جو لوگ میرے کالم اور مضامین پڑھتے ہیں انہیں یاد ہوگا کہ میں نے چند ہفتے پہلے ایک کالم لکھا تھا جس میں پی آئی اے سے متعلق ہونے والی سینٹ کی ایک کمیٹی کا احوال درج تھا ۔ یہ کالم دو حصوں میں شائع ہوا تھا۔ پہلا پی آئی اے میں بھرتی جعلی ڈگری والے افراد کے خلاف کاروائی کی پراگریس رپورٹ اور دوسرے میں ائیر مارشل ارشد ملک کی معاون خصوصی کی جانب سے خواتین کو ہراساں کرنے کا معاملہ خصوصا ذکر کیا تھا۔
چند روز قبل جب میں پارلیمنٹ گئی تو میری ملاقات سینٹر مشاہد اللہ خان سے ہوئی۔ اس وقت آرمی ایکٹ پر ن لیگ کے یو ٹرن بلکہ اباوٹرن پر سب حیران تھے ۔میں نے ان سے سوال کیا کہ آخر یہ اتنا بڑا یوٹرن اور وہ بھی یکدم لینے کا کیا سبب تھا۔ ووٹ کو عزت دو سے بوٹ کو عزت دو کیسے ہوگیا تو سینٹر مشاہد اللہ خان کراچی والے مخصوص انداز میں کہنے لگے ارے آپ دیکھئے تو ہم ان کے ساتھ کرتے ہیں ۔۔ بس دیکھئے تو سہی۔
آپ کو پتا ہے کہ اس طرح کے ڈائیلاگ صرف سیاسی ڈراموں کا حصہ ہوتے ہیں البتہ جو کچھ نوجوان نسل کے ذہنوں کے ساتھ یہ سیاستدان کرگئے اس کا حساب کون دے گا؟ یہی سوچ کر میں نے پھر کہا کہ آپ کو احساس پے کہ آپ نے اپنی پارٹی کے نوجوان کے ساتھ کیا کیا؟ ان کو کیسا دھچکا لگا؟ میرے سوال کے جواب میں انہوں نے لاپرواہی سے کہا۔ کیا ہوا نوجوانوں کو؟ کچھ بھی نہی ہوا۔ اب میں انہیں کیسے سمجھاتی کہ شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگانے والے نوجوان "ایک نہتی لڑکی سے ڈرتے ہیں بندوق والے" جیسے بیانیہ کے بعد اس طرح خاموشی سے معا ملہ کتنا عجیب ہے۔نوجوان ان کی طرح مصلحت و مفاد پسند نہیں اور ان کے اس اقدام سے انہیں بہت تکلیف پہنچی تھی ۔ یہی حال پی ٹی آئی کے کارکن کا ہے ۔ وہ عمران خان کے کرپشن مخالف نعروں پر فدا ہوئے ۔ "چوروں کو پکڑوں گا ۔ میں قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لاوں گا۔" کوئی این آر او نہیں دونگا کسی کو "۔ میں چوروں سے ہاتھ نہیں ملاونگا "اور پھر ۔۔ خان نے وہ سب کیا جو کہا تھا کہ" نہیں کروں گا" ۔
نوجوان مصلحت اندیشہ نہیں ہوتا اس کے جذبات اس کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں وہ جو سوچتا ہے وہ کرتا یے اور وہی عملی طور پر ہوتا دیکھنا چاہتا ہے جس کا خواب دیکھا ۔ مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کو شدید مایوسی ہوئی جب آرمی ایکٹ کی حمایت میں خاموشی سے ووٹ ڈال دئیے گئے اب تک جو نعرہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مریم نواز اور نواز شریف نے لگایا اس کی عملی نفی نے ان کی پارٹی کے نوجوان کو بددل کیا ویسے ہی جس طرح عمران خان نے اپنی حکومت کے اعلی عہدوں پر انہیں کو بٹھا دیا جن کے خلاف تقریریں کرکے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی۔
