Wednesday 4 December 2019

در پردہ

پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سنا کہ نئے چئیرمین رانا تنویر حسین کی تعیناتی کے اعلان کے بعد پہلی بار میٹنگ ہونے جارہی ہے تو صبح ہی تیاری پکڑ لی ۔ کچھ دوستوں سے ملنا تھا جاب کے لئے انٹرویوز بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں تو سب معاملات نمٹا کر پارلیمنٹ پہنچے ۔ اس دوران اطلاع مل چکی تھی کہ مین کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا اس لئے ہمیں وہاں بیٹھنے کی اجازت نہ ملے گی۔
کیفٹیریا میں داخل ہوتے ہی نوجوانوں کا ٹولہ سامنے ہی ٹیبل پہ لنچ فرما رہا تھا۔ زبیر نیازی نے حسب روایت سے زیادہ حسن روایت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اٹھ کر استقبال کیا ۔ راجہ ناصر لنچ فرما رہے تھے مجھے دعوت دی تو بنا کسی حیلہ و حجت جوائن کرلیا آخر صبح سے بنا ناشتہ کئے نکلی تھی اور اب دو بج رہے تھے۔ پتا چلا ایوی ایشن کی سب کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے تو وہیں چلیں گے۔ میں بھی مدتوں بعد فیلڈ میں نکلی تھی( اور ان شاللہ اب نکلتی رہوں گی) کیونکہ آپ کو اطلاع دیتی چلوں کہ آپ کے ٹی وی شوز کی رونقیں بحال ہونے والی ہیں۔ گرما گرم خبریں اکھاڑ پچھاڑ اور نئے لوگ حکومتی "سخت" موقف کے ساتھ سکرین پر نظر آئیں گے ۔ اور کچھ صحافی اینکرز جنہیں آپ دیکھنا سننا چاہتے ہیں وہ بھی عنقریب آپ کو سکرین پر نظر آجائیں گے۔
ہم نے میٹنگ کا ایجنڈا دیکھا تو پہلا نمبر جعلی ڈگریاں کیس تھا جن لوگوں کو پی۔آئی۔اے حکام نے نوکری سے فارغ کردیا تھا اور اس پر کورٹ آڈرز بھی موجود تھے کہ ایسے لوگوں کے لئے کیا حکمت عملی بنائی جائے جو 2006 سے پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں کے ساتھ بھرتی تھے۔ اس پر پی آئی اے حکام نے تقریبا 8 پلین آف ایکشن ترتیب دئیے تھے جن میں سے آخری بات نوکری سے برخاست یعنی ٹرمینیشن تھا۔
دلچسپ اور مشکوک صورتحال تب بنی جب کمیٹی چئیرمین مشاہد اللہ خان  ( ن لیگ) نے اس نکتہ پر پی آئی اے حکام کو پہلے پہل سرزنش کی کہ آپ ایسے لوگوں کو نوکری سے نکالنے کی بجائے کوئی اور سزا کیوں نہیں دیتے؟ جو حکمت عملی آپ نے بنائی اس میں تو 8 طرح کی باتیں ہیں تو آپ کچھ نرمی دکھائیں اور لوگوں کو بیروزگار نہ کریں۔ بتاتی چلوں کہ مشاہد اللہ خان صاحب کا ایک بیک گراونڈ ہے پی آئی اے کے حوالے سے ۔ یہ خود اپنی دور حکومت میں پی آئی اے کے کرتا دھرتا تھے اور جب بھی ان کی حکومت اقتدار میں آتی تو تھوک کے حساب سے بھرتیاں اور نوازشات خود موصوف بھی فرماتے رہے ۔اپنا بھائی کنٹری منیجر نیو یارک کے طور پر خوب مزے کرتا رہا۔ دوسرے بھائی کو لندن میں اسٹیشن مینجر لگوا دیا اور پی آئی اے کے آوٹ سٹیشن کام کرنے کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تین سال کی پوسٹ کو پانچ سال تک لے گئے اور مزید یہ کہ مختلف ممالک میں پوسٹنگز کروا کے خوب عیاشی ماری ۔ مشاہد اللہ خان کے اور بھی کئی رشتہ داروں نے اس بہتی گنگا میں اپنے میلے کچیلے ہاتھ دھوئے۔
خود مشاہداﷲ خان نوے کی دہائی میں بطور لوڈر بھرتی ہوئے تھے اور محض6/7 سال کی مدت ملازمت میں گھر گاڑیاں پراپرٹی وغیرہ بنا چکے تھے۔ اس نا چیز کا ذاتی مشاہدہ ہے ان کی بعض کمائیوں کو دیکھنے کا۔
بحرحال جب مشاہد اللہ خان بار بار نرمی کی پالسی اختیار کرنے کو کہہ رہے تھے میں واضح طور پر ان کی اپنے (بھرتی شدہ کے) مفادات کا تحفظ اور دفاع دیکھ سکتی تھی ۔ جب پی آئی اے حکام اپنے اس اقدام کی وضاحت دینے لگتے کہ ہمیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں تو سینٹر مشاہد اللہ خان انہیں نپے تلے انداز میں دھمکانے لگتے( میں آپ کو سیاست اور ریاست کو وہ چہرہ دکھا رہی ہوں جو آپ کی نگاہ سے ہمیشہ اوجھل رہا) کہنے لگے کہ آپ کو کورٹ نے 8 طرح کے پلین آف ایکشن دئیے ہیں آپ آخری پر جاکر کیوں اڑ گئے ؟ پی آئی اے حکام نے کہا کہ سر یہ 8 اصول بھی ہم نے خود ہی بنائے ہیں کہ کس صورت میں کونسا اصول لاگو کیا جائے ۔ مشاہد اللہ خان پھر بولے : تو بھئی8میں 7 کو بھی اپنا جاسکتا آپ آٹھواں اقدام یعنی نوکری سے فارغ کردینے کا ہی آپشن کیوں اپنائے بیٹھے ہیں ؟ آپ اس میں تبدیلی لائیں ورنہ پھر ہم دیکھ لیتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے ! اس طرح کے کئی جملے(دبی دبی دھمکیاں) سینٹر مشاہد اللہ خان نے کہے اور پی آئی اے حکام کو دبانے کی کوشش کرتے رہے جب دیکھا بات نہیں بنی تو منت ترلہ کرنے لگے کہ بھائی میری عرض سن لو میری درخواست بس اتنی سی ہے کہ جعلی ڈگری والے کو نوکری سے نہ نکالا جائے ( پی آئی اے اپنے ملازمین کو سفر صحت و علاج تعلیم پینشن وغیرہ جیسی بیشمار سہولیات دیتا ہے جو پکے ملازمین کو حاصل ہیں اور جو کچے ملازم ہیں انہیں ساری نہیں کچھ سہولیات میسر رہتی ہیں ) بلکہ کوئی اور سزا دے دو ۔چلو تنخواہ نہ دو ۔کمی کردو یا کوئی اور بینیفٹ روک دو لیکن بھائی غریب کا چولہا نہ بجھاو اسے جلتا رہنے دو ۔ اس طرح کے بہت سارے جملے جن سے ان کی ڈسپریشن کا اندازہ ہورہا تھا کہ وہ ایسے ملازمین کو پی آئی اے سے نکالنے کے حق میں نہیں جنہوں نے جعلی ڈگریاں بنوا کر پڑھے لکھے طبقے کا حق مارا ۔ جنہوں نے پی آئی اے کو کرپشن کے ذریعے نقصان پہنچایا ۔ جنہوں نے اپنی غیر تعلیم یافتہ شخصیت سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ۔ مجھے یہاں ایک بات یاد آگئی کہ جب نواز شریف کے بعد بے نظیر بھٹو کی باری آیا کرتی تھی (اقتدار کی) تو اس وقت سندھ سے اسی طرح جعلی ڈگری والے بھرتی ہوا کرتے تھے۔ ائیر پوسٹس کو انگریزی تو کیا اردو بھی ٹھیک طرح سے بولنی نہ آتی تھی اور اس پر ستم یہ کہ (فلائٹ سٹاف میل ہو یا فی میل اس کا اچھا دکھنا ضروری تھا) بے نظیر بھٹو دور میں ہم نے انتہائی بدصورت اور بے ڈھنگی ائیر پوسٹس کو دیکھا جنہوں نے جہاز سے ٹشو ، کراکری، ٹوائیلٹ سوپ،  کمبل کشن حتی کہ سیٹ کور تک چرا لئے ۔ ایسا بدلحاظ اور بدتمیز فلائیٹ کرو تھا کہ ہر وقت شکایات ہی سننے کو ملتی تھیں۔ میں ان دنوں کراچی میں تھی اور ان تمام معاملات سے براہ راست منسلک تھی۔ اسلئے جتنا اچھے طریقے سے میں سینیٹر مشاہد اللہ خان کی بات کو سمجھ سکتی تھی اور ان کی عوام سے ہمدردی کے درپردہ ذاتی مفادات کا تحفظ دیکھ سکتی تھی اور کوئی شاید نہ سمجھ پائے۔ اس دوران سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے بہت اچھے نکات اٹھائے جو اس مسئلہ کے حل کی طرف پیش رفت تھی لیکن وہ پی آئی اے حکام سے بار بار یہ سوال کرتے رہے کہ پی آئی اے کے نفع نقصان پر اب تک کوئی بریف سامنے نہیں آئی جبکہ ہمیں صرف یہی بتا دیا جاتا ہے کہ پی آئی اے نفع میں ہے ۔ سینٹر مشاہد اللہ خان نے لقمہ دیا گزشتہ 6ماہ میں 32 ارب کا خسارہ کروا کر بیٹھے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں پی آئی اے نفع میں جارہی ہے۔ مشاہد اللہ خان چونکہ جلے بھنے بیٹھے تھے کہ ان کی دھمکی عرض گذارش درخواست کسی کا بھی اثر قبول نہیں کیا گیا تو انہوں خوب چوٹ کی ۔ 
سینٹر خٹک نے پھر کہا کہ ہمیں درست اعدادوشمار بتائے جائیں تاکہ اندازہ ہو کہ کتنے میں سے کیا نقصان ہوا اور کیا فائدہ ۔ دوسری بات جو انہوں نے کہی وہ یہ تھی کہ پی آئی اے جعلی ڈگری والوں کو نوکری سے نکال دے یا رکھے یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے میرا سوال یہ ہوگا کہ ایک شخص وہ ہے جس نے جعلی ڈگری کے ساتھ کرپشن بھی کی اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے جعلی ڈگری کے ساتھ کرپشن نہیں کی بس نوکری کرکے تنخواہ اور مرعات لیتا رہا تو آپ لوگوں ان کے لئے کیا الگ الگ عکمت عملی بنائی ہے یا سب کے لئے ایک جیسی سزا تجویز کی ہے ؟ یہ سوال بہت اہم تھا اس کے جواب میں پی آئی اے حکام نے کوئی واضح جواب نہ دیا اور یہاں آکر مجھے لگا جیسے یہ حکام صرف چابی بھروا کر آئے ہیں ان کا بس صرف وہیں تک چلے گا جہاں تک چابی چلائے گی ۔وہ کون ہے جو چابی بھرتا ہے؟ اس پر بھی بات کریں گے اور بے فکر رہیے پوری تسلی سے لکھوں گی کہ کس طرح ائیر مارشل اور( جو اس وقت پی آئی اے کے سی ای او بھی ہیں) ان کے چہتے لوگ اپنی وردی پر کلنک کا ٹیکا ثابت ہورہے ہیں۔
)جاری ہے )

No comments:

Post a Comment