Thursday, 20 December 2018

قصور کس کا ؟

قصور کس کا ؟
سعدیہ کیانی

دسمبر کے دن تھے جب ایک روز دروازے کی بیل بجی ۔
میں اوپر صحن میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی اور ساتھ دھوپ کے مزے لے رہی تھی ۔ ابو بھی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے۔
یہی ہمارا معمول تھا سردیوں کا ۔ سارا دن دھوپ میں چارپائیاں ڈال کر کتابوں کا مطالعہ کرتے ۔ وہیں کھانا کھا لیتے وہیں چائے منگوا لیتے اور کینو بھی دھوپ میں بیٹھ کر ہم کھایا کرتے تھے۔
اکثر میں اور ابو مختلف موضوعات پر بحث کرنے لگتے اور کبھی ہمارا اختلاف ہوجاتا اور نتیجے میں مجھے اپنی کرسی چھوڑنی پڑتی کیونکہ ابو ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ۔
میں اکثر ان کی تھیوری کو ماننے سے انکار کردیتی تھی۔ یہ مکمل علمی مباحثے ہوتے اور میں آداب کا خیال رکھتی تھی ۔
گو کہ ابو نے دنیا پھری ہے گھات گھات کا پانی پیا طرح طرح کے لوگوں سے ملے لیکن میرا خیال یہی تھا کہ کبھی کبھی آنکھیں دھوکہ کھا جاتی ہیں جو آپ نے دیکھا وہ ویسا نہی ۔ کبھی سماعت بھی فریب کھاتی ہے اور جو آپ نے سنا ہوتا ہے وہ دراصل وہی مفہوم نہی رکھتا ۔
ابو مجھے ایسے مواقع پہ پاگل کہا کرتے تھے اور اکثر امی کو غصہ کرتے تھے کہ اس کی پڑھائی کا اس پہ الٹا اثر ہورہا ہے ۔ دنیا کسی اور طرف جارہی ہے اور یہ کسی اور طرف۔
امی مجھے اشاروں میں ابو کے پاس سے اٹھنے کو کہتی رہتی تھیں لیکن میں بھی ہار نہ مانتی تھی اور اچھی خاصی بات بڑھ جانے کے بعد ہی وہاں سے بھاگتی تھی جب ابو کا پارہ ہائی ہوجاتا اور کسی بھی لمحے کچھ بھی ہونے کا امکان واضح ہوجاتا۔
اس جھگڑے کے بعد میں بھائیوں کے کمرے کا رخ کرتی تھی ۔ جہاں وڈیو گیمز کا میچ ابو سے چھپ کر کھیلا جارہا ہوتا ۔ میری دستک سے ایک بھائی آہستہ سے دروازہ کھول کر منہ پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کو کہتا کہ اگر آواز نکالی تو تمہاری باری نہی آنی ۔
مجھے بھی بھائیوں کو خوب ہینڈل کرنا آتا تھا ۔ اتنا بولتی تھی کہ بچارے تنگ آکر مجھے ہینڈل تھما دیتے کہ لو اتنے مشورے دےرہی ہو تو خود کھیل لو۔
لیکن جونہی میں مشکل مرحلہ کراس کر کے اگلے لیول میں داخل ہوتی ۔ ان لوگوں سے برداشت نہ ہوتا اور دوڑ کر مجھ سے ہینڈل چھین لیتے کہ بس بس ۔۔ اب ہماری باری ۔
ہاں البتہ پھر مجھے بولنے سے نہ روکتے بلکہ میری تیز کمنٹری انہیں جلدی جلدی لیول مکمل کرنے میں مدد دیتی تھی۔
شام تک جب ہمیں بھوک لگتی تھی تو نچلی منزل پر کچن میں سب جمع ہوکر اگلا دور اپنے اپنے کارناموں پر شیخیاں بگارنے کا لگا لیتے۔
امی کھانا ڈال کر رکھتیں اور ساتھ مجھے دو چار کوسنے دے ڈالتیں ۔ کوئی تو لڑکیوں والا کام کر لیا کرو۔۔یا۔۔۔ یہ لڑکوں والے کھیل کب بند کریگی؟ یا۔۔۔ کبھی گھر داری کی طرف بھی دھیان دے لیا کرو ۔۔۔ لڑکی ہو ۔۔ وغیرہ وغیرہ
ایسی بہت سی باتیں معمول تھیں لیکن کان پہ جوں نہ رینگتی نہ رینگنی تھی۔
رات میری پھر اپنے کمرے میں جنگ ہونی ہوتی تھی کیونکہ سارہ کا اور میرا کمرہ مشترک تھا ۔
مجھے کتاب پڑھنی ہوتی تھی جب کہ سارہ نے ڈرامہ دیکھنا ہوتا تھا ۔ مجھے جب نوٹس بنانے ہوتے تو اسے نیند آنے لگتی ۔
بلا ناغہ ہماری لڑائی ہوتی اور دوچار بار وہ امی کو شکایت لگا کر آتی اور ایک آدھ بار میں امی کو شکایت کرنے جاتی اور ہمیشہ کی طرح سارہ کے حق میں فیصلہ سن کر آتی ۔
کبھی تو چپ ہوکر اس کی بات مان لیتی اور کبھی ڈٹ کر مقابلہ کرتی ۔ ٹی وی کا ریموٹ لے کر چھت پہ چلی جاتی یا تھوڑی تھوڑی دیر میں بجلی بند کردیتی یہاں تک کہ ابو کی غصیلی آواز آتی ۔
اوئے کون ہے یہ بجلی کے ساتھ ؟
چھوٹی باز آجاو تم۔۔۔
ابو کو پتا ہوتا کہ ایک ہی ہے جس نے ہر وقت مصیبت بنا رکھی ہے سب کے لئے۔
صبح سب اٹھ جاتے اور میں اس وقت اٹھتی جب امی چائے لے کر آتیں اور مجھے جگا کر کہتیں۔ اٹھو منہ دھو آو اور چائے پی لے لو۔
دن چڑھ آیا ۔ کام والی نے آج بھی تمہارا کمرہ چھوڑ دیا کہ ابھی تک سوئی ہوئی ہے ۔ اس کی تو موج لگی ہوئی ہے ۔ بس کرو اب اٹھ جاو۔
بیڈ ٹی کی ایسی عادت پڑی تھی کہ جس روز نہ ملتی سارا دن موڈ خراب رہتا ۔
بیل دوبارہ بجی تو ابو نے غصہ کیا کہ کوئی کھولتا کیوں نہی دروازہ؟
میں نے اوپر سے جھانکا تو گیرج میں امی نظر آئیں جو دروازہ کھولنے جارہی تھیں۔
پڑوسی کرسچن بچہ ہاتھ میں کچھ لئے کھڑا تھا۔ امی نے پلیٹ پکڑی اور بچہ پلٹ گیا۔
کچھ دیر بعد امی اوپر آئیں تو ان کے ہاتھ میں وہی پلیٹ تھی۔ امی کے ساتھ ماموں بھی اوپر آگئے جو قریب ہی رہتے تھے۔
ٹیبل پر ڈرائی فروٹ کی پلیٹ رکھتے ہوئے امی نے ابو کو مخاطب کیا ۔
حاجی صاحب کے نئے کرایہ دار کرسچن ہیں اور کرسمس کی خوشی میں میوہ بھیجا ہے ۔ سوچتی ہوں شام میں جاکر ان کو مبارک بھی دے آوں اور کچھ تحائف بھی لے جاوں ۔
ابو نے کتاب سے نگاہ اٹھائے بنا سر ہلایا ۔۔ ہاں بھئی جاو ضرور جاو ۔۔ وہ بھی پڑوسی ہیں ۔ ان کا بھی حق ہے ۔ کچھ پیسے ویسے بھی بچوں کو دے آنا ۔۔۔
ماموں جو ہاتھ میں  بادام لئے بیٹھے کھا رہے تھے ۔ بولے۔۔
آپا کس لئے ان کے گھر جاتی ہو ۔ کرسچن کونسا صاف ہوتے ہیں کیوں اپنی نمازوں کو خراب کرنا ہے ۔
میں ماموں کی اس بات پر مسکرا دی کہ خود تو انہیں کے گھر کا میوہ کھا رہے ہیں اور امی کو بھاشن صفائی کا دے رہے ہیں ۔ اس سے قبل کہ میں کوئی بات کرتی امی نے ماموں کو جھاڑ پلا دی ۔
تم میری نمازوں کی  فکر نہ کرو ۔ سعودیہ رہ کر تم نے صرف نکتہ چینی اور تعصب ہی سیکھا ہے۔
آپا میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ان کے گھر سے ہر وقت بو آتی ہے پتا نہیں کس حال میں رہتے ہیں ۔ بستر بھی صاف نہیں ہونگے اور ۔۔۔ 
امی نے ایکدم بات کاٹ کر کہا۔۔۔
اگر میرے کپڑوں پہ نجاست بھی لگ جائے تو کپڑے بدلے جاسکتے ہیں اور دھوئے جاسکتے ہیں لیکن انسانیت بھی کوئی شے ہے ۔
یہی کرسچن انگلینڈ میں گورے کہلاتے ہیں اور ادھر تم لوگ ان کو  گھٹیا لفظوں سے بلاتے ہو ۔
میں جانتی ہوں بات ساری غربت کی ہے ۔ آج ان کے پاس دولت آجائے تو یہی چُوڑے(یہ لفظ بہت معیوب ہے لیکن یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ ہمارے یہاں ایسے ہی الفاظ سے انہیں پکارا جاتا ہے) تمہارے لئے گورے بن جائیں گے اور تم ان سے ہاتھ ملانے میں فخر محسوس کرو گے ۔۔۔
اس کے بعد امی نے بہت ساری سخت باتیں ماموں کو سنائیں ۔
ابو عینک کے اوپر سے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور کبھی کبھی مجھے بھی اشارہ کررہے تھے کہ دیکھو آج تمہارے ماموں کی شامت آئی ہے ۔
میرے والدین کا رویہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ  مہذب اور ہمدردانہ رہا ۔ مجھے ان کے کسی انداز سے انسانیت کی حق تلفی نہ ملی۔ انتہائی ملنسار اور دکھ درد بانٹنے والے ایسے لوگ کم ہی دیکھے۔
ہماری زندگیوں میں بھی ان کی تربیت کا بہت عکس جھلکتا ہے ۔
اس روز امی ان پڑوسیوں کے گھر گئیں اور مبارک کے طور پر تحائف کیک اور پیسے وغیرہ دے آئیں ۔
واپس آکر انہوں نے کچھ رو داد سنائی جس سے اندازہ ہوا کہ اب امی ان کے گھر پھر جائیں گی اور ان کو صفائی ستھرائی کا سلیقہ بتائیں گی ۔
یہی امی کا طریقہ تھا ۔ وہ بنا تنقید اصلاح کردیا کرتی تھیں ۔ جہاں خود کرسکتی تھیں وہاں عملی طور پر خود کردیا کرتی تھیں ۔
کچھ دن بعد میں بھول گئی لیکن امی نے اپنا کام جاری رکھا اور ایک دن حاجی صاحب ملے جو ان پڑوسیوں کے مالک مکان تھے ۔
مجھے بتانے لگے کہ میں تو ان گندے لوگوں سے تنگ آکر مکان خالی کروانے لگا تھا لیکن تمہاری امی نے ان سے ایسی صفائی کروائی ہے کہ اب میری شکایت دور ہوگئی ۔
پہلے میں ان کے دروازے سے گزرتے وقت ناک بند کر لیا کرتا تھا ۔ اب تو ایسی صاف ستھری نالیاں ہیں کہ مجھے مسجد جانے میں کراہت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔
بھلا ہو تمہاری ماں کا ورنہ کتنی بار ان کو کہا کہ گھر کو صاف رکھو لیکن  یہ لوگ سنتے ہی نہ تھے ۔
میں دل میں سوچ رہی تھی کہ کاش آپ کا مقصد ان غریبوں کو ذلیل کرنے کی بجائی ان کی اصلاح کرنا ہوتا تو یقینا یہی رزلٹ پہلے مل چکا ہوتا ۔
پھر ایک روز امی کو دیکھا کہ ان کے گھر  بار بار آتی جاتی ہیں ۔ پتا چلا کہ اسی پڑوسن کے گھر بچے کی پیدائش ہوئی اور کوئی بھی دائی یا ڈاکٹر فیس نہ ہونے کے باعث وقت پر نہ پہنچا ۔
بچاری نے امی کو پیغام بھیجا اور امی نے جلدی سے دائی کو بلوایا ۔ خود بھی وہاں موجود رہیں اور پھر بعد میں اس کے لئے یخنی وغیرہ بھی بھیجتی رہیں ۔
اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد وہ لوگ کہیں اور شفٹ ہوگئے لیکن میرے ذہن میں یہ بات اٹک گئی کہ غریب ہونا تو بری بات نہیں ۔
کلینر یا خاکروب ہونے میں بھی برائی نہ تھی ۔ اصل برائی ان لوگوں کا گندگی میں رہنا تھا ۔
دوسروں کے گٹرصاف کرنے والوں کے اپنے گھر میں نالیاں گندی تھیں ۔ گلیوں کو صاف کرنے والے کے اپنے گھر میں کچرا پڑا تھا ۔
امی نے یہی فرق سمجھایا تھا جو انہیں سمجھ آگئی ۔ چرچ ان کو صفائی کی تعلیم کیوں نہیں دیتا؟
یہ سوال مجھے بے چین کرتا رہا اور ایک دن میں نے ان کے ایک ریسرچ سینٹر پلس چرچ کا وزٹ کیا ۔
بہت سی باتیں ہوئیں اور اقلیت کے حقوق کی بات چل نکلی ۔ مجھے لگا کہ شاید ہم نا انصاف ہیں جو ان کو سوائے صفائی کے کوئی کام نہیں دیتے لیکن ان کی ایک سینئر افسر نے انکشاف کیا کہ یہ حکومت کا قصور نہی بلکہ ہمارے کرسچن کمیونٹی کے لڑکے خود پڑھتے نہی ۔
اس روز ان لوگوں نے بتایا کہ ہم نے مفت تعلیم کے سینٹر بھئ بنائے لیکن یہ سب پڑھائی سے بھاگتے ہیں اور صرف پیسہ کمانے کی دوڑ میں شامل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
ایک بہت پڑھی لکھی خاتون کہنے لگیں کہ ہمیں ڈونر ایجنسیاں بہت پیسہ دیتی ہیں کہ ہم اپنے لوگوں کیلئے کچھ کریں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ نہ ہمارے یہاں کوئی خرچ کرنا چاہتا ہے نہ یہ لوگ اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں ۔
ان لوگوں سے بہت مرتبہ بعد میں بھی میٹنگزہوتی رہیں اور میں ان لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ چرچ کے ذریعے ان کی معاشرت کو بدلا جائے ۔ انہیں صاف اور صحت مند رہنے کی تربیت دی جائے۔
ہمارے ایک استاد محترم ایک روز فرمائے لگے کہ میں خاکروب کو ہمیشہ زیادہ پیسے دیتا ہوں کہ یہ اس کا حق ہے کیونکہ اگر یہ لوگ ہماری گندگی نہ اٹھائیں تو ہم کیا کریں گے ؟
مجھے یہی بات ان کا احسان مند رکھتی ہے اور ان کو زیادہ پیسے اسلئے بھی دیتا ہوں کہ خوشی اور لگن سے کام کریں ۔
ہمارے مسلمانوں میں بھی بہت سے لوگ صفائی ستھرائی کی نوکری کرتے ہیں لیکن اس میں بلا مبالغہ میں نے واضح فرق دیکھا کہ ہمارے غیر مسلم بھائیوں کے مقابلے میں مسلمان خود کو صاف رکھتا ہے ۔
سلیم میرے گھر بھی صفائی کیلئے آتا تھا اور ایسی بہترین صفائی کرتا تھا کہ میں میاں کو اکثر کہتی تھی کہ سلیم کو دوسرے کلینرز  کی ٹریننگ کیلئے رکھ لیں ۔
سلیم کو صاف ستھرا دیکھ کر ہی میں نے گھر میں داخل ہونے دیا تھا  یہ تو بعد میں پتا چلا کہ وہ مسلمان ہے جب ایک روز جمعے کی نماز کے بعد صفائی کیلئے میری طرف آیا ۔
مجھے بہت تکلف ہوتی ہے  جب ہمارے یہاں صفائی کرنے والے خود اپنی صفائی کا خیال نہی رکھتے ۔
میری آخری میٹنگ کافی ماہ پہلے جو چرچ انتظامیہ سے ہوئی وہ اسی صفائی ستھرائی اور کرسچن کمیونٹی کی تعلیم سے متعلق تھی ۔
ان کی سینئر عہدیدار خاتون نے وعدہ تو کیا تھا کہ وہ کمیونٹی کو  اکٹھا کرکے ان کی تفصیلات کا اندارج کریں گی اور جوان بچوں کو تعلیم اور دیگر شعبوں میں ملازمت کے لئے ٹریننگ دلوائیں گی ۔ لیکن سچ پوچھئے تو لگتا ہے جیسے اس بار بھی غریب کرسچن کی تقدیر سنوارنے کا وقت آیا تو امیر کرسچنز کے پاس فنڈز ختم ہوگئے ۔

No comments:

Post a Comment