Sunday, 6 May 2018

سیاسی ورکر

یار بس کردے۔ تیری چھوڑی تو ایسی لمبی ہوتی ہے کہ بندہ لپیٹ ہی نہیں سکتا۔
اوئے گھونچو۔۔۔ دیکھ لینا اگلے دو روز میں میری بات سچ نہ ثابت ہوئی تو میرا نام بدل دینا ۔
ابے نام تو تیرا لیڈر بھی روز بدلنے کا کہتا ہے لیکن اس کے لیول کا کوئی نام ہمیں سمجھ نہیں آتا ۔۔۔
اس پر وہ سارے قہقہے لگانے لگے۔ کچھ دیر مزید سیاسی گفتگو کے بعد تینوں دوستوں نے گھر کی راہ لی۔
صبح عامر کو کھیتوں میں پانی لگانا تھا اور یاسر نے شہر سے مال لانا تھا ۔ یاسر نے گاوں میں جنرل سٹور ڈال رکھا تھا جس پر ضرورت کی سبھی اشیاء مل جاتی تھیں۔
گاوں کی پرسکون زندگی میں ہلچل اس وقت مچی جب سلیم نے ایک سیاسی پارٹی جوائن کرلی اور اپنے لیڈر کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے دوستوں رشتداروں کو مجبور کرنے لگا کہ وہ اس کے ہی لیڈر کو ووٹ دیں ۔ یاسر اور عامر نے اسے بہت سمجھایا کہ ووٹ ایک انسان کا ذاتی حق ہے تم اسے مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی پسند کے برخلاف تمہارے لیڈر کو ووٹ دے ۔ سلیم کی تعلیم زیادہ نہ تھی اور وہ بہت جلد دوسروں سے متاثر ہو جایا کرتا تھا ۔ دوست اسے سمجھاتے رہتے لیکن وہ ان کی کہاں سنتا تھا ۔
شروع شروع میں اسے بہت چڑھایا گیا ۔پارٹی آفس میں اس کے الٹے سیدھے مشورں پر اسے سراہا جاتا ۔کبھی کبھار کچھ رقم جیب خرچ اور کیمپئین کے نام پر بھی دے دی جاتی ۔ آہستہ آہستہ سلیم اس بن محنت کمائی کا عادی ہونے لگا ۔ پھر ایک بار اس کے سیاسی دوستوں نے اسے رات بھر ایک مخلوط محفل میں روکے رکھا جہاں اسے شراب پلا دی گئی ۔ صبح تک وہ بہت کچھ ایسا کرچکا تھا کہ اس کے واپسی کے دروازے بند ہوگئے۔ کچھ روز شرمندگی کے بعد وہ پھر اس محفل میں پایا گیا پھر یہ معمول بننے لگا ۔ بہت جلد سلیم سیاسی پارٹی کے دوستوں کے ساتھ مل کر گاوں کے ارد گرد رہنے والوں کو طاقت کے زور پر ہراساں کرنے لگا ۔ اسلحہ دکھا کر اپنی مرضی کے کام کروانے لگا ۔ اور پھر ایک روز جب وہ اپنے گاوں کے دوستوں میں کھڑا تھا تو اسے احساس ہوا کہ گاوں والے اسے سہمی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ عامر اور یاسر اب اس کے دوست نہ رہے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ سلیم اندھا دھند سیاسی پارٹی کے قائدین کی تقلید کرتا یے اور غیر مہذب انداز معاشرت اپنا چکا ہے تو وہ خاموشی سے اس سے الگ ہوگئے۔ سلیم بھی نئے نئے تجربات اور طاقت کے نشے میں بچپن کے دوستوں کو نظر انداز کرنے لگا تھا۔ اس کے ماں باپ شروع میں پریشان تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی عادی ہوگئے۔ اسکی دو بہنیں تھیں جو اب اوپر کی کمائی کے باعث گاوں سے باہر نمبرداروں کی لڑکیوں کے ساتھ ہی کالج جانے لگی تھیں۔
