Friday 16 February 2018

ناول 3 حصہ

rشام ہم تیار ہوکر ایک ہال میں جمع ہوئے جہاں 30/40 لوگوں کے کھانے کا انتظام تھا اور بہت خوبصورت انداز سے چند ٹیبلز کو ایک بڑی لمبی سے قطار میں لگایا گیا ۔ پھول اور گفٹ بکس ہر کرسی کے سامنے رکھے گئے تھے ۔ واقعی شمریز کو لوگوں کے دل جیتنا آتے تھے وہ بہت اخلاق سے پیش آتا بہت خیال رکھتا اور دل کھول کر خرچ کرتا تھا ۔ سب اس کی تعریفیں کرتے نظر آئے ۔
حمزہ نہیں آئے نا ہی ایلی کی سہیلیاں آئیں بس جن رشتےداروں نے آج اپنے گھروں کو جانا تھا وہی شامل تھے اور اس میں انکل خلیل اور ان کی فیملی بمع ٹام کروز موجود تھے ۔ ندیم کا انداز بہت مشکوک سا تھا پہلے تو وہ موصوف میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کرتے رہے وہ نہ ہوسکا تو عین سامنے ایلی کی امی بیٹھنے لگیں تو ندیم خود جلدی سے بیٹھ گئے۔ سب نے اس کو بدتمیزی محسوس کیا اور انکل خلیل نے تو کھنکھار کر ندیم کو متوجہ کیا اور آنکھیں نکالیں ۔ شرمندہ تو بہت ہوئے لیکن میرے سامنے بیٹھنے پر خوش بھی بہت ہوئے ۔میں نے آنٹی کو اپنی کرسی پیش کر کے یہ خوشی بھی دور کردی اور خود دور جاکر شمریز کی امی کے ساتھ بیٹھ گئی جو بہت خوش مزاج خاتوں تھیں ۔ آج میں نے آف وائٹ ہلکا سا سوٹ پہنا تھا جس پر نازک سی کڑھائی اور کچھ نگینے جڑے تھے ۔ ایلی نے نیلے رنگ کا شاندار کام والا ڈریس پہنا ساتھ میچنگ جیولری اور بہت زبردست میک اپ کیا جو اس کی افریقن سہیلی نے ہی کیا تھا لیکن مہارت سے پتا چلتا تھا کہ وہ بہت اچھی بیوٹیشن تھی۔ ایلی کو میں نے کہا کہ کل ولیمہ کے روز بھی پارلر کی بجائے سہیلی سے تیار ہو جاتی لیکن وہ ایڈوانس دے چکی تھی اور یوں بھی کینسلیشن سے آدھے پیسے ہی آنے تھے واپس تو سوچا کہ چلو سہیلی سے ہم تیار ہوجائیں گے ۔ اتنی بڑی فوج تھی لڑکیوں کی ایلی کے گھر ۔ ہر کوئی دوسرے کا کوئی نہ کوئی کام کرتا نظر آتا ۔ بہت مزہ آیا اب تک جتنا وقت گزرا بہت اچھا تھا ۔ میری کزنز بھی مختلف شہروں اور ریاستوں سے آئی تھیں ۔
امی اور ابو ابھی تک نہیں پہنچے تھے اور اب شمریز کچھ فکرمند ہورہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں امی ابو ماموں اور دادی آگئے ۔ میں نے محسوس کیا کہ ابو کے چہرے پر کچھ خفگی کے اثرات تھے شاید امی سے کوئی کٹھ پٹ ہوگئ ۔ابو ایلی کی شادی والے روز پہنچے تھے۔ ثناء کے رشتے والی بات بھی چل رہی تھی اور اس ہفتے وہ فیصلہ بھی کرنا تھا۔
دعوت ختم ہوگئی سب مہمان وہیں سے رخصت ہوگئے ۔ ابو اور انکل خلیل بہت دیر سے باہر کھڑے باتیں کررہے تھے اور ندیم بار بار مجھے دیکھ رہا تھا جیسے شکایت کررہا ہو ۔ پھر وہ لوگ بھی رخصت ہوگئے ۔
ہم گھر آگئے تو ایلی کے سہیلی نے بہت عجیب بات بتائی کہ ابو اور حمزہ کی لڑائی ہوئی اور حمزہ کہیں چلا گیا۔ اسی لئے ابو کا موڈ خراب تھا اور وہ دیر سے آئے ۔ مجھے فکر ہونے لگی ۔ ایلی بچاری نے کپڑے بھی نہ بدلے اور شمریز کو لے کر کہیں چلی گئی ۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کس سے پوچھوں اور کیا پوچھوں ۔ یونہی بیڈ پر جا گری ۔ دل پریشان ہوگیا کہ حمزہ کہاں چلے گئے؟ ابو نے کیا کہا ہوگا؟ یقینا حمزہ نے نکاح کی بات کردی ہوگی جو ایسا جھگڑا بن گیا۔ اب کیا ہوگا؟ ابو تو نہیں مانیں گے ۔ یہی سوچ رہی تھی کہ دستک ہوئی ۔ ماموں کا لڑکا کھڑا تھا دروازے پر ۔ آ جاو ۔۔ میں آٹھ کر بیٹھ گئی۔ تم آنٹی کی طرف تھے نا؟ میں نے اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے پوچھا۔ کامی مسکرا کر بولا ۔ہاں تم ساری لڑکیوں نے یہاں قبضہ جو کیا ہوا تھا تو ہم نے ادھر ہی رہنا تھا ۔ پھر ادھر ادھر کی باتیں کرکے کامی اپنی بات پر آگیا ۔ تم مجھے پسند نہیں کرتی؟ یہ اتنا عجیب سوال تھا کہ سمجھ نہ آئی کیسے جواب دوں۔ کامی ہم دونوں بچپن سے اچھے دوست ہیں اور آئیندہ بھی رہیں گے۔ میں کچھ دیر رک گئی ۔ پھر کہا۔ دیکھو میں پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتی ۔ میرا گزارا نہیں اس دھرتی کے بنا ۔۔ تمہیں پتا ہے۔۔ میرا پہلا عشق میرا وطن ہے ۔۔ میرے لئے اپنے ملک کے سوا کسی بھی جگہ رہنے کا مطلب وطن سے بے وفائی ہے ۔۔ ایسا ہے نہی لیکن بس میں نے خود پہ لازم کرلیا جیسے ہمارے پر دادا جی نے سارے گاوں کو باہر بھجوادیا تھا اور خود انکار کردیا تھا ۔ وہ کہتے تھے "چڑی کو کنڈے پہ سکھ " مجھے ابو نے بتایا تھا کہ وہ بہت خودار تھے کبھی سوال نہ کرتے تھے۔ کامی کے چہرے پر اب بے زاری جھلکنے لگی وہ بزرگوں کے ماضی کی باتیں نہی سننا چاہتا تھاتو میں نے بھی بات بدل دی ۔ البتہ اسے سمجھا دیا کہ ہماری شادی نہیں ہوسکتی اسلئے وہ ایسا خیال نہ لائے۔
کامی کو بھیج کر میں نے کپڑے بدلنے کی غرض سے الماری کھولی تو سامنے ایک سوٹ( پیکنک میں ) لٹک رہا تھا۔ برینڈ ٹیگ دیکھ کر حیران ہوئی کہ اتنا مہنگا جوڑا کس نے لیا؟ ایلی کا ہوتا تو اس کی الماری میں لگا ہوتا ثناء تو کنجوس ہے کبھی مر کے بھی نہ لے اتنا مہنگا جوڑا ۔ ہو سکتا ہے ایلی کی گجراتی سہیلی کا ہو وہی سب سے مال دار تھی ۔ دوسری طرف کا دروازہ کھولا تو ایک گفٹ پیک جس پہ ایک سرخ گلاب رکھا ہوا تھا ۔ تجسس ہونے لگا کہ یہ کیا چکر ہے ۔ میری الماری میں یہ کس نے رکھا؟ گفٹ پہ رکھا پھول اور کارڈ اٹھایا ۔ دل میں شرمندگی ہوئی کہ بنا پوچھے کسی کی شے کھولنا کتنا غلط ہے ۔ بس واپس رکھنے لگی کہ اس کے اوپر اپنا نام لکھا دیکھ کر چونک گئی۔ ہائے ۔۔۔ یہ تو میرے لئے ہے ۔ کارڈ کھولا تو محبت کا اظہار سادہ سے الفاظ میں تھا ۔ نیچے نام دیکھ کر بہت ہی حیرت ہوئی ۔ ندیم خان۔ اوہ۔۔۔ یہ کیوں رکھ گئے یہاں ؟ سر کھجاتے میں نے گفٹ بکس کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ بنا کھولے ہی واپس بھجوادونگی ۔ یہی سوچ کے وہ گفٹ رکھ دیا ۔ نیچے گئی کہ کافی لے لوں تو پھر چینج کرونگی ۔ نیچے خامشی تھی ۔ ثناء بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ ایلی کہ سہیلیاں کل کیلئےکپڑے تیار کر ہی تھیں کوئی استری تو کوئی جیولری اور کسی نے ماسک لگا رکھا تھا البتہ ماحول میں خامشی اور کچھ کھچاوتھا۔
ثناء کہاں ہے؟ میں نے پوچھا تو پتا چلا کہ سب آنٹی کی طرف گئے ہیں ۔ میں کافی لے کر اوپر آگئی کہ فون بجا۔۔ پھر نیچے آئی تو انکل کا فون تھا ۔ وہ بتا رہے تھے کچھ دیر تک سب آئیں گے تو میں فکر نہ کروں ۔ کچھ تسلی سی ہوگئی ۔
کچھ ہی دیر میں ایلی اور شمریز اندر داخل ہوئے ۔ ایلی کے چہرے سے پریشانی کے آثار صاف نظر آتے تھے۔ شمریز بھی فکرمند لگا۔ بچارہ اپنی خوشی کے موقع پر کہاں الجھ گیا تھا اب مجھے حمزہ پہ غصہ آنے لگا ۔ ایک بار پھر ہلچل مچا دی انہوں نے آکر ۔
شوگر۔۔۔ میں چینج کرکے آتی ہوں ۔۔ پھر بات کرتے ہیں ۔ ایلی نے میرے چہرے کو تھپکا جیسے میں کوئی چھوٹی بچی تھی۔ یہ ایلی یکدم کیسی بڑی اور سمجھدار لگنے لگی ہے ۔ ابھی کل یہ ہم سے سنبھالی نہیں جارہی تھی اور آج جیسے سب اسی نے سنبھال لیا ہو۔
ایلی اور شمریز کو کافی بنا کر دی تو ایلی مجھے لے کر میرے کمرے میں آگئی ۔ دروازہ پھیر دیا ۔ شوگر ۔۔ تمہیں پتا ہے نا کہ تمہارے ڈیڈ اور انکل کا آپس میں کوئی اشو ہے ؟ ایلی اپنے سے انداز میں مجھے کچھ سمجھانا چاہتی تھی ۔ حمزہ نے تمہاری امی سے کہا کہ وہ نکاح کی بات کریں تو آنٹی نے انکار کردیا کہ وہ ڈانٹ نہیں کھا سکتیں۔ پھر اس نے اپنے ابو سے کہا تو انہوں نے اسے واپس آنے کو کہا ۔ ایلی ذرا سا چپ ہوگئی ۔میرا دل ڈوبنے لگا۔ تمہیں پتا ہے حمزہ کتنا ضدی ہے ۔ اس نے کہا کہ پہلے نکاح کرونگا پھر واپس آونگا۔ چچا نے مجبور ہو کر ابو کو فون کیا اور دونوں کا آپس میں بہت جھگڑا ہوا ۔ پھر ؟؟ میں نے جلدی سے پوچھا تو ایلی نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ پکڑ لئے ۔۔ حمزہ کو پتا چلا کہ ابو نے انکار کیا ہے  تو وہ خود بات کرنے آگیا اور۔۔۔ ایلی پھر کچھ رکی تو مجھے لگا جیسے میرا سانس رک گیا ہو۔۔۔ پتا نہیں انہوں نے اسے کیا کہا ہے ۔۔۔ وہ چلا گیا ۔ اب ایلی مجھے ہمدردی سے دیکھ رہی تھی۔ میرے ہاتھ کانپنے لگے ۔ حمزہ نے جسطرح مجھے اپنے سینے سے لگایا تھا اس سے میرےدل میں وہم آنے لگا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے ۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی ۔ ایلی مجھے حمزہ کو ڈھونڈنا ہے ۔۔۔ پلیز ایلی ۔۔ نونی سے کہو آجائے ۔ میں جانتی ہوں وہ اپنے سٹاف کے ساتھ ہونگے یا دوستوں کے پاس ۔۔ میں سوچ رہی تھی اور بولتی جارہی تھی ۔ایلی اٹھی اور مجھے گلے لگا کر بولی ۔ تم فکر نہ کرو ۔ تمہارے بھائی اور بہنوئی گئے ہوئے ہیں اسے ڈھونڈنے ۔ تم اب آرام کرو کل شمریز کے بہت سے دوست دنیا کے مختلف حصوں سے پہنچ رہے ہیں ولیمہ میں شرکت کےلئے ۔ہمیں اس کے لئے سب پرفیکٹ تیار کرنا ہے ۔ ایلی نے مجھے ایک نیا ٹارگٹ دے دیا۔شمریز نے تھوڑے سے وقت میں بہت کچھ ثابت کردیا تھا وہ بالکل گھر کا فرد بن گیا تھا سب سے پیار اور ہمدردی کرنے والا ۔ کل اس کی دعوت پر اس کے دوست آرہے تھے اور وہ چاہتا تھا کہ کسی شے کی کمی نہ رہے ۔
میں حمزہ کی فکر دل سے نکالنے کی کوشش کرتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ کل کی پلینگ بھی کررہی تھی ۔ رات کھانے کے بعد جب اسکی سہیلیاں اپنا اپنا سامان پیک کررہی تھیں تو میں ان کے کمرے میں چلی گئی ۔ ابھی سے سامان کیوں باندھ لیا  ؟ نادرہ نے مسکرا کر جواب دیا ۔ کل فنگشن کے بعد مجھے تو جانا ہے رات کی فلائیٹ سے۔یہ لوگ بھی کچھ رات کو تو کچھ اگلے روز صبح نکل جائینگی تو بس کل فنگشن کے کپڑے تیار کرکے باہر رکھے ہیں باقی سب سمیٹ دیا کہ سب کا سامان بکھرا نہ رہے ۔۔۔ نادرا بولتی جارہی تھی اور میں غیر حاضر دماغ سے سنتی رہی پھر سر جھٹک کر ان سے کل کا ایجنڈا ڈسکس کیا ۔ وہ حیران ہورہی تھیں کہ میں نے سارا فنگشن کسی فلم کی طرح ان کو سنا دیا کہ کیسے کس وقت کس نے کیا کرنا ہے ۔ وہ سب متفق تھیں بلکہ ایکسائیٹد ہورہی تھیں کہ میرا پارٹی پلین بہت عمدہ تھا۔ شمریز کے دوستوں کے لئے ایک ایک چھوٹا سا تحفہ لینا تھا ۔ بہتر لگا کہ شمریز سے بھی مشورہ کرلینا چاہیے۔ میں نے ایلی کے کمرے پر دستک دی تو شمریز نے اندر آنے کو کہا ۔ دونوں بیڈ پر ہی تھے مجھے دیکھ کر کچھ سنبھل گئے البتہ ایلی شمریز کو تنگ کرتی رہی ۔ نئی نئی شادی کے نئے نئے شوق تھے ان کا حق تھا۔ شمریز کو سرسری سا پروگرام سمجھایا کہ کہاں انہوں نے کیا کرنا ہے ۔ اور کس طرح ایلی کو ساتھ لے کر چلنا ہے ۔ کار ہم نے اوپن روف رکھنی تھی کیونکہ فنگشن دن کا تھا ۔ شمریز کے بھائی کی مرسڈیذ تھی لیکن ہم سفید کار رکھنا چاہتے تھے کیونکہ دونوں کا لباس بھی سفید اور ہلکے نیلے رنگ سے کنٹراسٹ کے ساتھ تھا۔ ساری پلیننگ شمریز کو نہیں بتائی کہ اس کے لئے بہت سے سرپرائز تھے لیکن جتنااسے بتایا وہ اسی پہ بہت خوش ہورہا تھا ۔دیکھا میری بہن کتنی ایکٹو ہے ۔ کہا تھا نا کہ یہ دونوں ہوں تو پھر کوئی فکر نہیں ۔۔ دیکھا ناں؟ ایلی بار بار اسے جتا رہی تھی ۔ وہ بھی خاصا مطمئن ہوگیا تھا۔ اب مجھے  الارم لگانا تھا اور یہ ثناء کدھر چلی گئی؟ یہ خیال آتے ہی پھر حمزہ کا خیال آنے لگا کہ پتا نہیں وہ تو غصے کے اتنے تیز ہیں کہاں گئے ہونگے ۔ اسی الجھن میں تھی کہ ایلی نے بتایا ثناء رات کو نہیں آئے گی امی کے ساتھ گئی ہے کہیں ۔ مجھے فکر لاحق تھی کہ بہت کچھ کرنا ہے اور اس کے بنا بہت مشکل تھا۔ شمریز سے گفٹ کا آئیڈیا لے لیا تھا لیکن اس وقت مال مارکیٹ بند ہوجاتے تھے صرف پٹرول پمپ کھلے رہتے تھے۔ رات میں کمرے میں اکیلی تھی تھکاوٹ کے باوجود نیند نہیں آرہی تھی حمزہ کی فکر بھی تھی اور افسوس بھی۔ وہ بہت تنہا سے لگنے لگے ۔ پتا نہیں کیا بات تھی ایسی جو انہیں کھل کر ہنسنے نہ دیتی تھی نہ رونے دیتی تھی۔ وہ ہمیشہ سمندر کی طرح گہرے سے لگتے تھے ۔ پتا نہیں وہ کونسا درد تھا جس کی تہہ تک مجھے بھی نہ جانے دیا تھا کبھی ۔
یہی سوچ رہی تھی بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی کافی رات بیت گئی۔ پھر ہلکی ہلکی سی سرگوشیاں ہونے لگیں کوئی اوپر آرہا تھا ۔ اور پھر میرا دروازہ کھلا میں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک سایہ سا مجھ پہ جھک رہا تھا۔ میں اس خوشبو کو پہچانتی تھی اٹھنے ہی والی تھی کہ حمزہ بیڈ پہ آگئے ۔ مجھے بانہوں میں جکڑ لیا اور بہت دیر تک یونہی میرا سر انکے سینے پر اور ان کے لب میری پیشانی کو چومتے رہے ۔ پھر  گرم گرم آنسوؤں کے چند قطرے میری پیشانی سے ہوتے ہوئے میرے گالوں تک آگئے ۔ میں نے گھبرا کر سر اٹھایا ۔حمزہ ۔۔ مجھے کچھ تو بتائیں آخر ابو نے کیا کہا ؟ آپ کہاں چلے گئے ؟ کیوں چلے گئے ؟ میں اندھیرے میں حمزہ کے چہرے کو دیکھ نہیں سکتی تھی۔ لیکن انہیں پیار کرتی رہی بہت دیر سے ہم بس پیار ہی کرتے جارہے تھے جیسے پتا نہیں کب کے بچھڑے ہوئے تھے۔ سنو۔۔ حمزہ نے سرگوشی کی ۔ تایا جی تمہیں میرا نہیں ہونے دیں گے تو میں جی نہیں سکوں گا تمہارے بنا اب نہیں جی سکتا یہ بات انہیں کیوں سمجھ نہیں آتی؟ وہ بے چین تھے ۔ان کے سینے پہ ہاتھ رکھ کر میں نے پھر پوچھا ۔ ابو نے کیا کہا ؟ مجھے بتائیں تو سہی۔ کہتے ہیں کہ میں گڑیا کا رشتہ ندیم سے طے کرچکا ہوں ۔۔۔ گڑیا ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟ میں تمہیں کسی کی بانہوں میں کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ وہ بول رہے تھے اور میرا دل ڈوب گیا تھا ۔ ابو کیسے کرسکتے ایسا ؟ ابو نے کیوں اس ٹام کروز کو ہاں بولی۔ مجھے سے پوچھا تک نہیں ۔ یکدم حمزہ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ میں اس سے پہلے ہی خودکشی کرلوں گا ۔ یہ منظر نہیں دیکھ سکتا ۔ حمزہ سے کبھی اسطرح کی بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ۔ وہ کبھی بھی ایسی منفی بات نہیں کرسکتے تھے آج انہیں کیا ہوگیا؟ اور اس سے پہلے کہ میں انہیں روکتی وہ جلدی سے بیڈ سے اترے اور باہر جانے لگے میں نے روکنے کیلئے جلدی سے ہاتھ بڑھایا لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں ۔ کہاں گئے ؟ حمزہ غائب کیسے ہوگئے ؟ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ خوف اور گھبراہٹ سے برا حال ہوگیا ۔ حمزہ کہاں گئے ؟ پھر میرے حواس بحال ہونے لگے تو معلوم ہوا کہ خواب تھا لیکن ایسا جیتا جاگتا خواب کہ اب بھی حمزہ کی خوشبو کمرے میں پھیلی تھی ۔ مجھے اپنے حواس پر شک ہونے لگا تو اٹھ کر دروازہ کھولا باہر کوئی نہیں تھا ۔ پھر سیڑھیوں سے نیچے سے کر لاؤنج اور پھر ڈرائنگ روم میں دیکھا ۔ ہر طرف خاموشی تھی ۔ میں تھک کر وہیں بیٹھ گئی ۔ دل بہت پریشان تھا حمزہ کچھ کر نہ بیٹھیں ۔۔۔ بس یہی خیال دل کو بے قرار کئے جاتا تھا ۔ گلاس پانی کا پیا اور پھر اوپر جاکر لیٹ گئی پتا نہی کب پھر آنکھ لگی ۔ صبح ثناء نے آکر جگایا تو میں نے اسے غصہ کیا ۔ تمہیں پتا تھا کہ ولیمہ کے انتظامات بھی ہماری ہی زمداری ہے اور بنا کچھ پلینگ کئے تم ادھر جا بیٹھی ۔ اب کیا کیا کرینگے چند گھنٹوں میں؟ مجھے غصہ کرتا دیکھ کر ثناء بھی ترش لہجے  میں بولی۔ مجھے نہ سناو یہ سب ۔۔ ساری مصیبت حمزہ نے بنائی ہے ۔ ابھی کونسی قیامت آرہی تھی جو ایک دن صبر نہ کرسکا ۔ سارے خاندان کو پریشان کرکے رکھ دیا اس نے ۔ اب تک جتنا اسے سمجھدار
سمجھا گیا اس نے سب کی غلط فہمی دور کردی ۔ ثناء بہت زچ لگ رہی تھی ۔ کہاں ہیں وہ ؟ کچھ پتا یے تمہیں ؟ میں نے فکر مندی سے پوچھا تو ثناء جھلاکر کھڑی ہوگئی ۔ مجھے نہیں پتا ۔۔ چلا گیا ہوگا واپس پاکستان ۔ چچا سے بات کریگا یا انہیں ساتھ لائے گا۔ ابو تو نہیں مانتے ۔ صاف انکاری ہیں کہ اس کا باپ پہلے مجھ سے بات کرے اپنی غلطی مانے تو پھر سوچوں گا ۔ ثناء لاپرواہی سے بول رہی تھی ۔ اور تمہیں پتا ہے کہ چچا خود کو حق پر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پھپھو رضیہ نے ابو کے کان بھرے اور مجھ پر الزام باندھا ہے ۔ اب نہ پھپھو نے کبھی دونوں کے بیچ آمنے سامنے بیٹھنا اور نہ  یہ مسئلہ رفع دفع ہونا ۔ ثناء بات ختم کرکے الماری کھولنے لگی۔ ہاہ۔۔۔ وہ اس برینڈڈ سوٹ کو دیکھ پاگل سی ہوگئی ۔ ہائے ۔۔۔ یہ کون لایا ؟ جلدی سے اس نے اس کو کھولنا چاہا ۔ اے پاگل ۔۔ کیوں کھول رہی یے ؟ ثناء پیکنگ کھول چکی تھی ۔ ہائے دیکھنے تو دے ۔ مجھے غصہ آگیا اس کی اس بیوقوفی پر۔ یہ کسی کا سوٹ ہے بنا اجازت کیوں کھول رہی ہو ؟ ثناء ایک دم رک گئی ۔ کمر پر ہاتھ رکھ کر بولی۔ اچھا تو اب تجھ سے اجازت لے کر تیری چیزیں دیکھونگی ؟ میری؟ میں حیران ہوئی ۔ ہاں تو کیا تجھے نہیں پتا ؟ یہ سامنے اتنا رومینٹک ڈائیلاگ لکھا پڑا ہے ۔۔" تمہیں رات اس ڈریس میں دیکھنا چاہتا ہوں" ۔۔۔ میں تیزی سے بستر سے اٹھی کس نے لایا ؟ ثناء نے مجھے آتے دیکھ کر ٹیگ پیچھے چھپاتے ہوئے کہا۔ اگر تجھے پتا ہی نہیں تو خیر چھوڑو ۔۔۔ میں ہی رکھ لیتی ہوں ۔۔ وہ للچائی نظروں سے اس قیمتی سوٹ کو دیکھ رہی تھی جو واقعی انتہائی شاندار نظر آتا تھا ۔ اچھا بتا اتنا مہنگا گفٹ کون دےگا تجھے ؟ ساتھ ہی اس نے ٹام کروز والا گفٹ پیک اٹھا کر میرے بولنے سے پہلے ہی کھول دیا ۔ ثناء ۔۔تم پاگل تو نہی؟ یہ میں نے انکل خلیل کو واپس بھجوانا تھا میں کیوں لوں ندیم سے گفٹ۔۔ ثناء میری بات کاٹ کو بولی ۔ اچھا نہ لینا میں یہ بھی رکھ لیتی ہوں ۔۔ ہا۔۔۔ئے۔۔  ثناء نےایک لمبی آہ بھری۔ واو۔۔۔ میرے منہ سے بھی بے اختیار آواز نکل گئی کیونکہ سامنے انتہائی خوبصورت جیولری کا سیٹ تھا جس پر زرکون سے بہت شاندار کام ہوا تھا ۔ ہائے یہ تو گولڈ لگ رہا ہے ۔۔۔ ثناء نے پھر حیرانگی کا اظہار کیا۔ انکل خلیل تو واقعی بہت مال دار ہیں ان کا لڑکا اپنی اوڈی کی تصویریں دکھارہا تھا لیٹسٹ ماڈل ہے ۔اتنے چھوٹے سے کے پاس ذاتی گھر بھی ہے جو عنقریب اس کے نام ٹرانسفر ہونے والا ہے ۔ ثناء اپنی عادت کے مطابق چیزوں کی باتیں کرنے لگی ۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے سیٹ لیا اور واپس پیک کرنے لگی ۔ بھجوادونگی ان کے تحفے اور یہ سوٹ بھی پیک کرو۔ مجھے اپنی دولت سے خریدنا چاہتا ہے ٹام کروز کا بچہ ۔۔ میں کچھ تیز اور ترش بولی تو ثناء ہنسنے لگی۔۔ ہائے کتنا فٹ نام دیا واقعی میں سوچ رہی تھی کہ یہ کس کی طرح لگتا ہے ۔چکنا کہیں کا ۔۔۔وہ ہنس رہی تھی کہ میں نے سوٹ لے لیا کہ واپس پیک کروں لیکن جونہی کور میں کالے رنگ کا جوڑا دیکھا تو چونک گئی ۔ فورا ٹیگ پلٹا ۔۔۔ آہ ۔۔ یہ تو حمزہ نے لیا ہے ۔وہی مجھے کالی بلی کہتے تھے ۔۔ انہیں میرا کالا رنگ پہننا بہت پسند تھا ۔ تم کیا سمجھی کہ یہ بھی ندیم نے دیا ؟ ثناء نے میری خوشی اور حیرت دیکھی تو پوچھا ۔
تم دونوں کتنا وقت یہاں کھڑی رہو گی چلو ناشتہ کرو تو میں کچن سے فارغ ہوں ۔ آج مامی نے کچن سنبھالا ہوا تھا ہم دونوں الماری بند کرکے نیچے آگئے اور پھر سارا دن پارٹی پلین اور ارینجمنٹ کرتے رہی ۔ دو تین بار بازار جانا پڑا ۔لیکن اپنے وقت مقررہ تک ہم سب نمٹا چکے تھے۔
میں نے آنٹی کو ندیم کا گفٹ تھما دیا تھا کہ اسے واپس کردیں بلکہ آج ہی فون کرکے بتا دیں ۔ گڑیا۔۔ بیٹا خلیل بھائی خفا ہورہے ہیں کہ سیٹ واپس کیوں لیا گڑیا سے ۔۔ ندیم ناراض ہورہا ہے کہ وہ گفٹ ہے اور وہ واپس نہی لے گا ۔ چاہے گڑیا خود کسی کو دے دے لیکن اسے قبول کرنا چاہیے ۔ میں نے آنٹی کی بات سنی تو پریشان ہوگئی۔ آنٹی میں ندیم سے شادی نہیں کرونگی تو یہ گولڈ سیٹ کیسے لے لوں ؟ انہوں نے تو اس لئے خریدی تھا کہ ابو سے ان کو ہاں کی امید تھی لیکن میں نے بتا دیا نا کہ نہیں مانوں گی یہ بات ۔ ۔
ارے نہیں بھئی ۔۔۔ اب آنٹی سیٹ کھول کر مجھے دکھاتے ہوئے بولیں ۔ بھائی خلیل کیلئے اس طرح کے تحفے کوئی بڑی بات نہیں اور ندیم بھی ماشااللہ بہت کماتا ہے دو ریاستوں میں گھر بنا چکا ہے اور اب سنا ہے کہ کسی کے ساتھ مل کر سٹوڈیو بنانے کا سوچ رہا ہے ۔ آنٹی بہت تھکے تھکے سے انداز میں بول رہی تھیں کیونکہ ساری شادی میں ہمارے ساتھ آنٹی بھی بہت کام کرتی رہیں تھیں۔
بچی۔۔ یہ سیٹ وہ لوگ واپس نہیں لیں گے اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو خواہمخواہ بدمزگی ہوگی ۔ خفا ہو جائینگے تو مانیں گے بھی نہیں ۔ آج رات پہن لو تو وہ مووی دیکھ کر خوش ہونگے۔مجھ میں مزید لڑنے کی ہمت نہ تھی تو سیٹ ہاتھ میں لیا اور اوپر جاکر کچھ دیر آرام کرنے لگی۔
فنگشن پر کالا باریک کام والا سوٹ اور یہ نگینوں بھرا سیٹ پہننا مجھے بہتر لگا۔
ولیمہ پارٹی کے لئے ایک شاندار گارڈن بک کیا گیا تھا ۔وقت مقررہ پر سب تیار ہوکر گارڈن ہال پہنچ گئے ۔ میں اور ثناء بھی وہاں سب کی پوزیشن اور کام انہیں سمجھا آئے ۔ سب کچھ پرفیکٹ تھا۔ اب صرف دلہا دلہن کے گھر سے یہاں تک کے معاملات رہ گئے تھے۔ مووی میکرز اور فوٹو گرافرز کی ایک فوج تھی جو مختلف مقامات پر پوزیشن لئے کھڑے تھے ۔ ایلی نے پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ راستے میں ہیں ۔ ابھی سہ پہر کاوقت تھا پروگرام کے مطابق شام 7 بجے تک فارغ ہو جانا تھا۔ سفید پھولوں کے ساتھ کہیں کہیں نیلے پھولوں کا ارینجمنٹ دلکش منظر پیش کررہا تھا۔ پھر ایلی اور شمریز خوبصورت انداز سے وہاں داخل ہوئے ۔ کمال کی جوڑی تھی ۔ خوبصورت اور نفیس انداز سے تیار ایلی واقعی کسی پرستان کی شہزادی لگ رہی تھی ۔ امی ابو اور انکل آنٹی نے آگے بڑھ کر ریسیو کیا ۔ دوستوں نے گل پاشی کی کمیرےکے لینس چمک رہے تھے ۔ شمریز کے دوستوں کا ایک بڑا گروپ ایک طرف کھڑا بہت شوق سے دیکھ رہا تھا ۔ ان کے دو ٹیبل بنتے تھے لیکن ویٹرس نے ان کے کہنے پر ایک ہی بڑا ٹیبل تیار کردیا تھا تاکہ سب ساتھ ہی بیٹھیں۔ سبھی بہت سمارٹ لگ رہے تھے ۔ ایلی کی سہیلیاں آج کچھ زیادہ ہی خوش نظر آرہی تھیں ۔ کچھ تو اب تک تعارف بھی کروا چکی تھیں ان جوانوں کو ۔ خوب جھل مل تھی رنگ تھے خوشبوئیں تھیں ۔ کھانا کھل چکا تھا سب مصروف تھے۔ میری نگاہیں ادھر ادھر حمزہ کی تلاش میں تھیں ۔ ایلی نے مجھے پریشان دیکھ لیا تھا اور اب وہ مجھے اشارے کررہی تھی ۔ میں اس کے پاس گئی تو آہستہ سے میرے کان میں بولی ۔ سب ٹھیک ہوجائے گا تم فکر نہ کرو ۔ فنگشن انجوائے کرو ۔
کچھ دیر وہ مجھے تسلیاں دیتی رہی ۔ امی اور ابو آپس میں کچھ بات کررہے تھے۔ ابو بار بار مجھے دیکھ رہے تھے ۔ مجھے شرمندگی ہورہی تھی ۔ ہائے حمزہ۔۔ کہاں لا کھڑا کیا مجھے۔ دل میں غصہ اور غم دونوں موجود تھے ۔ اچانک کسی نے سر پہ ہاتھ پھیرا ۔۔ ابو نے مجھے کچھ دیر سینے سے لگائے رکھا اور بناء کچھ کہے چلے گئے ۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کس بات کی تسلی تھی ۔ وہ اپنی مجبوری بتا رہے تھے یا میری مجبوری سمجھ رہےتھے ۔اندھیرا پھیلنے لگا اور لوگ رخصت ہونے لگے۔ ایلی اور شمریز سب کو رخصت کررہے تھے۔ دونوں کو شمریز کے والدین کی طرف سے ہنی مون پیکج گفٹ ہوا تھا۔ بہت خوش تھے ۔ گفٹس کا انبار لوڈ کرکے وین ایلی کے گھر جارہی تھی ۔ شمریز کے دوستوں کو ہم نے باسکٹ میں گفٹ رکھ کر پیش کئے اور وہ بہت متاثر نظر آرہے تھے ۔ دوستوں نے ایلی کے گولڈ سیٹ اور قیمتی پوفیومز گفٹ کئے جبکہ شمریز کے لئے کوئی فائل تھی جو سب کی طرف سے مشترک گفٹ تھا ۔ بعد میں پتا چلا کہ آٹھ دوستوں نے مل کر شمریز کو ایک ہوٹل کے شئیرز گفٹ کئے تھے ۔ حیرت ہے کیسے سمجھدار لوگ ہیں ۔ثناء اور مامی میرے پاس کھڑے تھے کہ دوستوں نے کیسی سمجھداری دکھائی اور دونوں کے مسقبل کا خیال کیا۔شمریز جہاں بہت خوش تھا وہیں خاصا فخر بھی محسوس کررہا تھا۔اس کے دوستوں نے یہاں آکر اس کی عزت میں بہت اضافہ کیا تھا۔ خاندان بھر میں چرچا ہوتا رہا اور کئی ماہ تک ہم ہر ان کے اس شاندار بیاہ کا ذکر سنتے رہے ۔ سب گھروں کو رخصت ہوگئے ۔ میں کمرے میں چینج کرنے گئی تو آئینے کے سامنے کھڑی اس نوٹ کو دیکھنے لگی جو کالے سوٹ کے ساتھ حمزہ نے لکھا تھا ۔ دل میں سوچنے لگی کہ انہوں نے کتنے شوق سے میرے لئے یہ جوڑا پسند کیا تھا کہ میں پہنوں گی تو وہ دیکھیں گے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ ہر کسی نے بہت  پسند کیا بلکہ سبھی بار بار پوچھتے رہے کہ یہ کہاں سے لیا۔ میں کہیں تو ٹال گئی اور کہیں بتاتی رہی ۔ خاندان بھر میں حمزہ اور ابو کے جھگڑے کا چرچا تھا کچھ آنٹیاں مجھ سے ہمدردی کرتی رہیں اور کچھ طنز ۔ لیکن ثناء نے سب کے منہ بند کروانے کی کوشش کی اور میرا ساتھ دیتی رہی ۔ ایک نگاہ ڈالی باریک لباس سے کہیں کہیں بدن جھلکتا تھا لیکن میں نے دوپٹہ سے سب ڈھانپ لیا تھا ۔ ندیم خان کے تحفے سے میری تیاری بہت اچھی ہوگئی تھی ۔مجھے اس کا دل ٹوٹنے کا افسوس تھا البتہ ایلی نے کہا کہ اسے اور بہت سی مل جائیں گی تم فکر نہ کرو ۔ تو مجھے بھی تسلی ہوگئ کہ ایسے سمارٹ اور مال دار جوان کو کیا کمی یے لڑکیوں کی۔
گڑیا۔۔۔ میں تو ڈھونڈ رہا تھا کہ کدھر گئی ہماری ایونٹ مینجر۔ شمریز کی آواز سے میں چونک گئی ۔ وہ بہت خوش خوش کمرے میں داخل ہوا ۔ سب ٹھیک ہوگیا نا شمریز؟ میں مسکرا کر پوچھا۔ زبردست ہوگیا ۔۔ پرفیکٹ! وہ میرے کندھے پکڑے تھپکا کر بولا ۔ تھینک یو سو مچ۔۔۔ تم دونوں نے تو ہماری بیاہ کو یادگار بنا دیا۔ ثناء اور ایلی بھی پیچھے آن کھڑی ہوئیں اور ایلی نے ثناءکے گلے میں بانہیں ڈال رکھی تھیں ۔ تینوں کے چہرےپر خوب خوشی تھی ۔ آو نیچے کافی پیتے ہیں۔ ایلی نے اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا۔ میں ذرا کپڑے بدل لوں تو آتی ہوں۔ میں نے تھکن کا اظہار کیا ایلی نے میرا ہاتھ کھینچے ہوئے کہا۔ بعد میں کرنا سب ۔ ابھی نیچے چلو۔ اور مجھے کھینچ کر باہر لے آئی ۔ ہم نیچے آئے تو کافی تیار تھی ۔ مامی اب رخصت ہونا چاہتی تھیں ۔ ایلی نے ایک گفٹ پیک مامی کو دیا اور بہت شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کو رخصت کیا ۔ اب صرف ہم چار اور ایک سہیلی جسے کل دوسرے شہر جانا تھا رہ گئی تھی وہ بھی اسوقت اپنا سامان سمیٹنے میں مصروف تھی۔ ہم کافی لے کر صوفے پر بیٹھ گئے ۔ ہر طرف گفٹس کے انبار لگے تھے ۔ ایک طرف ایک بڑا سا شاپنگ بیگ رکھا تھا ایلی نے اشارہ کیا ثناء اینڈ شوگر ۔۔۔ یہ تمہارےلئے میں نے خود پسند کئے ہیں ۔ شمریز نے الگ سے کچھ لے رکھا ہے ۔یہ میری طرف سےتم دونوں کے لیے۔ ارے ایلی کیا ہوگیا تم کو ۔۔۔ میں حیران ہوکر ایلی کو دیکھنے لگی۔ ہاں ایلی تم نے کیوں خریدے یہ سب ؟ ثناءنے بھی میری تائید کی ۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ ابھی تو بہت سے سرپرائز ہیں تم دونوں کے لئے۔ ایلی نے آنکھ ماری تو شمریز ہنسنے لگا۔ کیا مطلب؟ہم کچھ سمجھ نہ سکے تو وہ دونوں ہنسنے لگے ۔ کل بتائیں گے تمہیں ۔ تم بھی کیا یاد رکھو گی کہ کس کی شادی میں آئی ہو ۔۔۔ ایلی پہیلیاں بھجوا رہی تھی ۔ ہم کچھ دیر باتیں کرتے رہے فون بجا  تو ایلی جیسے اسی انتظار میں تھی ۔ جھٹ سے فون اٹھایا ۔۔  ہوں ہوں یس کرکے فون بند کردیا ۔ یہ کیا تھا ؟ ثناء نے جھٹ پوچھا ۔ کچھ نہیں ۔ تم آو مجھے کچھ کام ہے ۔ کپڑے تو بدل لو میں نے ایلی کو باہر جاتے دیکھا تو اسے احساس دلایا کہ وہ ابھی تک بھاری لباس میں ہے ۔ وہی تو کرنے جارہی ہوں ثناء میری ہیلپ کرے گی میک اپ اور ہیر کھولنے میں۔ وہ اوپر جانے لگی اور ساتھ ہی شمریز کو کوئی اشارہ کیا ۔ تو وہ کار کی چابی اٹھا کر باہر جانے لگا۔ کہاں چل دیئے؟ میں نے پوچھا تو شمریز نے سرسری سا جواب دیا ۔ ایک کام ہے ابھی آتا ہوں ۔ تم بیک یارڈ سے ایک بار چکر لگا آو ۔ کچھ باہر نہ پڑا ہو ۔ اور ساتھ ہی شمریز نے باہر کا دروازہ کھولا ۔۔ جاو نا ۔۔ شمریز وہیں کھڑا تھا اور مجھے اٹھ کر پچھلے صحن کا جائزہ لینے کو کہہ رہا تھا۔ اچھا بھئی ۔۔ چلی جاونگی ایسی کیا ایمرجنسی ہے۔۔ میں نے اکتاہٹ سے کہا لیکن وہ نہ مانا ۔ نہیں ابھی جاو اور دیکھ کر مجھے بتاو ۔  میں اس کے اس رویے پر حیران تھی کہ یکدم کیا ہوگیا۔ اچھا جاتی ہوں۔ میں نے کچن سے باہر دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا ۔ لائٹ جلائی ۔ باہر کھانے والے بڑے پتیلے اور کیٹرنگ کا کچھ سامان رکھا تھا ۔ کچھ کرسیاں اور ڈرنکس کے کریٹ رکھے تھے ۔ دروازہ بند کردیا ۔ کچھ خاص نہیں ہے وہی سب کچھ جو کل آنٹی نے لے کر جانا ہے واپس ۔ لاؤنج میں آئی تو شمریز نہیں تھا ہائیں ۔۔ کہاں گیا ؟ ابھی کھڑی سوچ رہی تھی کہ لگا کو ئی سیڑھیوں پر ہے ۔۔ ایلی ؟ میں آگے بڑھی اور یکدم سکتے میں آگئی۔ سامنے حمزہ کھڑے تھے ۔۔۔
آہ۔۔۔۔ میرے منہ سے ایک سسکتی سی آہ نکلی ۔۔ حمزہ سامنے کھڑے تھے  دونوں ہاتھ پتلون کی جیبوں میں ڈالے دیوار سے ٹیک لگائے
آنکھوں میں چمک اور لبوں پہ مسکراہٹ سجائے ۔ میں سکتے میں تھی ۔ وہ آہستہ سے آگے بڑھے ۔۔ اپنے ناک سے میرے ناک کو چھوا ۔۔۔ کچھ اور بڑھے میرے گال سے گال چھوا ۔۔ میرے کان سے ہونٹ ٹکرائے ۔۔۔کچھ بہت دھیمے سے کہا کہ میرے اندر ایک گرم لہر دوڑنے لگی ۔  اور پھر دھیرے سے پیچھے ہٹے ۔۔۔ جیب سے ہاتھ نکالا ۔۔۔ میرے سرد ہاتھوں کو تھاما اور مجھے ہوش آنے لگا تالیاں بج رہی تھیں ۔۔۔ ایلی سیڑھیوں سے نیچے اتری اور دھم دھم کرتی اچھل کر میرے سامنے آگئی ۔۔ مبارک مبارک ۔۔۔ اور مجھے روز سے گلے لگا لیا ۔۔ حمزہ کے چہرے پہ اطمینان تھا اور آنکھوں میں عجیب سا خمار ۔ ان کے لبوں پہ مسکراہٹ کسی شرارت کا پتا دے رہی تھی ۔ مجھے ابھی تک سمجھ نہ آیا تھا کہ حمزہ نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے انگوٹھی پہنا دی تھی جس کی مبارک ایلی دے رہی تھی ۔۔۔ اوہ شوگر ۔۔ کتنی اچھی چوائس ہے حمزہ کی ۔۔ ایلی نے جب میرے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا اور میرا ہاتھ تھامے خوشی سے دیکھ رہی تھی تب میری نگاہ بھی اس سرخ نگینے پہ جا رکی ۔۔۔ واقعی بہت خوبصورت انگوٹھی تھی۔ ابھی میں اپنے ہاتھ کو دیکھ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلا اور شمریز  اندر داخل ہوا ۔ پتا نہیں کیا اشارہ کیا ایلی کو کہ وہ جھٹ سے اوپر اپنے کمرے کی طرف بھاگنے لگی۔ ارے مبارک ۔۔ شمریز نے روایتی انداز سے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور حمزہ کو  مبارک کہتے ہوئے جپھی ڈالی ۔ پھر دونوں ڈرائینگ روم کی طرف چل دئیے ۔ میں حیران پریشان سی کھڑی تھی کہ یہ دونوں کیا کھسر پھسر کرتے جارہے ہیں۔ اور یہ کیسی منگنی ہے کہ مجھے ہی سب سے آخر میں پتا لگا ۔ ہائیں یہ کیا ۔۔ ایک چادر سی میرے سر کی طرف سے نیچے میرے چہرے پہ آگری ۔۔ ایلی مجھے پیچھے سے دھکیلتی ہوئی صوفےتک لے گئی ۔۔ ابھی میں کچھ سمجھ بھی نہ پائی تھی کہ دروازہ کھلا ۔امی اور آنٹی اندر داخل ہوئیں ۔ آنٹی میرے ساتھ بیٹھ گئیں ۔ گڑیا مولوی صاحب آرہے ہیں ذرا چادر اوڑھ لو ٹھیک سے ۔ آنٹی میری چادر درست کرتے ہوئے بولیں۔ تم نے سمجھا دیا تھا نا سب ۔۔  امی کی آواز ابھری ۔۔ کیا سمجھانا تھا ۔۔ پتا ہے آپ کو دونوں کی مرضی ہے خالی حمزہ تھوڑا ہی مرے جارہا ہے ۔۔ ثناء نے لاپرواہی سے جواب دیا تو میں نے جھٹ چادر الٹ دی۔ کیا ہورہا ہے یہاں ؟ ابھی میں کھڑے ہونے کا ارادہ ہی کررہی تھی کہ انکل آگئے اور ساتھ ہی ابو اور مولوی صاحب بھی۔ میرے چہرے پہ چادر پھر الٹ دی گئی اور میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔ اب یہ تو سمجھ گئی تھی کہ جسطرح منگنی ہوئی اسی طرح نکاح بھی ہونے جارہا ہے ۔ حمزہ پہ بہت غصہ آرہا تھا ۔ یہ خود ہی سب فیصلے کر لئیے مجھ سے کچھ پوچھنا تو درکنار بتانا بھی گوارہ نہ کیا ۔  یہی کچھ سوچ رہی تھی اور پتا بھی نہ چلا کب مولوی صاحب نے نکاح پڑھوادیا بس سائن کرنا یاد ہے اور جب پوچھا کہ قبول ہے تو تب ہلکے سے گردن ہلا دی کہ یہ بھی بھلا پوچھنے کی بات ہے ۔۔ جسے عالم ارواح میں قبول کیا اسے دنیا میں کیسے نہ اپناوں۔ جس سے احساس کا بندھن ہے اسے کیسے رد کروں ۔ حمزہ میرے سول میٹ تھے۔۔ ہم مرد و زن کے روپ دھارنے سے پہلے بھی ایک ہی تھے ۔۔ ہماری روحیں ایکدوسرے سے جڑی تھیں۔ ہم وہاں اس جہاں میں بھی ایکدوسرے کے ساتھ رہے تو یہاں کیسے جدا ہو سکتے ہیں ۔ابو نے سر پہ ہاتھ رکھا اور دعا دی ۔ وہ کچھ دکھی سے لگ رہے تھے ۔ انکل نے بھی سر پہ ہاتھ رکھا اور دعا دی ۔پھر ابو کو لے کر چلے گئے ۔ امی آنٹی کچھ دیر رکے رہے ۔ حمزہ پہلے بہت دیر امی کی گود میں سر رکھے لیٹے رہے اور امی ان کے بالوں کو سہلاتی رہیں ۔پھر امی نے پیار سے ڈانٹا ۔حمزہ تم نے ساری اپنی مرضی کی ہے ۔ کل کو ہم سے کوئی گلہ نہ کرنا ۔۔ کیا؟ میں اس ناانصافی پہ چلائی ۔۔ امی کیا مطلب ہے اس بات کا ؟ میں خفا ہوگئی ۔ حمزہ ہنسنے لگے اور آنٹی نے مجھے پیار سے دبوچ لیا ۔ ارے مذاق کررہے ہیں ۔ تم تو شہزادی ہو ہماری۔ سب تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آنٹی بہت کچھ کہتی رہیں پھر کچھ دیر ہنسی مذاق کے سب رخصت ہوگئے ۔ شمریز جب باہر گیا تو مٹھائی اور چھوہارے ساتھ لایا تھا واپسی پر۔ سنت پوری کی گئی اور چھوہارے تقسیم ہوئے ۔ ایلی نے بتایا کہ کل وہ پیکس بنوا کر خاندان بھر میں بٹوا دے گی تاکہ باضابطہ اعلان ہوجائے ۔ پتا نہیں یہ سب لوگ کب یہ پرواگرام بناتے رہے کس طرح ابو کو منایا گیا کب حمزہ نے شاپنگ کی ۔۔ کسی بات کی سمجھ نہ آئی لیکن جب سارے واقعات کی کڑیاں ملائیں تو پتا لگا حمزہ کا غائب ہوجانا ۔ ولیمہ میں شرکت نہ کرنا ۔ ابو کا مجھے اس روز دلاسہ دینا سب ایک منظم پلین تھا ۔ یہ سب مل کر آپس میں رابطے سے چلتے رہے صرف مجھ سے خفیہ رکھا گیا سب ۔ کیوں؟ یہ سوال بہت اہم تھا ۔ میں نے تیز نگاہوں سے حمزہ کو دیکھا ۔۔ ان کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوگئی۔ شمریز نے بھانپ لیا۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ ہےےے۔۔۔ سب ٹھیک ہوگیا ۔ اب پیچھے مت دیکھو۔ اب تم دونوں کو کوئی جدا نہیں کرسکتا ۔ میں سن رہی تھی لیکن غصہ آرہا تھا۔ مجھے کسی نے بھی نہیں بتایا کچھ بھی ؟ کیوں ؟ میں کتنا پریشان تھی ۔ مجھے لگا ۔۔۔  اوہو ۔۔ ثناء تو جیسے بہت تھکی ہوئی تھی جھنجھلا کر بولی۔ ہمیں بھی کچھ پتا نہیں تھا ۔ حمزہ نے مسلسل کوشش کی اور ابھی کچھ دیر پہلے تک کسی کو بھی کچھ کنفرم نہیں تھا ۔ جیسے جیسے معاملات طے ہوتے گئے ہم تیاری کرتے رہے کہ کسی طرح نکاح ہوجائے بس ۔ یہ کہہ کر ثناء کھڑی ہوگئی ۔ میں اب مزید یہاں نہیں بیٹھ سکتی ۔ جارہی ہوں سونے ۔اور ساتھ ہی ایلی اور شمریز بھی اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اور تم بھی اجاو اوپر۔۔۔ ثناء نے مجھے کہہ کر حمزہ کو دیکھا اور وارننگ دیتے ہوئے بولی۔ نکاح ہوا ہے رخصتی نہیں۔ جاو۔۔ اپنے کمرے میں جاکر سوجاو۔ ہوگئی شرط پوری اب سونے دو ہمیں۔ ثناء کو بہت نیندآرہی تھی اور وہ اول فول بولنے لگے۔ حمزہ کے چہرے پر بھی تھکاوٹ کے آثار تھے اور جھیل سی آنکھیں نیند سے بوجھل نظر آرہی تھیں ۔ سب چلے گئے ۔ میں بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ صوفے کی پشت پہ سر ٹکائے دیکھ رہے تھے۔ میں تمہیں یہ لباس پہنے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ دھیرے سے بولے۔پھر وہ میرے سامنے آکر کھڑے ہوگئے ۔چادر جو اب تک مجھ سے لپٹی تھی اسے الگ کرنے لگے ۔ عورت چاہے کیسی بھی ہو حیا اس کے خمیر میں شامل ہے۔ باریک لباس سے بدن جھلکنے لگا کانوں میں چمکتے نگینے اور کھلے بالوں میں سجے پھول حمزہ کو اچھے لگے۔ وہ مخمور نگاہوں سے بھرپور جائزہ لیتے ہوئے زرا سا جھکے ۔نکاح مبارک ہو اہلیہ ۔۔ ان کی سانس میرے گالوں کو چھونے لگی ۔ ساری فضا میں  مبارک مبارک گونجنے لگی۔ مجھے یکدم لگا کہ سمندر مجھے بلا رہا ہے ۔ آج وہ مجھ میں اترنے کی خواہش رکھتا ہے اور میں کنارے پہ کھڑی ہوں ۔ وہ مچل رہا ہے لہریں بڑھ بڑھ کر مجھے چومتی ہیں ۔ اف کیسی غضب کی کشش ہے کہ میں خود کو بے بس محسوس کررہی تھی سمندر میری طرف بڑھتا جا رہا تھا ۔۔ یہاں تک کہ مجھے خوف محسوس ہونے لگا۔۔ کہیں ڈوب نہ جاوں ۔۔ نہیں ۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں ڈوبنا نہیں چاہتی ۔۔  

No comments:

Post a Comment