Saturday 24 February 2018

70سال بعد نئی زندگی


وطن عزیز کے بہت سے معاملات عام نہیں ۔اس کا قیام میں آنا ہی بہت غیر معمولی تھا ۔ اس کی سرحدیں اور اس کے خدوخال بہت غیر معمولی ہیں ۔ اس کے قیام کے حالات ۔۔ اشخاص اور واقعات بہت غیرمعمولی ہیں۔ اس کے مقاصد اور وجوہ بہت غیر معمولی ہیں۔ اس خطہ زمین کے اجزاء بہت عجیب و غریب ہیں۔ یہاں کےلوگ بہت عجیب و غریب ہیں ۔ اگر کہا جائے شب دیگ کی طرح مختلف خواص رنگ ذائقہ اور شکل لئے  یا متنجن جیسے رنگ برنگ اور ڈھیر سارے لوازمات کے ساتھ ۔تو غلط نہیں ۔
قیام ہوگیا لیکن انصرام ابھی باقی ہے ۔ ابھی تعمیر و ترقی کے کام باقی ہیں۔ ابھی ڈھانچے کی لپائی اور تراش خراش کا عمل باقی تھا کہ ہم پہ ضمیر فروشوں کا حملہ ہوگیا ۔70 سال سے قابض غنڈے اور بدمعاش ہمارے خون چوستے اب دیو بن گئے ۔ جو عنقریب انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اس راہ میں کوئی درمیانی راستہ نہیں یا آپ ادھر ریاست کے ساتھ یا ادھر شیطانی دیو کے ساتھ۔
پاکستان کی طبعی عمر جو بھی ہو 70 سال ایک مکمل زندگی ہے۔ اب ایک نئی زندگی ملنے جارہی ہے ۔ 70 سال ریاست کی مظلومیت کی داستان سنتے رہے اب ریاست نے طاقت پکڑنی ہے۔ اب حالات مختلف نظر آئیں گے۔
جب میں کہتی ہوں ادارے کام کرینگے تو میں انسانی کمال کو نہیں دیکھتی کیونکہ پانی تو سر سے گزر چکا ۔۔۔ ان مردہ جسموں میں روح پھونکنے والی تو رب کی ذات ہے جس نے یہ معاملات اپنے بندوں کے حوالے کردئے ۔۔۔ اب وہ اللہ کے بندے ۔۔۔ اپنے طریقے سے کام کروا رہے ہیں ۔ اب تو کھوٹے سکے بھی چلیں گے ۔ تھل میں جل ۔۔۔ اور تھر میں نہر بہے گی۔۔۔ اب بہت کچھ آئینہ کے دوسرے رخ پر ہونے جارہا ہے ۔
اکثر لوگ الزام لگاتے ہیں جسٹس ثاقب ماضی میں مختلف بےقاعدگیوں کے مرتکب رہے ۔ اسلئے اب بھی ان کا کردار مشکوک ہے ۔ ہمارا اس بات سے شدید اختلاف ہے ۔  ثاقب صاحب کا ماضی جو بھی ہے ۔ حال میں تو ان پر حال طاری ہے ۔ وہ جو کررہے ہیں وہ اس منصب پر فائز کوئی بھی ہو۔۔۔ کرے گا !! یہ بات سمجھنے کی ہے ۔  جو اس منصب کی قوت ہے  وہ خود اپنا رستہ بنا رہی ہے ۔ جسٹس ثاقب کی خوشبخطی کہیے کہ اس کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہ کی ورنہ مسل دیئے جاتے ۔۔۔ آپ یوں سمجھئے کہ یہ ان کی کسی نیکی کا مقبول ہوجانا ہے جو اللہ نے ان کا دل پھیر دیا ۔ ہمیں تو وہ خدائی فوج کے سپاہی نظر آتے ہیں ۔ جو لفظ بولتے ہیں وہ ہمارے دلوں سے نکلتے ہیں ۔ جو عزم دکھا رہے ہیں وہ ہمارے سینے میں موجود ہے ۔ جو ارادہ بتا رہے ہیں اس کے لئے ہم بھی تیار بیٹھے ہیں ۔
اللہ خیر کرے ۔ اب وطن عزیز کے معاملات بہتری کی راہ پر گامزن ہیں ۔ اب بہت سے رکے ہوئے کام ہونگے۔ نئے صوبے بنیں گے اور عوام کے حقوق ادا ہونگے ۔ کچھ لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے کہ نئے صوبوں کے قیام سے ان کے بہت سے مسائل حل ہونگے۔ بہت سادہ سے انداز میں بتاوں کہ مثال کے طور پر   پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اور اس کا بجٹ بھی زیادہ ہے ۔ہوتا یہ ہے کہ وزیر جو تخت پنجاب کا وارث بنے وہ پورے صوبے کا بجٹ صرف اس علاقے اور اپنی ذات پر ہی خرچ دیتا ہے جہاں اس کی رہائش ہے بس ترقی ادھر ہی ہونی چاہیے جیسے شہباز شریف نے لاہور کو ظاہری طور پر اچھی شکل دی گو کہ اندرون خانہ وہاں بھی ستیاناس ہورہی ہے عوام کی ۔لیکن ان کو دیگر پنجاب کی خیر خبر لینے کا نہ شوق نہ ضرورت نہ ہی ڈر ہے۔ بہت سارے صوبے ہوں گے تو ہر علاقے کے وزیر کو موقع ملے گا اپنے علاقے میں کام کروانے کا اور اگر وہ نہ کرے تو عوام کے لئے اس کا احتساب کرنا آسان ہوگا اور پھر چیک اینڈ بیلنس رکھنا آسان ۔پھر طاقت جب بہت سارے ہاتھوں میں تقسیم ہو گی تو کوئی فرعون بننے کا نہیں سوچے گا جیسے اس وقت پنجاب کے شریفوں نے پوری ریاست کو مصیبت میں مبتلا کردیا یہ سپولئے اناکونڈا بن گئے کہ اب ان کو قابو کرنا مشکل ہوگیا۔ تو چھوٹے صوبے بننے سے ایک تو وہاں کے عوام کو حقوق ملیں گے جیسے ابھی گنے کی فصل پر جو ظلم کسان کے ساتھ ہوا وہ صوبے کے اپنے وسائل ہونے کی صورت میں نہ ہوگا ۔ ہسپتال،  ٹرامہ سنٹر،  برن یونٹ،  سکول،  کالج، سڑکیں،  مکان ، صاف پانی وغیرہ وغیرہ سب اس علاقے کا وزیر خود دیکھے گا اسے ڈر ہوگا کہ کام نہ کئے تو اگلی بار کون ووٹ دے گا۔ بس سمجھیں ۔بہت سے صوبے بہت سارے مسائل کا حل ہیں۔نوکریاں ڈھونڈنے کیلئے گھر سے دور نہیں جانا پڑے گا ۔ ایک صوبے کا دوسرے صوبے سے موازنہ کرنا آسان ہوگا تو صحت مند رحجان میں اضافہ ہوگا اور پھر جرائم بھی کنٹرول ہونگے۔ چھوٹے صوبے کو کنٹرول کرنا وفاق کیلئے بھی آسان ہوگا ۔ ریاست کیلئے یہ اژدھا نہ بن سکے گا۔میرا خیال ہے کہ اس پر عوام کو بحث کرنی چاہیے تاکہ انہیں اس کی ضرورت کا صحیح معنوں میں علم ہوسکے ۔
مجھے یقین ہے کہ ہم عنقریب نئے صوبوں کے قیام کی خبریں سنیں گے۔ محرومیوں کا سدباب کرنے کا وقت آرہا ہے ۔فاٹا اب غیر نہی رہے گا ۔ گلگت کی محرومیوں کو سنا جائے گا۔۔ بلوچ کا مستقبل شاندار ہے ۔۔۔ سندھ میں شعور بٹے گا ۔۔۔ روشنی اپنا رستہ بنا رہی ہے ۔۔ دیکھئے !

No comments:

Post a Comment