Wednesday 13 December 2017

ابھی نہیں ۔۔۔ ابھی نہیں!!

تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی دو سال پہلے تم نے رات بسر کی میرے گھر اور پھر صرف دو بار گھڑی دو گھڑی ملنے کیلئے لئے آتی رہی ہو۔۔ خبردار اب مجھ سے رابطہ نہ کرنا کبھی بھی۔۔
میں نے شنی سے لڑتے ہوئے کہا تو بچاری نے سر جھکا لیا اور شرمندہ شرمندہ سا بولی ۔۔ سعدی ۔۔۔ قسم سے میرا دل بھی بہت چاہتا ہے لیکن میری مصروفیات مجھے سانس تک نہیں لینے دیتیں ۔۔ تم سے ملنے کے لئے تمہاری باتیں سننے کے لئے اور تمہارے نئے دوستوں کے قصے سننے کے لئے میں ہر وقت بے چین رہتی ہوں ۔۔مگر ۔
میں بات کاٹتے ہوئے بولی۔۔ جو بھی ہے شنی ۔۔ یہ کوئی ایکسکیوز نہیں ۔ جب وقت نکالنا ہو تو نکل ہی آتا ہے مجھے دیکھو ۔۔ صرف اپنا ہی نہیں دنیا بھر کا کام سر پہ لے رکھا ہے ۔۔ ہر جگہ ٹانگ اڑا رکھی ہے بچوں سے لے کر نانی تک سب کے کام میرے ذمہ ہیں پھر بھی میں تم سے رابطہ نہیں توڑتی ۔۔ پھر بھی کبھی تم نے بلایا ہو یا کبھی تمہاری کوئی ضرورت آئی ۔۔ میں کبھی نہیں جھجھکی فورا سے پہلے تمہارا ساتھ دیا اب میں آج جب تمہیں بلا رہی ہوں کہ میرے  اپنے اعصاب کی جنگ میں صرف مجھے اتنا وقت دو کہ میں کسی اور کا ہاتھ نہ پکڑ بیٹھوں ۔۔ مشکل وقت ہے شنی ۔۔۔ میں لڑ رہی ہوں صرف اتنا دھیان رکھو کہ میں کسی کھائی میں نہ جا گروں ۔۔۔ شنی پلیز۔۔۔ میں اس وقت کسی کا اعتبار نہیں کرسکتی ۔۔ کسی کا بھی!
میں اور شنی دونوں بچارگی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔ پھر شنی پلٹی اور فون اٹھایا ۔۔۔ میاں کدھر ہیں آپ؟
میں نے گھبرا کر پوچھا کیوں بلا رہی ہو ابھی تو آئی ہو ؟ بلا نہیں رہی انہیں کہہ رہی تھی کہ ابھی نہ آئیں مجھے مزید کچھ وقت دیں ۔۔۔ شنی کہہ رہی تھی اور میں نے خوشی سے جھٹ کہا پلیز آج رک جاو ۔۔۔ مجھے تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں بے شمار ۔۔۔ شنی نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ میاں دروازے پر آچکے ہیں سعدی ۔۔۔ وہ پھر مجھ سے نظریں چرانے لگی ۔۔۔ یکدم میں اٹھی اور سیڑھیاں اترے ہوئے بولی ۔۔۔ تم آج گھر نہیں جا رہی بس ۔۔۔ ابھی تمہارے میاں سے بات کرتی ہوں ۔۔۔ شنی مجھے آوازیں دیتی رہی لیکن میں نے ایک نہ سنی اور اس کے میاں سے کہہ دیا کہ آج اسے نہ لے کر جائے ۔ وہ غریب بھی جانتا تھا کہ اس سے شادی کے بعد شنی کسی کولہو کے بیل مانند صرف کام کرنے میں جتی ہے تو اسے بھی ترس آہی گیا اور اس نے کہا کہ جو آپ دونوں کی مرضی ۔۔۔ میں ویسے بھی رات میچ دیکھوں گا ۔