الیکشن کے دن قریب تھے ۔ سلیم کئی کئی روز گھر نہ آتا تھا ۔ وہ اپنے لیڈر کی کہی بات کو حرف آخر سمجھ کر اس کی تکمیل کرتا ۔ اب وہ اچھا خاصا بدمعاش بن چکا تھا۔ پہلے صرف زور زبردستی فصلوں کی قیمت طے کرکے غریب کسان کا نقصان کرتا تھا اب ساتھ ساتھ ان کو مارتا پیٹتا بھی تھا۔ جس نے ذرا سی چوں چراں کی ۔ اسے مار مار کر آدھ مواء کردیا کرتا تھا ۔ اکثر ہاتھ خدا سامنے اٹھے اس کے لئے بد دعا کرتے نظر آتے تھے۔ نمبردار اس سے بہت خوش تھا ۔ سلیم پہلے پہل اس کے لئے دوسرے گاوں سے عورتیں اٹھا لاتا تھا پھر خود بھی کئی بار عورتوں کی بے حرمتی کرنے لگا۔ پولیس بھی اسے ہاتھ نہ لگاتی اور غریب دیہاتی بھی ڈرے رہتے ۔ اس کی ماں بھی اب اسکی طرفداری کرتی نظر آتی تھی۔
الیکشن میں سلیم نے گاوں کے لوگوں کو سمجھا دیا کہ اگر انہوں نے اس کے لیڈر کے سوا کسی کو ووٹ دیا دیا تو وہ ان کی لڑکیوں کو اٹھا کر لے جائے گا۔کسی کو اس نے پیسوں کا لالچ دیا اور کسی کو اسنے اس کے بیٹے کی نوکری کا جھانسہ دیا ۔ بالآخر اس کی پارٹی جیت گئی اور ڈیرے پہ خوب جشن منایا گیا۔ شراب و کباب کی محفل میں کئی معصوم چیخوں کو سنا گیا ۔ لیکن وہاں کون تھا جو آواز اٹھاتا ۔ وہ گاوں ملک کا آخری حصہ تھا۔ نہ کوئی حکومت تھی وہاں نہ کوئی پرسان حال۔ غریب پستارہتا کوئی مددگار نہ تھا۔ سلیم اب خود کو بھی لیڈر سمجھنے لگا تھا اور اکثر ساتھیوں پر رعب ڈالنے کیلئے ان سے خواہمخواہ اختلاف کرتا رہتا تھا۔ اس کے ساتھی اب اس سے تنگ پڑنے لگے تھے ۔ اکثر اپنے لیڈر سے اس کی شکایت کرتے رہتے تھے ۔
پھر ایک روز سلیم نے شراب پی کر کسی گھر کا دروازہ بجایا اور وہاں گھسنے کی کوشش کی ۔ یہ لوگ کسی دوسرے گاوں سے نئے نئے ساتھ والے گاوں میں شفٹ ہوئے تھے ۔ ان کی تین لڑکیاں تھیں جو گھر کے ساتھ احاطے میں بچوں کا سکول چلا رہی تھیں۔ ان لڑکیوں میں درمیانی لڑکی زیادہ پڑھی لکھی تھی ۔ دوسری دونوں نے بارہویں تک پڑھا تھا ۔ باپ فوت ہوچکا تھا ماں نے اپنے بیمار بھائی کو ساتھ رکھا تھا جس کی خدمت بھی کرتی اور اس کی دوا دارو بھی کرتی تھی۔ بیوہ عورت کو بیمار بھائی کو ساتھ رکھنے کی مجبوری ظالم سماج کی وجہ سے تھی ۔ ورنہ جہاں دو وقت کی روٹی مشکل سے ملے وہاں کسی کا بوجھ اٹھانا کونسا آسان تھا۔
جب سلیم نے ان کا دروازہ پیٹا تو لڑکیوں کی ماں نے پوچھا کہ باہر کون ہے ۔ جواب میں نشے میں دھت سلیم نے اول فول بکے اور لڑکیوں سے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ بچاری بیوہ سمجھ گئی کہ کوئی غنڈہ نشہ کرکے آیا کھڑا ہے باہر ۔ اس نے بیٹوں کو کہا کہ وہ پچھلے دروازے سے ساتھ والے گھر چلی جائیں اگر اس آدمی نے زبردستی اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو شاید وہ روک نہ پائے ۔ آدھی رات میں جب سارا گاوں سویا ہوا تھا تب سلیم نے وہاں شور شرابا مچا رکھا تھا ۔ کچھ دیر سلیم دروازہ پیٹنے کے بعد سلیم نے پستول نکالی اور دروازے پر فائر کئے ۔دو گولیاں بوسیدہ لکڑی کے دروازے سے گزر کر بیوہ کے سینے میں جا لگیں اور وہ جاں بحق ہوگئی ۔ گاوں کے لوگوں نے فائرنگ کی آواز سنی تو گھروں سے نکل آئے اور سلیم کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس کے آنے تک رسیوں سے باندھ دیا۔
