صبح سویرے صائمہ کا فون آگیا ۔
کہنے لگیں۔۔ آپ سے ایک مشورہ لینا ہے اگر کچھ فرصت
ہو تو بات کروں ؟
جی ابھی اٹھی ہوں ذرا چائے کافی پی لوں تو کرتی
ہوں فون۔ میں نے جمائیاں لیتے ہوئے جواب دیا لیکن ان کے انداز سے لگا کہ کچھ عجلت
میں ہیں اور مجھے لگا کہ زیادتی ہوگی اگر اسطرح انہیں انتظار کروایا ۔ صائمہ سوشل
اشوز پر اکثر مجھے فون کرتی رہتی ہیں بلکہ ذاتی مسائل پر بھی وہ کسی اور سے رابطہ
کرنے کی بجائے صرف مجھے ہی ساری صورتحال بتا کر مشورہ لیا کرتی ہیں ۔ کسی زمانے
میں میری استاد تھیں اب دوست ہیں۔ بہت نفیس، مخلص اور ہمدرد خاتون ہیں ۔ ہر
کسی کے درد کو اپنا سمجھ لیتی ہیں پھر جب خود سے حل نہ نکلے تو میرے کندھے پر ڈال
کر اس کے حل کرنے پر زور دینے لگتی ہیں ۔
اچھا بتائیں کیا مسئلہ ہے ؟ میں نے دوبارہ پوچھا
تو جیسے انتظار میں تھیں ۔ پوری کہانی کہہ ڈالی ۔ میں سنتی رہی ۔ پھر چند سوالات
کئے ۔
معاملہ دراصل ایک بچی کا تھا جو رات کے وقت ان کے گھر
آگئی ۔ انہیں مجبورا اسے رات اپنے ہی گھر ٹھہرانا پڑا ۔
بچی اپنے والدین کا گھر چھوڑ آئی تھی۔ زخمی تھی کہ
والدین بہت ظلم کرتے ہیں مارتے ہیں ۔ آج بھی چھری کے گھاو کی مرہم پٹی کرانے
ہسپتال آئی اور موقع دیکھ کر بھاگ نکلی ۔
لڑکی نے بتایا کہ اس کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک
ہورہا تھا تو اس نے ایک لڑکے سے نکاح کر لیا ۔جب والدین کو خبر ہوئی تو انہوں لڑکے
کو مارپیٹ کی اور اسلحہ کے زور پر اس سے طلاق دلوادی ۔
مفتی سے
پوچھا تو اس نے کہا کہ ایسے طلاق نہیں ہوتی اس میں گنجائش ہے۔
بحرحال اب
جب وہ سسرال جانا چاہتی تھی تو والدین نے پولیس کو پیسہ دے کر اس کے میاں کو
جیل میں ڈلوا دیا۔
وہ لڑکی کہتی ہے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے ۔ اسلئے
وہ میڈیا کا سہارا لینا چاہتی ہے ۔ صائمہ نے مجھ سے رابطہ اسی لئے کیا کہ میں اس
کی مدد کروں اور صائمہ کو مشورہ بھی دوں کہ مجھے کیا سمجھ آئی ۔
آپ نے اس بچی کی ماں سے رابطہ کیا؟ اب میں نے سوال
جواب شروع کئے ۔
نہیں کل رات تو یہ آئی ہے ۔آج اس کے سسرال والے
وکیل کے ذریعے اس کا کیس تیار کریں گے بس میڈیا کی مدد درکار ہے ۔ وہ بولیں۔
اچھا پہلے تو آپ ایک بات ذہن سے نکال دیں کہ اس کو
کسی میڈیا پرسن سے ملوائینگئ۔ جب تک پوری تسلی نہ کر لیں کہ اصل معاملہ کیا ہے اور
قصور کس فریق کا ہے ۔ یہ چھوٹے موٹے رپورٹر تو ہر خبر کو مصالحہ لگا تلنے لگتے ہیں
بنا سوچے سمجھے کہ اس کا معاشرے پر کیا اثر ہوگا۔ صحافی کا کام محض ہر اچھی بری
خبر لگانا نہیں ہوتا بلکہ اس کا فرض ہے کہ دیکھے اس کی خبر معاشرے میں کس قدر مثبت
رحجان پیدا کرتی ہے ۔ گو کہ ترقی یافتہ ممالک میں صحافت کا معیار دوسرا ہے لیکن
ہمارے یہاں صحافت کی ڈگری سے زیادہ سسٹم کی سمجھ ہونی ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ جب
معاشرہ میں منفی اثرات بہت زیادہ ہوں تو ہمیں مثبت اور تعمیری رپورٹنگ کرنی ہوتی
ہے تاکہ بیمار ذہنوں کی مثبت ذہن سازی کی جاسکے ۔
میں نے انہیں منع کردیا کہ اس معاملے کو میڈیا پر
نہ لائیں ، کیا خبر اس کے والدین سفید پوش لوگ ہوں اور اس طرح ان کی زندگی کا
تماشہ بن جائے ۔ کیا خبر اس کے بھائی ایسی بدنامی برداشت نہ کرسکیں اور اپنی
زندگیاں ہی ختم کرلیں، جیسا آئے روز ہم سنتے ہیں کہ غیرت مند بھائی یا باپ نے
خودکشی کرلی ۔ جو سراسر غلط ہے ۔
میں نے صائمہ سے پوچھا کہ اس نے کیا بتایا کہ
والدین کیوں مارے تھے ؟ تو وہ کہنے لگیں کہ کوئی خاص وجہ نہیں بتائی اس نے ۔
اب میں نے صائمہ سے سوال کیا۔۔۔
کیا کبھی
کوئی ماں اسطرح سفاک ہوسکتی ہے کہ خواہمخواہ اپنی بچی پر اتنا ظلم کرے کہ وہ زخمی
ہو جائے ؟ پھر اگر وہ ظالم ہیں تو ماں خود کیوں اس کو اسپتال لے کر آئی مرہم پٹی
کرانے؟ پھر اگر وہ مکار لوگ ہوتے تو کیا ماں اس پر اعتبار کر کے اس کی دوا لینے
جاتی جو اس کو موقع ملا اور یہ بھاگ کر بنا بتائے ادھر آگئی؟ بلکہ آپ نے تو بتایا
کہ یہ دو روز کسی دوست کے گھر رہی اور آج آپ کے پاس آئی ہے تاکہ آپ اس کو میڈیا تک
رسائی دیں ۔ سوچیں اس ماں پر کیا گزری ہوگی جب وہ واپس گئی اور جس بنچ پر اسے بٹھا
آئی تھی وہاں یہ نہ پائی گئی؟ اس بچاری کو میاں کا بھی ڈر ہوگا کیا پتا اس کے باعث
اس کی ماں کو مار بھی پڑتی ہو؟
صائمہ میری باتوں سے خاصی متفق نظر آئیں ۔ کہنے
لگیں ۔ اسی لئے آپ کو فون کیا کہ مجھے بھی اس کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ سچ کہہ
رہی ہے یا جھوٹ۔
دیکھیں آپ خود سوچیں ۔۔ میں نے پھر سمجھایا
۔کسی بھی رپورٹر کو اس طرح کی سٹوری ملے تو وہ بہت خوشی سے اس پر کام کرےگا ۔ لیکن
اس لڑکی سے پوچھیں پھر یہ کیا کرے گی ؟ واپس والدین کے گھر تو جا نہی سکے گی
کبھی اور جب ایک دفع اس کی خبر چل گئی کہ اس کے ساتھ کوئی نہیں تو اس حیوانوں کے
سماج میں اسے کون جینے دے گا ؟ ابھی اتنی
کم عمری میں اس نے اگر ایسا فیصلہ کیا ہے تو یقینا کہیں کوئی مسئلہ اسی کی شخصیت
کا ہے ۔کبھی اسطرح بنا سوچے سمجھے میڈیا پر
مت آئیں ۔ اگر اس کا مسئلہ واقعی ہے تو جائیں پہلے اس کی ماں سے ملیں۔ ہم اس کی
مدد کرینگے۔اگریہ واقعی معصوم نکلی تو ۔
صائمہ نے بتایا کہ ان کے میاں خفا ہیں اور وہ مزید
اس معاملے میں کچھ نہیں کرنا چاہتیں اسی لئے مجھے فون کیا کہ اس کا کوئی حل نکالیں
تاکہ کوئی ظلم یا نا انصافی نہ ہو ۔
اس کا میاں کس تھانے میں بند ہے ؟ مجھے آئس ایچ او کا
نام بتا دیں یا کم از کم تھانے کا نام بتائیں ۔ اس کے والدین کا گھر کس علاقے میں ہے اور وہاں کونسا تھانہ لگتا ہے ؟ اس
کا سسرال کس علاقے میں ہے اور وہاں کا تھانہ کونسا ہے ؟ یہ تفصیلات بمع بچی کے
مکمل نام ، والدین کا نام ، لڑکے کا نام اور ولدیت اور اگر ہوسکے تو ایف آئی آر
میں دفعات کی تفصیل دیں تو میں پولیس سے رابطہ کرکے معلوم کرتی ہوں کہ معاملہ کیا
ہے ۔ میں نے صائمہ کو تسلی دی کہ انہیں اس معاملے سے الگ کر وا دیتی ہوں اور ہمیشہ
کی طرح میں نے ان کام اپنے ذمہ لے لیا ۔
آپ کو پتا ہے پولیس کو جو پیسہ دے وہ اسی کا کام
کرتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ والدین نے پولیس کو پیسہ کھلایا ہے تو آپ کو وہ کب بتائینگے؟ صائمہ ناامیدی سے بولیں
آپ اس کی فکر نہ کریں ۔ مجھ سے وہ غلط بیانی نہیں کرینگے۔ میں جانتی ہوں کس سے کیا پوچھنا ہے
اور کس طرح پوچھنا ہے۔ آپ کو پتا ہے میرے مینرز کا ۔ بس سب تفصیلات
دیں اور اس کو چونکہ آپ کے میاں خفا ہوریے ہیں تو اس کے سسرال بھجوا دیں یا جہاں
یہ جانا چاہے ۔لیکن اپنے گھر کو خراب نہ کریں ۔
میں نے کچھ مزید باتیں انہیں سمجھائیں اور پھر
تسلی دے کر فون بند کردیا۔
یہ قصہ یہیں
منقطع کرتی ہوں۔۔۔کچھ باتین بہت واضح ہیں، مزید بیان کی ضرورت نہی شاید، کسی کو کیا
سمجھ آئی۔۔۔ بتایئے ضرور۔
No comments:
Post a Comment