بس پھر کیا تھا  رات میں نے اور شنی نے خوب باتیں کیں ۔ہاسٹل کے قصے یاد کرنے لگے اور دونوں خوب ہنستے رہے۔ بہت سی باتیں اور قصے آج عجیب سے لگتے ہیں کہ کیا ایسا سادگی کا زمانہ بھی دیکھا ہم نے ؟ کیسے ایک ہی جگہ رہتے رہے اور کوئی پراوئیسئ لاک نہیں تھا ہمارے بیچ۔۔ ہر کوئی کھلی کتاب کی کا مانند تھا ۔ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے سمجھتے تھے ۔۔۔ گو لڑائیاں بھی ہوتیں مگر کچھ خاص نہیں کیونکہ کچھ ہی دیر میں سب راضی ہوجاتے ۔
شنی:سعدی تمہیں یاد ہے حافظہ والا واقعہ؟
نہیں ۔۔ کونسا واقعہ ؟ میں استفسار کیا تو شنی ہنسنے لگی اور ڈھیر سارا ہنسنے کے بعد بولی ۔۔ یاد ہے جب ایک رات سب سوگئےاور ہاسٹل کی لائٹس بند ہوگئیں تو رات میں کہیں میں نیند میں اٹھی اور نیند میں چلتی ہوئی حافظہ جی کے بیڈ پر پہنچی اسے زور سے چک کاٹا اور واپس آکر سوگئی۔۔
صبح اٹھی تو حافظہ جی کو سلام کیا وہ اچھل کر دوسری طرف ہوگئی مجھے ڈری ڈری نظروں سے  دیکھ رہی تھی ۔۔ ہائے حافظہ جی کیا ہوگیا طبیعت تو ٹھیک ہے؟ میں نے پوچھا تو حافظہ جی نے تقریبا روتے ہوئے بتایا کہ وہ ساری رات ڈر کے مارے سو نہ سکیں کہ میں پھر نہ اٹھ کر ان کو چک کاٹ لوں بچاری نے ثبوت کے طور پر چک والا بازو بھی دکھایا جس پہ یقینا میرے ہی دانتوں کا نشان بنا ہوا تھا ۔
شنی نے قصہ سنایا تو ہم دونوں گھنٹوں اس بات پر ہنستے رہے کہ وہ بچاری ساری رات کتنی خوفزدہ رہی ہوگی کہ کہیں شنی کے بدن میں کوئی چڑیل تو نہیں آ گھسی ۔۔ یہ چڑیل کا کردار تو بہت اہمیت رکھتا تھا ہماری ہاسٹل کی لائف میں ۔۔ پتا نہیں کون گھڑتا تھا ایسے قصے اور کیوں ڈرا رکھا تھا سب کو۔مجھے کبھی دلچسپی نہ رہی تھی اسلئے کبھی توجہ نہ دی تھی ۔میرے تو اپنے بڑے محاذ کھلے رہتے تھے ہر وقت ۔۔ گارڈ مدر  کا فریضہ کہہ لیں یا خدائی فوجدار۔۔۔ جہاں کہیں کوئی مسئلہ ہے  ۔۔ میرے خون کو سب سے پہلے جوش آتا یہی وجہ تھی کہ مجھے پتا ہو نہ ہو کسی کا ہاسٹل سارا جانتا تھا مجھے ۔ ایک بار برسات میں میڈم ربانی نے بلوایا تھا ۔۔ کیانی کدھر ہے ؟ بلاو بھئی کیانی کو بلاو ۔۔کدھر ہے ہماری ریسرچر ؟ کے نعرے لگ رہے تھے اور مسئلہ صرف اتنا سا تھا کہ برسات میں زمین سے نکلنے والے کیچووں میں سے ایک کیڑا کچھ مشکوک سا تھا۔کوئی اسے سپولا کہتے تو کوئی کیچوا ۔۔ میڈم ربانی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے مجھے بلوایا اور بولیں ۔۔ کیانی تمہاری معلومات زیادہ ہوتی ہیں بتاو یہ کیا چیز ہے ؟ میں نے میڈم ربانی کی طرف دیکھا اور آدھ موئے سپولئے کو لکڑی سے چھیڑا تو وہ جھٹ سے گول مول ہونے لگا ۔۔ میڈم جی ۔۔ مجھے اب ہر بات کا علم بھی نہیں ہوتا اور یہ کیڑے مکوڑے تو قطعا میری دلچسپی نہی لیکن پھر بھی ابتدائی تفتیش بتاتی ہے کہ یہ سانپ کی ہی نسل ہے ۔۔۔ کمرے چیک کروا لیں کہیں دیگر اہل خانہ کسی کے بستر میں نہ قیام فرما رہے ہوں۔۔ میڈم ربانی نے ایک اونچا سا قہقہہ لگایا اور میرے کندھے پر تھپاک سے ہاتھ مارا ۔۔ میں  نے کہا تھا نا کہ یہ صرف کیانی بتا سکتی ہے۔ تم نکمیوں کو کنگھی پٹی سے فرصت ہو تو کوئی کتابیں بھی پڑھو۔  اور تم بھی کیانی ۔۔ یکدم میڈم جی میری طرف سیدھی ہوگئیں اور دھکمانے والے انداز سے بولیں ۔۔ کبھی کبھار کورس کی کتابوں کو بھی دیکھ لیا کرو وہ بھی مفید ہیں اور اس بار ٹیسٹوں کے نمبر میں خود لگاونگی ۔۔۔ میڈم ربانی بہت تیزی سے بولتی ہوئی اپنی کنیزوں کے ہمراہ رخصت ہوگئیں اور میں سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ کہاں تک تعریف تھی اور کہاں سے بے عزتی شروع ہوئی ۔۔
شنی ۔۔ میں کہاں کھڑی ہوں ؟ ہم دونوں چائے کا کپ ہاتھ میں لئے الٹے سیدھے بیڈ پہ پڑے بچوں کے درمیان اپنی جگہ
بنانے میں کچھ کامیاب ہوگئے تو میں نے پوچھا ۔ ساری عمر اکیلی لڑی ہوں اور کبھی اسطرح نہیں گھبرائی۔۔ شنی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں اپنے ضمیر کے کٹہرے میں مجرم کی طرح جا کھڑی ہوتی ۔۔
سعدی  نہ کر یار ۔۔۔ شنی نے میری بات کو پورا نہ ہونے دیا اور جھٹ سے سیدھی بیٹھ گئی ۔۔ تم اس طرح کیوں سوچنے لگی ہو سعدی ؟ تمہیں  پتا ہے ناں کہ تمہاری ہمت ہمارے لئے حوصلہ ہوتی ہے ۔۔ تم سے تو زندگی جینے کا ہنر سیکھا ہے میں نے ۔۔ یاد ہے کیسی مشکلات آگئیں تھیں میری شادی کے کے وقت زندگی میں ؟ سعدی تم نہ ہوتیں تو میں کیسے مقابلہ کر سکتی تھی یقین جانو میں آج جب اپنے پاوں دیکھتی ہوں تو ان کنکروں پر چلنے کے لئے تم نے مجھے اپنے جوتے دئے تھے ۔۔ اس وقت تمہاری مدد نے مجھے اس مشکل وقت سے نکالا باوجود یہ کہ تمہاری اپنی جنگ بھی جاری تھی ساتھ ساتھ۔۔
شنی ۔۔ ایسا نہ کہو یار ۔۔۔ تمہیں خود پتا نہیں کہ تم کیا ہو۔ تمہارے اندر موجود صلاحیتیں کسی اور کو میسر نہیں تم نے خواہمخواہ خود کو ایسا بنا رکھا ۔۔۔
نہیں سعدی۔۔ یہ تم تھیں جسے مجھ میں خوبیاں نظر آتی رہیں ورنہ میں نے ساری زندگی لوگوں کو نظر انداز کرتے ہی دیکھا کبھی کسی نے بڑھ کر دوستی کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی خاندان کے لوگ کچھ سمجھتے تھے ۔ جب تم پہلی بار آئی تو میں ڈرتی تھی کہ ابو ڈانٹیں گے ۔کیونکہ ہمارے خاندان میں اپنے رشتےداروں کے سوا کسی سے دوستی اور میل ملاپ کی اجازت نہیں تھی ۔ سعدی ہماری اس بیس سالہ دوستی کی پیچھے صرف تمہاری ہمت اور صبر ہے ۔۔ یقین جانو میں کبھی بھی اس دوستی کو چلانے کے قابل نہیں تھی بار بار تمہیں مایوس کرتی رہی اور تم پھر بھی آگے بڑھتی رہی ۔
اف شنی ۔۔ خدایا ۔۔ کیوں فضول باتیں کرتی ہو ۔ لوگوں کو سمجھ نہیں ۔تم جیسی ذہین سمجھدار حاضر جواب اور انتہائی انکسار لڑکی کہاں ہے اس پورے شہر میں ؟
سنو۔۔ شنی کے بولنے سے پہلے ہی میں نے اسے ٹوک دیا ۔۔ خود کو دیکھو ۔ صبح سویرے گھر سے نکلتی ہو دوسرے شہر جاتی ہو تو جاب کے لئے پھر واپس آکر بنا آرام کئے دوسرے آفس چلی جاتی ہو جہاں سے رات گئے آتی ہو ۔ شنی تین بچوں کے ساتھ دو جاب اور اتنا بڑا سسرال اور ایک عدد فل پیکج شوہر کو مینج کررہی ہو ۔۔کون کر سکتا ہے ؟ مجھے دیکھو ۔۔ بک بک سنو تو بس ابھی ستارے پر کمند ڈلنے ہی والی تھی لیکن عملی زندگی میں زیرو۔  کچھ بھی نہیں ہے میرے پوٹ فولیو میں! نہ گھر والے خوش نہ باہر والے سبھی کو اعتراض رہتا ہے کہ کسی کی نہیں سنتی ۔۔
سعدی ۔۔۔ تمہیں سمجھنا اتنا آسان نہیں روایتی لوگ ہیں ان کی کسی بھی بات کو سنجیدہ لینا نہیں بنتا ۔ تم مجھے میری صلاحتیوں سے متعلق بہت کچھ کہتی رہی اور میں نہیں مانتی تھی لیکن سچ پوچھو اب مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ تم نے میرے اندر سے بہت کچھ ابھارا ہے جب مجھ سے آفس کے سب لوگ سوالات کرتے ہیں اور میری رائے کو مقدم جانتے ہیں تو میں سوچتی ہوں سعدی یہی تو کہتی ہے کہ شنی تم ان سب سے بہتر ہو ۔۔ ان لوگوں کا تم سے کوئی مقابلہ نہیں ۔۔ سچ سعدی ۔۔ میں تو اپنی واجبی سے شکل اور غربت کے باعث بہت حساس زندگی جی رہی تھی بلکہ جب میرے خاندان کے لوگوں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تو بزرگ خواتین بار بار پوچھتی تھیں کہ شنی کو یہ سہیلی کہاں سے مل گئی ؟ ایسی گوری چٹی اور پر اعتماد لڑکی ہمارے خاندان میں ایک بھی نہیں تھی تو میں خوش ہوجاتی تھی کہ چلو کسی بہانے مجھے بھی اہمیت مل رہی ہے اور تم تھیں کہ ہر وقت میری خوبیاں تلاشتی رہتی ۔۔۔ سعدی ۔۔ آج میرے اندر اعتماد کا سہرا تمھارے سر ہے میں نے جانا کہ شکل و صورت اور منصب سے زیادہ اہم انسانی اوصاف ہیں اب مجھے کسی بھی قسم کی کوئی احساس کمتری نہیں ۔بلکہ اب میں زندگی احساس برتری سے گزارنے لگی ہوں باوجود مالی مشکلات کے مجھے اپنی زندگی بہت سوں کی زندگی سے بہتر لگتی ہے اور یہ صرف تمہاری باتوں کی وجہ سے جنہیں تم بک بک کہتی ہو ۔۔ شنی نے یہ کہتے ہوئے میرے ہاتھ سے خالی کپ پکڑا اور کچن کی طرف چلی گئی ۔
مجھے شنی کا پہلی بار اپنے گھر آنا اور پھر اس کے ابا کا اسکی کلاس لینا یاد آنے لگا ۔ وہ واقعی کسی سے دوستی کی اجازت نہ دیتے اور نہ ہی آنا جانا پسند کرتے اور ان حالات سے شنی کی شادی تک کے حالات میں بہت فرق آگیا تھا جب انکل انٹی اس کے جہیز کے لئے پریشان تھے تو شنی نے اپنی امی کو بتا کہ سعدی کے گھر سے کل سامان لینے جانا ہے ۔ انہیں اس وقت شدید حیرت ہوئی کہ شنی کا سب جہیز ڈبوں میں پیک میرے گھر پڑا تھا اور جیولر کو بھی رقم دی جا چکی تھی ۔ میں نے شنی سے آفس کی تنخواہ کچھ ماہ اپنے اکاونٹ میں ٹرانسفر کروائی تھی تاکہ ساتھ ساتھ اس کی چیزیں بناتی رہوں اور آنٹی جو طعنوں کے خوف سے بہت پریشان رہتی تھیں انہیں مزید پریشانی سے بچانے کے لئے میں خود بازاروں کے چکر لگاتی رہی اور پھر شادی پہ اس کے خاندان کا منہ بند کروا دیا جب اسکی بہن کے گلے میں بھی سونے کا سیٹ پہنا دیا ۔شنی سچ کہتی تھی میں نے اپنی استعداد سے بڑھ کر دوستی نبھائی تھی لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ کمال بھی شنی کا تھا جس نے مجھے اپنی محبت کے سحر میں جکڑے رکھا اور سچ تو یہ ہے کہ یہ محبت پیار احساس جیسے جذبے ہوتے ہی ایسے ہیں ۔آپ جتنا انہیں استعمال میں لائیں یہ بڑھتے جاتے ہیں یہ ایسا خزانہ ہے جسے جسقدر خرچ کیا جائے اس میں اسی قدر اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔
میری شنی سے بہت سی باتیں ہوئیں اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ جہاں اتنے طوفان گزر جاتے رہے وہاں کچھ اورسہی۔ شنی کا تو مجھ پر یقین ہی بہت عجیب تھا وہ یہ بات ماننےکےلئےتیار ہی نہ تھی کہ میں کسی غلط سمت کو اختیار کرنے کا سوچ بھی سکتی ہوں۔ جبکہ مجھے لگتا تھا کہ میں نے اس بار طے کر لیا ہے کہ کچھ تو بدلنا ہے ۔۔ اس پار بھی جاکردیکھنا چاہیے کہ جو ہمارے جیسے نہیں ہوتے ان کی زندگیاں کیسے بسر ہوتی ہیں ؟ مجھے لگا جیسے میں خود کسی ایڈونچر کی تلاش ہوں اس بار ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ سارے کنکشن بحال ہونے کے باوجود میں خلا میں کیوں تیر رہی ہوں ؟ اس کی معاونت اور محبت کا سلسلہ تو کہیں نہیں رکا تو میرے لمس اسے محسوس کیوں نہیں کرپارہے ؟ وہ سن رہا ہے لیکن وہ جواب نہیں دے رہا ۔ تو کیا وہ چاہتا ہے کہ میں خود فیصلہ کروں کہ بس یہیں پڑاو ڈال لوں جو مل رہا ہے وہ کافی ہے اچھا ہے ۔ یا ابھی کچھ سفر جو باقی ہے اور ہاں ابھی سفر باقی ہے بس حملہ آور زیادہ ہوگئے ہیں وہ بس اتنا چاہتے ہیں کہ میں رک جاوں منزل تک نہ پہنچ سکوں جبکہ اتنے برسوں چلتے چلتے اب راستے بھی گھر جیسے ہی لگنے لگے ہیں تو منزل کا کیا شوق ۔
لیکن اس غبار کے پرے سے مجھے آئینہ میں اپنی ہی نگاہوں کی تپش اور تیکھا پن بتا رہا ہے کہ میری نجات نہیں ۔ یہ ایڈونچر نہیں دھویں کے بادل ہیں جن سے گزر گئی تو چھٹ جائیں گے اور ان کے سحر میں ڈوبی رہی تو رات چھا جائے گی ۔
ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ لڑائی کب تک لڑنی ہے دشمن بہت ہشیار ہے اس کے پاس جدید ہتھیار ہیں اور میرے پاس وہی بوسیدہ نیزہ جو کبھی کبھی کمر کو سہارا دینے کے کام بھی آنے لگا ہے اور وہی چھید دار ڈھال جو اب اس تابڑ توڑ حملے سے بالکل ناکارہ سی ہوگئی ہے ۔
سعدی ۔۔۔ اٹھو چائے پی لو میاں آنے والے ہیں مجھے بہت سارے کام کرنے ہیں ایک ہی تو چھٹی ہے ۔۔۔ میں نے بمشکل آنکھیں کھولیں تو شنی چائے کا کپ اٹھائے سامنے کھڑی تھی ۔
اور میں سوچ رہی تھی آج کتنے برسوں بعد کسی نے بیڈ ٹی تھمائی میرے ہاتھ میں ۔ ہممم۔۔۔چائے کی پہلی چسکی بتا رہی تھی کہ  شاید رات میں نے کچھ طے کر لیا ہے ۔

No comments:

Post a Comment