پولیس سلیم کو تھانے لے گئی جبکہ سلیم سارے رستے انہیں بتاتا اور بتاتا رہا کہ وہ بڑا بدمعاش ہے اس کو اسطرح کوئی حراست میں نہیں لے سکتا ۔ لیکن شاید دکیم جانتا نہیں تھا ۔سیاست میں مفادات زیادہ عزیز ہوتے ورکر نہیں۔ وہی ہوا جو سلیم جیسے پیادے کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اس کے لیڈر نے شروع شروع میں دو چار بار اپنا بندہ بھیج کر اسے جیل میں تسلی دی کہ وہ عنقریب اسے نکال لیں گے لیکن درحقیقت وہ خوش تھے کہ سلیم کی اب ویسی ضرورت نہ تھی جبکہ وہ آئے روز کوئی نہ کوئی مسئلہ بنا رہا تھا ۔ یہی وہ لیڈر چاہتا تھا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ سلیم نے اپنی حماقت سے یہ موقع دے دیا تھا ۔
اس کی ماں اور باپ اسے ملنے آتے تھے ۔ انہوں نے پولیس کو بہت پیسہ کھلایا کہ وہ سلیم کو سہولت دیں لیکن جب چار دن گزر جاتے پولیس سلیم پر تشدد کرتی اور وہ پھر گھر سے پیسے منگواتا۔ ایک روز اسے ایک سپاہی نے آکر بتایا کہ اس کی بہن کو کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے اور اسے کوئی حالت میں گاوں کے پرانے کنویں کے پاس پھینک گئے ۔ سلیم فورا سمجھ گیا کہ یہ طریقہ واردات اسی کے ساتھیوں کا تھا۔ سلاخوں سے سر پڑتا رہا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا ۔ وہ بھی تو دوسروں کی بیٹیاں اٹھا کر لےجایا کرتا تھا یہی کچھ تو وہ بھی کرتا رہا ۔ آج ندامت غصہ اور بے بسی اس کا مقدر تھا ۔ اب اس کی ماں بھی اسے ملنے نہ آتی تھی ۔ عدالت نے پھانسی کا فیصلہ سنا دیا تھا لیکن اس سے پہلے اس کو لمبی قید کاٹنی تھی جس میں گناہوں کے کفارے کا کوئی رستہ سلیم کو نظر نہ آتا تھا البتہ ایک روز یاسر اور عامر اسے ملنے آئے۔  وہی پرانے دوست جنہیں اس نے اپنے نئے دوسروں کئ وجہ سے چھوڑا تھا۔ ان دونوں نے اسے اللہ سے توبہ کرنے اور اپنی آخرت درست کرنے کی ترغیب دی کہ جو وقت اس کے پاس ہے وہ عبادت میں صرف کردے تو شاید اگلے جہاں اس کیلئے کوئی بہتری ہوجائے ۔ اس کے سوا کوئی کچھ کر بھی نہ سکتا تھا ۔ سلیم اب جیل میں جلتا کڑھتا اپنے دن گن رہا تھا۔ اس کے والدین گاوں سے جا چکے تھے ۔ ایک بیٹی کی عزت لٹوا کر اب دوسری کی عزت بچانے کی خاطر ایک رات اندھیرے میں وہ چند جوڑے کپڑے اٹھا کر گاوں سے نکل گئے اور کسی کو خبر نہ ہوئی کہ کہاں گئے۔
جن بچیوں کی ماں کو سلیم نے گولی ماری تھی۔ گاوں کے لوگوں نے انہیں گاوں میں زمین کا ایک ٹکڑا بھی دے دیا جس سے ان کی گزر بسر اچھی ہونے لگی۔وہ اب سلیم کے گاوں میں رہتی تھیں اور سکول چلا رہی تھیں
سلیم مثال عبرت بن گیا ۔ بہت دیر تک گاوں کے لوگ سیاسی جماعتوں کے اس گھناؤنے کھیل سے بچوں کو ڈراتے رہے کہ کبھی کسی شخص کی خاطر قانون شکنی نہ کرو۔ کبھی اپنے دوستوں اور گاوں والوں کے خلاف نہ جاو ۔ یہ سیاسی لیڈر صرف اپنے مفاد کی خاطر عام آدمی کو استعمال کرتے ہیں اور مقاصد کے حصول کے بعد کسی نہ کسی معاملے میں الجھا کر دامن چھڑا لیتے ہیں۔ سیاسی ورکر کی اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہی بس ہمیشہ ورکر ہی رہتا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment