Friday, 7 June 2019

دہرا معیار

سعد اور فریال ایک ہی آفس میں کام کرتے تھے ۔ پڑوسی اور پچپن کےساتھی ہونے کے سبب ایک ساتھ آتے جاتے تھے ۔ گھریلو سطح پر بھی آپس میں اچھے تعلقات تھے۔
فریال ایک معقول شکل و صورت کی لڑکی تھی لیکن بلا کی ذہین تھی۔ اسی طرح سعد بھی اچھے قد کاٹھ والا خوبرو نوجوان تھا ۔
سعد اکثر فریال کو منع کیا کرتا تھا کہ آفس کے مردوں سے زیادہ سلام دعا مت رکھو۔ بلکہ کسی کے سلام کا جواب بھی نہ دیا کرو کیونکہ پھر بات آگے بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے ان مردوں کو ۔
فریال سعد کی بات سن کر خاموش ہوجاتی تھی لیکن دل میں سوچتی تھی کہ خود سعد ہر دوسری لڑکی سے راہ و رسم بڑھائے ہوئے تھا بلکہ بعض کے ساتھ تو وہ ضرورت سے زیادہ قریب تھا۔البتہ جب وہ فریال کے ساتھ ہوتا تو ان خواتین سے متعلق اس کی رائے اچھی نہ ہوتی ۔ یہی بات فریال کو بہت بری لگتی تھی کہ اگر ایسی رائے ہی قائم کرنی ہو تو پھر ایسی خواتین سے کنارہ کشی کیوں نہیں کرلیتے۔
سعد ایسی باتوں کو ہنسی میں ٹال دیا کرتا تھا ۔
پھر ملک میں معاشی بحران آیا اور بہت سے لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں ۔ سعد اور فریال ان خوشنصیبوں میں سے تھے جو آفس کی ضرورت بنے رہے اور انہیں ملازمت سے نہ نکالا گیا بلکہ سعد کو کچھ مدت بعد ترقی مل گئی اور وہ مینجر کے عہدے پر تعینات ہوگیا ۔
وقت گزرتا رہا پھر فریال کے آفس میں ایک نئی لڑکی بھرتی ہوئی وہ عمر میں فریال سے کچھ بڑی تھی لیکن خوش مزاج تھی ۔سب سے ہنس کر بات کرتی تھی اور اپنے کام میں بھی ماہر تھی۔
سعد چونکہ اس کا باس تھا اسلئے بہت جلد فریال نے محسوس کرلیا کہ اس خاتون کو وہ ضرورت سے زائد کام دیتا ہے ۔ انیلا کام تو کردیا کرتی تھی لیکن اسے محنت سے زیادہ غیر مہذب رویوں کا سامنا تھا جو اس کی مجبوری کے باعث اسے جھیلنے پڑتے۔
سعد انیلا کے متاثرین میں سے تھا اور چاہتا تھا کہ انیلا اسے درخواست کرے کہ وہ اس کا کام کم کردے ۔ عموما دفتروں میں ایسی خواتین کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھا جاتا ہے جو صرف رزق حلال کمانے کو گھر سے نکلی ہوں اور آفس میں تعلقات اسی نسبت سے رکھتی ہیں کہ تعلق صرف کام تک رکھا جائے ورنہ جہاں زمانے نے بہت سی اور خرابیاں پیدا کرلیں وہیں ایک بیماری خواتین کا استحصال اور ان کو نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر خواتین بلاوجہ پریشانی سے بچنے کیلئے سمجھوتہ بھی کرلیتی ہیں اور جو نہیں کرتیں انہیں انیلا کی طرح بہت سارے دباو کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے اور اس کے باوجود ان کی کارکردگی کی رپورٹ بھی ہمیشہ خراب ہی پیش کی جاتی ہے اور جنہیں پیش کی جاتی ہے وہ افسران بالا بھی اس بات سے بخوبی واقف ہوتےہیں کہ اس خاتون کی اصل رپورٹ تو کسی ناجائز حکم نہ ماننے کی بناء پر بدل کر رکھ دی گئی۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن وہ بھی کبھی دوسروں کے معاملے میں مداخلت کرنا پسند نہیں کرتے ۔
فریال کچھ عرصہ دیکھتی رہی کہ ایک ہی عہدے پر ہونے کے باوجود اس کے مقابلے میں انیلا کو دوگنا کام ملتا ہے اور بعض اوقات وہ گھر کو روانہ ہونے لگتی ہے تو انیلا ابھی فائلوں کے ڈھیر لئے بیٹھی ہوتی ہے۔ اسے بہت ترس آتا تھا تو وہ سعد کو نرمی کے لئے کہتی تھی ۔ لیکن سعد جواب میں ٹال مٹول کر دیتا تھا ۔
ایک روز فریال نے محسوس کیا کہ انیلا بار بار ٹشو سے چہرہ صاف کررہی ہے ۔کچھ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنے آنسو پونچھ رہی ہے ۔ فریال سے رہا نہ گیا اسے بہت دکھ ہوا یہ جان کر کہ سعد نے انیلا کو بے عزت کیا اور جب فریال نے وجہ پوچھی تو اسے شدید دھچکا لگا ۔
فریال نے انیلا سے پوچھا کہ سعد نے ایسا کام اسے کیوں دیا جو اسکی ذمہ داری نہیں تو انیلا نے کندھے اچکائے کہ اسے کیا خبر !
فریال سعد کے روم میں گئی اور اس سے پوچھا کہ انیلا کی زمداری تو صرف آفس ورک ہے اس نے کیوں اسے دوسرے لوگوں کے سامنے ذلیل کرنے کو بھیجا ؟
سعد نے فریال کو ڈانٹ کر چپ کروا دیا کہ یہ اس کا معاملہ نہیں ۔ فریال کچھ دیر سعد کو سمجھانے کی کوشش کرتی رہی لیکن بے سود۔
فریال نے اپنے تئیں انیلا کو امداد دینا شروع کردی اس کے حصے کا کام کروانے لگی لیکن سعد نے اسے وارننگ دی کہ وہ ایسا نہ کرے ورنہ وہ اسے دوسرے آفس شفٹ کردے گا اور جب فریال نہ مانی تو سعد نے فریال کا ڈیپارٹمنٹ بدل دیا اور ساتھ اس کی تنخواہ میں معمولی اضافہ بھی کردیا ۔
کچھ وقت گزرا تو ایک روز فریال کو شدید حیرت ہوئی جب اس نے سعد اور انیلا کو ہنستے ہوئے لفٹ سے باہر آتے دیکھا ۔
فریال کے لئے سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا کہ سعد نے بلا آخر انیلا کو سمجھوتے پر مجبور کرلیا تھا ۔ اس روز فریال کے لئے سعد کے ساتھ گھر جانا مشکل ہورہا تھا ۔سعد نے اسے چپ چپ دیکھا تو پوچھا لیکن فریال نے کوئی جواب نہ دیا۔
چند روز گزر جانے کے بعد ایک روز فریال کو موقع مل گیا کہ وہ انیلا کو اکیلے میں مل کر پوچھ سکتی کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ جب فریال نے انیلا سے اس نئے انداز کے بارے میں سوال کیا تو انیلا کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ اور وہ انہیں چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔
پلیز انیلا اسطرح مت کرو ۔ مجھے بتاو آخر ایسی کیا مجبوری ہے جو تم سعد کی جائز ناجائز سبھی باتیں ماننے پر مجبور ہوگئی ہو؟
انیلا نے خود پہ قابو پاتے ہوئے فریال کو اپنی کہانی سنائی کہ اس کی ایک بیٹی ہے جو ابھی محض دس برس کی ہے ۔ اس کے شوہر نے شادی کے بعد اسے خرچ دینا بند کردیا اور دوسری عورتوں کے چکر میں پڑگیا تو مجبورا اسے طلاق لینی پڑی۔
انیلا کے والدین فوت ہوچکے تھے اور وہ شادی کے بعد دوسرے شہر آبسی تھی اس لئے اب کوئی عزیز نزدیک نہ تھا تو وہ اکیلی اپنی بچی کے سکول کی فیس اور گھر کے کرائے وغیرہ کی زمدار تھی۔ جن دنوں سعد اسے زیادہ کام دے کر آفس میں بٹھائے رکھتا تھا انہیں دنوں ایک روز اس کی بچی اکیلی گھر میں بیہوش ہوگئی اور اسے خبر تک نہ ہوئی۔
انیلا یہ کہتے ہوئے ہچکیاں لینے لگی کہ وہ کسی پہ اعتبار نہیں کرسکتی اسلئے جب بچی سکول سے گھر آتی ہے تو اس کی پڑوسن بچی کو کھانا کھلا کر گھر چھوڑ دیا کرتی تھی ۔اس روز طوفانی بارش اور گرج چمک سے میری بچی ڈر گئی اور پڑوس میں جانے کے لئے دوڑی تو اس کا پاوں پھسل گیا ۔ بچی کے ماتھے پہ زخم آیا اور خون بہنے لگا ۔ انیلا کے ساتھ ساتھ اب فریال کے بھی آنسو گرنے لگے ۔
انیلا کی مجبوری اور سعد کی سنگدلی دیکھ کر اب فریال کے دل میں نفرت ابھرنے لگی ۔اس نے سعد کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اسے حیرت تھی کہ سعد کتنا بدل گیا تھا ۔ اس ترقی اور دولت نے اس کا دل سخت کردیا تھا کہ اسے ایک ماں کی مجبوری بھی نظر نہ آئی۔
فریال نے اب آفس کے مردوں کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرنا شروع کردیں ۔ لوگ کچھ حیران تو تھے لیکن معاشرہ ایسا تنزلی کا شکار ہوچکا ہے کہ کسی کو اچھے برے کے متعلق سوچنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔
سعد نے بہت جلد اس بات کو محسوس کرلیا کہ اس کے آفس میں بھی فریال سے متعلق گفتگو ہونے لگی ہے۔
ایک روز واپسی پر اس نے فریال سے پوچھا کہ کیا بات ہے آجکل اکثر لوگ تمہارے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ؟ فریال اسی بات کے انتظار میں تھی ۔اس نے بہت سادگی سے کہا ۔ ہاں اب کیا کریں مردوں کے ساتھ کام کرنا ہوتو ان سے بنا کر تو رکھنی پڑتی ہے نا ۔
سعد کو ایک دم غصہ آگیا۔ کیوں بنا کر رکھنی ہوتی ہے ۔خبردار جو تم نے ان کمینوں کو منہ لگایا ۔ یہ تو انتظار میں ہیں کہ تم ان کے سلام کا جواب دو اور یہ تعلقات بڑھائیں ۔ جب سعد یہ بات کہہ رہا تھا تو فریال نے اس کی آنکھوں میں نفرت سے جھانکا۔۔ سعد کو کچھ دیر میں احساس ہوگیا کہ فریال انیلا کے حوالے سے اسے سبق سکھانا چاہتی ہے۔
دیکھو فری۔۔ تم ایک خاندانی لڑکی ہو اور انیلا جیسی عورتیں تو خود مردوں سے تعلقات بنانا چاہتی ہیں کہ ترقی حاصل کرسکیں۔ پھر سعد نے بہت سی معیوب باتیں کیں جنہیں سن کر فریال کو بہت دکھ ہوا لیکن وہ جانتی تھی کہ سعد اس طرح نہیں سمجھے گا۔
اگلے روز سعد نے دیکھا کہ فریال دو مردوں کے ساتھ ہنستی ہوئی لفٹ سے باہر آرہی ہے ۔ اب سعد کو اسقدر غصہ آیا کہ اس نے اسی وقت فریال کو بازو سے پکڑا اور اپنے آفس میں لے جا کر اندر سے دروازہ بند کیا اور فریال کو جھنجھوڑنے لگا ۔ لیکن فریال شاید اب فیصلہ کرچکی تھی کہ اسے مزید اس قصے کو نہیں چلانا ۔ اس نے ایک زوردار تھپڑ سعد کے منہ پہ جڑ دیا اور بولی۔ میں ویسی ہی عورت ہوں جیسی انیلا ہے ۔ بلکہ وہ مجھ سے زیادہ قابل اور عزت دار ہے جس نے شوہر کی بیوفائی کے باوجود اس کی اولاد کی زمداری اٹھائی ۔ جس نے جوان اور خوبصورت ہونے کے باوجود کوئی شاٹ کٹ نہیں مارا بلکہ مجھ سے بھی کم معاوضے پر چار گنا زیادہ کام کرکے حلال کمایا اور کسی جگہ عزت کا سودا نہ کیا اور بالآخر تم جیسے گھٹیا انسان نے اسے مجبور کردیا کہ وہ تمہاری ناجائز بکواس سنے اور تمہاری ہوس سے ٹپکتی رال کو اپنے پاکیزہ آنچل سے صاف کرے۔ محض اسلئے کہ تم اسے وقت پر گھر جانے دو جہاں اس کی دس سال کی معصوم بچی اکیلی گھر میں ڈری سہمی بیٹھی رہتی کہ کب اس کی ماں آئے اور اسے بانہوں میں لے۔۔
فریال بولتی جارہی تھی اور اسکی آواز بھرانے لگی۔
اف خدایا۔۔ میں تمہیں کتنا اچھا سمجھتی تھی سعد ۔۔ ہمارا پچپن ساتھ گزرا اور آج سوچتی ہوں کہ میں نے کتنا بڑا دھوکہ کھایا کہ تمہارے جھوٹے عزت کے دعووں کو سچ جانا ۔ تمہیں میری فکر محض اسلئے تھی کہ لوگ مجھے تمہاری رشتدار  سمجھتے ہیں اور یہ تمہاری عزت کا سوال تھا ۔ آج سوچتی ہوں کہ اگر انیلا کی جگہ میں ہوتی تو تم میرے ساتھ بھی یہی کرتے ؟
سعد اب گبھراگیا تھا ۔ اس نے فریال کا ہاتھ پکڑنا چاہا جو اس نے جھٹک دیا اور تیزی سے باہر نکل گئی ۔
اس کے بعد فریال چند روز آفس نہ گئی اور سعد کو محسوس ہوا کہ آفس میں اب لوگوں کو اس معاملے کا علم ہوچکا ہے۔
اس نے انیلا کو نکالنے کا سوچ لیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی اسے انیلا کا استعفی مل گیا کہ وہ اب شادی کرنے جارہی تھی سعد نے سوچا بلا سر سے ٹل گئی ۔ سعد فریال سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن اب اسے ایسا ممکن نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ فریال کی ماں کا رویہ بھی سعد کی طرف سے بدلا ہوا تھا۔
چند روز بعد فریال آفس آنے لگی لیکن اب وہ سعد کے ساتھ نہ آتی تھی ۔ سعد نے ایک دو بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن فریال نے منہ پھیر لیا۔
کچھ روز بعد سعد آفس آیا تو اس نے دیکھا کہ آفس میں ڈھیر سارے پھول اور کھانے پینے کا خوب اہتمام ہے ۔اس نے پوچھا تو پتا چلا کہ باس کی شادی کی پارٹی منائی جارہی ہے  اسے حیرت ہوئی کہ باس تو شادی شدہ ہے اور اس کے بیوی بچے بیرون ملک رہتے تھے جنہیں وہ دو چار ماہ بعد ملنے جاتا تھا ۔ سعد نے سوچا ایسے امیر آدمی کے لئے دو چھوڑ چار بیویاں رکھنا بھی کیا مشکل ہے یہی سوچ کر وہ باس کے کمرے میں مبارک باد دینے داخل ہوتا ہے لیکن سعد پہ بم اس وقت گرا جب اس نے انیلا کو انتہائی خوبصورت اور قیمتی لباس میں ملبوس باس کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑا دیکھا ۔
سعد کی رنگٹ پیلی پڑ گئی۔ اسے اپنی نوکری اور عزت دونوں جاتی ہوئی نظر آئیں ۔مزید یہ کہ فریال اس کے سامنے پھولوں کا گلدستہ انیلا کو پیش کرتے ہوئے پیار کررہی تھی اور انیلا نے نفرت کی نگاہ سعد پہ اس طرح ڈالی کہ اسے ہوش نہ رہا۔
سعد کی آنکھ کھلی تو وہ ہسپتال میں پڑا تھا اور اسے بتایا گیا کہ اسے فالج کا اٹیک ہوا ہے جس کے باعث اسکی ایک سائیڈ کام کرنے سے قاصر ہے ۔ ہسپتال والوں نے دوسرا انکشاف یہ بھی کیا کہ اس کا آفس اس کے اخراجات نہیں اٹھائے گا تو وہ رقم کا بندوبست بھی کرے۔
سعد کے ظلم کا عبرت ناک انجام دیکھ کر دوسرے لوگوں نے کچھ وقت سبق سیکھا لیکن پھر آہستہ آہستہ سب اپنےکاموں پہ لگ گئے۔
انیلا کی کہانی سعد کے باس کو فریال نے ہی سنائی تھی اور اسی نے ان کی شادی کروائی تھی ۔
فریال کو سعد کی جگہ ترقی دے دی گئی اور فریال نے آفس میں کام کرنے والی خواتین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ان کے ساتھ آفس اوقات میں نرمی بھی کردی ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین پہلے سے بہتر کارگردگی دکھانے لگیں ۔آفس کے مرد بھی محتاط ہوگئے اور بلا وجہ خواتیں کو تنگ کرنے سے گریز کرنے لگے۔
فریال نے سعد سے رابطہ مکمل ختم کردیا کیونکہ اس واقعہ کے بعد فریال کو مزید کچھ خواتین نے سعد کے اس استحصالی اور زیادتی والے رویے کی شکایت کی۔ فریال سوچتی رہی کہ آخر مرد اپنے گھر کی عورت کو جو عزت اور مقام دیتا ہے وہ دوسری عورتوں کو کیوں نہیں دے سکتا ؟
اس بات کا جواب شاید ہر عورت جانا چاہتی ہے ۔ 

No comments:

Post a Comment