Tuesday, 4 June 2019

سانجھی

مندر سنگھ اور مسرت سنگھ بھاگتے ہوئے بوہڑی ( بوہڑ کا پرانا درخت) کے نیچے پہنچے تو رفیق اور شمی پہلے ہی وہاں تھڑے پہ بیٹھے تھے ۔
او یار ۔مسرت سنگھ نے سانس درست کرنے کا وقفہ لیا تو مندر سنگھ نے بیتابی سے پوچھا: یار یہ پکی خبر ہے نا ؟
رفیق نے اونچی آواز میں کہا:او ہاں یار ابھی بھی یقین نہیں تجھے ؟ دیکھ ساروں کو جمع کرلیا۔ پھر وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا : اوئے ماسٹر کدھر رہ گیا؟
اتنے میں سائیکل کی گھنٹی بجاتا ماسٹر بھی آن پہنچا ۔
مسرت سنگھ: پر تجھے بتایا کس نے ؟
شمو کی بجائے رفیق بولا : یار وہ دینو لوہار کا لڑکا سکول سے آرہا تھا تو اس نے دیکھا تھا ۔
مندر سنگھ: او یار وہ لڑکا تو جھوٹ بھی بہت بولتا یے کہیں مروا نے دے۔
شمی نے جلدی سے کہا : نہ یارا۔ یہ بات تو پکی ہے گردوارے  میں توڑ پھوڑ اگر ہوئی ہے تو وہ چوہدریوں کا وہ لڑکا ہی ہے جو پہلے بھی ادھر پیشاب کر آیا تھا ۔ وہ ہے ہی بڑا کمینہ۔
ماسٹر بولا: تو یہ کس نے بتایا کہ توڑ پھوڑ ہوئی ہے ؟
او یار ابھی بتایا تو ہے دینو لوہار کا لڑکا سکول سے آرہا تھا۔ اسی نے چوہدریوں کے لڑکے کو نشے میں دھت ادھر گردوارے  میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھا۔ رفیق نے جھلا کر کہا تو مسرت سنگھ نے اپنی پگھ کے نیچے کھرکنا شروع کردیا اور کچھ شک والے انداز سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ایسا کر ایک بار خود چل کر دیکھ آئیں پھر مولوں صاحب کو بتائیں گے ورنہ جھوٹی خبر پہ مولوی صاحب سب کی کھال کھینچ دینگے ۔
شمی یکدم غصے میں آگیا: اوئے گرودوارہ تمہارا ہے اور تم ہی ڈھیلے پڑے ہو۔ ہم جو کہہ رہے ہیں کہ خبر پکی ہے وہ چوہدریوں کا لڑکا کب سے گرودوارہ گرانے کے چکر میں ہے ۔ تم لوگ سمجھتے کیوں نہی ۔ ادھر بہت بڑا مسئلہ بننے والا ہے ۔
شمی کی جذباتی تقریر سن کر ماسٹر نے کہا : شمی بات تو وہ ٹھیک کہتا ہے کہ پہلے ہم اپنی تسلی کر لیں تو گاوں والوں کو بتائیں ۔
مندر سنگھ بولا ۔ اچھا تو تم لوگ مولوی صاحب کو جاکر ساری بات بتاو ہم اتنی دیر میں گردوارے کی خبر لے آتے ہیں ۔
رفیق: او نہ یار تو پاگل ہے ۔ادھر وہ گردوارے کی اینٹ سے اینٹ بجانے پہ تلا ہے اور ادھر تمہیں دیکھ کر پتا نہی تمہارا کیا حشر کریں کیا پتا کتنے بندے ہیں اس کے ساتھ ۔ تم دونوں تو بالکل نہی جاسکتے ۔۔
ماسٹر : ہاں یہ ٹھیک کہتا ہے بلکہ تم دونوں میرے ساتھ مسجد چلو یہ دونوں جاکر دیکھتے ہیں کہ اصل ماجرا کیا ہے ۔
ماسٹر مسرت سنگھ اور مندر سنگھ کو ساتھ لے کر مسجد کی طرف چل پڑا اور شمی اور رفیق جسے یہ سب فیقا کہتے تھے۔موٹر سائیکل پہ سوار ہوکر دوسرے گاوں کی طرف روانہ ہوگئے جہاں ایک قدیم گرودوارہ اور اس کے ساتھ ملحقہ لنگر خانہ جو سکھوں کے ہر گرودوارے کے ساتھ عموما زائرین اور مسافروں کے لئے لنگر کے اہتمام کی خاطر قائم کیا جاتا ہے جہاں بنا تفریق رنگ و نسل روزانہ لنگر تقسیم کیا جاتا ہے البتہ گاوں میں لنگر صرف اسی وقت پکتا تھا جب کوئی گرنتھ ( سکھوں کی مذہبی کتاب ) کی زیارت کرنے آتا یا چڑھاوا چڑھانے دور دراز کا سفر کرکے آتا تھا۔
اسکے علاوہ عام تہواروں پر بھی لنگر پکتااور گرودوارے کی رسوم و رواج کے مطابق اس کا اہتمام کیا جاتا۔ یہاں سکھوں اور مسلمانوں کے تین چار گاوں آباد تھے جو صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے اور ان کے آپس کے تعلقات بھی مثالی تھے۔
اسی لئے جب انہیں اطلاع ملی کہ چوہدری کے اوباش لڑکے نے گرودوارے کی بے حرمتی کی ہے تو مسلمان بھی اس کے خلاف احتجاج کو نکل آئے ۔
ماسٹر نے مولوی صاحب کو ساری بات بتائی تو انہوں شمی اور فیقےکے آنے کا انتظار کرنے کو کہا لیکن ساتھ اپنے لڑکے کو قریبی پولیس چوکی سے رابطہ کرنے کو بھی کہہ دیا۔ یہ بات سب کے علم میں تھی کہ چوہدری اور اس کا لڑکا سکھوں سے بغض و عناد رکھتے ہیں تو اس بات کا امکان تھا کہ انہوں نے ایسا کچھ ضرور کیا ہوگا جس سے ماحول خراب ہو اور انہیں سکھوں کو علاقہ سے نکالنے کا کوئی جواز مل سکے ۔
مولوی صاحب نے اسپیکر پہ جاکر اعلان کیا کہ مشاورت کے لئے سب مسجد میں جمع ہوں ۔ مولوی صاحب سمجھدار آدمی تھے سب بہت احتیاط سے کررہے تھے کہ گاوں والوں میں بھی بعض شرارتی لوگ تھے تو کہیں مسئلہ خراب نہ ہوجائے۔
کچھ ہی دیر میں شمی اور فیقا بھی آن پہنچے اور گاوں کے لوگ بھی جمع ہوگئے تھے۔
مولوی صاحب نے دونوں کو الگ کرکے پہلے سارا ماجرا دریافت کیا پھر گاوں والوں کو صورتحال سے آگاہ کیا ۔
چاچا اسلم بولا: مولوی صاحب یہ چوہدری اور اس کے لڑکے کوئی بڑی مصیبت لے آئیں گے ہمارے گاوں پہ۔ آئے روز کوئی نہ کوئی شیطانی کرتے ہی رہتے ہیں ۔
منیر ہٹی والا بولا:  چوہدری کے پاس حرام کمائی اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی فوج پوری بھرتی کی ہوئی ہے اس نے غنڈوں کی۔
میدا پہلوان اپنے بازو پہ ہاتھ مارتے ہوئے آگے بڑھا : اوئے ایسی کی تیسی چوہدری اور اس کے غنڈوں کی ۔ آج اسکی پسلیاں نہ توڑ دیں تو میداپہلوان نام نہیں میرا !
گاوں کے مختلف لوگ مختلف انداز سے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے ۔ لیکن مولوی صاحب کسی وجہ سے انہیں ابھی اس طرف چلنے کو نہیں کہہ رہے تھے۔
پھر سب نے دیکھا کہ پولیس جیپ اور چند اہلکار مسجد کی طرف آرہے ہیں۔ مولوی صاحب آگے بڑھے اور اہلکاروں کو سارا ماجرا سمجھا کر ساتھ چلنے کو کہا ۔
ایک اہلکار نے کہا کہ انہیں اس طرح چوکی چھوڑنے کا آرڈر نہیں اسلئے وہ جیپ میں سوار ہوکر تھانے جائے گا اجازت اور نفری لائے گا البتہ دو سپاہی ساتھ روانہ کرسکتا ہے۔
مولوی صاحب نے یہ بھی غنیمت جانا اور پھر گاوں کے لوگوں نے گھروں سے ٹکریٹر ٹرالیاں نکالیں اور تقریبا بیس سے پچیس کے لگھ بگھ افراد ساتھ والے گاوں چل پڑے ۔راستے میں اور بھی لوگ شامل ہوتے رہے کیونکہ یہ معاملہ ہی ایسا تھا ۔
گاوں کے لوگوں کو لگا جیسے کسی نے ان کی عزت پر حملہ کردیا ۔ وہ سبھی گرودوارے کی حفاظت اپنی ذمہ داری محسوس کرتے تھے۔
شمی اور مسرت سنگھ موٹر سائیکل پر آگے آگے جارہے تھے اور ماسٹر اپنی سائیکل پر جبکہ مولوی صاحب اپنے موٹر سائیکل پر تھے اور ساتھ مندر سنگھ کو بٹھا رکھا تھا ۔
گرودوارے کا گنبد نظر آرہا تھا اور گاوں والوں کے جذبات بھڑکناشروع ہوگئے ۔
قریب پہنچے تو دیکھا کہ گردوارہ میں رکھے پرساد والے سانچے ( برتن) لکڑی کی کاٹھیاں اور دیگر سامان ادھر ادھر بکھرا پڑا ہے ۔
مولوی صاحب کو فکر ہوئی تو پہلے گرنتھی ( مذہبی پیشوا/ مقدس گرنتھ کا محافظ ) کی تلاش کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں پتا چلا کہ جب چوہدریوں نے حملہ کیا تو گرنتھی اپنے ساتھ گرنتھ صاحب اٹھا کر گاوں کی مسجد میں پناہ گزین ہوگیا تھا کیونکہ چوہدریوں کا ہدف اس بار گرنتھ صاحب ہی تھا۔
گرنتھ صاحب محض سکھوں کے لئے ایک مقدس کتاب ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ ان کے لئے جیتا جاگتا گرو کا درجہ رکھتی ہے ۔ اسلئے یہ ناصرف مقدس ہوتی ہے بلکہ اس سے سکھ رہنمائی بھی لیتے ہیں ۔ سکھوں کے لئے اس پر اور دس گرووں کی تعلیمات پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے ۔
اس کے علاوہ پانچ نشانیاں جنہیں  پانچ ککے کہا جاتا ہے ،بھی ایک سکھ کے لئے ساتھ رکھنا لازم ہوا کرتی تھیں اور کسی ایک بھی کاف کو مسترد کرنے والا سکھ مت سے خارج کر دیا جاتا تھا۔ گو کہ اب ان شرائط میں نرمی کردی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ان پر عمل کروایا جاتا ہے ۔
پانچ ککے یا پانچ کاف سے مراد کیس رکھنا ( داڑھی مونچھیں اور بال ) کرپان ( وہ چھوٹا سا تلوار نما خنجر جو سکھوں نے سائیڈ پر لٹکایا ہوتا ہے ) کنگھا ، کچھا اور کڑا ۔ یہ پانچ کاف ان کے ہاں پانچ ککے کہلاتے ہیں ۔
سکھ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم سیکھنے والے کے ہیں ۔شاید جب بابا گرو نانک سرکار سکھ مت سکھاتے تھے تبھی سکھوں کو سکھ کہا گیا ۔ سکھ مت کے ماننے والوں کو بابا گرو نانک کی تعلیمات پر عمل کرنا لازم ہے اور بابا گرو نانک سرکار نے اپنے پیروکاروں کو سچ بولنے ، نیک اعمال کرنے اور عاجزی جیسے درس دئیے ۔
سکھ مت میں خدا کی واحدانیت پر ایمان اور جیسے ہمارے یہاں تقوی  افضلیت کہ بنیاد ہوتا ہے اسی طرح ان کے ہاں بھی جو گرو نانک کی تعلیمات پر زیادہ کاربند رکھے خود کو وہی معتبر کہلاتا ہے ۔
مولوی صاحب نے شمی کو دوڑایا کہ گرنتھی صاحب کی خبر لے اور خود آگے بڑھ کر گرودیوارے میں توڑ پھوڑ کا جائزہ لینے لگے ۔
مسرت سنگھ نے گرودیوارے کے حالات دیکھے تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ گاوں والے آگے بڑھے اور اسے تسلی دینے لگے ۔ کچھ غصے سے چوہدری اور اس کے بیٹے کو گالیاں دینے لگے ۔
مولوی صاحب نے چند لوگوں کے ساتھ مل کر گھنٹہ بھر میں گرودیوارے کو غسل دیا ۔شری گرنتھ کے لئے نئی چوکی منگوا کر رکھی ۔پرساد کے برتن منگوائے اور پھر محرابوں کو سجاوٹ کروائی جیسے دلہن سجائی گئی ہو۔
مسرت سنگھ اور مندر سنگھ دیر تک گرودیوارے کی دہلیز پر ماتھا ٹکائے روتے رہے ۔ گاوں والے بھی افسردہ تھے۔
کچھ ہی دیر میں پولیس کی نفری بھی آ پہنچی ۔ مولوی صاحب نے گرنتھی صاحب کو سارا واقعہ کی رپورٹ لگوانے کا کہا ۔ رپورٹ لکھوانے کے بعد میداپہلوان آگے بڑھا اور پولیس افسر کو چوہدری کی گرفتاری کے لئے زور دینے لگا ۔
پولیس نے مکمل کاروائی کی یقین دہانی کروائی لیکن شاید گاوں والوں کو دکھ کے ساتھ ندامت بھی تھی کہ وہ اپنے اقلیتی بھائیوں کے مقدس مقام کی حفاظت نہ کرسکے اسی لئے انہوں نے فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔
مولوی صاحب نے گاوں والوں کو کہا کہ وہ سب واپس چلے جائیں پولیس کے ساتھ وہ خود میدے پہلوان کو لے کر جائیں گے اور گرفتاری کروائیں گے ۔ لیکن گاوں والے نہ مانے اور صرف چند لوگوں کو گوردوارے پہ چھوڑ کر سبھی چوہدری کے گھر کی طرف چل پڑے ۔
چوہدری کے بدمعاش اسلحہ رکھتے تھے اسلئے ان کی گرفتاری آسان نہ تھی۔ جب وہ چوہدری کی کوٹھی کے پاس پہنچے تو ان پر فائرنگ کردی گئی ۔ پولیس نے لوگوں کو دور ہی روک لیا اور جوابی فائرنگ کی بجائے لاوڈ سپیکر پر چوہدری کو خبردارکرنے لگے۔ کچھ دیر بعد فائرنگ تو رک گئی لیکن پولیس آگے نہ بڑھی کیونکہ خطرہ تھا کہ کہیں پھر فائرنگ نہ کی جائے ۔اس وقت سورج ڈھلنے لگا تھا ۔
پولیس والوں نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ چوہدری اپنے بندوں سمیت گرفتاری دے دے ورنہ اسپیشل فورس بلوائی جائے گی جو گھر کے اندر داخل ہوجائے گی ۔
بالآخر چوہدری کو گرفتاری دینا ہی پڑی۔ البتہ اس نے اپنے بیٹے کو پچھلے دروازے سے بھگا دیا ۔
اگلی صبح گاوں والے سب جمع ہوئے تو مولوی صاحب نے خوشخبری سنائی کہ چوہدری کا بیٹا بھی رات پکڑا گیا اور اس وقت دونوں باپ بیٹا اپنے ساتھیوں سمیت جیل میں ہیں ۔
گاوں والوں نے خوشی کا اظہار کیا ۔ مسرت سنگھ اور مندر سنگھ بھی خوشی سے رونے لگے ۔ وہاں موجود دوسرے سکھوں نے بھی گاوں والوں کا شکریہ ادا کیا تو مولوی صاحب نے کہا : آپ اور ہم دونوں ایک خدا کو ماننے والے ہیں ۔آپ کے بابا گرو نانک ہمارے لئے بھی بہت قابل احترام ہیں۔ ہمارے دین اسلام نے اقلیت کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا ہم تو آپ سے شرمندہ ہیں کہ ایسا واقعہ پیش ہی کیوں آیا ۔
مولوی صاحب کی آواز میں لرزش آگئی تو ماسٹر نے آواز بلند کی : بھائی لوگو۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اپنی جان سے بڑھ کر گرودیوارے کی حفاظت کریں گے آئیندہ کبھی ایسا کوئی واقعہ نہیں ہونے دیں گے ۔
مولوی صاحب نے فورا کہا: یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی عبادت گاہ کی حفاظت کریں ۔ آپ بے فکر ہوجائیں ۔
یوں کچھ دیر یہ بیٹھک چلتی رہی اور پھر سب گھروں کو روانہ ہوگئے ۔ اس گاوں کے باسیوں نے بھائی چارے کی مثال قائم کردی اور اپنے سکھ بھائیوں کے دل جیت لئے۔

No comments:

Post a Comment