئے ۔ مجھے دیکھ رہے تھے آنکھیں چمک رہ تھیں ۔ ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔ارے تمہاری شکل تو فلاں ایکٹریس سے بہت ملتی ہے ۔ ان دنوں ٹی وی پہ ایک ڈرامہ بہت مقبول تھا جسے دیکھنے کےلئے لوگ سب کام چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جاتے حتی کے گلیاں بھی سنسان کرہوجاتیں ۔
میں نے نہیں دیکھا کبھی وہ ڈرامہ میں نے کچھ خفگی سے کہا کیونکہ مجھے لوگوں کا یہ کہنا کبھی پسند نہ تھا کہ آپ فلاں سے ملتی ہیں اور فلاں کی شکل آپ جیسی ہے ۔ حمزہ پیار سے میرے ریشمی بال سہلارہے تھے۔
وہ بار بار میرے چہرے سے بال ہٹاتے اور بھاری بالوں کی ایک لٹ پھر چہرے پر آن گرتی ۔ میں بھی اب تقریبا حمزہ کے سینے تک جاپہنچی تھی اور اب ان کی چھاتی پر کہنی ٹکا کر ان کی باتیں سن رہی تھی ۔وہ ایک دوست کا قصہ سنا رہے تھی کہ فلائیٹ کے دوران اس کے گھر سے پریشانی کی خبر آئی اور وہ توجہ سے ڈیوٹی نہی دے سکا تو اس کے حصے کا کام بھی مجھے کرنا پڑا ۔۔ حمزہ بولتے بولتے رک گئے مجھے لگا جیسے ان کے دل کی دھڑکن یکدم بڑھنے لگی ہے اور پھر حمزہ کی انگلیاں میرے چہرے کو چھوتی ہوئی میرے ہونٹوں تک آ پہنچی ۔ وہ خاموش تھے دھڑکن ڈرم کی طرح زور دار تھی ان کی نگاہوں کا مرکز میرے ہونٹ تھے جہاں ان کی انگلیوں سے نکلنے والی حرارت کو میں اب بہت واضح محسوس کررہی تھی میں سمجھی کہ شاید بخار ہونے لگا ہے اسلئے ہاتھوں میں تپش ہے لیکن پھر حمزہ نے یکدم زور سے سانس کھینچا جیسے کوئی چونک جاتا ہے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے میں بھی تیزی سے اٹھ بیٹھی تھی لیکن مجھے قطعا علم نہ تھا کہ حمزہ کے دل میں کیا اودھم مچی ہوئی ہے۔
تم اب جاو ۔ وہ مجھے بے زاری سے جانے کو کہہ رہے تھے لیکن میں ان کی آنکھوں میں نمی کو واضح طور پر دیکھ سکتی تھی۔
کیوں ؟ کیاہوا؟ ابھی تو بہت وقت ہے بجلی کے آنے میں۔۔ ادھر ہی رکتی ہوں جب تک چاچی نہ آجائیں ۔ آپ کو بخار بھی بننے لگا ہے اب تو ۔۔ میں اپنی روانی میں بولے جارہی تھی اور حمزہ کی آنکھوں میں چمک اور پیار بڑھتا جاتا تھا۔
نہیں ۔۔ مجھے بخار نہیں ۔۔ تھکاوٹ سے بدن گرم محسوس ہورہا ہے ۔۔ تم جاو ۔۔ اور ساتھ ہی انہوں پیار سے میرے چہرے کو تھپکی لگائی ۔۔ میں ابھی جانے کے موڈ میں نہی تھی کہ اب تو سب دور جاچکے ہوں گے گھر پہ بھی کوئی نہیں تو کیا کرونگی اکیلی ۔۔ یہی سوچ کر میں نے پھر کہا۔ لیکن وہ سب تو واک پہ نکل گئے اور گھر پہ کوئی نہی تو میں کیا کرونگی اکیلی جا کر نیچے؟ حمزہ نے چائے کا خالی کپ مجھے تھمایا اور لیٹتے ہوئے بولے ۔۔ اچھا تو جاو ٹی وی لگا لو ۔۔ دوسرے کمرے میں چلی جاو ۔۔ وہ بستر پر لیٹ گئے اور بازو ماتھے پہ رکھ لی تاکہ میں سمجھوں کہ وہ سونا چاہتے ہیں۔
