ہمارا ایک مسئلہ ہے جو کسی صورت حل نہیں ہو پاتا ۔ جو ذی شعور ہے وہ ہار نہی مانتا اور بدستور کوشش کرتا رہتا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم غلطی کر جائیں تو مانتے نہیں اور اگر مان جائیں تو اتنی احتیاط سے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم نے کبھی غلطی کی بھی تھی کہ نہیں۔ سامنے والے کو لگتا ہے جیسے اسے غلط فہمی ہوئی۔
اس کے بعد ہمارا نفس پہلے سے بھی زیادہ پھول جاتا ہے اور آئیندہ غلطیاں باقاعدہ پالیسی بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔
غلطی ہوجانے میں ۔۔ اسے قبول کرنے میں تصحیح کرنے میں کچھ دیر نہ لگے لیکن کیا کریں ۔۔ احساس کمتری اور تکبر جیسی بیماریاں انسان کو اسی معاشرے نے عطا کیں ۔
ہم اپنی غلطی کی تصحیح محض اسلئے نہیں کرپاتے کہ اس سے ہماری کمزوری ظاہر ہوگی۔
ہمارا خیال ہے کہ سب کے سامنے یہ مان لینے سے کہ میں نے جو کہا وہ میری غلطی ہے یا جو کیا غلطی سے ہوگیا ۔ اس کا اعتراف کرنے والے کو معاشرہ کمزور سمجھنے لگتا ہے۔ اس پہ اعتبار نہیں کیا جاتا ۔ آئیندہ کیلئے اس پر چھاپ لگ جاتی ہے کہ یہ تو پہلے بھی غلطی کرچکا ہے اب کیا اعتبار کریں ۔
میں صرف آپ کو سوچنے کی دعوت دے رہی ہوں ۔ یقینا آپ سبھی کے ساتھ ایسے معاملات ہوئے ہوں گے جب کبھی آپ نے اعتراف کرلیا کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوگئی تو سب سے پہلے آپ کے بہت قریب سے تنقید آئے گی پھر ہر بار آپ کا مذاق بنایا جائے اور پھر آپ اس اعتراف کو برا جان کر آئیندہ خود سے عہد کرلیں گے کہ آئیندہ ان جاہلوں کے سامنے خود کو کبھی غلط ثابت نہی ہونے دینا بس!!
میں کوئی واعظ کرنے کے موڈ میں نہیں صرف یہ سوچ چاہتی ہوں کہ یہ معاشرہ کن لوگوں نے بنایا ؟ یہ تضحیک کا عمل کہاں سے جاری ہوا؟
آپ نے ہم نے غلطی کر جانے والوں کو تصحیح کا موقع کب دیا ؟ ہم نے کب کھلے دل اس کی اس جرآت کو قبول کیا ؟
ہم نے کب معاشرے کو اعلی اقدار کی طرف لے جانے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کی ؟
کیا ایسے ہی چلتا رہے گا؟
اپنی غلطی کا اعتراف کوئی کمزوری نہی بلکہ جرآت مندی ہے ۔ یہ عام آدمی کے بس کی بات نہی کیونکہ عام آدمی وہی کرتا ہے جو دیگر کرتے ہیں ۔
سوچیں ۔۔۔ ہم کیسے خاص بن کر یہ خصوصیت عام کرسکتے ہیں ؟
No comments:
Post a Comment