Friday 27 October 2017

سازش

27 اکتوبر 2017
سعدیہ کیانی

وطن عزیز کے باسی کب سے اسی  شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ ملک میں نظام حکومت اس وقت کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اگر ن لیگ ہی بااختیار ہے تو اس کے وزرا و مشیر کہاں ہیں ؟ کیا کررہے ہیں؟ کیوں کسی جگہ کام کرتے نظر نہی آتے؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو تو چائنہ کا مال کہہ کر چپکے ہوجاتے ہیں مگر باقیوں کی بھی کسی کو کچھ سمجھ نہی آتی کہ کون کیا کررہا ہے؟ کس کے پاس کونسی وزارت یے ؟ کس کے اختیارات کچھ کرنے کے ہیں اور کونسا صرف منہ دکھائی کے لئے ہے ۔
عباسی صاحب کے متعلق ابھی لوگوں کو درست اندازہ نہی ۔۔ یہ چائنہ کا مال نہیں ۔۔ یہ پتھریلی زمین کی پیداوار ہےاور ۔۔ سخت جان ہے ابھی تو اسے بھی پتا ہے کہ حکومت کے اختیارات ڈگڈگی پر ناچنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔
21 اگست کو  آئی ایس پی آر   (ISPR)کی جانب سے ایک پریس کانفرس کی گئی ۔ اس میں جنرل آصف غفور کی باڈی لینگویج سے بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ پاکستان کی سلامتی اور فوجی قیادت پر ن لیگی وزراء اور قیادت کے بیانات کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ جنرل صاحب کا لہجہ اس بیزاری کو ظاہر کر رہا تھا جو کسی گھر میں عورت کی آئے دن کی شکایتیں اور بلاجواز تنقید سے شوہر اسقدر زچ آگیا ہو کہ وہ طلاق دینے کا فیصلہ کر لے اور اس جھنجھٹ کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے ۔
اس کے بعد سے اب تک فوج کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا نظرآتا ہے ۔اس سے قبل ان کے رویے میں جو درگزر کا عنصر نظرآرہا تھا وہ اہستہ آہستہ اب تقریبا ختم ہو چکا ہے اب جمہوریت ایک عضو ناکارہ کی طرح ان کے ساتھ لٹکی ہوئی نظر آتی ہے جو محض اسلئے الگ نہی کی جاسکتی کہ فقط دیکھنے میں بدن کا نقص نظر آئے گا اس کے سوا اور کوئی حرج نہیں کہ اسے کاٹ کر بدن سے الگ کر دیا جائے ۔ اور میں فوج کو جسم کی مثل کیوں کہہ رہی ہوں اور ن لیگ کی حکومت ایک عضو سے کیوں تعبیر دے رہی ہوں جبکہ وہ بظاہر ریاست کا کنڑول رکھتے ہیں ؟وجہ  در حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عوام اور فوج ایک جسم بن چکے ہیں فوج کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں جو نقصان ہماری فوج اور عوام نے اٹھایا اس کا ازالہ تو کبھی بھی شاید نہ کیا جاسکے لیکن اس وقت فوجی قیادت نے غیر ضروری فوٹو شاپ اور ن لیگ کے بھات بھات کے بیانات پر تبصرہ کرنے کی بجائے آن گراونڈ عوامی فلاح اور سلامتی کے لئے ایسے اقدامات کر نے پر اپنی توجہ مرکوز کئے رکھی کہ ان کا خلوص نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔ وزیرستان کے اس علاقے کو جسے تمام عمر ہم علاقہ غیر کے نام سے جانتے تھے اور سچ ہے کہ وہاں غیروں نے ہی ڈیرے جما لیے تھے ۔۔ وہاں پاک فوج نے کرکٹ میچ کھلا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا نا صرف یہ بلکہ اس علاقے کی جس طرح  تعمیر نو کی جارہی ہے وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات پیدا کرتا ہے ۔ ہمارے لوگوں نے بہت دکھ اٹھائے اور یہ حق تھا کہ ان کو اس طرح توجہ ملے ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ کام جمہوری حکومت کے کرنے کا تھا مگر افسوس کہ ان ظالمو کو لوٹ کھسوٹ اور عیاشی سے فرصت ملے تو وہ عوام کی طرف توجہ کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان پسے ہوئے عوام کی خدمت نے عوام کو فوج کے قریب کردیا اور آج پورے ملک میں اکثریت فوج کی تائید میں بولتی نظر آتی ہے ۔