آپ مجھ خفا ہیں ؟ کیوں زبردستی بھیجنا چاہتے ہیں؟ ابھی تو ٹھیک تھے ۔۔ اب کیا ہوا؟ میں نے گھور ڈالی تو حمزہ نے ایک زور کی آہ بھری ۔۔۔ بازو ہٹایا۔۔ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔ تھوڑا سا اٹھ بیٹھے ۔۔
گڑیا ۔۔۔ میری جان ۔۔ اب تم بڑی ہوگئ ہو ۔۔ اس طرح ۔۔
ابھی حمزہ نے بات پوری بھی نہ کی تھی اور میں نے غصے سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ یہی بات امی اور پڑوسن خالہ بھی کہہ رہی تھیں ۔۔ بھلا میں بڑی ہوئ تو آپ بھی تو اتنے ہی بڑے ہوگئے نا ؟ میں نے بچوں کی طرح حساب کتاب کیا ۔۔ اس میں ایسا کیا مسئلہ ہوگیا ؟ آپ بھی ویسے ہیں اور میں بھی ویسی ہی تو ہوں ۔۔ بس ۔۔
اے لڑکی ۔۔۔ سمجھتی کیوں نہیں ۔۔ ہمارے معاشرے میں ایسے رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ۔۔ اب ان کی آنکھیں گہری ہونے لگیں ۔۔ جیسے ڈوبنے والی ہوں۔۔۔ وہ یکدم بولتے بولتے رک گئے ۔۔۔ تم۔۔۔ تم اکیلے نہ آیا کرو ۔۔ یکدم حمزہ کی شکل بدل گئی تھی ۔۔ سامنے بیٹھا شخص اب اجنبی سا لگنے لگا تھا ۔۔ میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔ یہ کون ہے ؟
جہاز لینڈ کرچکا تھا اور ہم سب سامان ٹرالی پہ رکھے اب باہر کو جانے لگے۔ کزن اور آنٹی دونوں اپنی اپنی کار لے کر آئے تھے تاکہ سامان اور افراد آرام سے سما سکیں۔ ایلی کے ساتھ میں اور ثناء بیٹھ گئے اور امی آنئی کے ساتھ جا بیٹھیں ۔ ایلی کی شادی اگلے ماہ طے پائی تھی اور وہ ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی کہ اس کی شادی کی تیاری میں مدد کے ساتھ ہلا گلا بھی کیا جاسکے ۔ہم کافی ساری شاپنگ تو پاکستان سے ہی کرکے لے گئے تھے مزید وہاں کرنی تھی ۔
ہئے۔۔ شوگر! ایلی نے شیشے میں مجھے دیکھتے ہوئے شوخی سے کہا ۔۔ تم ڈانس کرو گی نا ؟ میں نے زبردست میوزک ارینج کیا ہے ۔۔ منڈے والے بہت تیز ہیں ۔۔ میں نے بھی بتایا میری بہنیں آرہی ہیں ۔۔ خوب مقابلہ رہے گا۔
ایلی کا لہجہ بڑا عجیب سا ہوتا جیسے ولایتی بچے انگریزی لہجے میں اردو بولنے کی کوشش کرتے تو کچھ مکس سا ساونڈ سنائی دیتا۔یوں بھی اس کے ذیادہ تر دوست سکھ کمیونٹی سے تھے تو اس کے اکثر لفظ انہی کی زبان میں سے تھے۔
ہاں ہاں۔۔ ایلی ۔۔ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ہم تیار ہیں اور ڈانس کی پریکٹس بھی کرلیں گے ۔۔ ہم سے کون جیت سکتا ہے ۔۔۔ میری بات ختم ہونے سے پہلے ایلی اپنی خوشی کا اظہار ۔۔واو شاو ہاو او ۔۔۔ کرکے کرچکی تھی اور اب ہپ ہاپ میوزک پہ ہماری کار اچھلتی ہوئی گھر کی طرف چل پڑی۔
شوگر ہری اپ۔۔۔ کم آن۔۔ مجھے صبح صبح ایلی کی آواز سنائی دی جو ثناء کو تقریبا گھسیٹتے ہوئے کہیں لے جارہی تھی ۔۔ میں جو بہت نرم گرم بستر میں دھنسی پڑی تھی اور ابھی دس گھنٹے کی مسافت کی تکان بھی نہ اتار پائی تھی بمشکل خود کو اس قابل کیا کہ صورتحال کا جائزہ لے سکوں کہ کیا بھونچال آگیا صبح ہی صبح ۔۔۔
ایلی ثناء کو گھسیٹ کر باتھ روم میں دھکیل آئی تھی اور اب میری گرما گرم رضائی پر حملہ آور ہوچکی تھی اور اسی لئے اسے آتا دیکھ کر میں سنڈی کی طرح پوری طرح سے لحاف اپنے گرد لپیٹ چکی تھی اور پرندوں کے پروں سے بھرے اس لحاف کو خوب مضبوطی سے جکڑ لیا کہ جب ایلی کھینچے گی تو اسے کامیابی نہ ہو ۔۔ لیکن اس ٹارزن کی بچی نے صرف ایک ہی جھٹکے میں مجھے لحاف سمیت فلور پر پٹخ دیا تھا یہ اور بات ہے کہ لحاف پھر بھی نہ چھوڑا میں نے اور اسی طرح سنڈی جیسے رینگتی ہوئی بیڈ کے نیچے گھسنے کی کوشش کرنے لگی مگر اس نے پہلوان کی طرح جمپ لگائی اور مجھے دبوچ لیا ۔۔
ہائے ایلئ۔۔ ظالم کی بچی ۔۔ دم نکل جائے گا میرا ۔۔ اٹھ اوپر سے ۔۔ میں بمشکل سانس بحال کرکے چلائی ۔۔
نہیں پہلے قسم کھاو کہ پھر بستر میں نہیں گھسوگی ۔۔
ارے بابا۔۔ اٹھ گئی اب تو ۔۔ اب کدھر سونا ۔ تو۔۔ تو اٹھ میرے اوپر سے۔۔ میں نے ایلی کو دھکیلا اور اسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوگئی ۔۔ ثناء منہ ہاتھ دھو کر آچکی تھی اور وہ بھی بیزار نظر آرہی تھی ۔
تم دونوں فورا نیچے اجاو ۔۔ امی نے ناشتہ بنا دیا میں آفس جانے سے پہلے تمہیں ٹاون سنٹر چھوڑ دونگی ۔۔۔ بریک میں واپس گھر چھوڑ جاونگی۔۔ تم لوگ میری لسٹ لے جاو اور میری چیزوں کی شاپنگ کرلو۔۔ بنا بریک لگائے ایلی نے اپنا منصوبہ بتا دیا۔۔ جی چاہا کہ ایک جھانپڑ لگاوں کونسا کل ہونی ہے شادی جو ایک دن آرام بھی نہیں کرنے دیا ۔۔
لیکن بس اب کیا کریں بچی کی پہلی پہلی لو میرج تھی ۔۔ یہ سب تو برداشت کرنا ہی تھا ۔۔
ناشتہ کی ٹیبل پہ بیٹھے تھے کہ انکل آگئے ۔۔ سلام دعا کے بعد کچھ رقم ہمیں تھما کر بولے۔۔ یہ ایلی کہ شاپنگ کے لئے نہیں ہیں بلکہ تم دونوں کے لئے ہیں ۔۔ ہم نے اصرار کیا کہ ہمارے پاس اپنی رقم موجود ہے لیکن انکل نے کہاں سننا تھا بحرحال ناشتہ کرکے ایلی نے ہمیں ٹاون شاپنگ کےلئے اتار دیا ۔۔ اس وقت موبائیل فون کا رواج عام نہیں تھا بس لینڈ لائن پر بات کی جاسکتی تھی ۔ ہمیں یاد نہ رہا اور یہ بات طے ہی نہ کی کہ اگر ہمیں کوئی ایمرجنسی ہوئی یا ایلی کو بلانا ہوا تو کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ۔ وہ جلدی۔میں تھی اور ثناء بھی شاپنگ سنٹر کی طرف بھاگے جارہی تھی۔
ہم کوئی تین گھنٹے شاپنگ کرتے رہے پھر لنچ کے لئے ایلی کا انتظار کرنے لگے جسے اب کچھ دیر تک آجانا چاہیے تھا ۔لیکن وہ نہ آئی ۔۔ ثناء پریشان ہو گئی تو میں نے پوچھا گھر کا نمبر ہے پاس؟ اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔ میں نے اسے تسلی دی کہ کچھ دیر مزید انتظار کرلیتے ہیں آجائے گی لیکن تقریبا گھنٹہ بھر مزید گزر گیا تو ثناء رونے والی ہوگئی ۔۔ اوہو ۔۔ اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ کونسا کوئی جنگل۔میں بیٹھی ہو جاو گھومو پھرو ۔۔ تمہیں شوق تھا بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز میں شاپنگ کا ۔۔ اب کھلی چھٹی ہے موجیں مارو ۔۔ میں نے چڑ کر ثناء سے کہا تو وہ بولی۔ ہمیں گھر کا رستہ بھی نہیں پتا اگر ایلی نہ آئی تو ؟ میں نے اسے گھورا ۔۔۔ اور ہم تو جنگلی ہیں ہمیں کیا پتا کہاں جانا ہے ؟ میں نے طنز کی تو ثناء خفا سی ہوگئی۔ مجھے ایلی کے آفس اور ڈیپارٹمنٹ کا پتا تھا کیونکہ ہم۔اکثر آپس میں اس کے کام کے حوالے سے بات چیت کرتے رہتے تھے ۔ آو ۔۔ ثناء کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے میں سیکیورٹی آفیسر کی تلاش میں چل پڑی لیکن کوئی بندہ نظر نہ آیا البتہ باہر پولیس کی پٹرول موبائل کھڑی تھی ۔۔ ثناء نے دیکھ لیا کہ میں اس طرف جارہی ہوں تو میرے بازو سے پکڑ کر پیچھے کو کھینچا ۔۔ پاگل ہو ۔۔ کیا کہوگی پولیس کو ؟ ہم ان کی زبان اور قانون سے واقف نہیں ۔۔۔ میں نے ثناء سے بازو چھڑوا کر اسے گھورا ۔۔ اچھا تو بیٹھی رہو اس سازوسامان کے ساتھ یہیں ۔۔ ثناء نے منہ بنایا لیکن میں نے پروا نہ کی اور پولیس آفیسر کو ایکسکیوز کرکے صرتحال بتائی کہ کزن کا مقررہ وقت پر نہ آنا پریشان کن ہے اور ابھی ہمیں ٹھیک طرح سے ایریا اور گھر کا پتا بھی معلوم نہیں ۔ ایک حل یہ تھاکہ ایلی کو آفس کے ذریعے ٹریک کیا جائے اور دوسرا طریقہ یہ تھا کہ پولیس کار میں ہی گھر تک لفٹ لے لی جائے ۔۔ ثناء کو تو بالکل بھی یاد نہیں تھا کہ گھر کس طرف ہے لیکن میں اپنی عادت سے مجبور سٹریٹ سائن بورڈز دیکھتی آئی تھی اور آرچرڈ روڈ پر ایچ 20 لکھا دیکھا تھا ۔۔ پھر پٹرول اسٹیشن اور اس سے آگے ہم ہائی وے پہ آئے تھے اور وہیں سے ہم نے ٹاون والی روڈ پر کار موڑی تھی ۔۔ آفیسر کو پتا سمجھایا تو اس نے دو سڑکوں کے نام لئے جن میں سے ووڈز روڈ معروف لگا جبکہ کوئینز غیر مانوس لفظ تھا۔ثناء کچھ گھبراگئ کہ ہم پولیس کار میں کیوں بیٹھیں لیکن میں نے گھسیٹ کر اسے کار میں بٹھا دیا ۔ بھلا ہو ان کا جو سیدھا اسی سڑک۔پہ لے گئے جو گھر کے سامنے تھی فورا پہچان لیا اور سیدھا گھر کے دروازے پہ جا اترے ۔ پولیس والوں نے آنٹی سے ملاقات کی اور آنٹی نے ان کا بہت شکریہ ادا گیا ۔ آجائے ذرا آج یہ گھر ۔۔ ایسی لاپرواہی کیوں کی۔۔ آنٹی شرمندگی کے ساتھ ساتھ ہمیں تسلیاں بھی دے رہیں تھیں کی آج ایلی کی شامت آئے گی گو کہ میں نے کہا بھی کہ کوئی مسئلہ نہیں ہم پہنچ تو گئے نا ۔۔ چھوڑیں کہیں پھنس گئی ہوگی ۔
اس شام ایلی کی خوب شامت آئی اور وہ آنٹی سے چھپتے رہی کہ مزید سننا نہ پڑے لیکن آنٹی بھی جب ایک بار کوئی بات پکڑ لیں تو پھر 48 گھنٹے تو کہیں نہیں گئے۔ ایلی کا کہنا تھا کہ اسے چھٹیاں تبھی ملنی جب وہ دئے گئے ٹاسک کو مکمل کرے گی اور اسی چکر میں وہ بھول گئی اور جب یاد آیا تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور پھر پولیس نے بھی فون کیا تو اس نے گھر فون کیا تو بھائی نے بتا دیا کہ ہم گھر پہنچ گئے ۔۔۔
شوگر مجھے پتا تھا کہ تم گم نہیں سکتی ۔۔ تمہیں ہمیشہ حل نکالنا آتا ہے اسلئے بھئ مجھے ذرا تسلی تھی ورنہ ثناء کو تو کبھی اسطرح اکیلے نہ چھوڑ کر جاتی۔۔ اب ایلی مجھے مکھن لگا رہی تھی اور اسی سے مجھے اس کے آئندہ کے لئے بھی اسی طرح کے ایڈونچر کا عندیہ مل رہا تھا۔
ہفتہ بھر اسی طرح شاپنگ میں گزر گیا دو ہفتے بعد اس کی سہیلیاں اور رشتہ داروں نے بھی آجانا تھا ۔
امی اپنے بھائیوں سے ملنے گئیں تو وہیں رہ گئیں ہمیں تو ایلی ویک اینڈ پر ساتھ ہی لے آئی کہ جب تک شادی نہیں ہوجاتی تب تک تو ہم اور کہیں نہیں جاسکتے ۔۔ اسکی ایک سہیلی افریقہ سے آنے والی تھی اور ایلی نے اپنے گھر میں سامان ڈال۔کر اسے رہنے کے قابل کر دیا تھا ۔ طے یہ ہوا تھا کہ شادی آنٹی کے گھر پہ ہی ہوگی اور ادھر سے ہی رخصتی ایلی کے نئے گھر میں ہوگی جو آنٹی نے اسے شادی کا گفٹ دیا تھا۔ایلی کا گھر آنٹی کے گھر سے چھوٹا تھا لیکن لوکیشن بہت اچھی تھی البتہ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کے گھر کے ساتھ جہاں اسکا گیرج ختم ہوجاتا تھا اس دیوار کے ساتھ والی دیوار پب یعنی مئے خانہ کی تھی سارا دن وہ پب خالی رہتا اور ہم اس کی دیوار پہ بیٹھے دھوپ سیکتے تو کبھی پارلر کھول کر بیٹھ جاتے کبھی گوٹا کناری تو کبھی لہسن پیاز وہیں بیٹھ کر چھیلتے۔ البتہ شام ہوتے ہی وہاں خوب رونق بننے لگتی اور ہم بیک یارڈ سے طرح طرح کے تماشے دیکھتے ۔
پاکستان سے کچھ سامان منگوایا تھا امی نے اور پتا چلا کہ حمزہ کی فلائیٹ ہے اگلے ہفتہ ۔ اب یہ بات خوشی کی تھی لیکن میرا دل بجھ سا گیا تھا ۔آنے سے پہلے چاچی کے گھر ہماری دعوت تھی لیکن حمزہ گھر پہ نہیں تھے ہم کھانا کھا چکے تو وہ آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پی۔ ثناء اور امی سے بات کرتے رہے لیکن نہ مجھے بلایا نہ میں نے بات کی۔ اس بے رخی نے میرے اندر کچھ توڑ دیا تھا۔ ایسا پتھر انسان بھلا کیسے کسی سے پیار کرسکتا تھا ۔ بس یہی سوچ کر میں ان ساری لڑکیوں کی قسمت پہ رشک کھانے لگی جو حمزہ سے شادی نہ کرسکیں۔ اگر ان کی شادی ہو جاتی تو بچاری پتھر سے سر ٹکڑا ٹکڑا کے ہی مر جاتیں۔
بڑی آپا کی شادی میں مجھے یاد ہے کیسے حمزہ سارا وقت کام میں مصروف رہتے تھے۔ گھر سارے رشتےداروں سے بھرا پڑا تھا اور سردی کے دن تھے رضائیاں تلائیاں تکیے ایک انبار لگا ہوا تھا ۔ رات کے وقت جو جہاں لیٹ گیا اب وہاں سے نکلنا ممکن نہ تھا ۔۔ صرف حمزہ کے کمرے میں کسی کو اجازت نہ تھی کہ ان کے بیڈ پہ کوئی لیٹ جاتا وہ بھی تھک ہار کر رات کمرہ بند کر لیتے تھے تو صبح فجر تک ان کا دروازہ نہیں کھلتا تھا۔ البتہ مجھے یہ سہولت رہتی کہ آدھی رات تک میں بھی انہیں کے ساتھ کتابوں میں گھسی رہتی یا کبھی ہم غزلیں سن لیتے ۔ میری موجودگی کبھی انہیں بوجھ نہیں لگی تھی ہاں ساری کزنز ضرور جل بھن جاتی تھیں ۔۔ فرحت کا تو سبھی کو پتا تھا کہ حمزہ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی تھی۔ سارا وقت اس کی نظروں کا محور صرف حمزہ تھے مجال ہے جو اسے شرم ہی آجاتی کہ اس کا بھائی اور ابو بھی یہ سب دیکھ رہے ہوتے ۔ کمال تو حمزہ کا تھا جو اس کے اس بیہودہ رویے کو ایسے نظرانداز کرتے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں ۔۔ ارے ہاں ۔۔ یہی تو ۔۔ یہ بات میں نے پہلے کیوں نہ محسوس کی کہ حمزہ تو ایسے ہی سفاک تھے شروع سے ۔ جب وہ کسی کو اپنی زندگی سے نکال دیتے تو سچ میں ۔۔ ایسے ہی کرتے جیسے فاتحہ پڑھ دی۔۔ ہائے۔ ۔ یہ خیال آتے ہی چھنک سی ہوئی اور میرا دل ٹوٹ گیا ۔۔ تو میں حمزہ کی زندگی سے نکل گئی ہمیشہ کے لئے ؟
بس یہ ایسی کربناک حقیقت تھی کہ مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔ میں اوپر کمرے میں جاکر بیڈ پر جا گری اور پتا نہیں پھر کیا ہوا ۔۔ سب تاریک ہوگیا۔۔ اب تک میں اس امید پر تھی کہ کچھ دنوں میں حمزہ کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو ہم پھر سے دوست بن جائیں گے پھر سے گپیں لگائیں گے دور دیسوں کی کہانیاں قصے اور لطیفے ایک دوسرے کو سنائیں گے ۔۔ لیکن آج جب میں نے حمزہ کو دور سے دیکھا تو وہ کوئی نرم گرم انسان نہیں بلکہ ایک پتھر لگا سفاک اکھڑ جزبوں والا شخص تھا ۔ حمزہ کی شخصیت کا یہ پہلو میرے سامنے نہ تھا لیکن آج جب دور کھڑی دیکھ رہی تھی تو ان کی تمام تر شخصیت یکسر مختلف نظر آنےلگی تھی۔
مجھے کچھ پتا نہیں کتنا وقت گزر گیا اس نرم سے بستر میں اندر تک دھنسی پڑی تھی کہ اچانک کوئی میرا گلہ دبانے لگا ۔میں دونوں ہاتھوں سے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کررہی تھی آہستہ آہستہ گرفت سخت ہونے لگی اور اب میرا سانس رکنے لگا تھا ۔ میں چینخنا چاہتی تھی لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی ۔ مجھے لگا کہ میرا دشمن مجھ پہ حاوی ہورہا ہے اور میری نبض ہلکی پڑ رہی ہے ایک لمحہ کو آیا کہ چھوڑ دوں یہ جدوجہد اور اس کے سپرد کردو خود کو۔ جو رہ گیا وہ بھی لے لے ۔۔۔ میری گرفت اس کے سخت ہاتھوں پر کمزور ہوگئی اور تاریکی مزید گہری ہونے لگی ایک سیٹی سی بجنے لگی اور دور بہت دور ایک سفید دھبہ نظر آنے لگا ۔ میں بےجان اس دھبے کو بغور دیکھنے لگی اور اسے دیکھتے دیکھتے اچانک میرا دماغ جاگ گیا صرف ایک ساعت کے لئے ایک کرنٹ میرے دماغ کو گیا اور صرف ایک بات سمجھ میں آئی اسے جیتنے نہ دینا ! بس اگلے ہی لمحے میری گرفت پھر مضبوط ہونے لگی اور مجھے اپنے دانتوں کا آپس میں رگڑ کھانا محسوس ہوا ۔ اب میرے کانوں میں سیٹی کی بجائے کوئی اور آواز آرہی تھی۔۔ شوگر ۔۔۔شوگر ۔۔ یہ ایلی تھی ۔۔ میرے آدھ موئے دماغ نے اسے پہچان لیا تھا لیکن میری سانس اب بھی اکھڑ رہی تھی۔۔ کوئی سخت شے میرے دانتوں سے ٹکرا رہی تھی اور مجھے درد کا احساس تھا ۔۔ ہائے یہ میرے منہ میں کیا ہے اور میرے اعصاب بحال ہونے لگے ۔۔ حلق جیسے کٹ رہا تھا اور مٹھاس کا احساس بیدار ہونے لگا ۔۔ ثناء کیوں رو رہی ہے ؟ میں نے آنکھیں کھول دیں جو غالبا اوپر چڑھ گئی تھیں کچھ دیر پہلے ۔ وہ سامنے کھڑی کانپ رہی تھی اور بری طرح سے رو رہی تھی ۔ ایلی مجھ پہ جھکی ہوئی اور میرے منہ میں کچھ ڈال رہی تھی ۔۔ اور کچھ بول بھی رہی تھی۔۔ شوگر ۔۔۔ ہاتھ کھولو ۔۔۔ اب مجھے سمجھ آنے لگی تھی کہ وہ مجھے گلوکوز کے ساشے منہ میں ڈال رہی ہے جس سے حلق کٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا اور میری مٹھیاں سختی سے بند تھیں جو ابھی تک کی کوشش کے باوجود ایلی نہ کھول سکی تھی۔
سائیرن کی آواز اب بہت قریب سے آرہی تھی اور چند ہی لمحوں میں دو عدد میل نرس میرے سر پہ کھڑے تھے دونوں بھورے گولڈن بال اور ایک انتہائی لمبا جبکہ دوسرا خاصا چھوٹے قد کے صحت مند جوان تھے وہ کچھ پوچھ رہے تھے لیکن مجھے ان کی آواز تک نہیں آرہی تھی ۔ پھر چند ہی لمحوں میں مجھے اٹھا کر ایمبولنس میں ڈال دیا گیا ۔۔ایمبولینس میں میری سانس بحال ہونے لگی جیسے وہاں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہو ۔ میرے ساتھ ایلی کی ایک کزن بیٹھ گئی تھی اور ایلی اپنی کار میں پیچھے آرہی تھی ۔
Sunday, 11 February 2018
سول میٹ
Labels:
novel
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment