*مشترکہ خاندانی نظام سے کیا مراد ہے ؟
پاکستان میں ایک چھت کے نیچے رہنے والے میاں بیوی ان کے بچے ، والدین ، کے علاوہ بھائیوں کے بیوی بچے اور بہنیں جن کی شادیاں نہ ہوئی ہوں ،ایک مشترکہ خاندان کہلاتے ہیں۔
براصغیر پاک و ہند کا مشترکہ خاندانی نظام اور دنیا بھر میں مشترکہ خاندانی نظام میں بہت فرق ہے۔ یورپ اور عرب ممالک دونوں میں پاکستان جیسا خاندانی نظام نہیں ہے اور اگر کہیں ایسا ہے بھی تو بہت ہی کم اعداد و شمار ہیں ۔ہم یورپ کی بات نہ بھی کریں تو جن ممالک سے براہ راست ہمارے مطابقت کسی بھی حوالے سے ہے وہاں بھی پاکستان کی طرز کا خاندانی نظام نہیں پایا جاتا ۔
*عرب معاشرہ اور مشترکہ خاندانی نظام
عرب معاشرے میں ہمیشہ دیکھا گیا کہ مروزن کی شادی سے قبل علیحدہ گھر کا انتظام ضروری سمجھا جاتا ہے ، ہمارے سامنے سعودی عرب کی مثال لے لیجئے ، مردوں کا ایک سے زائد شادیاں کرنے کا عام رواج ہے لیکن ہر بیوی کو الگ گھر اور نان نفقہ کا بندوبست بھی ضروری تصور کیا جاتا ہے۔
جب تک مرد الگ گھر اور خرچ کی زمہ داری نہ لے اس وقت تک اسے لڑکی کا رشتہ نہیں ملتا، مرد کے والدین الگ گھر میں رہتے ہیں اور شوہر اپنی بیوی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ والدین کی خدمت کرے جب تک کہ وہ خود نہ چاہے اس وقت تک اسے مجبور نہیں کیا جاساکتا ۔
البتہ چونکہ یہ مثال ایک آسودہ معاشرے کی ہے اسلئے ہمیں پاکستان میں بسنے والے خاندانوں کا موازنہ اس جیسے دیگر ممالک سے کرنا چاہیے ۔
یہاں سعودی عرب کی معاشرت کا ذکر کرنا اسلئے ضروری سمجھا کہ ہم بحیثیت مسلمان سعودی عرب کواسلامی فکر کی عملی مثال سمجھتے ہیں۔
*بنگلہ دیش اور بھارت میں مشترکہ خاندانی نظام
بنگلہ دیش اور بھارت براصغیر پاک و ہند کے وہ ممالک ہیں جن سے ہمارا رہن سہن اور معاشرت مطابقت رکھتی ہے اور معاشی حالات بھی کم و بیش ایک جیسے ہیں ۔
ہم بہت تفصیل میں جائے بنا دیکھتے ہیں کہ ان ممالک میں مشترکہ خاندانی نظام کی کیا اہمیت ہے اور ان کا کس طرح پاکستانی معاشرے سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ہندووں کا خاندانی نظام صرف میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں تمام تر دیگر خونی رشتے جیسے غیر شادی شدہ بہن اور چھوٹے بھائی اور ان کے ساتھ منسلک دیگر رشتدار جیسے کہ بھائی خونی رشتہ ہے تو بھابھی بھی خاندان کا حصہ جانے جاتے ہیں، یہ تمام افراد ایک ہی چھت تلے ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں اور مشترکہ کاروبارکرتے ہیں۔اگر نوکری پیشہ ہوں تو ایک مخصوص رقم گھر کے سربراہ کو ماہانہ ادا کرنے کی پابندی ہوتی ہے۔یہ ایک عمومی تصور ہے جو ان ممالک میں صدیوں سے رائج چلا آرہا ہے اور اسی نظام کو ہم پاکستان بنانے کے ساتھ ہی پاکستانی میں لے آئے ۔
*پاکستانی میں مشترکہ خاندانی نظام
ہمارے یہاں گزشتہ چند دہائیوں میں زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی آئی ہے اورمزید آرہی ہے،انہی شعبوں میں ایک خاندانی نظام بھی ہے ۔
مشترکہ خاندانی نظام پاکستان میں اب تقریبا ختم ہوتا جارہا ہے۔اسّی کی دہائی سے پہلے لوگوں میں مشترکہ خاندانی نظام کی پسندیدگی آج سے کہیں زیادہ ہائی جاتی تھی۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں جیسے اندازاَ تقریبا تین دہائیوں سے پاکستان کی دیہاتی آبادی بڑی تیزی سے شہروں کی طرف منتقل ہورہی ہے جس کی بہت ساری دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ بہتر روزگار کی تلاش بھی ہے۔
پہلے پہل مرد گھر سے کمانے کی خاطر نکلتا تھا اور پھر شہر میں ملازمت اور رہائش کا بندوبست کرکے اپنی بیوی اور بچوں کو بلوالیا کرتا تھا اور اس طرح ایک سنگل فیملی اپنے خاندان سے الگ ہوکر دور جا بستی ہے۔
دوسری وجہ معاشرے میں خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی مہم ہے جس سے خواتین کو یہ شعور ملا کہ ان کی گھریلو ذمہ داریوں میں پورے خاندان کی خدمت شامل نہیں البتہ اخلاقی طور پر اگر وہ اپنی مرضی سے کچھ فرائض ادا کرتی ہیں تو یہ ان کا اچھا وصف ہے۔
تیسری بڑی وجہ خواتین کا مردوں کے شانہ بشانہ مختلف شعبوں میں ملازمت اختیار کرنا ہے اور جب خواتین گھر سے باہر کام کرکے گھر آئیں تو ان سے سارے خاندان کی خدمت کا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا ،یہی وجہ ہے کہ شوہر بھی اپنے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مشترکہ خاندانی نظام سے انفرادی نظام کو ترجیح دیتے ہیں جہاں دونوں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
ہم محض اس نقطہ پہ توجہ مرکوز کریں تو ہمیں بہت سی جاندار وجوہات نظر آتی ہیں کہ خواتین کیوں مشترکہ خاندانی نظام سے نکل کر خود مختار نظام چاہتی ہیں جس میں گھر کی سربراہ وہ خود ہوں۔بات کھانا پکانے اور دیگر زمہ داریوں کے نبھانے سے کہیں زیادہ دوسرے افراد کی مداخلت ہے جو کسی نہ کسی طرح مشترکہ نظام میں ان کے لیے وبال جاں بنی رہتی ہے۔
*مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیاں کم اور خامیاں زیادہ
گزشتہ چند برسوں میں کچھ ایسے واقعات سامنے آئے کہ ملازمت پیشہ افراد نے اچانک محسوس کیا کہ انہیں گھر میں کسی بزرگ یا بااعتماد قریبی رشتہ دار کی ضرورت ہے جو ان کی عدم موجودگی میں گھر کا اور بچوں کا خیال رکھ سکے اور انہیں دفتری اوقات میں بار بار بچوں سے رابطہ کرنے یا اس فکر میں نہ رہنا پڑے کہ گھر غیر محفوظ ہے۔لیکن اس کے باوجود وہ کسی پہ اعتماد نہیں کرسکتے اور اس کی ایک بڑی وجہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریبانو بچوں سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے جن میں 60 فیصد مجرم قریبی رشتدار ہوتے ہیں۔یہ مسئلہ اس راھ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ لوگ اپنے رشتداروں سے ملنا بھی کم کرنے لگے ہیں چہ جائے کہ انہیں مستقل گھر میں ٹھہرائیں۔
ایک خاتون سے اس حوالے سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ دادی یا پھپھی کو تو رکھ سکتی ہوں مگر دادا اور چچا پہ اعتماد نہیں کر سکتی اور جب دادی یعنی میری ساس اور نند میرے گھر میں رہیں گی تو وہ میری نجی زندگی میں مداخلت کریں گی اسلئے مجھے اس ذہنی کوفت سے بہتر ہے کہ میں اپنی بچیوں کو تنہا گھر پہ چھوڑ دیا کروں یا زیادہ سے زیادہ کسی ملازمہ کو چند گھنٹے گھر میں چھوڑ دوں۔
اسی طرح سے ایک دوسری خاتون جو خود سکول ٹیچر ہیں ،اس حوالے سے کہتی ہیں کہ وہ بچوں کے حوالے سے کسی پہ بھی اعتبار نہیں کرسکتیں ماسواے ان کی اپنی والدہ کے،کیونکہ انہیں بہت برے تجربات سے گزرنا پڑا جب ان کی عدم موجودگی میں ملازمہ نے بچوں کو سلا کر گھر کا صفایا کرڈالا ، اور جاتے ہوئے دروازہ بھی کھلا چھوڑ دیا اور چوری میں تمام تر قیمتی اشیا کے ساتھ ساتھ ملازمہ بکس میں سے نئے کپڑے تک نکال کر لے گئی ،اسی لیے اب وہ کام پر جانے سے پہلے اپنے بچوں کو اپنی ماں کے گھر چھورنے پر مجبور ہیں جو شہر کے دوسرے سرے پہ رہتی ہیں البتہ انہیں اس بات کا اطمینان ہے کہ ان کی والدہ بچوں کا خیال بھی رکھتی ہیں اور ان کی تربیت بھی کرتی ہیں۔
ہماری جتنی بھی خواتین سے بات ہوئی ان میں زیادہ تر مشترکہ خاندانی نظام کے خلاف ہی بات کرتی پائی گئیں ۔بہت کم لوگوں نے اس کی حمایت کی اور ان لوگوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو کسی حد تک نظریاتی ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بچے انکی طرح بزرگوں سے محبت اور احترام کا تعلق قائم کرسکیں ،ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی مصروف زندگی انہیں بچوں کی تربیت کا وقت نہیں دیتی اور جب تک بچے اپنے بزرگوں سے براہ راست تعلق استوار نہ کرلیں ان کے اندر محبت اور احترام گھول کر نہیں ڈالا جاسکتا ،البتہ ایسے خیالات کے حامل افراد کی تعداد دیگر کی بنسبت بہت کم ہے جو خود بھی الگ گھر میں رہنا چایتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھہی الگ رکھنا چاہتے ہیں۔
میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ فی زمانہ ڈیجیٹل دور میں بچوں کے پاس سکول کی بعد جو وقت بچتا ہے وہ اسے نیٹ گیمز اور سوشل نیٹ ورکننگ پہ خرچ کرتے ہیں اسلئے انہیں کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ گھر میں کسی کو رکھیں یا بچوں کو کسی کے پاس چھوڑیں۔
بہت سی ملازمت پیشہ خواتین سے گفتگو کے بعد جب چندخواتین(گھریلو) سے اسی حوالے سے بات کی گئی تو ان کا موقف کام کرنے والی خواتین کے مقابلے میں زیادہ سخت تھا کیونکہ ان کاخیال تھا کہ ان کی نجی زندگی ان کی مرضی اور سہولت کے مطابق ہونی چاہیے، البتہ بعض نے یہ ضرور کہا کہ مشترکہ خاندانی نظام میں بچت ہوسکتی ہے ،اس مہنگائی کے دور میں الگ الگ رہنے سے اخراجات میں اضافہ ہونے کے ساتھ مشکل وقت میں اپنوں کا سہارا بھی نہیں ملتا اور کسی حادثے کی صورت میں انہیں فوری امداد مل جاتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم کچھ تحمل اور برداشت خود میں پیدا کرلیں تو مشترکہ خاندانی ںظام اسوقت بہت سارے مسائل کا حل ہے ۔
Saturday, 22 June 2019
مشترکہ خاندانی نظام
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment