سول میٹ(حصہ 5)
سعدیہ کیانی
ہم شام تک جھولے جھولتے رہے ۔تصاویر بناتے رہے ۔ سنیکس اور کافی پینے کے ساتھ ساتھ کچھ شاپنگ بھی کی ۔ پھر تھکے ہارے ہوٹل کی طرف واپسی کی۔ اگلی صبح اسی شہر میں کچھ رشتہ دار تھے جنہوں نے ایلی اور شمریز کی دعوت کی تھی ہمیں بھی مدعو کیا گیا سو صبح دیر تک سوتے رہے پھر اٹھ کر ناشتہ کیا اور واپس آکر دعوت کی تیاری کی۔ اسی شہر میں نادر کا گھر بھی تھا ۔ ثناء کچھ جھجھک رہی تھی کہ ہونے والے سسرال جانا کچھ عجیب سا ہے لیکن ایلی نے جب اپنی ڈھٹائی کم بے شرمی کے قصے سنائے تو ثناءکا اعتماد خاصا بحال ہوگیا۔
ہم وقت پر آنٹی صفیہ کے گھر پہنچے ۔ بڑی آو بھگت تھی دلہا میاں کی۔ آنٹی بار بار کہتی تھیں کہ داماد میاں کو پتا چلے سسرال کیسا ہے ۔ ایلی بھی بڑے فخریہ انداز سے شمریز کو دیکھتی رہی اور ہم بھی اس مہمان نوازی سے محظوظ ہوتے رہے۔ کھانا بہت پر تکلف تھا ۔ اوون سے لیمن اور مصالحہ میں روسٹ چکن کی خوشبو نے بھوک بڑھا دی۔ کچے قیمے کے چپلی کباب ساتھ ساتھ اتارے جارہے تھے اور گرما گرم پیش کئے جارہے تھے۔ چائینر رائس۔ ڈرائی بیف ۔ قورمہ ۔ مٹن کو مکھن میں تیار کیا گیا تھا ۔۔ جسے کھانے سے ہم قاصر تھے البتہ دکھانے کو کچھ چگ لیا تھا۔ پتا نہیں کتنی ہی ڈشیں آتی جارہی تھیں ۔ آخر شمریز بول ہی پڑا کہ اس سے زیادہ تو گنجائش بھی نہیں اب بس کردیں۔ لیکن آنٹی صفیہ نے کہاں باز آنا تھا ۔ زبردستی ٹھسوا دیا۔۔ پھر ہاضمہ والی ڈرنکس رکھ دیں۔ خدا خدا کرکے کھانے سے فارغ ہوئے ۔ اجازت مانگی تو گفٹس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہمارے لاکھ منع کرنے کے باوجود ہمارے تحائف بھی کار میں رکھوا دئے گئے۔ شرمندگی سے جان چھڑانے کی کی۔ و ہاں سے نکلے تو ایک اور کزن سے ملنا تھا جسے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایک گھونٹ پانی بھی نہیں پینا ۔ لیکن وہ کہاں باز آتی تھی۔ بس ہم نے کافی پی لی اور پھر نادر کے گھر کی راہ لی ۔ ابھی تک کھانے کی حاجت نہ تھی لیکن نادر کی ماں نے بھی کچھ کم اہتمام نہ کیا تھا۔
مرتے کیا نہ کرتے جو ہوسکا کھا پی لیا۔ البتہ ان کی تسلی نہ ہوئی ۔ ڈسپوزبل پیکنک میں کھانا پیک کردیا کہ اب بنا دیا ہے تو لے کر جاو۔ پھر شرمندگی سے زمین میں گڑھ گئے کہ بندہ کیا کرے ان بزرگوں کی شفقت کے آگے۔ نادر کا گھرانہ اچھا تھا ۔ سلجھے ہوئے لوگ تھے ۔ نادر کے کمرے کا چکر لگا کر اس کی کافی ساری ایکٹویزکا اندازہ ہوگیا تھا۔ میوزک کا شوقین اور کتابی کیڑا۔ سلجھا ہوا جوان تھا کوئی خاص معیوب شے نظر نہ آئی۔ نادر کی ماں تو سارا وقت بہانے بہانے سے ثناء کو ہی چومتی رہی۔ شمریز اس صورتحال کو انجوائے کررہا تھا۔ مجھے یہ فیملی ثناء کے لئے موضوع لگی۔ نادر کی ماں مجھے
بھی خاصا مکھن لگاتی رہی کہ نادر اور ثناء کا رشتہ پکا کروا دو۔ مجھے اچھا لگا کہ انہیں ثناء پسند ہے ۔ سوچا امی کو جاکر اچھی خبر دونگی۔
رات ہم وہاں سے فارغ ہوئے تو شہر کے اختتام پر شاپنگ مال تھا ۔ کچھ دیر وہاں رک گئے ۔ پھر فارغ ہو کر سیدھے ہوٹل پہنچے۔ چینج کرکے سب کھانے کو بیٹھ گئے ۔ حالانکہ بھوک کم تھی لیکن پھر بھی باتوں ہی باتوں میں ڈبوں میں پیک خوراک ہضم کرگئے۔ اگلے روز ایلی اور شمریز کا کوئی پرسنل پلین تھا اور ہم بھی کچھ خاص موڈ میں نہ تھے ۔ ادھر ادھر گھوم کر واپس آگئے اور پھر اگلے روز اگلے اسٹیشن کی طرف چل دئیے ۔ یہ چند دن تفریح کے ہمارے لئے ضروری تھے ۔ ساری بیاہ کی تکان اتر گئی ۔ ٹرپ سے واپسی ہوئی تو امی اپنا بیگ تیار کئے کھڑی تھیں کہ کل ماموں کی طرف جانا ہے وہ سب خفا ہورہے ہیں ۔ ایلی کو موڈ ابھی ہمیں چھوڑنے کا نہیں تھا لیکن اسے سمجھایا کہ خاندان بھر سے ملنا ہے اور وقت کم ہے ۔ اگلے ماہ پاکستان واپسی تھی ۔
ہم ماموں کے گھر پہنچے تو کزنز نے خوب خوشی کا اظہار کیا۔ رات بھر پروگرام بناتے رہے کدھر جانا ہے۔ کس سےملنا ہے۔ شاپنگ کہاں سے کرنی ہے وغیرہ۔ چند دن خوب گھومتے پھرتے رہے ۔ دعوتیں اڑائیں ۔ کچھ شرارتیں بھی کیں۔ جیسے ایک نک چڑھے کزن کو تنگ کیا۔ اس کے کمرے کا لاک بنا چابی کھولا ۔ اس کی چیزیں چھپا کر دروازہ پھر بند کردیا۔ بچارے کو سمجھ ہی نہ آئی کہ چابی تو اس کے پاس تھی لیکن کمرے سے اشیاء ادھر ادھر کیسے ہوگئیں۔ پھر آدھی رات کو بھوت کا ڈرامہ رچایا ۔ بچارہ ڈرتارہا لیکن چونکہ کسی سے کبھی اچھے مراسم نہ رکھے تھے اس لئے کسی سے مدد طلب نہ کرسکا۔ البتہ اس مشق سے اسے کچھ رویہ بدلنے کا خیال ضرور آگیا۔ پھر ایک روز ایک بزرگ عزیز سے ملنے اولڈ ہاوس گئے ۔ افسوس ہوا کہ پوتے پوتیاں ہونے کے باوجود انہیں یہاں رہنا پڑرہا تھا۔ امی کو وہ بہت پیار کررہی تھیں ۔ ہمارے گال بھی گیلے کردئے چوم چوم کر۔ ان کی تنہائی دیکھ کر دل بہت اداس ہوا ۔ پھر جتنے دن رہے روز شام کو امی ان کی طرف جانے لگیں۔ اور آخر ایک دن ان کی ایک بیٹی کو خیال آہی گیا ۔ اور اس نے خوشخبری سنائی کہ وہ عنقریب ماں کو یہاں سے لے جائے گی۔ امی بہت خوش تھیں۔ ان کا بس چلتا تو وہ واپسی سے پہلے انہیں وہاں سے شفٹ کروا کر ہی آتیں لیکن اتنا وقت نہ تھا۔ پھر ہماری واپسی ہوئی ۔ ایلی خوش ہوگئی ہمیں دیکھ کر لیکن اب ہمارے پاس ذرا بھی وقت نہ تھا کہ مزید رہتے ۔ اور ایلی کو روتا دھوتا چھوڑ کر ہم پاکستان واپس آگئے ۔ فلائیٹ کے دروان مجھے حمزہ سے ملاقات کا سوچ کر بے چینی سی ہونے لگی۔ وقت تھا کہ گزرتا ہی نہ تھا۔ سوچا ائیرپورٹ پر وہ خود آئیں گے لیکن افسوس وہاں چچا جان اور باجی اکیلے ہی ملے۔ حمزہ کسی انٹرنیشل فلائیٹ پر تھے۔ دل بجھ گیا ۔ سوچا کہ کاش چند روز ایلی کے ساتھ ہی بتا لیتی ۔ اس کرب سے تو نہ گزرنا پڑتا۔ وہ بھی منتیں کرتی رہی کہ سیٹ آگے کروا لو ایک ہفتہ ۔لیکن تب ہمیں واپسی کا بھوت سوار تھا۔ حمزہ کی دھڑکنوں سے الجھنے کا جنوں سوار تھا۔ ائیرپورٹ سے گھر تک میرا دل بجھا رہا لیکن گھر کے سامنے اترے تو چچا جان نے کار اپنے دروازے کے سامنے جا روکی۔ اور پھر عجیب منظر دیکھنے کو ملا۔ پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی چچی اور آپا نے بانہوں میں بھر لیا ۔ خوب پیار اور مبارک دینے لگیں اور پھر گھر سے محلے کی دیگر خواتیں بھی نکلنے لگیں۔ اچھا خاصا ہجوم بن گیا۔ مجھے کچھ شرم سی آنے لگی۔ لیکن سب نے خوشی کا اظہار کیا جو میرے لئے باعث اطمینان تھا۔ گھر جانا چاہا لیکن وہ اپنے گھر لے گئیں۔ مٹھائی سے منہ میٹھا کیا اور پھر چچی نے میرے سر سے صدقہ و خیرات کی رقم وار کر ماسی کے حوالے کی۔ چچی کو اسطرح خوش دیکھ کر مجھے کچھ حیرانگی تھی لیکن اچھا لگا۔ امی اور ثناء بھی خوش نظر آرہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ہم نے گھر جانا چاہا تو چچی نے بتایا رات کا کھانا انہوں نے بنا رکھا ہے ۔ بس چند گھڑیاں آرام کرکے ہم سب واپس چچا کی طرف آگئے۔ کھانا کھا چکے تو چچی نے دو جیولری بکس میری گود میں رکھ دئیے ۔ ایک گولڈ سیٹ اور دوسرے میں آپا کی طرف سے کنگن تھا۔ چچی کہنے لگیں کہ حمزہ جلدی نہ کرتا تو سب کچھ اہتمام سے کرتے لیکن وہ کسی کی سنتا ہی کب ہے۔ مجھے لگا جیسے ہر کوئی حمزہ کی شکایت مجھ سے کررہا ہے جیسے میں ہی حمزہ تک رسائی کا رستہ ہوں۔ یہ سب عجیب تھا لیکن اچھا تھا۔ رات دیر تک باتیں کرتے رہے اور پھر گھر آکر سو گئے ۔
دو تین روز تک گھر کی صفائی ستھرائی اور تحائف بانٹنے کا سلسلہ جاری رہا پھر یونیورسٹی کی تیاری کرنے لگی۔ حمزہ کے آنے میں ابھی دن تھے ۔ میں بھی اب مصروف ہوگئی تھی اسلئے حمزہ کی یاد بہت تنگ نہیں کررہی تھی۔
میں ثناء کو لے مارکیٹ جارہی ہوں ۔ تم ابو کے آنے سے پہلے ان کے لئے کھانا تیار کردینا ۔ امی مجھے حکم صادر کرتے ہوئے ثناء کو لے کر چلی گئیں۔ ابو نے شام آنا تھا لیکن پھر فون آگیا کہ رات کو آئیں گے ۔ میں نے کھانا بنا کر رکھ دیا اور خود نہانے چلی گئی ۔ نماز پڑھنے لگی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ باجی کو کچھ چاہیے تھا دروازہ کھول کر میں نماز پڑھنے لگی اور باجی کچن سے مطلوبہ شے لے کر چلی گئیں ۔ دروازہ بند کر گئیں۔ نماز سے فارغ ہوکر میں کنگھی کرنے لگی لیکن گیلے بالوں کو کچھ دیر یونہی چھوڑنا پڑا۔ فون بجا ۔ ابو تھے ۔ امی کا پوچھا تو میں نے بتایا کہ ابھی نہیں آئیں۔ پھر ابو نے رات دیر سے آنے کا کہہ کر فون بند کردیا۔ ابھی فون رکھ کر پلٹنے ہی والی تھی کہ کسی نے مجھے دبوچ لیا۔۔ وہی انداز ۔۔ وہی خوشبو ۔۔ وہی لمس۔۔ میں نے سوچا مجھے سرپرائز ملا کہ وہ دو روز پہلے ہی واپس آگئے تھے۔ لیکن سچ یہ تھا کہ مجھے باجی نے غلط بتایا تھا اور وہ بھی حمزہ کے کہنے پر۔ کتنے ہی لمحے گزر گئے ۔ انہوں نے مجھے سمیٹ لیا تھا ۔ میں محبت کی اس گود میں کیسے آرام سے ۔۔ سکون سے کھڑی تھی ۔ وقت رک گیا تھا ۔ کائنات سو گئی تھی۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ وہ سانسوں کی گرمائش سے میری روح کو سیک رہے تھے۔ ہم آنکھیں بند کئے دل کی نگاہوں سے اک دوجے کی زیارت میں گم ۔۔ کبھی بوسے تو کبھی سرگوشیاں ۔۔ کہیں جبر تو کہیں صبر کی مشق کرتے رہے۔۔ ان کے سینے سے سر ٹکائے جیسے میں سو ہی گئی تھی کہ دور کسی وادی سے حمزہ کی دلفریب پکار نے مجھے چونکا دیا۔۔۔ ساتھ دستک کی آواز آنے لگی ۔ کوئی دروازہ بجا رہا تھا ۔ میں جیسے گہرے خمار میں تھی ۔ آنکھ اٹھا کر اپنے مہتاب کو دیکھا تو نگاہیں خود ہی گرنے لگیں ۔۔ کتنا مشکل تھا اس وقت ان سے نگاہیں ملانا۔ دستک پھر ہورہی تھی ۔ میں نے حمزہ کی بانہوں سے خود کو آزاد کیا اور دروازہ کھولنے چلی گئی۔ سامنے نومی کھڑا تھا۔ میں اس وقت اسے دیکھ کر کچھ حیران سی ہوئی ۔ لیکن اس سے پہلے ہی وہ بول پڑا۔ سوری میں گاوں گیا ہوا تھا ورنہ تمہارا استقبال کرتا۔ ساتھ ہی اس نے ایک گفٹ پیک میری طرف بڑھایا۔ تمہارے نکاح کا سن کر بہت خوش ہوا ۔ تم دونوں بنے ہی ایک دوسرے کے لئے ہو ۔ میری طرف سے بہت سی نیک تمنائیں ۔۔ آو ۔۔ اندر اجاو ۔۔۔ میں نے نومی کو آنے کیلئے کہا تو اس نے منع کردیا۔ دوستوں کے ساتھ جارہا ہوں۔ ڈنر یے آج۔ میں نے گفٹ پیک پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ۔ تم خوش ہوئے یہی بہت یے۔ لیکن وہ کہاں سنتا تھا ذبردستی پکڑا کر چلا گیا۔ میں واپس کمرے میں آئی تو حمزہ صوفے کی پشت سے سر ٹکائے بیٹھے تھے۔ یونیفارم بھی نہ بدلا تھا اور بہت تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ میں کچھ جھجھکی ۔ آپ کب آئے ؟ ان سے کچھ دور کھڑی تھی ۔ انہوں نے خمار بھری نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔ ہاتھ میری جانب بڑھایا ۔ تمہارے پاس آیا ہوں سیدھا۔۔۔ میں نے ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تو انہوں نے مجھے اپنے پاس کرلیا ۔۔ ان کے پہلو میں بیٹھ گئی ۔ وہ پیار سے دیکھنے لگے۔ مایا ۔۔۔ تم میری مایا ہو۔۔۔ میں پوچھنا چاہتی تھی کہ آخر یہ مایا کون ہے؟ لیکن میرے پوچھنے سے پہلے گویا وہ سمجھ گئے تھے۔ میرے تصور کی شہزادی ۔۔۔ میرے خوابوں کی ملکہ ۔۔ مایا ۔۔ جسے اکثر خوابوں میں دیکھتا تھا لیکن کبھی پکڑ نہ پایا تھا وہ ہمیشہ جھلک دکھا کر بھاگ جاتی تھی۔ آج لگتا ہے کہ وہ تم ہی تھی۔۔ اکثر بیخودی میں تمہیں مایا کہہ جاتا تھا تو بعد میں شرمندہ ہوجاتا تھا کہ تم سے تو ایسا کوئی تعلق بھی نہیں ۔۔۔ وہ کچھ لمحے خلاء کو گھورنے لگے۔۔ لیکن نہیں ۔۔۔ تعلق تو صدیوں پرانا تھا ۔۔۔ ہمیں خبر بہت دیر سے ہوئی۔ پھر وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے ۔۔۔ تم ہی مایا تھی ۔۔۔ وہ عکس تھا تم حقیقت ہو۔ دروازے پر پھر دستک ہوئی ۔ حمزہ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ میں چلتا ہوں امی کو انتظار ہوگا ۔ چینج کرلوں تو پھر ملتے ہیں ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرے گالوں کا بوسہ لیا اور دروازے کی جانب بڑھ گئے ۔ باہر چچی کھڑی تھیں۔ حمزہ سے لپٹ کر خوب پیار کرنے لگیں ۔ کب سے انتظار کررہی ہوں ۔ اتنے دنوں بعد آئے ہو ماں کے دل کو صبر نہیں آتا ۔۔۔ وہ ان کی پیشانی چوم رہی تھیں اور میں کچھ فاصلے پہ کھڑی دیکھ رہی تھی۔ حمزہ نے بھی جواب میں چچی کو خوب زور کی جپھی ڈالی۔ چچی نے آگے بڑھ کر مجھے بھی پیار کیا ۔ کچھ حیا سی آگئی جب چچی نے بہو کہہ کر بلایا۔ مجھے تو یوں بھی تم بہت پیاری تھی اب بہو بن کر میرے گھر آو گی تو میرے حمزہ کی زندگی کو رنگوں سے بھر دوگی ۔۔۔ تم جیسی بہو قسمت والوں کو ملتی ہے ۔۔۔ ہمیں تو یقین نہیں آتا کہ بھائی صاحب نے تمہارا رشتہ کردیا ورنہ یہ نفرت کی آگ تو کب سے دونوں بھائیوں کو جلا رہی ہے ۔۔۔ چچی کچھ اداس ہوگئیں تھیں۔ پھر مسکرا کر میرے سر پہ پھیرا ۔۔۔ مجھے یقین ہے تم دونوں مل کر ان کے درمیان صلح کروا دو گے۔ چچی حمزہ کو ساتھ لے گئیں ۔۔ ماں کا دل تھا ۔۔ کہاں حوصلہ کرتا ۔۔ پتا نہیں کیسے اتنی دیر برداشت کیا انہوں نے۔ حمزہ کی لمبی فلائیٹ کے بعد چچی عموما دو روز صرف ان کے ساتھ ہی چپکی رہتی تھیں ۔
رات حمزہ مجھے بلا رہے تھے لیکن مجھے ابو کی موجودگی میں یہ کچھ مشکل لگا۔ اگلے روز پتا چلا کہ امی نے چچا کی فیملی کا کھانا کیا ہے اور باجی صبح سے ثناء کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ مجھے یونیورسٹی جانا تھا صبح ہی نکل گئی تھی ۔ واپس آئی کھانا تیار تھا اور سب ٹیبل پر موجود تھے ۔ ابو کی شام کی ڈیوٹی تھی اسلئے وہ بھی دسترخوان پرموجود تھے۔۔ میں نے حمزہ کو ابو کے برابر بیٹھے دیتا تو کچھ جھجک سی محسوس ہوئی کہ اب ان کے ساتھ کیسے بیٹھوں۔ بس کمرے میں ہی جانا مناسب سمجھا ۔ امی نے بھی یہی مناسب جانا کہ ہم لڑکیاں اس خطرناک ٹیبل پر نہ ہی بیٹھیں جہاں کسی بھی وقت جنگ چھڑنے کا احتمال تھا۔ چچا ابو سے معاملات درست کرنا چاہتے تھے اور حمزہ رخصتی کی بات کرنا چاہتے تھے۔ اور ابو دونوں باتوں کیلئے تیار نہ تھے۔ بس کچھ ہی دیر میں اونچی اونچی آوازیں آنے لگیں اور خوب مباحثہ شروع ہوگیا۔ امی نے ثناء کو کھانے کے بعد بلا کر چائے کا کہا اور سب اٹھ کر ڈائننگ سے ڈرائینگ روم میں جا بیٹھے ۔ حمزہ نے ایک اٹھ کر ادھر آنا چاہا تو ابو نے ڈانٹ کر ادھر ہی بٹھا لیا ۔ ابو انہیں بتانا چاہتے تھے کہ چچا نے ابو کے ساتھ کیسی ناانصافی کی لیکن چچا کہتے تھے کہ یہ سب پھپھو کی سازش تھی۔ آخرکار اس کا حل یہ نکلا کہ حمزہ نے چچا اور ابو کو ساتھ لیا اور پھپھو کی طرف چل دئیے ۔ اب ایک نئی پریشانی بن گئی تھی ۔ پھپھو کے مکر و فریب سے کون واقف نہ تھا ۔ امی اور چچی پریشان تھیں کہ پھپھو دونوں بھائیوں کو اشتعال دلا کر مزید نقصان کریں گی لیکن مجھے یقین تھا کہ حمزہ ساتھ گئے ہیں تو آج یہ معاملہ حل کرکے ہی آئیں گے۔ تین گھنٹے گزر گئے تو فون کی بیل بجی ۔ چچی ابھی تک یہیں تھیں اور اب سو گئی تھیں۔ ثناء نے بتایا کہ حمزہ کا ہی فون تھا اور ابو نے ساری بات سن کر پھپھو کی خوب کلاس لی کہ کس طرح اتنے برس دونوں بھائیوں میں غلط فہمیاں پیدا کرتی رہیں۔ بھائیوں میں صلح کی خبر سن کر سب خوش ہوگئے ۔ امی نے چچی کو جگایا اور ثناء نے پھر چائے چڑھا دی ۔ وہ لوگ گھر آرہے تھے ۔ چچی بہت خوش تھیں ۔ بس اب تیری رخصتی کی بات بھی کرتی ہوں اب بھائی صاحب مان جائینگے ۔ چچی نے مجھے پاس بلالیاتھا اور اب میں ان کی گود میں سر رکھے لیٹ گئی تھی۔ چچی میرے بال سہلا رہی تھیں اور مجھے نیند آرہی تھی۔ چائے آگئی تو چچی نے مجھے جگا دیا ۔ میری آنکھ لگ گئی تھی۔ چائے پی کر سب وضو بنانے اور نماز پڑھنے لگے۔ اب پانچ گھنٹے سے بھی زیادہ گزر گئے تھے اب تک آئے کیوں نہیں ۔ امی پریشان ہورہی تھیں تو باجی نے مذاق کیا کہ کہیں دونوں بھائی کسی جگہ بیٹھے سیلیبریٹ کرتے ہونگے صلح کو۔ لیکن امی کی طرح میرا دل بھی پریشان ہوگیا ۔ گھنٹہ مزید گزرا تو مجھے لگا جیسے میرا دل ڈوب رہا ہے۔ باجی نے مجھے دیکھا تو تسلی دینا چاہی کہ فکر نہ کرو آتے ہونگے لیکن دل تھا کہ ریس کے گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑے جارہا تھا ۔ مجھے لگا جیسے اب میرے اعصاب کمزور ہوگئے تھے۔ فون کی بیل بجی تو باجی جلدی سے اٹھی ۔۔ وہ فون اٹھانے ہی والی تھی کہ میں نے بھاگ کر ریسیور پر ہاتھ رکھ دیا۔ ارے اٹھانے دو فون ۔۔ باجی حیران ہوکر بولیں۔ نہیں فون نہیں اٹھانا ۔
No comments:
Post a Comment