Tuesday 5 December 2017

استحصال جاری ہے

سعدیہ کیانی
4 دسمبر 2017

گاؤں کی سادہ سی زندگی کے چند ابتدائی سالوں نے ہماری طبیعت میں بھی ایک سادگی کا عنصر رکھ چھوڑا جو شہر کی مصروف زندگی میں ہمارے لئے بڑی سہولت ہے ۔آج انسانوں نے  غیر ضروری لوازمات میں خود کو ایسا الجھا لیا کہ ان کی تکمیل کی خاطر سکون تک قربان کردیا۔ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی خاطر دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر ہم نے اپنی زندگیوں سے خوشی اور اطمینان کو یکسرنکال باہر کیا اب ہم چاہے کچھ بھی حاصل کرلیں ہمیں خوشی حاصل نہیں ہوتی ہم چاہے کتنی ہی ترقی کرلیں اطمینان قلب میسر نہیں ۔ پہلے لوگ قناعت پسند تھے کچھ خود کھاتے کچھ دوسرے کو کھلاتے اب ہم اپنے حصے کا کھا کر دوسرے کے حصے پر نظر جما لیتے ہیں لیکن بھوک ہے کہ ختم پھر بھی نہیں ہوتی ۔ملک پاکستان کو اللہ نے بہت نعمتوں سے نوازہ ہے ۔یہاں بہترین زرعی زمین ہے جہاں ہر طرح کا اناج اور مختلف علاقوں میں مختلف انواع کے پھل اور پھولوں کے ساتھ ساتھ اس وطن عزیز میں پانچ دریا بہتے ہیں ۔ اس کے پہاڑ معدنیات اور جواہرات کے ساتھ قیمتی پتھروں سے بھرے پڑے ہیں ۔یہاں کے عوام ہر وہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو دنیا میں قومیں کرکے اپنے وطن کی ترقی اور نام میں اضافہ کرتی ہیں البتہ اسے بدنصیبی کہئے یاکمزوری کہ 70 سالوں سے اس ملک اور اس کےباسیوں کو کوئی لیڈر نہ مل سکا قائداعظم محمد علی جناح کی طرح کسی نے صرف پاکستان کے لئے خود کو وقف نہیں کیا بلکہ جو بھی آیا وہ اپنی اوقات کے مطابق اسے لوٹتا رہا ہے اور اب تو پچھلے چند سالوں سے ایسا کچھ دیکھنے میں آیا کہ اوقات کی بھی اوقات دنگ رہ گئی عجیب شیطانی طاقت مل گئی سیاستدانوں کواور سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے آگئے اتنے ہاتھ جو ہر طرف سے دولت سمیٹے جارہے ہیں یا ایسا کیا ہونے جارہا ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا کہ یہ سب کچھ گھسیٹ گھساٹ کر دوسرے ملکوں میں اپنے اثاثے بنائے جاتے ہیں وطن سے وفاداری کا عہد کرنے والے اس کی تباہحالی کے لئے رات دن کوشاں ہیں ۔یہاں جس کے ہاتھ طاقت آئی اس طاقت کے ساتھ ہی شیطان بھی اس کی ذہن میں سما گیا جیسے یہ ایک پورا پیکج ہو جیسے اقتدار کی کرسی کا حصول اس شیطانی معاہدے کے بنا ممکن ہی نہیں جس میں سرفہرست لکھا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ اسکی افواج سے کام بھی سارے لینے ہیں اور ذلیل و رسوا بھی کرنا ہے ۔ افواج کے سربراہان کی انسانی جبلت کو اپنے فائدے کیلئے استعمال بھی کرنا ہے کبھی لالچ سےاور کبھی دھوکہ دے کر انہیں اپنے گورکھ دھندے میں شامل کرنا ہے۔
اس کے عوام کو غریب سے غریب تر کرنا اور بنیادی ضروریات زندگی کو ان زندگیوں سے دور کرکے اس مسلم آبادی کو کم کرنا ہے چاہے قتل و غارت کا استعمال کر کے ہی کیا جائے۔
ان کے ایجنڈا میں اپنے خاندان کی آسائش اور عیش و عشرت کو یقینی بنانا اور  عوامی فلاح کے خلاف اقدامات سرفہرست نظر آتے ہیں ۔ ان سیاستدانوں اور مفاد پرست بیوروکریٹکس نے اپنے نفع کی خاطر کچھ بھی کر لینے پر اتفاق کررکھا ہے ۔
ہم نے بچپن سے ہی دوسرے شہروں اور ملکوں میں سفر کے لئے صرف پی آئی اے کے جہازوں میں سفر کیا ۔ایسی عمدہ سروس، تہذیب یافتہ عملہ ایسی نفیس گفتگو اور بہترین کھانا کہ پی آئی اے کے ہوتےہوئے کسی دوسری ائیر لائن کے جہازوں میں سفر کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم پی آئی اے سے سفر کرنا چاہیں گے ؟
ہمارے ہاں دیہاتی لوگوں میں رات ریڈیو پاکستان پر خبریں سننے کا بہت رواج تھا۔عوام ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی ہر خبر پر ایسے یقین رکھتے تھے جیسے آنکھوں دیکھا کانوں سنا ہو۔ سوال یہ ہے کہ  آج کیا ریڈیو پاکستان کی کسی خبر کا اعتبار کیا جاسکتا ہے؟
  پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات دیکھ لیجئے۔کون دیکھنا چاہتا ہے ؟ کسی کو ان کی کسی بات کا اعتبار نہی سبھی جانتے ہیں کہ یہ قومی نشریاتی ادارے صرف وہ کہتے ہیں جو اقتدار میں بیٹھے حکمران کہلوانے چاہتے ہیں اسلئے جب عوام حالات حاضرہ کے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو دیگر نجی نشریاتی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں ۔ انہی کی خبروں پر اعتماد کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں ۔یہ نجی ٹی وی جانتے ہیں کہ اگر سچ نہ دکھایا اور سنایا تو ہم بھی زمین بوس ہوجائینگے ان کی روزی روٹی تو انہیں خبروں سے چلتی ہے البتہ قومی نشریاتی ادارے تو عوام کے ٹیکسوں پر چلتے ہیں ۔ہائے شومئی قسمت اس وطن عزیز میں بسنے والوں کی کہ انہیں کےخون پسینے کی کمائی انہیں کے خلاف استعمال ہوتی رہی ۔ ریاست پاکستان میں تمام قومی ادارے تباہ کردئے گئے سوال یہ ہے کہ کیوں ؟ کس ایجنڈے کی خاطر اتنے منظم طریقے سے  استحصال کا سلسلہ شروع ہوا ؟ کیا پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کی سزا دی جارہی ہے؟ کیا پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ میں ہتھیار نہ ڈالنے کی سزا مل رہی ہے ؟ کیا اس کے عوام کو اپنوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر نہ تھکنے کی سزا مل رہی ہے ؟ کیاان لوگوں کو اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ انہیں ان کے علاقوں سے گھروں سے بے دخل کرکے مہینوں کھلے آسمان تلے بیٹھنا پڑا لیکن آج پھر وہ سب بھلا کر اپنے گھروں کو آباد کرنے لگے ہیں ؟ کیا اس قوم کو بلند حوصلے کی سزا ملی یا اس جذبہ ایمانی کی جس کی خاطر حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ قانون ختم نبوت کے معاملے پر تمام ملک کے کونوں کھدروں سے بھی لوگ نکل آئے اور اپنی شدت محبت کا اظہار ایسا کیا کہ باطل قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ سچ پوچھیں تو ہماری عقل دنگ رہ گئی اور خوشی ہوئی کہ  پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہنا محض ایک رسمی بات نہیں بلکہ یقینا اس کے پیچھے کسی بڑی حقیقت کا پنہاں ہونا ہے ۔ اس خطے سے ہمیشہ اسلام کی بقا کی جنگ کا آغاز ہوا اور اسی لیے مغربی سیہونی و طاغوتی۔ طاقتوں نے ہم پر دہشتگردی کا الزام لگایا کیونکہ ان کی زندگیوں میں تو اسلام کا نام ہی دہشت ہے کہ جس دجالی نظام کی بنیاد ڈالنے کی تگ و دو میں یہ سب صبح شام مصروف ہیں اس کی راہ میں صرف اسلام اور اس کا قلعہ پاکستان ہی رکاوٹ ہے۔تو کیوں نہ دنیا بھر کے شیطان ہمارے دشمن ہوتے اور کیوں نہ اس ملک پر شیطان کے بازو اقتدار کے ذریعے قابض ہوتے ۔ یہ تو اللہ کا فضل و کرم ہے جو چند نیک لوگوں کے سبب اللہ نے ملک پاکستان کی حفاظت کا بیڑہ اٹھا رکھا ورنہ انسانی عقل تو یہ سمجھنے سے قطعا قاصر ہے کہ اتنا لوٹا گیا سب کھا گئے اور ملک پھر بھی چلتا ہے۔ کیسے؟ اس کا جواب تو کسی کے پاس نہیں ۔اسی لئے ہم نے بھی خوش گمان رہنے میں ہی عافیت جانی اور اپنے تئیں جو مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں وہ کررہے ہیں۔ ہمارا گمان ہے کہ انسان کے دل کو ایک خاص قوت حاصل ہے جب وہ کچھ اچھا کرنے کا سوچتا ہے تو قدرت اس کی مدد کے لئے اسباب پیدا کردیتی ہے اسی لئے ہمیشہ دیکھا گیا کہ جب کسی نے کوئی معرکہ مارا تو اس کے پیچھے بہت توانا محرک نظر آئے ۔ آج قوم کو دل کی طاقت استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ایسی سوچ کی ضرورت ہے کہ جو ان شیطانی ہاتھوں کو روک دیں۔ وطن عزیز کی حفاظت آج سبھی کا فرض ہے ۔سبھی کو اپنے بچوں کے مستقبل کا سوچنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment