Thursday, 8 February 2018

سول میٹ (حصہ دوئم)


ایمبولینس ہسپتال کے سامنے جارکی اور دھگڑ دھگڑ کے ساتھ اگلے چند منٹوں میں مجھے ایک روم میں لا کر چھوڑ دیا گیا میرا منہ سامنے دیوار کی طرف تھا سر کے پچھلی طرف ایلی کے ہلکے ہلکے قہقہے سنائی دے رہے تھے اور پھر مجھے اپنا نام سنائی دیا ۔۔ دیر نہی لگی سمجھنے میں کہ کیا باتیں ہورہی ہیں۔
ایلی اور ثناء اب میرے پاس تھیں اور ایلی کی کزن جو میرے ساتھ آئی تھی اب باہر جاچکی تھی۔ ہئے شوگر۔۔ ایلی نے ایک آنکھ دبا کر مجھے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔ یہ منڈے تو پوچھے ہی جارہے تھے کہ یہ کدھر سے آئی ہے ۔۔ ہاہاہا ۔۔ ایلی اپنے انگریزی پنجابی لہجے میں جملے پھینکنے میں مصروف تھی اور میں جو پہلے ہی حمزہ کی سفاکی کا سوچ کر اس حال کو جا پہنچی تھی اب تپنے لگی تھی۔۔ ثناء نے بھانپ لیا اور ایلی کو تقریبا دھکے دیتے ہوئی باہر لے گئی۔۔ ہم ڈاکٹر کا پتا کرتے ہیں اور دونوں وہاں سے روفو چکر ہوگئیں. کچھ دیر میں ڈاکٹر نے آکر معائینہ کیا کچھ ٹیسٹ لکھے اور ہمیں گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
راستے میں ایلی کچھ خاموش تھی پھر لگا جیسے وہ کچھ کہنے کی کوشش میں ہے۔ شوگر۔۔۔ اور ایک لمبا وقفہ کے بعد پھر بولی۔۔ تمہیں اس طرح کا دورہ پہلے بھی پڑا ہے کبھی ؟ وہ مسلسل سامنے دیکھ رہی تھی البتہ اس نے ہونٹ بھینچ رکھے تھے جس سے اس کی گھبراہٹ کا اندازہ ہو گیا تھا ۔ اف خدایا۔۔۔ ایلی تم نے کیا سوچا کہ مجھے کوئی بھوت کا اثر ہوگیا؟ ایلی نے یکدم مجھے دیکھا اور میری ہنسی نکل گئی ۔۔ وہ سچ مچ یہی سمجھی تھی اور اس وقت اس کی ہوائیاں یہ سوچ کر اڑ رہی تھیں کہ رات ہم اس کے نئے گھر پہ گزاریں گے تاکہ گھر کو مکمل طور پر استعمال کے قابل بنا دیا جائے اور شادی کے بعد ان دونوں کو مشکل نہ ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر ثناء کو دیکھا تو حیرت انگیز طور پر میری بہن بھی اس حوالے سے مجھے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اسے بے یقینی سے گھورا تو وہ بول پڑی۔ میں نے سنا ہے کہ سمندر پہ سے کنواری لڑکی گزرے تو ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ کوئی جن ون یا کوئی پری اس کی عاشق ہو جاتی ہے اور پھر وہ اس کے ساتھ ہی چمڑی رہتی ہے ۔۔ اور شوگر تمہارے تو بال بھی اتنے۔۔۔ لمبے ہیں ایلی نے میرے گود سے گرتے لمبے بالوں کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔ اف توبہ ۔۔۔ تم لوگ تو پاگل ہو ۔ بھئی تھکاوٹ سٹریس اور ٹھنڈ تھی اس پر تمہارا گھر اونچائی پر ہے تو کچھ آکسیجن کی کمی سے سوتے میں ڈروانا خواب دیکھ لیا اور تم نے چمچ مار مار کے میرے دانت ٹیڑھی کردئے ۔۔ منحوس کہیں کی۔۔ ایلی ہنسنے لگی ۔۔ میں تو سچ میں سمجھی کہ تم بھوت بن گئی ہو۔۔ پھر بہت دیر تک یہ بک بک چلتی رہی گھر اتر کر ایلی نے وہاں سے غیر ضروری سامان کار میں بھرا اور ثناء کو ساتھ لیا کہ رات کھانے کا سامان بھی لے کرآئیں گے  اور کچھ برتن بھی لانے ہیں تاکہ کچن چالو ہو۔ مجھے آرام کرنے کا حکم ملا جو یکسر مسترد ہوگیا۔ میں نے کافی بنا کر مگ اٹھایا اور اوپر کمروں میں مہمان داری کے انتظامات کا جائزہ لینے لگی۔ زیادہ تر تو سب شادی کے روز ہی واپس چلے جائیں گے البتہ جو رشتہ دار دور سے آرہے تھے ان کے قیام طعام کا بندوبست آنٹی اور ایلی دونوں کے گھروں میں کرنا تھا اور یہیں ایلی کا جہیز بھی کسی طرف رکھناتھا۔ میں سیٹنگز میں مصروف ہوگئی۔
شام ہوگئی تھی لیکن دونوں ابھی تک نہ آئی تھیں ۔مجھے اکیلے ڈر تو نہی لگا لیکن ایلی کا محلہ بالکل سنسان تھا جہاں ایک طرف شراب خانہ تو دوسری طرف دو گیرج کا فاصلہ اور پھر گھر تھا اور وہ بھی کسی آئرش سکاٹش دکھنے والے جوان کا تھا جو صبح تو نظر نہ آیا کبھی لیکن دن کے وقت اپنی سائیکل پہ سوار روز جاتا تھا اور شام کے وقت واپس آجایا کرتا تھا کبھی اس کے سوا اسے دیکھا ہی نہ تھا ۔ باقی گھر خاصے دور تھے اور سبھی انگش لوگ تھے۔ گھر کے پیچھے ایک خاصا لمبا لان نما احاطہ پڑا تھا جہاں ابھی گارڈن نہی بنوایا تھا البتہ کچھ گلاب اور سبزیاں آنٹی نے خود ہی لگا رکھی تھیں۔ اس کے پیچھے ہائی وے گزرتی تھی اور ایک چھوٹی سی مارکیٹ بھی تھی ۔اسی لئے آنٹی بڑے فخر سے بتایا کرتی تھیں کہ انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو سب سے مہنگے علاقے میں گھر لے کر دیا تھا۔ یہ بھی عجیب دوڑ تھی یہاں۔۔ دوسروں کو دکھانے کیلئے بہت سا غیر ضروری خرچہ کرتے ہیں۔
دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے آئی کے ذریعے باہر دیکھا۔ ایلی کا لمبا ناک سامنے نظر آیا تو میں نے دروازہ کھول دیا ۔ پکڑو پکڑو۔۔ اور میرے بازو برڈ بن کیک اور کروسن سے بھر گئے ۔ اچھا تو اب ہم یہیں ہیں ۔ کچن کا تقریبا سارا ہی سامان آگیا ۔ ابھی کیا لائی ہو بھوک لگ رہی ہے ۔ میں نے سب کچھ کاونٹر پر انڈیل دیا اور ڈائننگ پر رکھے برتن پٹولنے لگی۔ تمہارے لئے فش اینڈ چپس لائی ہوں ابھی ابھی لئے فریڈی سے۔۔ میں نے جھٹ سے اپنے فش اینڈ چپس ٹرے میں رکھے اور فریڈی کے نعرے لگاتی ہوئی ٹی وی کے سامنے جا بیٹھی ۔ دونوں کچن میں سامان لگانے لگیں اور میں اس وقت کی سب سے مشہور فلم ایلین دیکھنے بیٹھ گئی ۔ فریڈی ظالم کے ہاتھ کا ایسا ذائقہ تھا کہ لوگ لائینوں میں لگ کر اس کا آرڈر لیتے ۔ سادہ سا غریب فشر مین جو اب بوڑھا ہورہا تھا کئی سالوں سے اسی جگہ اپنا ٹھیہ لگاتا اور مقررہ ہدف کے بعد اٹھ جایا کرتا ۔ لوگ ترستے رہتے لیکن فریڈی جب ایک بار اٹھ جاتا تو پھر کوئی لالچ یا دھمکی اسے واپس نہ بٹھا سکتی تھی ایک بار چند نوجوانوں نے بئیر کے ساتھ اس سے فش اینڈ چپس بنانے کو کہا انکار پر انہوں نے اسے مارا پیٹا لیکن پولیس کی بروقت آمد پر اس بوڑھے فریڈی کی جان بچ گئ اور لڑکے جیل میں ڈال دئے گئے ۔ ایلی کچھ زیادہ نہ جانتی تھی لیکن میں ضرور ارد گرد سے معلومات لینے کی کوشش کرتی کیونکہ مجھے اس بوڑھے پہ ترس آتا تھا کہ اب اسے آرام کرنا چاہیے اور اسکی اولاد کو اس کی خدمت کرنی چاہیے لیکن کبھی کسی کو اس کے ساتھ نہ دیکھا تھا۔ پھر ایک روز مجھے موقع مل گیا جب ہم نے دوسرے شہر جانا تھا اور ہائی وے پہ کار اتارنے سے پہلے کچھ دیر سروس اسٹیشن پر اسکے ٹائر وغیرہ چیک کروا رہے تھے ۔ فریڈی کے پاس زیادہ رش نہ تھا سوچا موقع اچھا ہے فش اینڈ چپس بھی لے لوں اور کچھ کوشش کرکے فریڈی سے بھی معلوم کروں کہ وہ کون ہے؟
میری باری فورا ہی آگئی تھی اور میرے پیچھے ابھی تک کوئی اور گاہک نہی آیا تھا ۔ اس نے مجھے مسکرا کر دیکھا تو میں بھی مسکرا دی میرے فش اینڈ چپس پیک کرتے ہوئے اس نے کچھ ایکسٹرا ڈال کر مجھے شرارت سے آنکھ ماری۔ میں ہنسنے لگی اور فریڈی کا خوشگوار موڈ دیکھ کر جھٹ اس سے سوال کر ڈالا ۔ پہلے اس کے فوڈ کی تعریف کی اور میں نے اسے بتایا کہ میں پاکستان جا کر بھی سب کو تمھارےہاتھ کے ذائقہ کا بتاونگی ۔تم کس طرح اتنا مزیدار بنا لیتے ہو جبکہ یہاں بہت سے تمہارے نام سے بیٹھے ہیں مگر تم جیسا نہی بنا سکتے ۔ فریڈی خوش ہورہا تھا کہ میں اس کے فوڈ کی تعریف کررہی ہوں ۔ اس نے مختصر بس یہی کہا کہ میں نے بہت محنت کی ہے پوری ایمانداری سے اور مکمل صفائی سے فوڈ تیار کرتا رہا اور آج تک پہلے دن جیسی محنت کرتا ہوں لوگ نقل تو کرتے ہیں لیکن محنت نہی کرتے اسی لئے بہت جلد ناکام ہوجاتے ہیں۔ میں نے اس کے خاندان کا پوچھا تو کچھ اداس ہوگیا کچھ دیر خاموش رہا مجھے لگا اب فریڈی جواب نہی دے گا اور اس سے پہلے کے غصہ کرے میں اس کے پیسے دوں اور جاوں۔ میں نے رقم اسکی طرف بڑھائی اور بہت خلوص سے اس کا شکریہ ادا کیا خصوصا جو اس نے ایکسٹرا چپس ڈالے وہ اس کی عنایت تھی اور میں اس کے جذبے کی قدر کرتی ہوں۔ فریڈی نے سر اٹھایا اور بولا یہ فوڈ میرے بیٹے کا مستقبل ہے ۔ میں اس کے ساتھ دھوکا نہی کرسکتا ورنہ میرا بیٹا برباد ہوجائے گا ۔ بس فریڈی نے اتنا کہا اور اپنا سامان سمیٹنے لگا ۔ میں بھی احتیاطا پیچھے ہٹ گئی کیونکہ ایسے بوڑھے اور تنہا آدمی سے کیا بعید ۔
ایلی بھی کار تیار کرچکی تھی اور ہم فوری وہاں سے نکل گئے ۔ راستے میں ایلی اسوقت اچھل پڑی جب اسے پتا چلا کہ فریڈی کا کوئی بیٹا بھی ہے ۔ہائے ۔۔ آج تک یہ بات کسی نے نہی بتائی بلکہ میرا تو خیال ہے کہ فریڈی نے شاید تم سے پہلے کبھی اس بات کا ذکر بھی نہ کیا ہو۔
کیسا ہوگا اس کا بیٹا؟ کیا کرتا ہوگا؟ ایلی بہت دیر تک ایسے سوال دہراتی رہی اسے سچ میں بہت حیرت ہوئی کہ جس فریڈی کو وہ آج تک خبطی بڈھا سمجھتی تھی وہ ایک عدد جوان لڑکے کا باپ تھا اور اس کا کوئی گھر بھی تھا۔
دو تین روز بعد ایلی کا گھر مکمل سیٹ ہوچکا تھا شاپنگ مکمل ہوچکی تھی ۔ اس کی چند ایفریکی سہیلیاں اور کچھ انڈین سہیلیاں بھی آگئی تھیں ۔ ان لڑکیوں کو ہم نے ایلی کے بیڈ کے ساتھ والا کمرہ دیا تھا اور دوسرے دو کمروں میں اپنی کزنز اور ایک میں مکمل ہمارا قبضہ تھا۔
اٹھو اٹھو ۔۔ جلدی سے تیار ہوجاو ۔۔ ثناء نے میرے لحاف کو اٹھا کر طے کرنا شروع کردیا اور میں شرٹ کے بٹن بند کرتےہوئے نیچے اترنے لگی ۔۔اب کیا ایمرجنسی ہوگئی؟ میں نے تھکے لہجے میں پوچھا۔ حمزہ کی فلائیٹ لینڈ ہوگئی ائیرپورٹ جانا ہے وہ ادھر نہی آئیں گے ہم سامان لینے جارہے ہیں ۔۔۔ ثناء تیز تیز بول رہی تھی اور میرے اندر سرد لہر پھیل کر اب مجھے مکمل سرد کر چکی تھی۔
تم اور ایلی چلے جاو ۔۔ میں ڈھولکی کے لئے انتظامات کر لوں۔ میں نے بالوں کا جوڑا باندھتے کہا۔ نہیں نہیں ۔۔۔ مجھے ائیرپورٹ پر مسئلہ ہوگا اگر انہوں نے لاؤنج میں نہ جانے دیا تو تم ہی کوئی طریقہ کروگی۔ حمزہ کی کونیکٹنگ فلائیٹ ہے وہ باہر نہیں آئیں گے ۔ تم ہی جاو گی بیگ لینے ۔
منہ ہاتھ دھو کر میں کچن کی طرف گئی تو کافی کا مگ لئے ثناء مجھے کچن سے باہر کو دھکیلنے لگی ۔ کپڑے بدلو اور کار میں گھسو ہمیں فوری پہنچنا ہے ۔۔ میں ابھی پلٹی بھی نہ تھی کہ میرے کندھے پہ ایلی نے پینٹ رکھی ۔۔ استری کردی ہے جاو پہنو اور جمپربھی ادھر ہی پڑا ہے ۔۔ ہلڑ بلڑ میں میں تیار ہوکر نیچے آگئی اور ابھی لانگ شوز ہاتھ میں ہی تھے کہ وہ دونوں کار اسٹارٹ کرچکیں ۔۔  کار میں بیٹھ کر پہننا دیر ہوگئی۔ اور میں شوز ہاتھ میں لئے کار میں جا بیٹھی اور ساتھ ہی ایلی نے تیز سپیڈ سے گاڑی سڑک پر ڈال دی ۔ شوز پہن کر میں نے ثناء سے اسکارف پکڑا اور سر پہ لپیٹا ۔کافی ابھی گرم تھی ایک چھوٹا سا بن بھی ثناء نے میرے ناشتے کےلئے اٹھا لیا تھا۔ تم دونوں جب اٹھی تھیں تبھی جگا دیتی مجھے ۔۔ میں نے شکوہ کیا تو ایلی بولی۔ اٹھتے ہی جگا دیا تھا تمہیں بس ہم نے ناشتہ کرلیا اور تم کررہی ہو۔ تو ایسی کیا ایمرجنسی تھی وہ بیگ جمع کروا جاتے ہم بعد میں اٹھا لیتے ۔ میں نے کافی کا گھونٹ اتاتے ہوئے ثناء کو دیکھا۔ اچھا اور امی سے لتر کھاتے۔۔ وہ تیز لہجے میں بولی ۔۔ ایلی ہنسنے لگی۔۔ اف آنٹی تو حمزہ کا اتنا خیال کرتی ہیں کہ لگتا ہے جیسے انہی کا بیٹا ہو۔۔ میں بدستور کافی اپنے اندر انڈیلنے میں مصروف رہی اور سوچتی رہی کہ ایسا کونسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ان کا اور میرا آمنا سامنا نہ ہو ۔ مجھے ان سے نفرت کا احساس ہونے لگا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ جسطرح انہوں نے مجھے زندگی سے نکال دیا اب میں بھی ان کو بھولنا چاہتی تھی۔
ائیرپورٹ پر ایلی نے مجھے اور ثناء کو اتارا اور خود پارکنگ کی طرف چلی گئی ہم نے سامان لے کر ادھر ہی آنا تھا اور وہ کار میں ہی بیٹھی رہے گی تاکہ رش میں پھنسے بنانکل جائے۔
ہم دونوں مطلوبہ ٹرمینل کی طرف چل پڑے ۔ کچھ ہی دیر میں فلور انچارج سے رابطہ ہوگیا اور اس نے بتایا کہ سامان دے کر حمزہ واپس جہاز میں جا چکا ہے ۔ ثناء کچھ حیران سی ہوئی کہ ایسا تو حمزہ نے کبھی نہیں کیا کہ بنا ملے ہی چلے جائیں لیکن میں قدرے پرسکون تھی کہ اچھا ہوا جو حمزہ سے سامنا نہیں ہوا۔
سامان ٹرالی پر رکھا اور میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا میرے دائیں طرف کوئی کھڑا تھا ۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے بال کان کے پیچھے کئے تو مجھے شدت سے کسی نظر کامیرے چہرے کو گھورنا محسوس ہوا ۔ مجھے عجیب سا خوف تھا کہ اگر پلٹ کر دیکھا تو ؟
اسی لمحے ائیرپورٹ سیکیورٹی نے ہمیں وہاں سے ہٹنے کو کہا کہ دوسری فلائیٹ آگئی ہے اور اس کا سامان لگج بیلٹ پر ڈالا جارہا تھا ۔ میں نے جلدی سے ٹرالی کو پُش کیا اور کچھ آگے جاکر ثناء کو ڈھونڈنے لگی جو ابھی چند لمحے قبل میرے ساتھ کھڑی تھی ۔ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد میں باہر کی طرف چل پڑی۔ گیٹ کے پاس ثناء مجھے مل گئی ۔
ایلی کار لے آئی اور ہم واپسی کے لئے نکل گئے ۔ ثناہ نے ابھی تک بتایا نہ تھا کہ وہ حمزہ سے ملی کہ نہی ۔ تم کہاں چلی گئی تھیں ؟ میں نے ثناء کو کریدنا چاہا ۔ ادھر ہی تھی ۔مجھے لگا ثناء کچھ چھپانے کی کوشش کررہی ہے شاید وہ بتانا نہیں چاہتی کہ حمزہ سے ملاقات ہوئی ہے ۔ لیکن وہ کیوں چھپائے گی ؟ البتہ مجھے یقین ہے کہ وہاں حمزہ ہی تھے جو میرے چہرے کو دھیان لگائے دیکھتے رہے اور میرے چونکتےہی کہیں غائب ہوگئے تھے۔ ذہن الجھ گیا کہ سفاک جزبوں والا شخص کیونکر مجھے دیکھے گا؟ وہ اس روز کی لڑائی کے بعد کبھی مجھ سے نہ ملے تھے اور نہ ہی کبھی پوچھا ہی۔ انہوں نے اپنے انداز سے واضح کردیا تھا کہ ان کی اَنَا کے سامنے کسی کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ہماری بچپن کی محبت جو کسی بھی طرح کے مفاد اور غرض سے پاک تھی انہوں نے اسے یکسر بھلا دیا مجھے ایکدم تنہا کردیا۔میں نے تو کبھی حمزہ کے سوا کسی کو دوست مانا ہی نہ تھا ۔ ایسی کوئی سہیلی نہ تھی جس سے میں اسطرح ہر بات کر لیتی۔وہ بھی ہر بات مجھے ہی بتاتے تھے اور کبھی جھجھک نہ ہوئی ۔یہ گزشتہ چند ہفتے تو ہمارے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا جو اجنبیت نفرت اور سردمہری پر مبنی تھا۔ میں دکھی تھی بہت رنج تھا کہ اب تک میں کیسے دھوکاکھاتی رہی جسے ایسا اچھا جانا وہ بالکل بھی ویسا نہیں ۔
ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ میں نے ایلی کو گاڑی سابقہ ٹریک سے شفٹ کرتے دیکھا تو پوچھا۔ امی کو لینے جارہے ہیں ۔ ثناء نے جواب دیا تو مجھے ان دونوں پہ غصہ آنے لگا۔ یہ تم لوگوں کو مسئلہ کیا ہے ؟ مجھے کیوں نہی کوئی بات بتاتی پہلے ؟ ایلی ہنسنے لگی ۔۔ شوگر ۔۔۔ تم بہت ایزی گرل ہو بالکل بھی پرابلم نہی کرتی تو ہم بھی ریلیکس ہیں خود ہی فیصلہ کرلیتے ہیں ہمیں پتا ہے تم مائینڈ نہی کروگی۔ ایلی نے کمال مہارت سے بات نمٹادی۔ زیادہ چالاک نہ بنو ۔ مجھے کم از کم کوئی کپڑے تو اٹھانے دیتی اب اچھا لگے گا سارے خاندان میں اس حلیے میں پھرونگی ۔۔ او کم آن شوگر ۔۔ ایلی نے قہقہ لگایا اورثناء بھی ہنسنے لگی ۔ شوگر تم اتنی سمارٹ لگتی ہو اسطرح ۔۔۔ میں نے بیچ میں بات کاٹتے کہا۔ چپ کرو ایلی ۔۔ ادھر ہم اکیلے ہیں تو میں ریلیکس ڈریسنگ کر لیتی ہوں لیکن خاندان میں جانے سے پہلے آداب کا خیال رکھنا چاہیے ۔۔۔ اوہو ۔۔ ایلی نے چڑ کر بات کاٹی ۔۔ پہلے نیلی کی طرف چلے جائینگے تم چینج کرلینا کونسی قیامت آگئی ۔بحرحال ہم لڑتے مرتے تقریبا دو گھنٹہ کی مسافت کے بعد شہر میں داخل ہوئے اور سیدھے کزن نیلی کے گھر پہنچے ۔ ایلی نے مجھے نیلی کی الماری دکھائی اور میں نے ایک ہلکا سا سوٹ سلیکٹ کرکے بدل لیا۔ نیچے اتری تو کچن سے کباب کی خوشبو بھوک چمکانے لگی۔۔ چائے کے ساتھ کچھ سنیکس لئے۔۔ پھر امی کی طرف نکل گئے ۔
امی مامی دادو سبھی رات دیر تک ایلی سے اس کے منگیتر کی باتیں کرتے رہے اور پھر ہم سونے کیلئے کزن کی طرف چلے گئے۔ صبح دیر تک سوئے اور دن میں امی کو ساتھ لے کر واپس آگئے ۔
شادی شروع ہوچکی تھی ۔ خوب ہلہ گلہ جاری تھا۔ ایلی کی سہیلیاں تو زبردست ڈانس کرتی تھیں ۔لڑکے والوں کے چاروں شانے چت کردئے اور پہلے دن سے ان کو دبا لیا۔ہم بھی کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے تھے اور ایلی تو سب سے زیادہ بے قابو ہورہی تھی ۔ کتنی بار پکڑ کر بٹھایا کہ دلہن ہو تھوڑا سا کم ناچو ۔۔ سارے ہی حیران ہوئے جا رہے ہیں کہ یہ کیسی دلہن ہے جو اپنے بیاہ پہ خود ہی ناچے جارہی ہے بلکہ کسی کی باری ہی نہی آنےدیتی۔ اس زمانے میں ابھی اتنا آزادانہ ماحول نہ تھا۔ کچھ نہ کچھ شرم اور روایات کاخیال کیا جاتا تھا۔ لیکن ایلی کی شادی نے سارے نئے رواج قائم کردئے ۔
مہندی والے روز ہم لڑکے کے گھر گئے تو ایلی چھپ کر پیچھے والی سیٹ پہ جا بیٹھی ۔ کچھ دور جاکر ہم پھر واپس پلٹے اور اسے گھسیٹ کر کار سے اتارا۔۔ پھر بھی نہ مانی تو ڈنڈا ڈولی کرنا پڑا اور کسی نے بازو تو کسی نے ٹانگوں سے پکڑ کر گھر میں پھینکا ۔ ایسی شرارتی لڑکی کی شادی کوئی کیسے کرے۔ آنٹی تو ہمارے منہ چوم چوم کر گیلے ہی کر دیتیں کہ ہم نے ان کی جھلی کو سنبھال لیا ورنہ اس کے تماشے ساری زندگی کیلئے خاندان کی زبانوں پہ رہتے۔
ماموں کا لڑکا مسلسل غیر محسوس طریقے سے میرا پیچھا کرتا رہا اور اس کی پسندیدگی کا اندازہ اس کا میرے ساتھ ہر کام میں آگے بڑھ کر مدد کرنے اور میرا خیال رکھنے سے ہوگیا ۔دوسال بڑا تھا اور اپنے گھر میں بھی بڑا بیٹا تھا ۔ مامی تو یوں بھی کئی بار امی سے رشتے کی بات کرچکی تھیں بس میں ہی پاکستان چھوڑنے کو تیار نہ تھی اسلئے مامی کو خود ہی بتا دیا تھا کہ آپ کامی کیلئے کوئی اور لڑکی دیکھیں بلکہ جسطرح کا اس کا مزاج تھا اسے دیسی لڑکی بالکل نہی جچتی بلکہ کوئی گوری دلہن لے آئے اور اسے مسلمان کرکے کچھ گزارہ کرلے ۔ مجھ سے بھی شاید اسی لئے کامی کی بہت بنتی تھی کہ میرے مزاج میں ویسٹرن پن زیادہ تھا اور پھر مجھ میں حسد اور بغض جیسی برائیاں نا ہونے کے برابر تھیں۔ ہر کسی کی خوشی میں خوش رہنا اچھا لگتا تھا۔
مہندی کا فنگشن بہت اچھا ہوا ۔ایلی کے منگیتر کو خوب تنگ کیا ۔وہ غریب بھی ڈر گیا کہ شادی کے بعد ایلی کے جہیز میں ہم بھی شامل تھے جب تک پاکستان واپسی نہ ہوتی۔
شادی والے روز ایلی کو پارلر چھوڑا ساتھ دو انڈین سہیلیاں بھی تھیں۔ سارے رشتےداروں کو ناشتہ کروا کر ہم نے ضروری تمام انتظامات کئے ۔انکل آج اداس تھے میں بار بار ان کو تسلی دیتی کہ کونسا دور جارہی ہے 20 منٹ کی ڈرائیو ہے لیکن باپ کے دل کو کیسے سمجھایا جاتا۔
شادی آنٹی کے گھر تھی پڑوسی کرسچنز نے اپنے طور پر پریئر کی اور ایلی کے لئے دعاکی۔ پھر شراب کی بوتلیں اٹھا لائیں خیر سگالی کے طور پر تو آنٹی نے ہنستے ہوئے انہیں اپنے رواج کے بارے میں کچھ تفصیل بتائی اور شکریہ ادا کیا ۔ البتہ انہیں دعوت دی کہ وہ ساری شادی کو دیکھیں اور انجوائے کریں۔ وہ باقی محلے والوں کے ساتھ کافی دیر تک شامل رہیں اور پھر بارات کے آنے کے وقت کا کہہ کر گھروں کو چلی گئیں۔
سب تیار تھے ۔ میں نے سبز رنگ کا کام والا لہنگا پہنا اور بال کھلے چھوڑ دیئے ۔سادہ سا میک اپ کیا اور ہلکی سی جیولری پہنی۔ البتہ ہائی ہیل کی بہت عادی تھی سو اس روز باوجود بہت کام کے میں نے خاصی ہائی ہیل پہن رکھی تھی ۔ اسی لئے ساری کزنز میں اونچی بھی لگ رہی تھی حالانکہ ہمارے یہاں سبھی کے قد خاصے اونچے ہیں۔پھر بھی اس روز سب کی نگاہیں میرے تعاقب میں تھیں خصوصا میرے کزنز کی ۔ ایک انکل امریکہ کی ایک دور دراز کی اسٹیٹ سے آئے تھے اور ان کے لڑکوں سے پہلی ملاقات تھی ۔ بڑا لڑکا کسی یونیورسٹی میں آخری سمسٹر میں تھا اور اس کی ماما ہماری فیملی سے نہی تھیں انکل بی بی سی میں رپورٹنگ کررہے تھے اور ان کے بھائی مختلف چینلز کے لئے ڈاکیومینٹری بناتے تھے ۔خاصے خوشحال اور بارعب لوگ تھے۔ انکل کے بھائی جو ٹام کروز جیسے نظر آتے تھے ، نے فلم بنانے کے بہانے میری ڈھیر ساری تصاویر لے لی تھیں اور اب میں ان سے چھپنے کی کوشش کررہی تھی کیونکہ اسطرح ان کا گھورنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔میں اس چاکلیٹی ہیرو سے بچتی ہوئی امی کی تلاش میں اندر چلی گئی البتہ مجھے لگا کہ وہ میرے پیچھے ہی اندر آجائیں گے۔
امی کچن میں ایک آنٹی سے کسی بات پر بحث کررہی تھیں ۔میں ذرا قریب گئی ۔ ہائیں۔۔۔ یہ تو ثناء کی شادی کی بات ہورہی ہے۔میں رک کر سننے لگی۔باجی ابھی تو میں نے سوچا بھی نہیں ۔ذرا شادی سے فارغ ہو لینے دیں تو ثناء کے ابو سے مشورہ کرتی ہوں۔ امی نے ان خاتون سے کہا تو وہ جلدی سےبولیں۔ میں کونسا آج ہی شادی کرنے کو کہہ رہی ہوں آپ بھائی جان سے بات کرلیں مجھے یقین ہے انہیں کوئی اعتراض نہی ہوگا آخر اتنا قریبی رشتہ ہے اور نادر بھی بہت لائق اور کامیاب بچہ ہے ۔ آپ آج ہی بات کریں  تو پھر نکاح کرلیں گے اسی ماہ ۔بس مجھے انکار نہ کیجئے گا ۔۔۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی میں بھاگتی ہوئی باہر کو نکلی کہ ثناء کو بلا لاوں ابھی کمرے کے دروازے میں ہی تھی کہ تیزی کے باعث  کسی کھمبے جیسی شے سے ٹکرائی اور سر چکرا گیا، لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے کو گئی اور گرنے ہی لگی تھی تو کسی نے بہت سختی سے بازو سے پکڑ لیا اور زور سے اپنی جانب کھینچا ۔ایک لمحے میں خاندان کے سارے لڑکے ذہن میں گھوم  گئے کہ یہ کونسا ہیرو ہے ؟ میں اس زوردار جھٹکے سے اس کھمبے کے سینے سے جا ٹکرائی جو خاصا مضبوط محسوس ہوا ۔ہائے ۔۔ اتنی ہیل پہن کر بھی میں ابھی کندھے تک ہی پہنچی ۔۔ یہ کون ہے ایسا لمبا چوڑا ؟ میرے دل میں تجسس ابھرا اور میں سر اٹھانے ہی والی تھی کہ وہ فولادی بازو مجھے گھیرنے لگے اور اگلے ہی لمحے ایک مانوس سی مہک میرے حواس پہ چھا گئی۔۔ دل کی دھڑکن ڈرم کی طرح بجنے لگی اور بدن ٹھنڈا پڑگیا ۔۔  حمزہ؟
