زمانہ جاہلیت میں آفات اور بلاوں کو ٹالنے کیلئے معصوم انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی. زمانہ بدل گیا لیکن رسم نہیں بدلی ۔ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کی بلا کو جھنجھوڑنے کیلئے بھی ہر چند دنوں بعد معصوم لہو بہا کر ریاست اور اس کے ادارے اپنے فرض کی بلا کو ٹالتے ہیں۔ بجائے یہ کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں اور اپنے حصے کی آفات کو کنٹرول کرنے کے لئے وقت سے پہلے اقدامات کریں یہ معصوم شہریوں کو قربانی کا دنبہ بناکر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
اداروں کی نااہلی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال ہے جیسے ماڈل ٹاؤن جیسا سانحہ یا آرمی پبلک کے بچوں کی شہادت کا المناک واقعہ ہوا۔ دونوں سانحات کی انٹیلجنس اطلاعات پہلے سے متعلقہ اداروں کو فراہم کردئ گئی تھیں لیکن پھر بھی موثر روک تھام کا کوئی ثبوت نہیں ملا آج تک۔ سانحہ ساہیوال ہوا اور پھر ایک معذور شخص صلاح الدین کا پولیس کے زیر حراست تفیش کے دوران تشدد سے چل بسنے سے قبل یہ دردناک سوال سامنے آیا کہ "تم لوگوں نے مارنا کہاں سے سیکھا" ۔ سچ تو یہی ہے کہ ان لوگوں نے مارنا کہاں سے سیکھا ؟ کسی ادارے نے سر ندامت سے نہ جھکایا اور نہ ہی اپنی کوتاہی کا کوئی سدباب کیا۔
ابھی حال ہی میں جو غدر لاہور پنجاب انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں وکلاء نے مچایا اور اس وکلاء گردی کا تماشا ساری دنیا نے دیکھا اس کے بعد صلاح الدین کے سوال کی اہمیت بڑھ گئی۔ دو فریقین کے جھگڑے نے کئی معصوم انسانوں کی جان لے لی۔ کتنے گھرانوں کے چراغ گل ہوئے اور کتنے بچے یتیم ہوگئے۔ حکومت کی رٹ کہیں نظر آئی نہ کہیں کوئی ایکشن ہوتا نظر آیا۔ عوام کی اکثریت نے جان لیا کہ یہ ریاستی ادارے بانجھ ہیں یہاں سے دادرسی ممکن نہیں ۔
میں سوچتی رہی کہ ارباب اختیار کس روز ہوش میں آئیں گے، کیا کل جب عوام ہی میں سے ایک بپھرا ہوا جتھہ اٹھے گا اور امراء و اشرافیہ کے بڑے مہنگے ہسپتالوں پہ دھاوا بولے گا اور خدانخواستہ کسی منسٹر کی یا کسی بیوروکریٹک کے کسی عزیز کی یوں جان جائے گی جیسے گذشتہ روز وکلاء کی ہسپتال پر حملہ کے دروان غریب لوگوں کی جان گئی تب انہیں ہوش آئے گا کہ ریاستی ادارے عوام کو تحفظ دینے میں ناکام رہیں تو ان عوام کے اندر کی آتش کسی روز ان کے گھر کو بھی جلا سکتی ہے ؟
لوگ اس روز دھمکی آمیز وڈیو پیغام ریکارڈ کرکے نکلنے والے وکلاء کے نعرے سن کر حیران رہ گئے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے نکلے کہ آج ہم ڈاکٹرز کو بتائیں گے ریاست مدینہ(بقول وزیر اعظم عمران خان) میں سب سے بڑے بدمعاش تو ہم ہیں دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز کو مریضوں کی جان بچانےسے زیادہ اہم کام ٹک ٹاک پہ مخالفین(وکلاء) کو طیش دلانا تھا۔ دونوں فریقین نے خود کو ایک دوسرے سے زیادہ طاقتور ثابت کرنے کے لئے عوام کی جانیں ضائع کردیں۔
ہم جب ٹی وی پر یہ ہولناک مناظر دیکھ رہے تھے تو خیال آیا کہ عوام آئیندہ مقدمات کے لئے وکیل نہ کریں بلکہ چار غنڈے لے جاکر مخالف کے گھر پہ حملہ کردیں۔ اس واقعہ سے تو ریاست کی جانب سے عام آدمی کو یہی پیغام ملا ہے کہ یہی بہتر راستہ ہے فوری انصاف کا اور جس قدر وکلاء کی فیس ہوتی ہے اس سے بھی کم خرچ ہوگا۔ اسے کہتے ہیں سستا اور فوری انصاف۔
قانون کے رکھوالوں کے ہی کندھوں پہ قانون کاجنازہ نکلا اور وہ بھی بڑی دھوم سے !
برملا کہوں گی کہ اس ریاست میں قانون صرف طاقت کاچلتاہے۔ طوطی صرف مافیا کا بولتا ہے ۔جینےکاحق صرف بدمعاش کو ہے۔انصاف تو فقط شوکیس میں سجانے کی شے ہے۔ارباب اختیار اپنی دنیا میں مست اور عوام وہ بھینس بنے ہیں جسے سیاستدان جدھر چاہے ہانک دے۔
وزیر اعلی پنجاب بزدار صاحب اس روز اسلام آباد وزیر اعظم کی قدم بوسی فرما رہے تھے اور ہم جیسے ہوم منسٹر کی تلاش میں تھے کہ اچانک انکشاف ہوا یہ قلمدان بھی خود حضرت عثمان بزدار نے اپنے گھر کے کسی ٹرنک میں محفوظ رکھ چھوڑا اور بھول گئے کہ پنجاب جیسا بڑا صوبہ بنا کسی ہشیار ہوم منسٹر نہیں چل سکتا لیکن کیا کیجئے۔ کرکٹ کے شوقین ووٹ دے کر کپتان لائے اور کپتان صاحب کو بزدار صاحب کی شکل میں وسیم اکرم مل گیا(اصلی وسیم اکرم سے معذرت) یا یوں کہیے کہ وہ بضد ہیں کہ یہی وسیم اکرم ہے۔
اس وقت ملک میں یہ بحث چل رہی ہے کہ اگر ریاست واقعی کسی قابل ہے تو ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلاء کی شکلیں پہچاننا کچھ مشکل نہیں کیونکہ تمام وڈیوز وائرل ہیں جب وہ کئی میل سفر طے کرتے ہوئے خود وڈیوز بنا کر دراصل ریاست مدینہ کو چیلنج کررہے تھے کہ یہاں اگر کسی کا قانون چلتا ہے تو وہ ہم ہیں ۔
عوام کی اکثریت نے سوشل میڈیا پر ان وکلاء کے لائسنس منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔کچھ نے کہا ہسپتالوں میں انکا علاج نہ کیاجائے ۔انکا سماجی بائیکاٹ کریں۔ کوئی ادارہ انکی حمایت نہ کرے۔ان کو گرفتار کرنے اور میڈیا پر ان کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ۔کئی نیوز چینلز نے کہا کہ وہ وکلا کو آئیندہ کورج نہیں دیں گے نہ کوئی ایونٹ کور نہ کریں گے۔
الغرض غم و غصے کا اظہار مختلف انداز سے کیا جارہا ہے لیکن ہمارا سوال تو ریاست مدینہ کے والیوں سے ہے کہ آخر کب تک ہم نااہلی کا رونا روتے رہیں گے اور عوام جان سے ہاتھ دھوتے رہیں گے ؟
No comments:
Post a Comment