مشاہد اللہ خان سے اسی طرح سوال کررہی تھی کہ اچانک انہیں جیسے یاد آگیا اور یکدم مجھ پہ برستے ہوئے بولے "بڑا اچھا کالم لکھا آپ نے سارا میرے ہی خلاف لکھ دیا" میں اس حملے کے لئے تیار نہ تھی اور نہ ہی اندازہ تھا کہ انہوں میرا کالم جو ایوی ایشن کی کمیٹی کی رپورٹ سے متعلق تھا،پڑھا ہوگا بتاتی چلوں کہ اس کے دو حصے تھے ایک میں یقینا مشاہد اللہ خان کے پی آئی اے میں ملازمت کے دوران مرعات لینے اور اپنے بھائیوں کو نوازنے سے متعلق کچھ باتوں کا ذکر تھا البتہ اس میں میرا ارادہ عوام کو سیاسی کرداروں کی تقاریر اور عملی زندگی میں مفادات کے حصول سے متعلق موازنہ پیش کرکے رہنمائی دینا تھا کہ ووٹ دینے سے قبل تحقیق کیجئے اور بعد ازاں جب یہ سیاسی لیڈر اقتدار میں ہوں تو ان کو یوں جانے نہ دیجئے جب تک وہ قوم سے کئے وعدے نہ نبھائیں ۔
اس کالم کا دوسرا حصہ ائیر مارشل ارشد ملک کی پی آئی اے میں اپنے لوگوں کو نوازنے کی کہانی تھی اور اس حصے میں مجھے لگتا ہے کہ میرے الفاظ زیادہ سخت تھے ۔ میں نے قوم کی ماوں بہنوں کی عزت کے محافظوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ محافظ نہیں لٹیرے بن گئے ہیں کہ پی آئی اے میں ملازمت کے دوران خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کے پیچھے ائیر مارشل کے معاون خصوصی کامران انجم ہر انکوائری میں پائے گئے۔ اس معاملے پر میں نے سینیٹر مشاہد اللہ خان کی تعریف بھی کی تھی کہ انہوں بہت موثر انداز سے ائیر فورس کے حکام کو شرم دلانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ساتھ اس معاملے کی سنگینی کا احساس بھی دلاتے رہے۔
ایک صحافی کی مجبوری یہی ہے کہ وہ جن کے خلاف لکھتا ہے وہ اس سے ناصرف ناخوش رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات اس کے لئے مسائل بھی کھڑے کردئیے جاتے ہیں ۔ لیکن کیا کیجئے اس شعبے کو اختیار کرنے سے پہلے ہم یہ کڑوی گولی نگل چکے تھے کہ سچائی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ البتہ انسان ہیں اس لئے کسی کی دل آزاری پہ نادم بھی ہوجاتے ہیں کہ کاش یہ سیاست دان اور بڑے اداروں کے اعلی افسران اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال کرنے سے قبل سوچ لیا کریں کہ کل کو جوابدہ بھی ہوں گے ۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان کسی زمانے میں ہمیں بھی بہت عزیز تھے لیکن جوں جوں وہ سیاست میں ترقی کرتے گئے ہمارے دلوں سے بھی اترتے گئے کیونکہ ہم نے ترقی صرف ان کی زندگی میں دیکھی ملکی معیشت اور عوام کی زندگی میں محض مایوسی دیکھی ۔ سینیٹر مجھ پہ غصہ کرتے رہے کہ میں نے ان کے خلاف کیوں لکھا اور اس کی وجہ ان کے خیال میں کوئی ذاتی عناد تھا۔ مجھے افسوس تھا کہ وہاں موجود بیشمار صحافی اس زیادتی پر خاموش رہے کہ ایک سیاست دان ان کے سامنے صحافی کو غلط ثابت کررہا ہے محض اس لئے کہ بات ان کے خلاف لکھی گئی ۔ دوسری طرف وہ اس بات کا اعتراف بھی کررہے تھے کہ اگر ان کے بھائی نے تین سال کی بجائے پانچ سال بیرون ملک پوسٹنگ رکوالی تو کونسی قیامت آگئی یہ تو سبھی کرتے ہیں کونسی نئی بات تھی ؟ حالانکہ یہ بات تو سبھی سمجھتے ہیں کہ عام آدمی اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو وہ اس کا انفرادی عمل ہے اور وہ اس کا جوبدہ اپنی حیثیت کے مطابق ہی ہوگا۔جب کہ سیاست دان جو ووٹ لے کر عوام کا نمائندہ منتخب ہوتا ہے اس کے لئے اس طرح کے مفادات لینا ،پبلک آفس کے اختیارات کا ناجائز استعمال کہلائے گا اور اس کا احتساب بھی عہدے اور اختیارات کے حساب سے ہوگااسلیے یہ کہنا کہ سب کرتے ہیں یہ کسی طور مناسب نہیں۔ چونکہ سیاستدان اپنے ہر عمل کا جوابدہ ہے اسلئے یہ ہمارا حق ہے کہ ہم بیباک سوال کریں۔ لیکن اس بات کا حق کسی کو نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے مخالف لکھی ہوئی بات کو جھوٹ کہہ کر صحافتی اقدار کی تضحیک کرے۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی کہیں غلطی ہوجائے کبھی ہم اپنے سورس آف انفارمیشن کی خبر کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں اور پھر اس پر رجوع بھی کرلیا جاتا ہے اس میں حرج بھی نہیں کیونکہ مقصد کسی کی ذات پر حملہ نہیں بلکہ اس کے معاملات کا احاطہ کرنا ہوتا ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان میرے بزرگ اور قابل احترام ہیں لیکن جب بات ہوگی کہ انہوں نے اپنے عہدے کا استعمال کس طرح کیا ؟ تو پھر ہماری آواز کو دبایا نہ جائے ۔ ائیر مارشل ارشد ملک کی تقرری چیلینج ہوئی اور عدالت نے انہیں عہدے پر کام کرنے سے روک دیا اگر وہ بھی اٹھ کر اس کا الزام بھی ہمارے سر ڈال دیں تو یہ ایک لطیفہ ہوجائے ، کیونکہ اتنی سمجھ تو سب کو ہے کہ کسی صحافی کے قلم کی طاقت چاہے جتنی بھی ہو وہ حقائق کو نہیں بدل سکتی اور نہ کوئی ثبوت گھڑ سکتی ہے جو عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ کیس پی آئی اے کے قواعد و ضوابط کے برعکس تقرری کا تھا جو احسن طریقے سے نمٹا دیا گیا۔ مجھ جیسے بےشمار لوگ اس ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار عوام کی فلاح کی خاطر لکھتے ہیں اس میں ذاتی نفع یا کسی کے ساتھ بغض و عناد بنیاد نہیں ہوتا۔ مجھے افسوس ہے کہ بعض صحافی دباو کا شکار ہوجاتے ہیں اور اکثر مفاد کی خاطر سمجھوتہ کرلیتے ہیں ۔ میں کوئی ایسی نامور لکھاری تو نہیں لیکن میرے رب نے میرا دل خوف اور لالچ سے پاک رکھا ہے۔ مجھ سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن جان بوجھ کر کسی کے خلاف جھوٹ نہیں گھڑتی۔کوئی فوجی ہو یا سیاستدان ، ہمارا آپس میں ہم وطنی اور احترام کا رشتہ ہے اور مشترک ایجنڈا صرف پاکستان کی ترقی ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ کام کرتے ہیں اور جب کوئی اپنے راستے سے ہٹنے لگے تو دوسرے کا کام اسے ٹوکنا ہے۔البتہ اس میں صرف فرض شناسی کا عمل دخل ہونا چاہیے نا کہ لالچ یا دباو کے تحت مفاد پرستی۔
No comments:
Post a Comment