یہ کہاں سے آگئے ؟ ایلی نے مجھے بتایا بھی نہی کہ حمزہ بھی مدعو ہیں ؟ ثناء اس روز کیا چھپا رہی تھی ؟ ایسے بیشمار خیالات سے ذہن الجھ گیا نگاہ اٹھائی اور حمزہ کا باوقار چہرہ سامنے تھا۔ ان کی بانہیں اب بھی مجھے گھیرے ہوئے تھیں اور اب ہمارے چہرے آمنے سامنے تھے ہم پتا نہیں کتنے لمحے یونہی ایکدوسرے کو تکتے رہے بےدھیانی میں پتا نہیں کب میں نے بانہیں ان کے گلے میں ڈال دی تھیں خبر اس وقت ہوئی جب حمزہ کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئ اور وہ آہستہ سے میری طرف جھکے ۔ کیسی ہو؟ ان کی سرگوشی میرے چہرے کو چھو رہی تھی اور میرے حواس اب بھی اس قابل نہیں تھے کہ کچھ کہہ سکتی البتہ ان کے قرب کا احساس ہوا تو جلدی سے خود کو پیچھے کرنا چاہا لیکن میرے بال انکی شرٹ کے بٹن میں اٹک گئے تھے پیچھے ہٹ نہ سکی اور اب پھر ان کے سینے سے سر ٹکا لیا ۔ میری بےبسی پر انہوں نے خود ہی میرے الجھے بال بٹن سے الگ کئے اس دوران مجھے لگا جیسے وہ اس صورتحال کا مزہ لے رہے ہیں۔ میں شرمندہ سی ہوگئی کہ آسمان سے گری تو کھجور میں جا اٹکی ۔ ٹام کروز سے بچتی ہوئی سلوسٹر سٹیلون سے جاٹکرائی ۔ ہائے میری قسمت۔ جس سے کبھی نہ ملنے کا ارادہ کیا اس سے ایسا ملی کہ اب سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ایسی بوکھلاہٹ اور بے بسی کبھی پہلے تو نہ ہوئی تھی۔
حمزہ ۔۔ آگئے ؟ امی کی آواز آئی اور میری جان میں جان آئی۔ امی اب حمزہ کے ماتھے پہ بوسا دے رہی تھیں اور ان رشتے والی آنٹی سے اپنے چہیتے کا تعارف کروا رہی تھیں۔ مجھے لگا یہی موقع ہے نکل جانا چاہیے ۔ جونہی میں باہر کو مڑی تو سامنے وہی ٹام کروز اپنے بھائی جان کے ساتھ دروازے سے داخل ہوتے نظر آئے۔ میں وہیں رک گئی اوراس لمحے مجھے لگا جیسے مجھے پانی کی پیاس بہت شدت سے لگ رہی ہے ۔ اب نہ آگے کو جاسکتی تھی اور نہ ہی پلٹ کر حمزہ کا سامنا کرنا چاہتی تھی ۔لیکن امی نے رش بنتے دیکھا تو حمزہ کو ساتھ لے کر ڈائننگ کی طرف چلی گئیں اور میں کچن کی طرف چل دی۔
پانی پی رہی تھی کہ امی کی آواز آئی۔ حمزہ کے لئے کچھ لے آو چائے کے ساتھ۔ اس دوران بی بی سی والے انکل خلیل اور ان کا بھائی بھی امی کے پاس اندر جاچکے تھے ۔ میں نے الیکٹرک کیٹل میں پانی ڈالا اوراسے آن کردیا۔ پھر کچھ کیک مٹھائی اور گاجر کا حلوہ جو سپیشل شیف سے بنوایا گیا تھا ایک ٹرے میں رکھ کر اندر دینے چلی گئی ۔ بنا ادھر ادھر دیکھے ٹیبل پر ٹرے رکھی اور جلدی سے پلٹ گئی البتہ وہاں کمرے میں حمزہ کی عدم موجودگی کا احساس ہوا۔شاید واش روم گئے ہونگے یہی سوچ کر کچن میں آرہی تھی کہ ایلی کی سہیلی نے بتایا کہ وہ اور ثناء ایلی کو لینے جارہے ہیں اور بارات بھی وہاں سے نکل چکی تھی ۔ میں اس کی بات سن کر کچن میں پلٹی کہ جلدی جلدی چائے دے کر مہمانوں کو دیکھوں اور بارات کے استقبال کے انتظامات کو ایک بار پھر چیک کروں۔ کچن کا ایک دروازہ بیک یارڈ میں کھلتا تھا جہاں آج سارے بڑے بڑے پتیلے کھانوں کے پڑے تھے اور وہیں پیچھے گیرج میں کیٹرنگ کا سٹاف کام میں مصروف تھا۔ باہر شدید سردی ہونے لگی تھی اور اس ہفتے برف پڑنے کا عندیہ بھی مل چکا تھا ۔ میں نے سوچا کہ چائے امی کو دے کر اوپر سے اپنا کوٹ اتار لاوں کہیں سردی میں بیمار پڑگئی تو شادی کی ساری محنت برباد ہوجائے گی اور ایلی اداس ہوگی ۔
چائے تیار کرکے امی کو دی اور ایک نظر کمرے میں موجود افراد پرڈالی۔ حمزہ وہاں نہیں تھے البتہ انکل خلیل اور ان کے بھائی جن کا نام ندیم بتایا گیا وہاں موجود امی سے کسی کے رشتے کی بات کررہے تھے۔ یہی موقع ہوتا ہے خاندان والوں کے پاس جب سب اکٹھے ہوتے ہیں تو آپس میں رشتوں کی بارے میں بھی بات کرلیتے ہیں اور عموما یہی ہوتا ہے کہ ایک کی شادی میں کئی اور کے رشتے طے ہوجاتے ہیں ۔لڑکے لڑکیاں اپنی پسند کا اظہار کر دیتے ہیں جب ایسے موقع پر ملاقات ہوتی ہے۔ بس اس وقت بھی یہی چل رہا تھا گزشتہ دو تین دنوں میں خواتین کو خوب موقع مل گیا تھا رنگ رنگ کی لڑکیاں دیکھنے کا اور لڑکوں کو بھی خوب پرکھا گیا ۔ ایک آنٹی جرمنی سے آئی ہوئی تھیں ان کی بیٹی کا رشتہ ہمارے چچا کے لڑکے سے طے پاگیا تھا اور ایلی کی رخصتی کے بعد باقاعدہ منگنی کا اعلان ہونا تھا۔ مجھے خاندان والوں کا یہ طریقہ بہت پسند تھا کیونکہ لڑکا لڑکی تو پہلے بھی ایکدوسرے کو جانتے تھے اسلئے ان کی طرف سے رضامندی دراصل ان کی پسند کا اظہار ہی ہوا کرتا تھا بس یہ رسمی بہانے بنائے جاتے البتہ سب کام عزت سے انجام پا جاتا ۔
میں اوپر کمرے سے کوٹ لینے گئی کیونکہ اب سہ پہر کا وقت ہورہا تھا اور کچھ ہی دیر میں سردی بڑھ جانی تھی۔ ایلی بھی پارلر میں تیار ہوچکی تھی اس کی سہیلیاں ساتھ ہی تھیں ۔بارات رستے میں تھی اور کزنز اور سب بچہ پارٹی پھولوں کی پتیاں اور پارٹی پف لئے تیار کھڑے تھے ۔ میں نے کوٹ پہنتے ہوئے کھڑکی سے نیچے دیکھا تو تمام لوگ اب باہر جمع ہوچکے تھے اور دوسری طرف ویٹرز  بھی کیٹرنگ کا جائزہ لے رہے تھے ۔
میں کوٹ پہن چکی اور پلٹنے ہی والی تھی کہ مجھے لگا کوئی پیچھے کھڑا ہے۔ پلٹی تو حمزہ بالکل سامنے کھڑے تھے دونوں ہاتھ پتلون کی جیب میں اور آنکھوں میں چمک جسے دیکھنے کے لئے میں خود بھی بہت بےتاب رہی۔ حمزہ نے بہت زبردست سوٹ پہن رکھا تھا رائل بلیو سوٹ پر سفید شرٹ اور ٹائی ملٹی کلرز کی تھی جس میں سرخ رنگ واضح طور پر ڈامینیٹ  تھا ۔ بال جل لگا کر بٹھا رکھے تھے ۔ حمزہ کسی جیمز بانڈ کی طرح کھڑے  تخریبی انداز سے مجھے گھور رہے تھے اور میں اپنے حواس باختہ چہرے کو نارمل کرنے کی کوشش میں لگی تھی لیکن بے سود ۔ میرے چہرے سے گھبراہٹ اور جھجک انہیں محسوس ہورہی تھی اسی لئے آگے بڑھے اور میرے بالوں کو میرے کانوں کے پیچھے سمیٹتے ہوئے بولے ۔ تم اتنی پریشان کیوں ہو؟ ایسے گھبرائی ہوئی ہو جیسے مجھے جانتی نہیں۔سچ تو یہی تھا جس حمزہ کو میں جانتی تھی وہ تو کہیں غائب ہوگیا اور یہ جو ہے ۔۔تو یہ کچھ اجنبی سا تھا کچھ نیا نیا سا ۔ وہ بہت پیار سے بات کررہے تھے اور میرے کان اور گال اب گرم ہونے لگے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کمرے میں یکدم درجہ حرارت بڑھ گیا ۔ وہ اور پاس آگئے اتنا کہ اب ہمارے چہرے ایکدوسرے کو محسوس کرسکتے تھے ۔ کچھ پتا نہیں کتنا وقت گزر گیا ۔۔ کتنے لمحے بیتے جو میری زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز کررہے تھے ۔ ایک نئے رشتے کی بنیاد ڈالی جاچکی تھی ۔ ایک دوست اب صرف دوست نہیں رہا تھا ۔کسی عورت کا ایک مرد کو اپنے اندر کسی بھی طرح سے جگہ دے دینا چاہے وہ ایک سانس ہی کیوں نہ ہو ایسا اس کی زندگی میں صرف ایک بار ہی ہوتا ہے جب وہ پوری طرح سے اپنی انا کو سرینڈر کردیتی ہے اور مرد کو اپنا آپ اس طرح سپرد کردیتی ہے کہ خود تمام تر ذمہ داری سے بری الذمہ ہوکر اس کی مرضی و منشا پر مطمئین ہوجاتی ہے۔ اس کا روم روم قبولیت کے ساز بجا رہا ہوتا ہے ۔ وہ محبت کے لمس اپنے بدن سے روح تک محسوس کرتی ہے اور اپنے وجود میں اپنے مرد کا بت بنا لیتی ہے جو ہر وقت ہر لمحہ اسے اپنی حکومت کا احساس دلاتا ہے ۔عورت ہر لمحہ اس حاکم کی سلطنت کو اس کے متوقع دورہ کیلئے تیار رکھتی ہے ۔ وہ وفا اور خلوص سے گوندھی جاتی ہے اور اپنے مرد کی ریاست کی حفاظت کرنے لگتی ہے۔
حمزہ نے اپنا سر میرے ماتھے سے ٹکا لیا اور ان کا ہاتھ اب بھی میرے کانوں کے پاس گردن کو سہلا رہا تھا ۔ میں اب بھی ان کی سانسوں کی خوشبو کو اپنی سانس میں محسوس کررہی تھی ۔ تمہارے بنا زندگی نہیں جی سکتا ۔۔ وہ بہت دھیمے اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولے ۔ بہت بھاگا اس خیال سے ۔۔ بہت ۔۔۔ تمہیں دور کرنا چاہتا تھا ۔۔ لیکن کچھ بھی نہ کرسکا ۔۔۔ تھک ہار کے لوٹ آیا ۔۔ تمہارے پاس ۔۔۔  انہوں نے میرے ماتھے پہ ایک گہرا بوسہ دیا ۔۔۔ ایسا سرور کہ میں جل تھل ہوگئی ساری کائنات اس لمحے حقیر سی لگنے لگی ۔ میں نے اپنا سر حمزہ کے کندھے پہ گرا دیا میری بانہیں ان کی گردن کے گرد لپیٹنےلگیں اور وقت رک گیا ۔۔۔ کچھ خبر نہ تھی کہ ہم کہاں ہیں ۔ کتنے پل گزرے کتنی گھڑیاں بیت گئیں۔
ایک دھماکہ ہوا اور ہم چونک گئے ۔ بارات آگئی ۔ ۔ ہاہ۔۔ کتنا وقت گزر گیا ۔۔ میں نے گھبرا کر گھڑی کو دیکھا اور پھر حمزہ کو دیکھنے لگی ۔ وہ اب بھی پرسکون نظر آرہے تھے ۔ مسکرا رہے تھے اور اسی مسکرانے سے مجھے احساس ہوا کہ اب حمزہ اور میرے درمیان معاملات کچھ اور تھے۔ میں کچھ شرما گئی تو انہوں نے میرے جھکے چہرے کو اٹھایا اور بولے۔ جاو ۔۔ سب تمہیں ڈھونڈتے ہوں گے۔
باہر بارات کا استقبال جاری تھا زبردست ڈھول باجے بجائے جارہے تھے ایلی کا منگیتر بگھی لے کر آیا تھا ۔ اس کے دوست ہیوی بائیک پر اس کے ساتھ تھے ۔ ایک بہن اور والدہ بگھی میں ساتھ بیٹھی تھیں ۔ ارد گرد کے لوگ اس منظر کو اپنے کمروں میں محفوظ کرنے میں مصروف تھے ۔آنٹی کی پڑوسنیں بھی خوشی سے تالیاں بجا رہی تھیں ان کے علاقے میں یہ پہلی پاکستانی شادی تھی کیونکہ اس علاقے میں محض چند گھر تھے پاکستانیوں کے ورنہ یہاں تو سب گورے ہی رہتے تھے ۔ بہت زبردست منظر تھا پولیس سے خصوصی اجازت لے کر آتشبازی کی جارہی تھی ۔ایک پولیس کار بھی وہاں موجود تھی ۔ اب ہم دروازے پر کھڑے رسم ادا کررہے تھے ۔ خوب بحث جاری تھی ۔ رسم کے بعد دلہا کو اندر آنے کا رستہ مل گیا ۔ اس دوران پچھلے دروازے سے ایلی کو گھر میں لے آئے تھے اور کچھ دیر میں اسے وہاں بٹھایا جانا تھا ۔ رسمیں ہورہی تھیں اور سب انجوائے کررہے تھے۔ مجھے ایلی کا پیغام ملا اور میں اس کی طرف چلی گئی ۔ واہ۔۔۔او۔۔۔ ایلی ۔۔۔۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گئی ۔۔ ایسا روپ کے کیا بتاوں۔ اسے دیسی لڑکی کے روپ میں کبھی دیکھا ہی نہ تھا ۔ آج جھومر  اور نتھ کے ساتھ وہ بالکل الگ رہی تھی ۔ ایسی خوبصورت دلہن تو شاید ہی کسی نے دیکھی ہوتی ۔ اچھی لگ رہی ہوں نا شوگر۔۔۔ ایلی شک بھرے انداز میں پوچھنے لگی ۔۔ کوئی گڑ بڑ تو نہی نا؟ اب ایلی گھبرائے انداز سے شیشے میں خود کو دیکھ رہی تھی ۔آفت لگ رہی ہو آفت ۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ تھام لئے۔ ہم کچھ دیر فوٹو سیشن کرواتے رہے پھر ایلی کو باہر لے گئے اور دلہا میاں کے طوطے اڑ گئے ۔بچارہ اپنی جگہ پر بے چین نظر آرہا تھا ۔ سبھی ایلی کو دیکھ کر بلائیں اتارنے میں مصروف تھے ۔ میں ایلی کے ساتھ ہی تھی جب حمزہ آگئے۔۔۔ ایلی نے حمزہ کو دیکھا تو اپنی جگہ سے اٹھ کر دونوں بازو پھیلا کر اسے گلے لگا لیا۔ میں حیران تھی کہ ان سب نے مجھ سے یہ تمام منصوبہ چھپا کر رکھا ۔صرف ایک مجھے حمزہ کے آنے کا علم نہ تھا باقی سبھی جانتے تھے۔ کیوں چھپا رہے تھے سب؟ یہ سوال بہت اہم تھا ۔ شادی کے بعد کلاس تو لونگی ثناء اور ایلی کی۔ دل میں ارادہ کرکے میں کچھ مطمئن ہوگئی تھی۔
کھانا اور رسمیں کرنے میں بہت وقت گزر گیا اب شام گہری ہوچکی تھی۔رخصتی کا وقت آگیا ۔
آنٹی انکل کے آنسو تو تھمتے ہی نہ تھے اور وہ جھلی جس کی شرارتوں سے ساری شادی خطرے میں رہی اب رو رو کر بڑا حال کررہی تھی۔ اس کی سہیلیاں اسے میک اپ کے خراب ہونے کا ڈراوا دے رہی تھیں لیکن اسوقت اسے کسی بات کی پرواہ نہ تھی ۔ ہائے دلہا کیوں رو رہا ہے ؟ ایک سہیلی نے میرے کان میں آہستہ سے کہا تو دیکھا واقعی دلہا اپنے آنسو پونچھ رہا تھا اور اس کے والد اسکے کندھے تھپتھپا رہے تھے۔ روتے روتے سب ہنسنے لگے اور دلہا بچارہ شرمندہ ہوگیا۔
بگھی میں ایلی کے ساتھ ثناء بیٹھ گئی اور میں افریقی سہیلی کو ساتھ لے کر نونی کی پنک اوپن روف  BMWمیں جا بیٹھی ۔ مجھے پہلے جاکر ایلی کا گھر کھولنا تھا اسلئے بگھی سے پہلے ہم آگے نکل گئے ۔ ابھی کچھ ہی آگے بڑھے تو دلہا کے بھائی نے رکنے کا اشارہ کیا ۔ پتا چلا کہ پہلے ایلی سسرال گھر جائے گی اور رسوم ادا کرکے پھر دونوں کو گھر جانے دیا جائے گا۔
مجھے پیغام ملا کی لیموزین میں جائینگے ۔سفید رنگ کی ایک بہت خوبصورتی سے سجائی گئی لیمو دور سے آتی نظر آرہی تھی ۔ بگھی کا چکر لگا کر ایلی کو اسی میں بٹھایا جانا تھا۔ پھر ہم نے ایک بہت خوبصورت منظر دیکھا ۔ہیوی بائیک کی منظم قطاروں کے جھرمٹ میں ایلی کی بگھی بڑی شاہانہ انداز سے چلی جارہی تھی آسمان پہ رنگوں کی برسات اور بینڈ کی خوبصورت دھن نے سارے علاقے کوگھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔ ہم جہاں سے گزرے جاتے مقامی  لوگوں کی تالیاں اور ہوا میں بوسے ہمارا استقبال کررہے تھے۔
         دلہا میاں اپنی دلہن کے ساتھ شاہانہ انداز میں چلے جارہے تھے دنیا اس شاندار جوڑے کی بلائیں لے رہی تھی ہم پیچھے تھے اور دلہا شمریز کے دوست ہیوی بائیک پر اس کا اسکواڈ بنے زبردست پروٹوکول کے ساتھ چل رہے تھے۔ یہ چکر 15 سے 20 منٹ کا تھا پھر ایلی کو لیموزین میں شفٹ کردیا گیا جہاں ہم سب بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ایلی اور شمریز ساتھ بیٹھے تھے ۔ شمریز کا ایک بھائی مسلسل ایفریکن سہیلی کو لائن مار رہا تھا اور ہم سب آپس میں اس پر ہنس رہے تھے کہ بچارہ دل دے بیٹھا تھا جبکہ لڑکی شادی شدہ تھی۔
ہم ایلی کے سامنے بیٹھے تھے اور ایلی ہمیں اپنے دلہا شمریز سے باقاعدہ متعارف کروا ہی تھی اور آج پتا چلا تھا کہ شمریز یونیورسٹی میں لیکچرر تھا اور ریسرچ میں بہت نام کما چکا تھا۔ ایلی بار بار شمریز کو میری طرف متوجہ کررہی تھی کہ میرے شوق بھی پڑھنے لکھنے والے تھے تو میری اور شمریز کی خوب جمے گی۔ اور وہ کسی حد تک ٹھیک بھی کہہ رہی تھی کیوں کہ بعد کے حالات نے ایسا ہی ثابت کیا تھا ۔
لیمو ہیوی بائیک اسکواڈ  کے ساتھ شہر کی بڑی سڑک پر جارہی تھی جہاں ایک پٹرولنک کار ہمارے قافلے سے آگے جارہی تھی۔ ایلی اور شمریز نے عقلمندی کی تھی جو انتظامیہ سے اجازت کے ساتھ دعوت نامے بھی دے آئے تھے۔ اس کی شادی اچھا خاصا اہم ایونٹ بن گیا حتی کہ لوکل نیوز پر بھی اس شاندار شادی کی خبر لگائی گئی۔
سسرال پہنچ کر کافی دیر تک دروازے پر ہی رسم کرتے رہے پھر گھر کے اندر رسمیں ہوتی رہیں ۔ ایلی کا سسرال خوب بڑے قد اور بھاری بدن لوگوں کا تھا ۔ ہمیں تو اپنا آپ ان کے ہاں بہت چھوٹا دکھنے لگا۔
کچھ کھانے پلانے کی رسمیں اور کھانا کھا کر ڈھیر سارے تحائف کے ساتھ اب ہم ایلی کے گھر چل پڑے ۔
میں پھر پنک BMWمیں شفٹ ہوگئ اور ثناء کو بھی ساتھ لیا۔ ایلی کے پہنچنے سے پہلے ہم نے گھر میں لائیٹس جلا دیں اور ہلکا میوزک چلا دیا ۔ دروازے سے باہر روڈ تک ریڈ کارپٹ کروا دیا تھا ۔ پھولوں کی پتیوں سے رستہ بیڈ روم تک جارہا تھا کمرہ پھولوں کے گلدستوں سے سجا رکھا تھا ۔
ایلی پہنچ چکی تھی لیمو سے اترنے سے پہلے اسکی سہیلیاں اسکا دروازہ کھول رہی تھیں ۔ ہم نے ایک بار پھر شاندار استقبال کیا ۔ ساتھ والے پب سے ہرے ہرے کے نعرے بلند ہونے لگے پب پارکنگ میں بہت سے لوگ اس منظر کو دیکھ کر تالیاں بجا رہے تھے ۔ اردگرد ہمیشہ خاموشی رہتی تھی لیکن آج بہت سارے لوگ نکل آئے تھے اور پتا چلا کہ سب ہی فیملی والے ہیں سوائے ہمارے آئرش پڑوسی کے ۔ ایلی کو بیڈ روم میں چھوڑ کر ہم نیچے آگئے ۔ کافی تیار کرنے کو کہا اور اب ہم ریلیکس ہونے کا سوچنے لگے سبھی بہت تھک گئے تھے اور دلہا دلہن کی سہاگ رات کا خیال کرتے ہوئے سب نے جلدی سونے کا فیصلہ کیا ۔
دروازے پر دستک ہوئی ثناء نے دیکھا اور مجھے آواز دی۔ باہر پب کا مینجر کھڑا تھا اس کے پیچھے ایک ملازم ہاتھ میں ایک سجی ہوئی باسکٹ لئے کھڑا تھا جس میں چاکلیٹ ڈرائی فروٹ اور بسکٹ وغیرہ نظر اریے تھے۔ منیجر کے ہاتھ میں ایک شراب کی بوتل تھی جس پر سرخ ربن بندھا تھا اور ہیپی میرج کا ٹیگ لگا تھا ۔ اس نے وہ پیش کرتے ہوئے ہمیں مبارک دی تو میں نے ثناء کو بھیج کر شمریز کو بلوا لیا ۔ منیجر کا شکریہ ادا کیا اور اسے بتایا کہ ہم شراب نہیں پیتے البتہ باسکٹ قبول کرلی ۔ شمریز نے بھی آکر مینجر سے کچھ دیر بات کی  اس کا شکریہ ادا کیا اور بوتل سے ٹیگ اتار کر قبول کرنے کی رسم ادا کردی ۔
ابھی بچارہ واپس جارہا تھا کی پھر دستک ہوئی ۔ اب محلے کے ایک گھر سے اسی طرح کے تحائف لئے ایک عورت اور اس کا بیٹا کھڑے تھے ۔ انہیں اندر بلایا ایلی سے ملایا اور رخصت کیا۔
ایلی اب تھک گئی تھی سو ہم نے روشنیاں گل کردیں کہ لوگوں کو آرام کرنے کا پیغام جائے ۔
اگلی صبح بہت دیر سے ہوئی دن چڑھ آیا ۔ ثناء اور انڈین لڑکیاں کچن میں ناشتہ بنا رہی تھیں میں ابھی تک سلیپنگ پاجامہ میں پھر رہی تھی اور وجہ یہ تھی کہ ایک باتھ ایلی کے استعمال میں تھا اور دوسرا باقی سب کے۔ سبھی نہانا چاہتے تھے تو باری ہی نہیں آرہی تھی ۔
آخر میرا نمبر آگیا۔ نہا کر باہر نکلی تو حیران رہ گئی ہر طرف کھانے پینے کی اشیاء کا ڈھیر لگا تھا ۔ ارے یہاں کیا ہوا؟ میں راستہ بنا کر گزر رہی تھی ۔ ثناء ۔۔۔ او ثناء ۔۔ میں نے کچن میں مصروف ثناء کو آواز لگائی ۔ یہ کہاں سے آگیا اتنا کچھ ؟ ثناء نے مجھے کافی تھمائی اور ہنستے ہوئے بولی۔ بھئی ہم جس محلے کو قبرستان سے تشبیہ دے رہے تھے وہاں کے لوگ بہت زندہ دل ہیں اور دیکھو کیسے ناشتے کا سامان بھیجا جارہا ہے ۔یہ سب محلے والوں نے بھیجا؟ میں حیران ہوکر کمرے میں پھیلے کیک ، ڈرائی فروٹ،  چاکلیٹ، سویٹس، بن اور برڈ وغیرہ کے ساتھ فروٹ باسکٹس دیکھ کر حیران ہورہی تھی ۔ ہائے ثناء یہ شراب کی بوتلیں کیوں لیں ؟ میں یکدم چونک گئی کہ شراب کی بوتلیں بھی نظر آرہی تھیں ۔ ثناء ہنستے ہوئے مجھے بتانے لگی کہ لوگ اصرار کررہے تھے تو ایلی نے اپنی کرسچن فرینڈز کے لئے رکھ لیں کہ چلو ان کو دے دیں گے ۔ مجھے یہ سن کر بہت غصہ آیا لیکن ابھی نئی نئی دلہن کو کیا کہا جاسکتا تھا ۔ اس کی سہیلیاں نے دیکھ لیا تھا کہ میرا موڈ خراب ہورہا ہے تو جلدی جلدی سامان سمیٹنے کے بہانے بوتلوں کو غائب کردیا۔
میں کافی پیتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں ۔ چند شرائط کے ساتھ زندگی گزارنے میں بھی سو کیڑے نکال لیتا ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے جس کے احکامات انسانی جبلت کے مطابق اسے آسانی سے عمل پیرا ہونے میں مدد دیتے ہیں ۔ مسلمان صرف اپنے دین پر نظر رکھے تو کچھ مشکل نہیں لیکن ہم نے بھی طے کر رکھا ہے کہ ہر کسی کے گھر میں جھانکنا ضرور ہے پھر  ان کی طرح رہن سہن بھی اپنانے کو جی کرتا ہے ۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ کسی نے میرے  سر پر بوسہ دیا ۔ سر اٹھایا تو پیچھے حمزہ کھڑے تھے ۔ جو اب سامنے آگئے اور ایک بار پھر میرے ماتھے پر بھرپور پیار دیا۔ کیسا عجیب آدمی تھا کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا چاہتا ہے۔
میں اب اس نئے انداز محبت سے گھبرانے لگی تھی اب مجھے لگتا تھا کہ ہمیں فاصلہ رکھنا چاہیے۔ اسی خیال سے میں نے حمزہ کو دیکھا کہ آج بات کرنی چاہیے کہ کیا چاہتے ہیں ؟
چلو آو ۔۔ تمہیں ہیوی بائیک پر بٹھاوں۔۔۔ حمزہ کچھ منچلے سے انداز سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھاتے ہوئے بولے۔۔ مجھے یہ انداز بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ میں کھڑی ہوگئی لیکن میرا کوئی ارادہ نہیں تھا اس نئے حمزہ کے ساتھ کہیں بھی جانے کا ۔ اتنے میں ایلی اور شمریز اتر آئے ۔ایلی نے ہلکے سے گلابی سوٹ کے ساتھ بہت اچھا میک اپ کیا ہوا تھا ۔ آتے ہی حمزہ کو گلے لگایا اور جب اس سے مل رہی تھی تو مجھے آنکھ ماری ۔۔ میں چونک سی گئی ۔اس کا کیا مطلب تھا ۔ یہ لوگ کسی منصوبے پر عمل پیرا ہیں لیکن مجھے خبر نہیں ۔ سو طرح کے وسوسے میرے ذہن میں ابھرنے لگے۔ ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ایلی کی اور حمزہ کی اتنی دوستی کب ہوئی؟ مجھے اینٹ پتھر والا رویہ یاد تھا دونوں کی کبھی بنی ہی نہ تھی۔ یہ یکایک کیا ہوگیا کہ سب انہونیاں ایک ساتھ ہونے لگیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں کہیں سو رہی تھی یا میری زندگی سے ایک پورا باب غائب ہے آخر ایسا کیا ہوا جو مجھے نہیں معلوم؟
میری الجھن شاید میرے چہرے سے جھلکنے لگی تو شمریز نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور بہت پیار سے بولا ہماری بہن کیوں پریشان ہے ؟ وہ ایسے پیار سے بولا کہ میرا دل خوش ہوگیا۔ میں نے مسکرا کر شمریز کو دیکھا ۔ نہیں نہیں ۔۔ میں پریشان نہیں بس کل کی تھکاوٹ ہے ابھی ۔۔۔ ساتھ ہی میں نے حمزہ کو دیکھا تاکہ بہانہ بن جائے اور نہ جاوں۔ اچھا آئیڈیا تھا خالہ کا شوگر۔۔ جو ولیمہ ایک دن کے وقفہ سے رکھ لیا ورنہ سچ بالکل انجوائے نہی کرتے ۔۔ ایلی شمریز کی بغل میں گھستے ہوئے بولی ۔ تو حمزہ نے شمریز اور ایلی سے پوچھا کہ سب لوگ جو دوسری اسٹیٹ اور شہروں سے آئے ہیں وہ بھی رک گئے ؟ نو نو ۔۔۔ شمریز نے فورا کہا ۔۔ ہم شام کو ان سب کا کھانا کررہے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ صرف شادی کیلئےآئے تھے مگر میں چاہتا ہوں کہ میری طرف سے بھی دعوت کھا کر جائیں۔ شمریز کی باتوں سے اس کے اعلی ظرف ہونے کا پتا لگ رہا تھا ۔ وہ واقعی ایسا تھا کہ ایلی جیسی حسین لڑکی بھی متاثر ہوگئی۔ میں دونوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اور حمزہ مجھے دیکھتے رہے ۔ مجھے احساس ہوا تو حمزہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں باہر جانے کا اشارہ کیا ۔میں انکار نہیں کرسکی اور چپ چاپ اوور کوٹ لیا اور باہر نکل گئی ۔ لیکن بائیک پر بیٹھنے سےانکار کردیا ۔ باہر ہوا بہت تیز تھی ۔ مجھے سردی لگ رہی تھی اور میرا اسکارف باقاعدہ پھڑپھڑا رہا تھا ۔ چند سیکنڈوں میں میری ناک ٹھنڈی اور  سرخ ہوگئ جسے حمزہ نے شرارت سے چھوا اور ایک بار پھر دونوں بازو میرے گردپھیلا دئے ۔ ایسی زور سے مجھے سینے سے کیوں لگا رکھا ہے انہوں نے ۔۔ میرے دل میں اب وہم سا ابھرنے لگا ۔ حمزہ کو ہو کیا گیا ہے ؟  کہیں جا رہے ہیں کیا؟ بس یہ خیال آتے ہی میرے اندر ہلچل سی مچنے لگی ۔میں نے حمزہ کے جیکٹ  کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر انہیں دونوں بازوں میں جکڑ لیا ۔ مجھے عجیب سے خوف نے گھیرے میں لے لیا اب مجھے ہواوں کا ٹھنڈک کا کوئی احساس نہیں تھا ۔ مجھے صرف ایک بات کا پتا تھا کہ میں اس سینے میں سما جانا چاہتی ہوں۔ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بنا میں حمزہ کی جاگیر بننا چاہتی تھی ۔ چلو اندر چلتے ہیں ۔۔۔ بارش کی بوندیں گرنے لگیں تو حمزہ نے مجھے خود سے الگ کیا۔ ہم گھر میں داخل ہوئے تو سامنے ایلی اور شمریز کا رومینس چل رہا تھا ۔ چھی چھی۔۔۔ ایلی بیڈ روم یار۔۔۔ میں نے کچھ شرمندہ سا ہو کر ایلی کو ڈانٹا تو وہ بے شرم ہنسنے لگی البتہ شمریز شرمندہ سا لگا ۔ یہ کدھر ہیں سب لڑکیاں ؟ میں نے موضوع بدلنا چاہا ۔ تو ایلی کی ایک سہیلی کہیں سے نکل آئی۔ ہم کل کی تیاری کررہے ہیں ۔ پھر ٹائم نہیں ملے گا ۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ پارلر سروس چل رہی تھی۔
میں نے حمزہ کی طرف دیکھا تو وہ دلچسپ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے ۔ میں کچھ حیران سی ہوئی کہ کیوں ؟ لیکن اگلے ہی لمحے ایلی کے رومینس کا سوچ کر شرمندہ ہوگئی کہ حمزہ شرارت کے موڈ میں ہیں ۔ اب تو ان کے ساتھ بالکل بھی بات کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ کافی پئیں گے ؟ میں نے بنا دیکھے ان سے پوچھا تو بولے۔ ضرور ۔۔ کیوں نہیں ۔ میں کچن کو چلی تو حمزہ بھی میرے پیچھے ہی آن دھمکے ۔ میں کافی بنانے لگی اور اپنے اعصاب کو پرسکون بنانے کی کوشش کرنے لگی۔ کافی بنا کر پلٹی تو حمزہ وہاں نہیں تھے۔ کہاں گئے؟ ساتھ ہی حمزہ کی ڈرائینگ روم سے آواز آئی ۔ ادھر ہوں گڑیا۔۔۔ آ جاو یہاں۔ میں کافی لے کر وہاں گئی تو حمزہ جیکٹ اتار رہے تھے۔ کافی رکھ کر میں صوفےپر بیٹھ گئی ۔ حمزہ نے جیکٹ کے بعد شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کردئے تو میں جو کافی کی چسکی لے رہی تھی گھبرا کر اٹھ بیٹھی ۔۔ حمزہ یکدم سامنے آگئے۔کیا ہوا؟ ان کی آنکھوں میں شرارت تھی ۔ کہاں جارہی ہو؟ انہوں نے میرا رستہ روکتے ہوئے کہا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا ۔ آپ کافی پی لیں تو باہر لاونج میں آجائیں ۔۔ وہیں بیٹھ جائینگے ۔۔ حمزہ اب بھی شرٹ کے بٹن کھولنے میں مصروف تھے ۔ تم نے پہلے کبھی مجھے بنا شرٹ نہیں دیکھا ؟ ان کے لہجے میں طنز اور شرارت مشترک تھے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے شرٹ اتار دی۔میں گھبرا گئی لیکن اگلے ہی لمحے پریشانی دور ہوگئ کیونکہ نیچے  شرٹ پہن رکھی تھی جو ہاف سلیو تھی ۔ حمزہ کے خمدار چٹے بازو نظر آنے لگے ۔ مجھے گرمی لگ رہی تھی تو سوچا اسے اتار دوں اور ساتھ ہی انہوں نے اسے اتارنے کیلئے ہاتھ سے نیچے شرٹ کا دامن پکڑا میں نے کافی مگ جلدی سے سائیڈ پر رکھ کر ان کے ہاتھ پکڑ لئے ۔ نا نا ۔۔ ابھی نہ اتاریں ۔۔ مجھے جا لینے دیں ۔۔ میں ان کے ہاتھ چھوڑ کر تیزی سے باہر کو بھاگی تو حمزہ نے مجھے کمر سے پکڑ کر پیچھے کو کھینچا اور میں ایک بار پھر ان کی بانہوں میں قید ہوکر رہ گئی۔۔ کہاں بھاگ رہی ہو؟ مجھے باتیں کرنی ہیں تم سے ۔۔ وہ مجھے بانہوں میں سمیٹتے ہوئے بولے۔۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟ اس طرح کیوں کترانے لگی ہو ؟ اب حمزہ میرے کان کے پاس سرگوشی کررہے تھے ان کی سانس میری گردن کو چھو رہی تھی اور پھر ان کے ہونٹ ۔۔ میرے کندھے پہ بوسادے رہے تھے ۔ میں نے انکی لوہے جیسی سخت بازو پہ ہاتھ پھیرا تو انہوں نے مجھے پلٹ کر میرا چہرہ سامنے کر لیا ۔ تم سے باتیں کرنی ہیں ۔۔ ضروری ۔۔ بہت ضروری۔ وہ سرگوشیاں کررہے تھے ۔ میں نے نگاہ اٹھائی تو اب حمزہ کا چہرہ سنجیدہ تھا۔ سنو۔۔۔ میں تم سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔ وہ میرے ہاتھوں کو بدستور تھامے ہوئے تھے ۔ ان کی آنکھوں میں نمی آنے لگی تھی۔ میں نے تمہیں بہت دکھ دیا ۔۔ تمہارا بھرم توڑا ۔۔ تم سے دور رہا ۔۔۔ ان کی باتیں سن کر میرے ذہن میں وہ کربناک دن گھومنے لگے ۔سچ کہہ رہے تھے انہوں نے مجھے بہت تکلیف دی اذیت میں مبتلا رکھا اور میرا قصور کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ واقعی شرمندہ لگ رہ تھے ۔
تم سے پیار ہے مجھے ۔۔ جنون کی حد تک ہے پیار۔۔ تم سے جدائی کے یہ چند روز میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ میں تم سے ذیادہ تڑپا اور ۔۔ میں نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور بات کاٹتے ہوئے بولی۔ تو کیوں کیا آپ نے ایسا؟ کیا میرا حق اتنا بھی نہ تھا کہ آپ سے فرمائش کرتی ؟ اس سے پہلے بھی تو آپ سب کچھ مانتے رہے ۔۔ پھر اس روز ایسا کیا تھا؟ میرے لہجے میں سختی تھی ۔۔ بات شاپنگ کی نہیں تھی۔ بات تمہارے اور میرے بیچ اس تعلق کی تھی جو اب لوگوں کو کھٹکنے لگا تھا ۔۔ مجھے بہت سی باتیں سننے کو مل رہی تھیں کہ گڑیا جوان ہوگئی لیکن حمزہ سے اکیلے میں ملنے چلی جاتی ہے ۔۔
مجھے یہ بات سن کر پھر غصہ آگیا ۔۔ تو کیا حرج تھا؟ کیوں کسی اور کی سنی آپ نے ؟ ہم بچپن سے دوست تھے ۔۔ کسی کو کیوں اعتراض تھا ؟ کیوں۔۔۔ حمزہ آگے بڑھے ۔۔ اور میری بات مکمل نہ ہونے دی ۔۔۔ انہوں نے میری سانس اچک لی اور میں ایک بار پھر ۔۔۔ خلاء میں تیرنےلگی۔
میری آنکھ سے گرم گرم آنسو ٹپکنے لگے۔۔۔ اور پھر میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔حمزہ کے سینے سے لگ کر میں نے گزشتہ دنوں کا سارا درد دھو دیا ۔۔ اپنا درد ان کے سینے پر منتقل کرکے مجھے سکون تھا ۔ ایسا سکون کے میں حمزہ کے سینے پر سر ٹکائے سو بھی گئی ۔ایسی گہری اور پرسکوں نیند کہ اس دوران ایلی بھی آئی لیکن حمزہ نے اشارہ کیا تو پلٹ گئی۔ کچھ دیر بعد میری آنکھ کھلی تو میرا سر حمزہ کی گود میں تھا اور وہ میرے بال سہلارہے تھے ۔ میں نے مسکرا کر انہیں دیکھا کیونکہ آج پھر مجھے میرا دوست مل گیا تھا لیکن یہ خوش فہمی تھی کیونکہ حمزہ نے مجھ سے شادی کی بات کر دی۔  زندگی۔۔۔ میری جان ۔۔۔ اب میں تمہارے بنا ایک پل بھی نہیں جینا چاہتا۔۔
حمزہ کی بات سن کر میری مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ میرے ذہن میں سفاک حمزہ ابھرنے لگا۔ اگر شادی کے بعد حمزہ نے مجھے توجہ نہ دی تو؟ اگر حمزہ بدل گئے تو؟ حمزہ کے گرد ہر وقت لڑکیوں کا جہاں آباد رہتا ہے تو کہیں ؟ اف یہ میں کیا سوچ رہی ہوں ۔۔ میں نے سر جھٹک دیا۔ وہ پھر مجھے جھنجوڑکر بولے۔ تم نہیں چاہتی کہ ہم ہمیشہ ساتھ رہیں؟ اب حمزہ نے وہ بات کی جو میرے لئے سب سے اہم تھی۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ بس تو میں آج ہی خالہ بات کروں گا کہ ہمارا نکاح کردیں۔ میں نے بیوقفوں کی طرح ان کی طرف دیکھا ۔۔ تو وہ ہنسنے لگے۔۔ تمہیں پتا ہے میں گناہ سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں اور اسی لئے اکثرفلائیٹ پر روزہ رکھ لیتا ہوں کہ کسی لڑکی میں نہ الجھ جاوں ۔۔ میں ہونکو کی طرح سر ہلا رہی تھی۔ میں نہیں چاہتا کہ ہم یوں ملتے رہیں اور ہمارے اعمال نامے گناہ سے پر ہوتے رہیں۔ اسلئے محض نکاح کر لینا چاہتا ہوں جب تم رخصتی کے لئے تیار ہوجاوگی تبھی شادی کا باقاعدہ اعلان اور رخصتی کریں گے اس سے پہلے تمہیں بالکل آزادی ہوگی جو چاہو کرو جتنا پڑھنا چاہو پڑھو میں مکمل تعاون کرونگا۔حمزہ نے تو جیسے سارا منصوبہ تیار کررکھا تھا ۔ اس دوران ایلی پھر اگئی۔ شوگر ۔۔ میں تو بہت خوش ہوں حمزہ کی بات سن کر ۔۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا ۔  اوہ ۔۔ تو تم سب کو پتا تھا ۔۔ یہی سب چھپایا جارہا تھا ؟ میں نے کڑیاں ملائیں تو سب سمجھ آگیا ۔ تم ایسی سخت مزاج ہو کہ تم سے ایسی بات کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ اب ہم نے کوئی ایسا طریقہ کرنا ہے کہ نکاح بھی ہوجائے اور کوئی مسئلہ بھی نہ کرے۔ ایلی تو جیسے سارے منصوبے کی روح رواں تھی۔حمزہ نے بہت سی باتیں کیں کہ کس طرح وہ خود سے جنگ کرتے رہے کہ مجھ سے دور رہنا چاہیے لیکن ایسا نہ کرسکے ان کا کہنا تھا کہ وہ خود کو شادی والے خیال پر تیار نہ کرسکے حالانکہ چچا جان نے ان کو کہا تھا کہ وہ مجھے بہو بنانا چاہتے تھے ۔چچا جی کا یوں بھی مجھ سے بہت پیار تھا وہ حمزہ کو کہتے رہے کہ اسے منا لو اور خود پوچھو کہ تم سے شادی کرے گی تو وہ اپنے بھائی سے رشتہ کے باقاعدہ بات کریں ۔ حمزہ کا خیال تھا کہ ابھی یہ بہت جلدی ہے لیکن چونکہ حمزہ کا رحجان دین کی طرف ذیادہ تھا اسلئے وہ گناہ اور ثواب کا بہت دھیان رکھتے تھے۔ میں نے انہیں کبھی نماز قضا کرتے نہ دیکھا تھا وہ جب بھی مرے ساتھ ہوتے عشق حقیقی اور معرفت پر دیر تک گفتگو کرتے تھے ۔ گو کہ انہوں اپنی شخصیت کو بہت متوازن رکھا تھا لیکن مجھے ان کی نظر نہ آنے والی لمبی داڑھی دکھائی دیتی تھی وہ دین اسلام سے محبت رکھتے تھے ان کا لگاوں بہت پختہ تھا شاید اسی لئے انہوں نے کبھی میرے ساتھ کوئی ایسی بات نہ کی تھی جس سے ان کی نفسانی خواہش کا اظہار ہوسکتا اور جب انہوں نے اپنے دل میں بدلاو محسوس کیا تو مجھے فورا خود سے الگ کردیا اور لڑائی کا بہانہ کرکے مجھے خود سے ملنے سے روک دیا۔ میں شرمندہ سی ہوگئی کہ کیسے برے برے خیالات آئے کہ حمزہ خودغرض اور سفاک انسان ہیں جبکہ انہوں نے میری عزت کی خاطر ہی خود پر جبر کیا۔ اب وہ اس تجربے کے بعد یہ جان چکے تھے کہ ان کا دل میرے سوا کسی کا نہیں ہوسکتا اور وہ مجبور ہیں مجھ سے ملنے پر تو انہوں نے فیملی میں اس کا اظہار کردیا ۔ چچی کچھ خوش نہیں تھیں کیونکہ ان کا دل اپنی بھانجی کو بہو بنانے کا تھا لیکن حمزہ کی مرضی کے بنا تو یہ ممکن نہ تھا سو مجبورا انہیں سرینڈر کرنا پڑا ۔ یہاں ایلی آنٹی امی ثناء اور کچھ خاندان کے بڑوں کو علم تھا کہ حمزہ یہاں ایلی کی شادی میں شرکت کا بہانہ بنا کر دراصل میرے اور اپنے رشتے کو قانونی شکل دینے آئے تھے ۔ لیکن یہ بات میرے علم میں نہ تھی انکل خلیل نے ابو سے میرے اور اپنے بھائی ندیم کے رشتے کی بات کرلی تھی اور ابو نے انہیں مثبت جواب بھی دے دیا تھا صرف کچھ وقت مانگا تھا کہ آپس میں مشورہ کرلیں ۔ ابو زبان کے خلاف تو کسی صورت نہی جاسکتے تھے البتہ یہ اچھا تھا کہ انہوں نے ہاں کرنے سے پہلے امی اور بھائی کی مرضی جاننے کی بات کردی تھی۔ ثناء نے یہ بات حمزہ کو بھی بتا دی تھی جبھی حمزہ نے فوری نکاح کا مطالبہ کردیا تھا کہ وہ اس طرح کے خطرات سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ امی بھی حمزہ کو پسند کرتی تھیں لیکن ثناء کی شادی سے پہلے میرے نکاح پر راضی نہ تھیں۔ حمزہ دو دن سب سے بحث کرتے رہے اور بہت ساروں کو قائل کرلیا کہ نکاح اور رخصتی کے درمیان چند سالوں کا وقفہ ہوگا تاکہ میں تعلیم مکمل کرلوں۔ مسئلہ صرف ابو کا تھا جو چچا جان سے کچھ عرصے سے خفا بھی تھے۔ میں اس ساری صورتحال میں آخری تھی شاید جسے اس کہانی کا علم ہوا ۔ سوچتی تھی کہ اس میں شک نہیں کہ حمزہ درست کہتے ہیں ہم ایک دوسرے کے ایسے عادی ہیں کہ نا چاہتے ہوئے بھی بار بار قریب آجاتے ہیں ۔ میں احتیاط کے باوجود جب حمزہ کے ساتھ ہوتی ہوں تو بھول جاتی ہوں کہ اب ہم محرم اور نامحرم کی پابندی میں جکڑے جا چکے تھے ۔ پھر بھی بیخودی میں ہم اس کا خیال نہیں رکھ پاتے ۔حمزہ نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ وہ بے بس ہیں اس معاملہ میں ۔ مجھے پاس دیکھ کر وہ باقی سب بھول جاتے ہیں حتی کے اردگرد لوگوں کی موجودگی کا احساس بھی نہیں رہتا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک بار نکاح ہوگیا تو ان کے دل کو قرار آجائے گا کہ اب میں انکے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔ حمزہ ماموں کے لڑکے کامی سے بھی یہ سن چکے تھے کہ وہ مجھ سے ہی شادی کرے گا۔ انکل ضمیر نے بھی اپنے لڑکے کا رشتہ بھیجا تھا یہ تمام باتیں حمزہ کو پریشان کررہی تھیں کہ ابو کہیں کسی کو ہاں ہی کردیں تو پھر انکار کی کوئی صورت نہ بن سکے گی۔
آپ نے امی سے بات کی؟ ابو سے ؟ چچا ؟ چچی؟ ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے میری طبیعت میں پھر بھونچال آنے لگا۔ ہائے ۔۔۔ نہیں ۔۔ میں کیسے اس گھر میں آپ کے ساتھ اس طرح رہ سکتی ہوں ۔۔ میری بوکھلاہٹ دیکھ کر حمزہ پریشان ہو گئے ۔۔ ایلی نے مجھے جلدی سے آکر اپنے بازووں میں جکڑ لیا ۔ اور حمزہ کو اشارہ کیا کہ وہ مجھے سمجھا لے گی ۔ مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہی آرہی تھی کہ حمزہ نے اتنا بڑا منصوبہ کب بنا لیا؟ بنا کسی سے مشورہ کئے وہ کیسے فیصلہ کر بیٹھے؟ ابھی تو ہماری عمر تھی بھی نہی لیکن وہ جس بنیاد پر بات کررہے تھے وہ درست تھی۔ جب ملے بنا رہ نہیں سکتے تو اس کا حل شرعی انداز سے نکالنا ہی بہتر تھا۔ مجھے  بہت وقت لگا یہ سب ہضم کرنے میں لیکن سمجھ گئی تو حمزہ کو بڑوں سے بات کرنے کا عندیہ دے دیا۔

No comments:

Post a Comment