Sunday, 16 February 2020
اب تو دیر ہوگئی خان صاحب
بہت دنوں سے شور سنتے ہیں کہ حکومت نے الیکٹرانک میڈیا پر پابندیاں لگانے کے بعد اب سوشل میڈیا کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھنے کا منصوبہ بنا لیا ہے بلکہ اس سلسلے میں ہر حکومت کے ہر دلعزیز وکیل فروغ نسیم نے کابینہ سے کوئی بل پیش کرکے دستخط بھی لے لئے ہیں ۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ اچانک ہوا تو ایسا نہیں، اور ایسا کیوں نہیں تو اس کی بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیں جیسے کہ جب عمران خان کنٹینر پہ کھڑے نواز شریف حکومت کے خلاف بولتے تھے تو یہی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا ان کی طاقت بن رہا تھا۔ عمران خان ایک متحرک آدمی ہے وہ چیزوں کو ہوتے دیکھ کر بس دیکھتا نہی بلکہ اس کی ریسرچ کرتا ہے اس سے سیکھتا ہے اور پھر اپنی مرضی و منشا کے مطابق اسے استعمال کرتا ہے جیسے میڈیا کو کیا۔ عمران خان کو قتدار میں آنے کے بعد جب مشکلات کا سامنا تھااور پاکستانی میڈیا مسلسل تنقید کرتا رہا کہ عمران خان کو امور ریاست کی سمجھ نہیں یا عمران خان کی کابینہ نالائق لوگوں سے بھری ہے یا یہ کہ پاکستان تحریک انصاف تو اغوا ہوگئی اس کے اپنے وزیروں کی بجائے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے وزرا ہی اقتدار میں نظر آتے ہیں اور اس بات سے عوام میں تشویش پھیلتی دیکھ کر عمران خان نے فیصلہ کیا کہ "فی الحال" الیکٹرانک میڈیا کو فوری طور پر خاموش کروانا چاہیے کیونکہ وہ دیکھ چکے تھے کہ ان کو اقتدار میں لانے والوں میں ایک ہاتھ میڈیا کا بھی تھا اور وہ اس کی طاقت اور اہمیت کا اندازہ بخوبی لگا چکے تھے ۔ عمران خان کا خیال تھا کہ اگر فوری طور پر میڈیا کو کنٹرول نہ کیا گیا تو عوام ان سے بد دل ہوجائیں گے اور پھر ان کے اقتدار کو خطرہ ہوگا۔ اسلئے مجھے اس بات کا اندازہ عمران خان کی حکومت کے پہلے چھ ماہ میں ہی ہوگیا تھا کہ اس وقت ہر تنقید کرنے والے کی آواز کو دبایا جائے گا صرف وہی آواز سنائی دے گی جو عمران خان کے حق میں بولتی ہوگی یا اگر ہم خان کے حامیوں کی زبان میں بات کریں تو صرف پرامید اور مثبت سوچ کے حامیوں کو آزادی اظہار کی اجازت ہوگی ۔ پھر آہستہ آہستہ وہ الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرتے گئے اور اب بات آگئی گلوبل ولیج کے سوشل نیٹ ورک کی۔جہاں ایک شخص اپنے گھر کے کسی حصے میں بیٹھا ساری دنیا سے محض ایک کلک کے ذریعے براہ راست رابطہ کرسکتا ہے۔ گو کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کسی بھی ایسے آزاد فورم کو عام ہونے سے پہلے کنٹرولنگ پالیسی بنا لینی چاہیے تھی جیسے کہ2001/2000 میں جب جنرل مشرف نے انٹر نیٹ کو بنا کسی کنٹرولنگ اسٹریٹجی کے عام کردیا تو ہم کچھ نوجوانوں نے اس وقت بھی احتجاج کیا تھا کہ جس معاشرے میں تعلیم عام نہیں۔ عوام جہالت میں اسلام کی پردہ پوشی اور سماجی اصلاحات کا زبردستی نفاذ چاہتے ہوں۔الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے اشتہار اور ڈرامے بھی بہت کنٹرول پالسی کے تحت چل رہے ہوں۔ جہاں مدرسوں میں پڑھنے والے طالبعلموں کو عورت کے نام سے بھی دور رکھا جاتا ہے اور ان کی تربیت میں عورت کو صرف چولہا چوکھا اور مرد کی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہی بنایا گیا ہے وہاں یکدم انٹر نیٹ کے ذریعے کھلی آزادی دے دی جائے کہ جو چاہو "دیکھو" کیونکہ ہمارے یہاں کوئی بھی شے ہنر سیکھنے کے لئے استعمال تو ہوتی نہیں ہر کسی کو تفریح درکار ہوتی ہے۔ تو جس بات کا ہمیں خوف تھا وہ ہم نے آج معصوم بچوں اور بچیوں کے ریپ اور قتل کی شکل میں دیکھ لی۔ ہم نے اس وقت اسی خاطر شور مچایا تھا کہ صرف وہ سائیٹ کھولنے کی اجازت ہو جہاں تعلیم و تربیت اور ہنر سیکھنے کا موقع ملے۔ لیکن ہم جیسوں کی کمزور آواز نے کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگنے دی ۔ اب بیس سال کی بے لاگ آزادی کے بعد یکدم سے پابندی لگانا کوئی ایسا آسان نہیں اور نہ ہی یہ مناسب ہے۔ اب لوگوں نے ا پنے مسائل کے حل کے لئے سوشل میڈیا کو راستہ بنا لیا ہے اب لوگ محض تفریح نہیں بلکہ اس سے سنجیدہ کام لیتے ہیں۔ اس وقت عمران خان کا سوشل میڈیا کےلئے کوئی ریگولیٹری پالسی بنانا یا اسے اپنی منشا کے مطابق چلانا ممکن نہیں نظر آتا کیونکہ یہ فیس بک انسٹا گرام اور ٹیوٹر وغیرہ کسی ایک ملک کی پالیسی کے ماتحت نہیں بلکہ اس میں براہ راست ساری دنیا کے باشندوں کو ملکیت دے دی گئی کہ آزادانہ طور پر اسے استعمال کریں ۔ جب صورتحال ایسی ہو تو پھر ہر ایک سے حق واپس لینا ذرا مشکل بات ہے ۔ البتہ عمران خان چاہیں تو جیسے کچھ عرصہ قبل عرب امارات میں انٹر نیٹ گیٹ وے پر پہرہ تھا ان کی طرح اس کے استعمال کو مکمل روک سکتے ہیں یا کم سے کم استعمال کا حل نکال سکتے ہیں لیکن اگر عمران خان چاہیں کہ ان کی مخالفت میں لکھا گیا جملہ خود بخود ان کے حق میں بدل جائے تو اس خواہش کی تکمیل تو اس وقت کسی جِن کے بس میں بھی نہیں۔ خان صاحب کا خدشہ یقینا درست ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی حکومت پر تنقید بہت سے بااثر حلقوں کو بھی "کچھ اور"سوچنے پر مجبور کردیں گے لیکن اس خدشے کا حل سوشل میڈیا پہ پابندیوں سے نہیں نکلتا۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان جو سوشل میڈیا ٹیم بنا رہے ہیں وہ اس سلسلے میں ان کی مددگار ہو سکتی ہے جو خان صاحب کی اچھی پالسیوں اور کارکردگی کو اجاگر کرتی رہے ۔ ہم نے ڈیفینس پیجز پر مختلف ٹیموں کو کاونٹر نیرٹو دیتے ہوئے دیکھا ہے اور اس سے ادارے کو بہت فائدہ ہوا۔ یہی مشورہ خان صاحب کو بھی ہے کہ آپ کسی بھی صورت سوشل نیٹ ورکنگ کو روک نہیں سکتے کیونکہ اب تو بہت دیر ہوچکی ہے البتہ آپ اس کا موثر جواب لے آئیے اور اسی میدان میں اپنے مخالفین کا مقابلہ کیجئے اور وہ بھی ڈٹ کر!
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment