Thursday 4 January 2018

حالات وقت سے پہلے بدل رہے ہیں

سعدیہ کیانی

مصلحتیں لے ڈوبیں ہمیں. سوچا ابھی نہ لکھوں اور جو اسوقت کیا جاسکتا ہے وہ کروں ۔ بس خاموش رہنا چاہیے۔ اس وقت ایک ہی حل نظر آتا ہے ۔ خاموشی اور خاموشی کےساتھ تدبر تفکر اور مشاورت در مشاورت در مشاورت!
الزام تو بہت سوں کے سر جاتے ہیں لیکن ہم قریب میں جنرل مشرف سے شروع کرلیتے ہیں جنہوں نے ہماری زندگیوں کو عجیب نئی نئی مصیبتوں سے روشناس کرایا کہ کئی بار تو زندگیاں ان نئے تجربات کی تاب نہ لاتے بجھ ہی گئیں۔ لال مسجد کا معاملہ بہت سلیقہ سے حل ہوسکتا تھا لیکن نہیں۔کمانڈر مشرف نے دنیا کو بتانا تھا کہ وہ بہت کچھ کرسکنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ کچھ کرسکنے سے زیادہ آج کل کچھ کہہ دینے کا جنون سوار ہے موصوف پہ ۔ جو جنرل صاحب کی آزادی کے سہولت کار ہیں خود جناب انہی کے پشتے آئے روز ٹھوکے جارہے ہیں۔ ویسے بیانات خوب دیتے ہیں  پتا نہیں اس خطے میں کیا پھونکا گیا ہے ایسا کہ کوئی بھی ہلکے سروں پر راگ الاپنے کو تیار نہیں سبھی ہائی پچ سے شروع کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ڈھلکنے لڑھکنے اور پھر الٹنے لگتے ہیں۔
ابھی مخبوط الحواس امریکی صدر ٹرمپ کا بیان آیا کہ پاکستان دہشتگردی سے نمٹنے میں سنجیدہ نہیں اور ہمارا 33ارب ڈالر کھا کر ڈکارنے کے سوا کچھ نہیں کیا ہمیں یہ بات ایسی ناگوار گزری کہ عوام کیا سیاستدانوں نے بھی جواب بھرپور جوش و خروش سے دے دیا اور امید ہے اب ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ یقینا ڈر گئے ہوں گے کہ یہ تو سارے توپ کے منہ پہ بیٹھے ہیں کہ اب کوئی بیان آئے تو سیدھا امریکہ لینڈ کریں وہ بھی بنا ویزہ کے اور جناب پاکستانیوں کو اور کیا چاہیے امریکہ کے ویزہ کے شوقین تو ہمارے سیاسی و عسکری لیڈران بھی ہیں ۔جی ہاں یہ تمام اشرافیہ جب ایک بار سرکاری دورے پر امریکہ، کینڈا ، فرانس اور برطانیہ وغیرہ جاتے ہیں تو پھر ان کا دل بڑی بڑی سڑکیں ،پرآسائش گھر ، صاف ستھرے گلی کوچے، نظم و نسق والی ٹریفک اور کھلے ڈلے ماحول اور مئے سرور وہ بھی بنا پابندی دیکھ کر پلٹا کھا جاتا ہے۔پھر یہ کسی نہ کسی طرح وہیں کے ہو رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پھر آئے روز ملک کو بڑے چھوٹے قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے پھر ادارے خسارے میں جانے لگتے ہیں پھر ان کو پرائیوٹ کرنے کا سوچا جاتا ہے اور پھر کہیں پس پردہ معاہدہ جو پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے کے تحت لفظ خسارہ استعمال کرتے ہوئے بڑی ہی مضحکہ خیز شرائط کے ساتھ سر سے اتار پھینکا جاتا ہے ۔اور دوسری طرف بیرون ملک اثاثوں اور سرمایہ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ کیا تنخواہ تھی جنرل مشرف کی ؟ کیسے اتنی جائیداد بن گئی پاکستان میں اور دبئی کے فلیٹ کہاں سے آئے؟ سوال تو بنتا ہے۔ زرداری کی شادی بے نظیر بھٹو سے ہوئی اور ایک بدنام زمانہ ڈاکو کو لائینس مل گیا کہ لو جی اب ڈاکہ ڈالنے کی ضرورت نہیں جو چاہے اٹھا لو باپ کا مال سمجھو عیاشی کرو سرے محل بناو کتے پالو یا گھوڑے پالو ۔۔کون پوچھے گا۔پھر حضرت نے اقتدار کی بو اتنے قریب سے سونگھی تو نشہ سا آنے لگا آصف علی زرداری کے دل میں بھی تخت و تاج کی خواہش انگڑائی لینے لگی اور پھر اس مرد درویش کی ریاضت و مجاہدہ کی بدولت ایک کرامت بلکہ معجزہ رونما ہوا اور بی بی بے نظیر کو قتل کردیا گیا عوام الناس کی ساری ہمدردیاں ان کی جھولی میں آن گریں اور کرامت والی سرکار مہا گرو حضرات آصف زرداری صاحب صدر پاکستان بن بیٹھے ۔ ہائے پاکستان تیرے نصیب۔۔
مشرف کا بیٹا امریکی شہری ، نواز شریف کے بچے برطانیہ کے شہری، رحمان ملک،  شیری رحمان، آصف علی زرداری ، اور بےشمار سیاستدان بیوروکریٹک اور ریٹائرڈ ملٹری افسران کے بچے اور جائیدادیں دیگر ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس تنخواہ سے اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں گھر خریدنا ممکن نہ ہو اسی تنخواہ میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں گھر کیسے بن جاتے ہیں ؟ دبئی کے ایک فلیٹ کا کرایہ لاکھوں میں ہو تو وہاں فلیٹ کیسے خریدا جا سکتا ہے؟ اسحاق ڈار کے بچوں نے بہت بڑی بڑی بلڈنگز بنا لیں لیں ایسی لش پش کاریں کہ ایک کار بیچ کر کئی سو بھوکے ننگے پاکستانیوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ سوئس بنکوں میں دو سو ارب ڈالر اور دبئی کے 8 ارب ڈالر ہی منگوا لیں تو اس ملک کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ دل تنگ پڑگیا ہے ان کی اس لالچ بھری دنیا کو دیکھ دیکھ کر اب وقت آ گیا کہ احتساب ہو اور وہ بھی بنا تفریق۔ فوج اپنے بندوں سے خود حساب لے ورنہ ہم نے لیا تو بچنا کچھ نہیں ۔ سیاستدانوں کا احتساب عوام کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ انہیں پتا چلے کہ جن کی اوقات خاکروب سے زیادہ نہ تھی ان کو مسند اقتدار پر بٹھادینے سے کیا گل کھلائے اور آئیندہ ووٹ سوچ سمجھ کر دیں ۔
اس وقت دنیا کے حالات اپنے وقت سے بہت پہلے بدلنے لگے ہیں ۔ جن واقعات کو ابھی دو تین دہائیوں کا عرصہ درکار تھا وہ منصوبے 2018 میں ہی بنتے نظر آتے ہیں۔
جو بات واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے دنیا کے ممالک کا دو بڑے حصوں میں تقسیم ہونا ہے۔ ایک بلاک جس میں پاکستان ،چائنہ، روس ،ترکی، ایران اور سعودیہ قابل ذکر نظر آتے ہیں اور دوسرا بلاک جس میں امریکہ، اسرائیل بھارت ،برطانیہ وغیرہ شامل ہوں گے ۔ دیگر ممالک بھی آہستہ آہستہ اپنا راستہ متعین کریں گے البتہ یہ تقسیم کی لائین جو ابھی ہلکی سی جھلک دکھا گئی۔میری سمجھ کے مطابق یہ اپنے وقت سے بہت پہلے ہوا تقریبا بیس سے پچیس سال تک اس کا امکان نہیں تھا اسلئے حیرت ہوئی اور ابھی میرا اس موضوع پر بات کرنے کا قطعا ارادہ نہیں تھا لیکن امریکی صدر ٹرمپ کا بیان اس طرف اشارہ دے رہا ہے کہ اسرائیل کو ٹرمپ جیسا خبطی بندہ پھر نہیں ملے گا اور اسی لئے اجلت دکھائی گئی۔ دنیا میں شدت پسند  افراد کو بڑی طاقت کے طور پر اوپر لانے کا رجحان بڑھنے لگا ہے
اس میں کوئئ شک نہیں کہ ہم دباو میں آگئے اور فوج بھی پھنسی نظر آرہی ہے لیکن امید ہے آئیندہ چند ہفتوں میں ہم اس مشکل پر بھی قابو پالیں گے اور ملک میں سیاسی صورتحال میں کچھ بہتری کا امکان بھی نظر آتا ہے ۔ البتہ فوج کو اب سیکھنا پڑے گا اگر وہ سویلین قیادت کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر اس محاذ سے دور رہیں اس وقت ادارے کا جو امیج عوام کے ذہن میں ہے اسے خراب ہونے سے بچانے کی فکر کریں ۔یہ بات فوج کو سمجھ لینی چاہیے کی وہ فلحال سیاسی کرداروں پر یقین نہیں کر سکتے انہیں اپنے معاملات یکسر الگ رکھنے ہیں ورنہ ملکی دفاع کمزور سے کمزور تک ہوسکتا ہے ۔ آئیندہ دس سے بارہ ہفتوں میں فوج کو اپنا جائزہ لے لینا چاہیے اور اس وقت کو اپنی غلطیوں کی جانکاری اور ان کے حل پر خرچ کرنا چاہیے کیونکہ 2019 ان کے لئے مشکلات لاتا نظر آرہا ہے ۔ اور جب بات کریں فوج کی مشکلات کی تو یہ براہ راست وطن عزیز کی سلامتی کی بات ہے تو سمجھیں ۔
اس سال نئی حکومت میں پی ٹی آئی کا قدم مضبوط ہے لیکن وفاق ان کے ہاتھ میں نہیں اور اس کی بڑی وجہ خود عمران خان ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہیں ۔ گھوم پھر کے بات پیپلز پارٹی کی کسی متوازن شخصیت پر آجاتی ہے گو کہ ان کا زور ٹوٹ گیا ہے لیکن اس وقت جس بندے کی ضرورت ہے وہ شاید پیپلز پارٹی کے پاس ہے سو یہ بہت عجیب و غریب صورتحال بنتی جارہی ہے۔ مسلم لیگ نے خود کو ن کے نقطہ سے آزاد نہ کروا کر بہت نقصان اٹھایا ہے اور آئیندہ اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ شہباز شریف کی کامیابی اگر ممکن ہے بھی تو بہت مختصر وقت کے لئے ۔ وہ ماڈل ٹاؤن کیس میں بڑی طرح پھنسا نظر آتے ہیں اور حدیبیہ۔۔ کیس دوبار تیار ہورہا ہے اور اس میں بچنے کا چانس نہیں اس بار۔
نواز شریف نے ملک دشمنی کے سارے ثبوت دے دئے اور جو جاں بخشی مجھے تین ماہ قبل نظر آرہی تھی وہ اب نہیں دکھتی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو اللہ نے بے پناہ صلاحیتیں دی ہیں اگر ملکی نظام میں انہیں کسی جگہ استعمال کر لیا جائے تو یہ وطن عزیز کے بہت سے گھمبیر مسائل کا حل نکال لائیں گے۔ جو آدمی دنیا کے تقریبا سو ممالک میں  کسی بڑی طاقت کے سہارے کے بنا اپنے ادارے کے لئے سکول کالج اور جائیدادیں بنا سکتا ہے وہ اس مفلس وطن کو بھی ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔میں ذاتی طور پر اس بندہ بشر کے ہاتھ میں وطن کی بھلائی کی لکیر دیکھ رہی ہوں۔
ایک بات جو میرے دماغ کو کھرچ رہی ہے وہ یہ کہ بے نظیر کے قاتل آج تک پکڑے نہ گئے اور نہ معلوم ہوسکا کہ کون ہے۔
اور ایسا لگتا ہے کہ ایک اور اندھی گولی کہیں گردش میں ہے!

No comments:

Post a Comment