میں ہرگز یہ نہیں چاہوں گی کہ میرے فوج کو سراہنے کے بیان کو  کسی اور تناظر میں لیا جائے جیسے وہ ایک عجیب سا جملہ "بوٹ پالشئیے" استعمال ہورہا ہے آجکل اور مزے کی بات کہ نوجوان طبقہ بڑے فخر سے یہ لقب اپناتا بھی ہے مگر سچ پوچھیں تو ۔۔ میں کبھی اپنے ہی بوٹ پالش نہ کروں تو کسی اور کے کیا کرنے ۔۔ سو یہ تحریر محض اچھے کاموں اور فوج کی مقبولیت کو سازش کا نام دینے کے پس منظر میں لکھ رہی ہوں ۔ جس سازش کا بارہا ذکر ن لیگ کی حکومت کی طرف سے کیا جا رہا ہے وہ اصل میں تو یہی عوامی فلاح و بہبود کے کام ہیں اور عوام سے فوج کی محبت تو ایک فطری سی بات ہے ۔یہ فوجی کوئی آسمان سے تو فوج بن کر نہیں نازل ہوتے ۔۔ یہ بھی میرے آپ جیسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہی کیانی گیلانی راجپوت بلوچ شیخ شگری خان اور چوہدری جیسے خاندانوں سے نکل کر سامنے آتے ہیں ۔ بات صرف یہ ہے کہ یہ عام افراد کی طرح آزاد نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطے کے تحت زندگی گزارنے کا معاہدہ سائن کرتے ہیں اور پھر سخت مشقت کے ساتھ یہ اس وردی کے اہل ہوجاتے ہیں جس پر کسی بھی ملک کا جھنڈا لگا ہوتا ہے جو اصل اعزاز کی بات ہے ۔ عام آدمی اتنی مشقت نہیں کرسکتا اسی لئے ان اداروں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے ۔
ن لیگ نے متعصب بیانات اور اپنے غیر سنجیدہ رویے سے بہت نقصان اٹھایا ہے اور آج یہ ایک بڑی جماعت سے محض ایک گروہ رہ گئی جو صرف شریف خاندان کی خدمت پر معمور ہے یہی وجہ ہے جو میں نے ن لیگ کو ایک عضو سے تعبیر کیا ۔ اسوقت نہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور نا ہی ان کو دیگر مسلم لیگی ساتھیوں کی حمایت حاصل ہے۔ میں نے جولائی میں ایک مختصر سا نوٹ لکھا تھا جس میں اپنی بصیرت کے مطابق چند پیشن گوئیاں کی تھیں جس میں نواز شریف کی اس خطرناک غلطی کا ذکر کیا کہ جب پنامہ فیصلہ آیا دو ججوں نے انہیں نااہل قرار دیا جبکہ تین نے مزید شک دور کرنے کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب نواز شریف کو مستعفی ہوجانا چاہئے تھا اگر وہ سمجھداری سے کام لیتے تو آج وہ مریم صفدر کا سیاسی کیرئیر بچا سکتے تھے جو اب تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔تب میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ نواز شریف کی نااہلی یقینی ہے اور طویل مقدمات کا سامنا نظر آتا ہے اور بیگم کلثوم برطانیہ شفٹ ہو جائینگی ۔یہ تمام باتیں اس وقت عملی طور پر درست ثابت ہوگئیں اور ایک بات رہ گئی وہ بھی عنقریب عملی مرحلے میں داخل ہونے جارہی ہے اور وہ یہ کہ برطانیہ میں موجود اثاثوں کی جانچ پڑتال کا عمل بھی شروع ہوجائے گا۔ گوکہ یہ تمام عمل بہت سست روی سے جاری ہے مگر داد دینی چاہیے ان ۔۔ کو جنہوں نے جان بوجھ کر اس قصے کو طول دیا باوجود عوامی دباو کے انہوں نے جلد بازی سے کام نہ لیا ۔اگر ذرا سی توجہ دی جائے تو ن لیگ کو اس طوالت نے جو نقصان پہنچایا ہے وہ ان کے گناہوں سے بھی زیادہ ہے ۔ ہر روز ایک نئی چوری کا انکشاف ہونا اور اس کے بعد ان کے عقل سے پیدل وزراء کی بیان بازیوں نے نواز شریف کی مقبولیت کو ناصرف کم کیا بلکہ مریم صفدر کے رعونت بھرے لہجے میں اداروں کو للکارنے سے یہ عوام کے دل سے بھی اتر گئے اور آج عوام ان کی گرفت کا مطالبہ کرتےنظر آتے ہیں اور  مجھے نظر آتا ہے کہ روز بروز یہ مطالبہ بڑھتا جائے گا اور ایک دن عوام کا مطالبہ اس تاریخ کو دہرانے کا ہوگا جسے ہم بھٹو کے نام سے جانتے ہیں ۔البتہ میری ناقص بصیرت ابھی بھی نواز شریف کی جان بخشی کو دیکھ رہی ہے لیکن ۔۔ صرف اس صورت میں جب مریم صفدر کی زبان روک کر اسے منظر عام سے غائب کردیا جائے ورنہ بے نظیر بھٹو جیسی عوامی رہنما کا انجام بھی ہم نے دیکھا اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ۔۔ آج تک  یہ بھی نہ پتا چل سکا کی محترمہ کا  قاتل کون تھا؟

8 comments:

  1. جانبدار اور تعصب سے بھر پور تحریر ہے۔۔ تجزیہ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ اس میں دونوں جانب کے لتے لیے جاتے لیکن اس تحریر میں ایک فریق کے قصیدے گانے اور دوسرے کی ہتک میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔۔ کسی بھی تحریر کی بنیاد آئین قانون اور اخلاقیات ہوتی ہیں لیکن یہاں تینوں کیساتھ وہی حشر کیا گیا ہے جو اس ملک میں تین چار دفعہ پہلے کیا جا چکا ہے اور ایک بار پھر کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔۔ اللہ پاکستان کو ہر ناپاک سوچ سے محفوظ رکھے۔ آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ اپنی تعصب والی عینک اتاریں تو آپ کو پتا چلے کہ اس میں یقیناً دونوں فریقوں کی بات کی گئ ہے۔
      مگر آپ کی بات ٹھیک ہے کہ مصنف نے نواز شریف کی لکھی ہوئی اخلاقیات قانون، اور آءین کی کتب یاد نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔

      Delete
  2. یہ آپ کی رائے ہے ۔ آزادئ اظہار آپ کا حق ہے ۔

    ReplyDelete
  3. آپ کا تجزیہ بلکل درست ہے
    پر ایک بات یہ بھی ہے کہ
    اس فرسودہ نظام کو گلے لگآئے رکھنے کی بجائے اس کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے
    تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے
    ایم این اے اور ایم پی اے کی ڈیوٹی صرف قانون سازی اور اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہو.ان کو کوئی فنڈ نہ دیا جائے. نہ ان کو کوئی کوٹہ دیا جائے.
    اگر ایسا کر دیا جائے تو الیکشن سے انویسٹر حضرات کا مفاد ختم ہو جائے گا . کسی حد تک حقیقی قیادت آگے آسکے گی

    ReplyDelete
  4. آپ کا تجزیہ بلکل درست ہے
    پر ایک بات یہ بھی ہے کہ
    اس فرسودہ نظام کو گلے لگآئے رکھنے کی بجائے اس کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے
    تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے
    ایم این اے اور ایم پی اے کی ڈیوٹی صرف قانون سازی اور اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہو.ان کو کوئی فنڈ نہ دیا جائے. نہ ان کو کوئی کوٹہ دیا جائے.
    اگر ایسا کر دیا جائے تو الیکشن سے انویسٹر حضرات کا مفاد ختم ہو جائے گا . کسی حد تک حقیقی قیادت آگے آسکے گی

    ReplyDelete
  5. آپ کا تجزیہ بلکل درست ہے
    پر ایک بات یہ بھی ہے کہ
    اس فرسودہ نظام کو گلے لگآئے رکھنے کی بجائے اس کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے
    تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے
    ایم این اے اور ایم پی اے کی ڈیوٹی صرف قانون سازی اور اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہو.ان کو کوئی فنڈ نہ دیا جائے. نہ ان کو کوئی کوٹہ دیا جائے.
    اگر ایسا کر دیا جائے تو الیکشن سے انویسٹر حضرات کا مفاد ختم ہو جائے گا . کسی حد تک حقیقی قیادت آگے آسکے گی

    ReplyDelete
  6. بہت خوب

    ReplyDelete
  7. I've come across this piece today, about a year after since it's publication, and your insightful assesment of the problem that Pakistan faces now in shape of Nawaz Mafia is something which are easily borne out by the subsequent anti Pakistan actions by NS n Co.

    Keep writing.
    Best regards

    ReplyDelete